متفرق مضامین

خلفائے احمدیت کی دنیاوی لیڈروں کو سیاسی راہنمائی

(عمانوایل حارث)

اللہ تعالیٰ کے نور سے روشنی پانے اورپھر اس روشنی کو شرق و غرب میں پھیلانے والے یہ مقدس وجود جنہیں ہم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے خلفاء اور جانشین کے طور پر جانتے ہیں، بھی اپنی فیض رسانی اور راہنمائی کرنے میں اسی طرز پر مصروف کار نظر آتے ہیں کہ نہ تو ان کا فیض اہل مشرق کے لیے ہی محدود ہے اور نہ ہی ان سے راہنمائی اور مدد حاصل کرنے میں اہل مغرب باہر ہیں

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی سورۃ النور کی آیت 56 میں جہاں امت مسلمہ میں خلافت علی منہاج النبوت کے قیام کا وعدہ فرمایا وہاں اسی سورت کی آیت 36 میں اس دنیا میں جلوہ گر اپنے آفاقی نور کی جھلکیاں دکھاتے ہوئے اس کی ایک نشانی یہ بھی بتائیلَا شَرۡقِیَّۃٍ وَّلَا غَرۡبِیَّۃٍ۔ یعنی نہ وہ شرقی ہوگا اور نہ ہی غربی۔

ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نور سے روشنی پانے اورپھر اس روشنی کو شرق و غرب میں پھیلانے والے یہ مقدس وجود جنہیں ہم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے خلفاء اور جانشین کے طور پر جانتے ہیں، بھی اپنی فیض رسانی اور راہنمائی کرنے میں اسی طرز پر مصروف کار نظر آتے ہیں کہ نہ تو ان کا فیض اہل مشرق کے لیے ہی محدود ہے اور نہ ہی ان سے راہنمائی اور مدد حاصل کرنے میں اہل مغرب باہر ہیں۔

خلافت احمدیہ کی سو سال سے زیادہ طویل تاریخ گواہ ہے کہ ان چنیدہ بندگانِ خدانے مخلوقِ خدا کو رنگ و نسل، مذہب و ملت اور ہر تفریق وتقسیم سے ماورا ہوکر اپنی روشنی سے منور کیاہے۔ خلفائے احمدیت کی مہیا کردہ اس راہنمائی، ان کی تحریکات اوران کی عاجزانہ کوششوں کے مواد کا تجزیہ کریں تو صحیح مسلم کی وہ روایت بھی عقلاً درست معلوم ہوتی ہے کہ جس میں بعض مشرکین کے مسلمانوں کے ساتھ تمسخر کرنے کا ذکر ملتا ہے کہ تمہارا ساتھی (نبی کریمﷺ ) تمہیں ہر بات سکھاتا ہے حتی کہ رفع حاجت کے آداب بھی بتاتا ہے۔ الغرض اسلام دین کامل ہے اور امت کی راہنمائی کے لیے مقرر ہونے والے مقدس ائمہ اپنی عطا اور فیض رسانی میں ہر شعبہ ہائے زندگی پر حاوی نظر آتے ہیں۔

خلفائے احمدیت نہ صرف خودحضرت مسیح موعودؑ کی بنائی ہوئی جماعت کی تعلیم و تربیت، عالمگیر تبلیغی مہمات وغیرہ کی اپنی آسمانی ذمہ داریوں کی بجاآوری میں مصروف کار ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اہل دنیا کے لیے راہنما ئی مہیا کرتے بھی نظر آتے ہیں۔خلفائے احمدیت ان احمدیوں کو بھی راہیں دکھاتے ہیں جو کسی نہ کسی طور پر اپنے اپنے ممالک میں، اپنے دائرہ میں کسی حد تک بھی اثر و رسوخ اور آواز رکھتے ہیں اور خلفائے وقت سے راہنمائی پاکر احمدی سیاست دانوں اور ارباب اختیار نے اپنے معاصرین کی نسبتاًاپنے ملک و قوم کی کئی گنا بہتر خدمت اور راہنمائی کی توفیق پائی ہے۔

آئیے ان عاجزانہ کوششوں کا ایک مختصر جائزہ لیتے ہیں۔

دَورخلافت اولیٰ

حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ اور آپ کے دَور خلافت کے بارے میں معاندین نہایت گھٹیا تمسخر کیا کرتے تھے۔ مثلاً دہلی سے نکلنے والے اخبار ’’کرزن گزٹ‘‘نے جہاں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی وفات کا ذکر کیا وہاں ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ اب مرزائیوں میں کیا رہ گیا ہے۔ ان کا سر کٹ چکا ہے ایک شخص جو ان کا امام بنا ہے اس سے اَور تو کچھ ہوگا نہیں ہاں یہ ہے کہ وہ تمہیں کسی مسجدمیں قرآن سنایا کرے۔

لیکن اللہ کی شان ہے کہ وہ شخص جسے مسجد تک محدود ملاں جیسا خیال کیا گیا، اس نے کانگریس سے منسلک مغربی ممالک سے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور عالی دماغوں اور بغیر سوچے سمجھے ان کے پیچھے چلنے والے مسلمان لیڈروں کو بروقت، نہایت قابل قدر اور منطق سے بھرپور راہنمائی بخشی۔ مثلاً یہ ذکر ملتا ہے کہ تقسیم بنگال اور یونیورسٹیز ایکٹ کی منظوری و نفاذ کے بعد 1906ء میں کانگریس نے اپنے اجلاس منعقدہ کلکتہ میں لوکل سیلف گورنمنٹ دیے جانے کا مطالبہ کیا اور ملک میں جابجا دہشت انگیز اور انقلاب پسند خفیہ تنظیمیں قائم ہوگئیں اور ملک کے طول و عرض میں بم سازی اور یورپین افسروں کے قتل کی سازشیں زور پکڑگئیں۔

حضرت خلیفة المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے اپنے دَور خلافت کے آغاز میں اگست 1908 میں ان ملکی حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا:’’نیکی اور بھلائی اور رفاہ عام کے کام کبھی اس قابل نہیں ہوسکتے کہ ان کے لئے اخفا ضروری ہو، اس لئے اگر کوئی خفیہ انجمن اپنے اغراض نو ع انسان کی بھلائی کے متعلق ظاہر نہیں کرتی یا نہیں بتاتی وہ کبھی قابل تسلیم نہیں ہوسکتی کیونکہ ان انجمنوں میں شرارت اور شیطنت ہوتی ہے۔ خفیہ انجمنوں کی تاریخ پر نظر کرنے سے پتہ لگتا ہے کہ جہاں کہیں وہ ہیں انہوں نے امن عامہ میں خلل ڈالا ہے ہم ایسی انجمنوں سے سخت بیزار ہیں …پس ان سے ہمیشہ پرہیز کرو۔ ‘‘

حضورؓ کا یہ مشورہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے طرز عمل کی روشنی میں نہایت مبارک قدم تھا جس نے نہ صرف جماعت احمدیہ کے افراد کو بلکہ عام مسلمانوں کو تباہی سے بچالیا۔ کئی دہائیوں بعد بھی پاکستان کے اخبارات نے اقرار کیا کہ اگر اُس زمانے میں یہ خفیہ تنظیمیں اپنی کارروائیاں جاری رکھتیں اور برصغیر سے انگریز بغیر تقسیم کا اعلان کیے رخصت ہوجاتا تو پاکستان کے قیام کا خیال محض خواب ہی رہ جانا تھا۔ (تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ 217)

دَور خلافت ثانیہ

برصغیر پاک و ہند کا معروف نام مولانا غلام رسول مہر ایک محقق، مصنف، ادیب، صحافی اور مترجم و مورخ کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اخبار’’زمیندار‘‘ اور پھر اخبار’’انقلاب‘‘ ان کی گہری سیاسی نظر اور وسیع ترین تعلقات پر گواہ ہیں۔ آپ نے 1971ء میں وفات پائی۔ انہوں نے 1966ء میں ایک موقع پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں کہا کہ’’آپ لوگوں کو کسی کتاب میں اس عظیم الشان انسان کے کارناموں کی مکمل آگاہی نہیں ملتی۔ ہم نے انہیں قریب سے دیکھا ہے، کئی ملاقاتیں کی ہیں، پرائیویٹ تبادلہ خیالات کیا ہے، مسلم قوم کے لئے تو ان کا وجود سراپا قربانی تھا…میں نے پاک و ہند میں سیاسی نہ مذہبی لیڈر ایسا دیکھا ہے جس کا دماغ Practical Politics(پریکٹیکل پالیٹکس) میں ایسا کام کرتا ہے جیسا مرزا صاحب کا دماغ کام کرتا تھا۔ بےلوث مشورہ، واضح تجویز اور پھر صحیح خطوط پر لائحہ عمل یہ ان کی خصوصیت تھی…‘‘(ماہنامہ خالد، سیدنا مصلح موعود نمبر۔ جون، جولائی 2008ءصفحہ325تا326)

ملت اسلامیہ کے فدائی اور دیگرہر ایک مذہب و ملت والوں کے لیے راہنمائی اور دست گیری کے لیے کمربستہ رہنے والے حضرت مصلح موعوؓد کا دَور خلافت نصف صدی سے بھی زیادہ ممتد ہے۔ اور آپؓ کی عطا کردہ سیاسی و ملی راہنمائی اور اقوام عالم کی خدمت کا دائرہ بہت زیادہ پھیلا ہوا ہے۔ آپ نے مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے مسلمان سیاسی عمائدین کو فردا ًفرداً رابطے کرکے، ملاقاتیں کرکے، خطوط لکھ کر، اپنے نمائندگان بھیج کر بروقت اور درست ترین سمت میں راہنمائی سے مالامال کیا۔ آپؓ نے مسلمان ممالک کو غیروں کے تسلط سے بچانے کے لیے بھی بہت محنت کی۔ مسلمان ممالک کے قدرتی وسائل اور حقوق کی حفاظت کی بھی سعی فرمائی اور مسلمان ممالک کے عمائدین کو غلط فیصلے کرنے سے روکا۔ آپؓ کو عراق و ترکی کے مفادات کی بھی فکر تھی الغرض مشرق وسطیٰ پر غلط نگاہیں ڈالنے والی ہر دنیاوی حکومت و طاقت پر آپ کی نظر تھی اور آپ اپنے دائرہ عمل میں راہنمائی کرنے کے ساتھ ساتھ سعی بھی فرماتے رہے۔

ذیل میں صرف چند مثالیں پیش کی جارہی ہیں جہاں آپؓ کے مشفقانہ اور ناصحانہ کلام پر غور نہ کرکے، آپ کے مشورہ پر عمل نہ کرکے، ان قیمتی نصائح کو لائحہ عمل نہ بنا کر افراد اور اقوام نے نقصان ہی اٹھایا ہے اوراب تو حضرت مصلح موعودؓ کی راہنمائی کی گہرائی اور عظمت بھی زمانہ پر آشکار ہوچکی اور ان باتوں پر کان نہ دھرنے کی سزا بھی طشت از بام ہوچکی ہے۔

مثلاً حضرت مصلح موعودؓ نے 16؍اکتوبر 1947ء کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ’’پاکستان یا ہندوستان میں ریاست ہائے کشمیر وحیدر آباد کی شمولیت کا فیصلہ بیک وقت ہونا چاہئے۔ خواہ حکمران یا خواہ عوام کو شمولیت کے فیصلہ کا مجاز قرار دیا جائے لیکن دونوں ریاستوں کے فیصلہ کا معیار ایک ہی ہونا چاہئے۔ ‘‘

پھر جب 1947ء میں انگریز تسلط سے ہندوستان کی آزادی نیز برصغیر کی تقسیم کا اعلان کچھ ہی دنوں میں متوقع تھا مگر حتمی اعلان سے پیشتر ہی پنجاب کی تقسیم کے متعلق انگریزوں کے عزائم سامنے آرہے تھے۔ چنانچہ ایسے حالات میں حضرت مصلح موعودؓ نے سکھ قوم کے نام ایک دردمندانہ اپیل کے نام سے ایک مضمون تحریر فرمایا جسے ٹریکٹ کی صورت میں شائع کرکے تقسیم کیا گیا۔ نیز افادہ عام کے لیے یہ مضمون مورخہ 19؍جون 1947ء کو روزنامہ الفضل قادیان میں بھی شائع کیا گیا۔

اس مضمون میں حضورؓ نے سکھوں کو یہ باور کرانا چاہا کہ پنجاب میں ہندوؤں، مسلمانوں اور سکھوں کی آبادی کے تناسب کے لحاظ سے پنجاب کی تقسیم کی صورت میں سب سے زیادہ فائدہ ہندوؤں کو حاصل ہوتا ہے اور سب سے زیادہ نقصان سکھوں کو ہوگا۔ لہٰذا سکھوں کو چاہیے کہ وہ ہندوستان کی بجائے پاکستان کے ساتھ الحاق کریں جس سے ان کو سراسر فائدہ ہوگا۔ جیسا کہ بعد کے حالات نے ثابت بھی کیا۔ حتی کہ علیحدگی پسند تحریکا ت نے بھی جنم لیا۔

پس اگر سکھ اُس وقت حضرت مصلح موعودؓ کا یہ مشورہ مان جاتے تو آج ان کو الگ وطن بنانے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی اور پنجاب کی تقسیم سے سکھوں کو جو معاشی، معاشرتی اور ثقافتی لحاظ سے نقصان اٹھانا پڑا، وہ اس سے محفوظ رہتے۔ مگر افسوس کہ سکھوں نے اس دردمندانہ اور پر حکمت اور ثقہ دلائل اور معین اعداد وشمار پر مبنی اس اپیل کو وقعت نہ دی۔

عرب ممالک میں استعماری قوتوں کا اثر روکنے کے لیے حضرت مصلح موعودؓ کی کوششوں کو اہمیت نہ دی گئی اور امریکی تیل کمپنیوں کے ساتھ معاہدات کرنے میں احتیاط کرنے کی نصیحت کو درخور اعتنا نہ سمجھا گیا۔

حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے ایک لیکچر ’’امریکہ اور پاکستان‘‘ میں اُس چھ ارب ڈالر کے قرضے کے خلاف آواز اٹھائی جو پاکستان امریکہ سے لینا چاہتا تھا۔ حضورؓ کا خیال تھا کہ اس طرح پاکستان اقتصادی اور سیاسی طور پر امریکہ کا غلام بن جائے گا۔ بعد میں حالات نے ثابت کردیا کہ حضوؓر کایہ خیال کس طرح ہولناک حقیقت کا روپ دھار گیا۔

ایک لیکچر میں حضورؓ نے فرمایا کہ ’’مادری زبان میں تعلیم دی جائے۔ اس سلسلہ میں مشرقی پاکستان پر زور نہ دیا جائے کہ وہ ضرور اردو کو ذریعہ تعلیم بنائے ورنہ وہ پاکستان سے علیحدہ ہوجائے گا کیونکہ وہاں کے باشندوں کو بنگالی زبا ن سے ایک قسم کا عشق ہے۔ ‘‘اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو علم ہوگا کہ بنگالی اردو لسانی تنازعہ ہی ان بنیادی امور میں سے ایک تھا جو بالآخر سقوط ڈھاکہ پر منتج ہوئے۔

یقیناً وہ وقت آیا ہی چاہتا ہے کہ ہر قوم پکارے گی کہ اس ملت کے فدائی نے اپنے آسمانی فیض سے کسی کو بھی محروم نہ رکھاتھا۔

دَور خلافت ثالثہ

دَور خلافت ثالثہ میں عالم اسلام کے مستقبل کے موجودہ نقشے کے خدوخال واضح ہونا شروع ہوچکے تھے، تیل کی دولت کی ریل پیل اور سرمایہ دارانہ نظام کے پیادوں نے مستقبل کی دولت پر نظریں جمائے ہوئے مسلمان ممالک سے خوب کھیل کھیلے۔ فرقہ واریت کو نئی انتہاؤں تک پہنچایا گیا۔ قدرتی وسائل، طاقت اور اثر و رسوخ کی جنگ کو عرب و عجم کی لڑائی بنا کر لاکھوں نوجوانوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔

ایسے میں امت مسلمہ کے ہمدرد اور خیرخواہ وجود حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحبؒ خطرات کو بھانپ چکے تھے اور جب 1967ء میں آپ اپنے پہلے سفر یورپ سے واپس تشریف لائے توحضورؒ نے 22؍اگست کو کراچی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مسلمانوں کے سامنے اتحاد بین المسلمین کی تحریک فرمائی تاکہ مسلمان متحد ہوکر غلبہ اسلام کی مہم میں حصہ لیں اور عالم اسلام کے خلاف کی گئی سازشوں کا مقابلہ کریں۔ حضورؒ کی اس پریس کانفرنس کی خبر دیتے ہوئے اخبار جنگ کراچی نے لکھا: ’’ احمدیہ فرقہ کے سربراہ مرزا ناصر احمد نے تجویز پیش کی ہے کہ مسلمانوں کے مختلف فرقوں کو سات سال کی مدت کے لئے یہ طے کر لینا چاہئے کہ وہ آپس میں اختلافات بھلا کر دنیا میں اسلام کی تبلیغ کے لئے سر توڑ کوشش کریں گے اور اس عبوری دور میں ایک دوسرے پر کسی قسم کی نکتہ چینی نہیں کریں گے۔‘‘ (خلفائے احمدیت کی تحریکات اوران کے شیریں ثمرات۔ صفحہ 411)

دَور خلافت رابعہ

حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ سے سیاسی لیڈران کی ملاقاتوں اور راہنمائی کے حوالے سے مکرم محمود احمد ملک صاحب کے مضمون مطبوعہ ماہنامہ احمدیہ گزٹ کینیڈا کے اردو حصہ میں یوں ملتا ہے کہ’’1990ء کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں جب USSR کا شیرازہ بکھرا تو نوزائیدہ ریاستوں کے بعض محکموں کے وزراء کو برطانوی حکومت کی طرف سے لندن آکر ایک کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا۔ اس کانفرنس کے دوران ایک احمدی نے حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی اجازت سے اُن معززین میں سے بعض کو پیشکش کی کہ کانفرنس کے اختتام پر اگر کوئی تین چار روز کے لئے ہماری میزبانی قبول کرلے تو ہم لندن کی سیر بھی اُسے کروا دیں گے۔ قریباً بیس افراد نے یہ پیشکش قبول کی۔ اُن کی رہائش کا انتظام مسجد فضل کے سامنے نمبر 41گیسٹ ہاؤس میں کیا گیا تھا۔

پروگرام کے مطابق تیسرے دن عصر کے بعد اُن کی حضور رحمہ اللہ سے ملاقات کا انتظام کیا گیا تھا۔ مکرم کلیم خاور مرحوم اور خاکسار کو بھی ان معززین کی میزبانی کا موقع ملا۔ تیسرے دن صبح جب وہ سیر کے لئے روانہ ہوئے تو وہ پہلے دو دنوں کی طرح رات گئے تک خوب enjoyکرنا چاہتے تھے۔ لیکن عصر سے ایک گھنٹہ قبل جب ہم نے اُنہیں واپس چلنے کے لئے کہا تو اُن کے چہروں پر ناگواری کے آثار ظاہر ہوئے اور بعض نے تو اظہار بھی کیا کہ وہ کسی ملاقات کے پروگرام کے لئے تو نہیں آئے تھے وغیرہ۔ بہرحال جب ہم واپس گیسٹ ہاؤس پہنچے تو ہمارے مہمانوں میں سے اکثر کا موڈ آف تھا۔ اسی اثناء میں حضور رحمہ اللہ تشریف لے آئے۔ حضورؒ نے بات چیت سے قبل فرداً فرداً تعارف حاصل کیا۔ پھر فرمایا کہ آپ کی ریاستیں ابھی آزاد ہوئی ہیں اور اپنی قوم کی راہنمائی کے لئے آپ منتخب ہوئے ہیں۔ اس کے بعد حضورؓ نے انہیں امورِ مملکت چلانے، ترقیاتی پروگرام بنانے، عوام کی فلاح سے متعلق، فنانس کو کنٹرول کرنے کے بارے میں، نیز بیرونی دنیا خصوصاً بڑی طاقتوں سے روابط سے متعلق اور بے شمار دیگر امور کے متعلق ایسے انداز سے راہنمائی فرمائی اور ایسے انمول ارشادات فرمائے کہ مہمانوں کے چہرے حیرت اور بشاشت سے چمکنے لگے۔ پھر سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوگیا جو کافی دیر تک جاری رہا۔ حیرت یہ تھی کہ حضور کی بیان فرمودہ ساری بات میں کہیں بھی مذہب یا جماعت احمدیہ کے حوالہ سے ذکر نہیں کیا گیا بلکہ خالصتاً امورِ سلطنت اور خصوصاً اُن شعبوں کے حوالہ سے بات ہوئی جو اُن وزراء کے سپرد تھے۔ ایک نصیحت یہ بھی تھی کہ ترقیاتی کاموں کی منصوبہ بندی کرنے میں جلدبازی نہ کریں بلکہ نوزائیدہ مملکت کے تمام حالات کے ساتھ ساتھ اپنے منصوبہ کا بھی تمام زاویوں سے جائزہ لیں کیونکہ جتنی بہترین منصوبہ بندی ہوگی اتنا ہی آسان اس سکیم کو عملی جامہ پہنانا ہوگا اور ہر چیز آپ کے کنٹرول میں رہے گی۔

جب یہ محفل ختم ہوئی تو وہ مہمان اتنے مسرور اور مطمئن تھے کہ بار بار یہ اظہار کررہے تھے کہ اگر ہم اس ملاقات سے محروم رہ جاتے تو پھر لندن آنے کا کوئی بھی فائدہ نہیں تھا۔ اور وہ سب اگلے روز اپنی روانگی تک اس بات پر شکرگزار ہوئے جارہے تھے کہ حضور نے اپنے اتنے قیمتی وقت سے ہمیں بہت سا وقت عنایت فرمادیا اور ایسی معلومات دیں جو شاید کہیں سے نہ مل سکیں۔

کچھ ایسے ہی بھرپور جذبۂ تشکّر کا احساس ہم نے بوسنیا کے اُن قومی راہنماؤں میں بھی دیکھا تھا جو بوسنیا کی آزادی کے ساتھ ہی سربیا کی ظالمانہ جارحیت کا شکار ہونے والے نوزائیدہ ملک کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے تھے۔ ہزاروں بوسنین پناہ گزیں اور اُن کی Exile Govt کے کئی لیڈر لندن میں مقیم تھے اور اپنے ملک کی حالتِ زار دیکھتے ہوئے بے بسی سے دن رات تڑپ رہے تھے۔ انتہائی پریشانی اور کس مپرسی کا شکار ہونے کے باوجود ایک جنون کے ساتھ اپنی قوم کی بقا اور تحفظ کے لئے سرگردان تھے۔ ایسے نازک وقت میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ نے نہ صرف اُن بوسنین لیڈروں کو نہایت گرانقدر مشوروں سے نوازا اور ہر قسم کی اخلاقی حمایت نہایت جرأت مندانہ انداز میں مہیا فرمائی بلکہ بوسنین مہاجرین کے سر پر بھی دست شفقت رکھا۔ نہ صرف جماعت کو اُن سے ہمدردانہ سلوک کرنے کی طرف بار بار توجہ دلائی بلکہ ذاتی طور پر بھی اُن مظلوموں کی دادرسی کے لئے اپنی طاقت سے بڑھ کر خدمت کی توفیق پائی۔

اُس زمانہ میں حضور رحمہ اللہ کے ارشاد پر بوسنین حکومت کے لئے اشتہارات، پمفلٹس اور دیگر لٹریچر وغیرہ کی تیاری کے سلسلہ میں خاکسار کو بھی خدمت کی کچھ توفیق ملتی رہی۔ یہ بوسنین لیڈر بارہا مرکزی شعبہ کمپیوٹر واقع Hardwicks Way London میں تشریف لایا کرتے۔ اکثر رات گئے تک وہاں کام میں مصروف رہتے۔ چونکہ خاکسار کی رہائش بھی اسی بلڈنگ میں تھی اس لئے ان کے ساتھ کئی دن اور راتیں اکٹھے کام کرنے کا موقع ملتا رہا۔ اکثر بوسنین زبان میں اور انگریزی میں ایسے پمفلٹس اور اشتہارات تیار کئے جاتے جن کے ذریعے ایک طرف بوسنین پناہ گزینوں کو متحد رکھنے اور مادروطن کے لئے دی جانے والی قربانیوں کو ضائع نہ جانے دینے کا پیغام ہوتا اور دوسری طرف دیگر اقوام عالم کے ضمیر کو جھنجوڑنے کی بھی کوشش ہوتی۔ اپنے ملک بوسنیا میں خانہ جنگی کے افسوسناک حالات پر پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے وہ ہمیشہ ہی حضوررحمہ اللہ کی گرانقدر شفقتوں اور بے پایاں عنایات پر دل و جان سے احسان مندی کا اظہار بھی کرتے۔ اہم بات یہ بھی تھی کہ اُس دَور میں جماعت احمدیہ کی طرف سے کی جانے والی بے شمار اخلاقی اور مادی مدد کے عرصہ میں کہیں بھی مذہبی نظریات کا اظہار تک نہیں تھا بلکہ صرف خدا تعالیٰ کی خاطر اور محض اپنے ایسے مسلمان بھائیوں کی دلجوئی اور مدد کرنا مقصود تھا جو اپنے ہی وطن سے بے سروسامانی کے عالم میں ہجرت کرنے پر مجبور کردیئے گئے تھے اور دوسری طرف مغربی ممالک میں اگرچہ انہیں خوش آمدید کہا گیا تھا لیکن درپردہ چرچ کے ذریعہ اُن کی خدمت ایسے انداز سے کی جارہی تھی کہ اُن کے لاشعور میں عیسائیت کی انسانی ہمدردی کی تعلیم کچھ اس طرح بٹھادی جائے کہ اسلامی تعلیم سے ناآشنا لوگ غیرارادی طور پر عیسائیت کی جھولی میں گرجائیں۔ ایسے نہایت تکلیف دہ حالات کا شکار مسلمانوں کی مدد کے لئے جب کوئی اسلامی ریاست نہ صرف عملاً سامنے نہیں آرہی تھی بلکہ کسی مسلمان لیڈر کو اپنی زبان سے بھی اپنے مظلوم بوسنین مسلمان بھائیوں کی ہمدردی کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی تھی۔ ایسے میں واقعۃً دنیا بھر میں صرف ایک حضورؒ کی ہی ذات گرامی تھی جن کی مسلسل دعاؤں اور نہایت قیمتی مشوروں سے خداتعالیٰ نے بوسنین مسلمانوں کے لئے امن و آشتی کے حالات پیدا فرمادیئے۔‘‘ (احمدیہ گزٹ کینیڈا، مئی 2018ءصفحہ 19-20)

دَور خلافت خامسہ

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس دَور میں وہ مرد مجاہد ہیں جو ہر سطح پہ اپنے خطابات کے ذریعے تمام عالم کے سربراہان مملکت کے سامنے، انٹرنیشنل میڈیا کے سامنے، اور مختلف پارلیمنٹ سے خطابات میں حق بات نہ صرف بیان کر رہے ہیں، بلکہ ان کو واضح الفاظ میں متنبہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر انہوں نے اپنا قبلہ درست نہ کیا تو انہیں انتہائی خوفناک نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اور یہ کہ اب نجات کی ایک ہی صورت ہے کہ سچائی اور انصاف سے کام لیا جائے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی راہنمائی کا دائرہ اس قدر متنوع ہے کہ آپ جماعت کے افراد کو بھی راہنمائی مہیا کرنے والا بنانا چاہتے ہیں۔ مثلاً ایک موقع پر فرمایا: ’’دنیا بڑی خوفناک تباہی کی طرف بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے…پس ایسے وقت میں دنیا کی آنکھیں کھولنے اور ظلموں سے باز رہنے کی طرف توجہ دلا کر تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچانے کا کردار صرف جماعت احمدیہ ہی ادا کر سکتی ہے۔ اس کے لئے جہاں ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اپنے دائرے میں عملی کوشش کرنی چاہئے، وہاں عملی کوشش کے ساتھ ہمیں دعاؤں کی طرف بھی بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے…پس ایسے میں غلامانِ مسیح محمدی کو اپنا کردار ادا کرتے ہوئے دنیا کو تباہی سے بچانے کے لئے دعاؤں کا حق ادا کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کا حق ادا کرنے والا بنائے اور دنیا کو تباہی سے بچا لے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ26؍اپریل2013ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل17؍مئی2013ءصفحہ7)

نیز اسی سلسلے میں ملتا ہے کہ ایک موقع پر ایک خادم نے سوال کیا کہ حضور آج کل سیاسیات، ملکی اور بیرونی طاقتیں دوہرے معیاروں پر چل رہی ہیں۔ ایک احمدی سیاست دان ایسے مسائل سے کیسے نپٹے اور آپ کے نزدیک ایسی کون سی پالیسیاں ہیں جو پوری دنیا کی حالت کو بہتر بنانے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر اپنانے کی ضرورت ہے؟

حضور انور نے فرمایا کہ بنیادی بات یہ ہے کہ حقیقی عدل و انصاف قائم ہو۔ جب تک اس پر قائم نہ ہوا جائے ہم معاشرے میں یا پوری دنیا میں امن قائم نہیں کر سکتے۔ حقیقی عدل و انصاف یہ ہے کہ جیساکہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ اگر تمہیں اپنے رشتہ داروں کے خلاف بھی بات کرنی پڑے اور اپنے لوگوں کے خلاف گواہی دینی پڑے تو پھر بھی حق بات کہو۔ اور سچ بولو۔ اور یہی انصاف ہے۔ تو اگر ہم یہ معیار اپنالیں تو ہم معاشرے میں امن پھیلا سکتے ہیں۔ اور یہ معاشرے کا امن پھر پوری دنیا میں پھیلے گا اور پھر ہم کہہ سکتے ہیں کہ پوری دنیا میں باہمی امن، رواداری اور محبت کی امید کی جا سکتی ہے ورنہ نہیں۔ سیاست دانوں کے دوہرے معیار ہوتے ہیں ان کے اپنے ذاتی مفاد ہوتے ہیں۔ ایسے سیاست دان بھی جو آپ کی بات سن کر کہتے ہیں کہ جو آپ کہہ رہے ہیں وہ درست ہے اور میں سو فیصد آپ سے اتفاق کرتا ہوں لیکن جب بھی وہ باہر جائے گا وہ اپنی پارٹی کے منشور کی پیروی کرے گا۔ اور جو بھی اس کی پارٹی کی پالیسی ہے۔ تو وہ اپنی پارٹی کی پالیسی سے دور نہیں ہٹ سکتا۔ اس طرح وہ آپ سے مختلف بات کرتے ہیں لیکن عملاً دوسری چیزوں پر عمل کرتے ہیں۔ ایک احمدی کی حیثیت سے اگر آپ سیاست میں آتے ہیں تو ایک آزاد سیاست دان کی حیثیت سے معاشرے میں امن، انصاف محبت اور رواداری کی آواز کو اٹھائیں۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کو کسی پارٹی کا حصہ بننا ہے اور وہ اس پارٹی کا منشور آپ کو یہ موقع نہیں دیتا کہ آپ آزادانہ طور پر سچ بو ل سکیں، انصاف کے لیے بول سکیں پھر اس پارٹی کو چھوڑ دیں۔ اور ایک آزاد سیاست دان بنیں۔ اور اگر ایسا کر رہے ہیں تو کچھ عرصے کے بعد آپ اپنی پارٹی بنا سکتے ہیں یا کم از کم ایک آزاد سیاست دان کے طور پر معاشرے میں امن کےقیام کے لیے لڑائی لڑ سکتے ہیں۔ (سہ روزہ الفضل انٹرنیشنل لندن 21؍ستمبر 2021ء)

امیر المومنین حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ راہنمائی کے ماخذوں اور اس کے تنوع کا جائزہ لیں تو سامنے آتا ہے کہ آپ نے اپنے خطبات جمعہ کے ذریعہ دنیا کو درپیش مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے افراد جماعت کو بالخصوص اور تمام عالم کو بالعموم مخاطب کرتے ہوئے درست راہوں کی نشاندہی فرمائی اور مسائل کے حل کے لیے متعدد بار دعاؤں کی تحریک فرمائی۔ نیز مسلم امہ اور بڑی طاقتوں کو انتباہ فرمایا اور ان معاملات میں راہنمائی فرمائی۔

حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے انگلستان میں قیام کے دوران اور دنیا بھر کے ممالک کے دورہ جات کے دوران بھی بین المذاہب کانفرنسز، امن کانفرنسز اور امن سمپوزیمز کا انعقاد شروع فرمایا۔ جہاں ان ممالک کے حکمران، سیاست دان، پروفیسر، بیوروکریٹ، سفارت کار، وکلاء، ڈاکٹرز، مذہبی عمائدین، اساتذہ اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ حاضر ہوکر آپ ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرحکمت کلمات کو سنتے، آپ کی نصائح کو ذہنوں میں جگہ دیتے اور پھر اپنے اپنے دائرہ عمل میں ان باتوں کو پھیلانے والے بنتے ہیں۔

پھر آپ نے دنیا کے سرکردہ سیاسی لیڈران اور عالمی طاقتوں کے سربراہان حکومت کو خطوط لکھ کر راہنمائی فرمائی۔ اپنی اس کوشش کا ذکر کرتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا کہ’’ایک طریق جس سے میں دنیا میں قیام امن کی کوشش کر رہا ہوں۔ وہ اہم رہنماؤں کو اس طرف توجہ دلانا ہے۔ چند ماہ پہلے میں نے پوپ کی خدمت میں اس موضوع کی طرف توجہ دلانے کے لئے خط لکھا تھا اور ایک احمدی نمائندہ کے ذریعہ دستی بھجوایا تھا۔ اس خط میں میں نے پوپ کو توجہ دلائی تھی کہ وہ دنیا کے سب سے بڑی تعداد میں مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے رہنما ہونے کی حیثیت رکھتے ہیں اور انہیں دنیا میں قیام امن کے لئے نمایاں ہو کر میدان عمل میں آنا چاہیئے۔ اسی طرح حال ہی میں جب یہ بات بہت زیادہ شدت سے منظر عام پر آتی رہی ہے کہ ایران اور اسرائیل میں حالات مزید سے مزید کشیدہ ہوتے ہوئے سخت خطرناک ہوتے جارہے ہیں تو مَیں نے اسرائیل کے وزیر اعظم بن یا مین نیتھن یاہُو اور ایران کے صدر احمدی نژاد کو خطوط لکھے ہیں جس میں مَیں نے دونوں رہنماؤں کو توجہ دلائی ہےکہ ساری انسانیت کی خاطر انہیں خطرات سے بے پرواہ ہو کر اور جلد بازی کے ساتھ جذباتی فیصلے نہیں کرنے چاہئیں۔ چند روز پہلے میں نے امریکہ کے صدر بارک اوباما اور کینیڈا کے وزیر اعظم اسٹیون ہارپر کو بھی خط لکھے ہیں اور انہیں زور دے کر کہا ہے کہ وہ دنیا میں امن کے قیام کو ممکن بنانے کے لئے بھرپور کردار ادا کریں اور اپنی ذمہ داریوں کو باحسن ادا کریں۔ اسی طرح میں مزید بین الاقوامی رہنماؤں کو مستقبل میں خط لکھنے اور اس موضوع پر تنبیہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ حضور انور نے فرمایا کہ میں نہیں جانتا کہ وہ میرے خطوط کو کوئی اہمیت دیں گے یا نہیں، مگر اُن کا رد عمل جو بھی ہو میں نے خلیفہ وقت ہونے اور لاکھوں احمدیوں کے روحانی پیشوا کی حیثیت سے احمدیوں کے احساسات اور جذبات کی نمائندگی کرتے ہوئے دنیا کے شدید خوفناک حالات کے بارہ میں تنبیہ کر دی ہے۔‘‘ (الفضل انٹرنیشنل 22؍جون2012ءصفحہ10تا11)

اللہ تعالیٰ اہل دنیا کو اس آسمانی سلسلے کے نمائندوں کی باتوں پر کان دھرنے کی توفیق دے، کیونکہ اب ان مردان خدا کو ہی سیاسی، مذہبی اورعلمی و اخلاقی قیادت کا فریضہ سونپا گیا ہے۔ ان کے مقابل پر کھڑا ہونے والا اور ان آسمانی منادوں کی باتوں سے لاپروائی کرنے والا خواہ بادشاہ ہوگا یا غیر بادشاہ اس کی کوششیں کبھی بھی کامیابی کا منہ نہ دیکھیں گی۔

اللہ تعالیٰ ہمیں خلافت حقہ اسلامیہ احمدیہ کی کماحقہ قدر کرنے، اس کی اطاعت کرنے اوراس کے لیے دعائیں کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین ثم آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button