متفرق مضامین

خلافت احمدیہ دنیا کے لیے ایک نعمت غیر مترقبہ

(ابو نائل)

ہر انصاف پسند اسی نتیجے پر پہنچے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیاں تو بر حق ہیں کہ مسلمانوں کے زوال کی صدیاں قیام خلافت سے ختم ہوں گی لیکن دنیا بھر کے مسلمانوں میں خلافت کا صحیح تصور وہی ہے جو جماعت احمدیہ پیش کرتی ہے اور خلافت احمدیہ اس لیے نعمت ہےکہ اگر کسی نے خلافت کی حقیقت سمجھنی ہے تو اسے خلافت احمدیہ کی طرف ہی دیکھنا پڑے گا

اس زمانے میں خلافت احمدیہ دنیا کے لیے ایک نعمت کیوں ہے؟ اس سوال کے بہت سے پہلو ہو سکتے ہیں۔ ایک مضمون میں ان تمام پہلوئوں کا احاطہ تو نہیں ہو سکتا۔ اس لیے ہم اپنے تجزیہ کو چند سوالوں تک محدود رکھیں گے۔ اس دَور میں اس بارے میں بہت سے سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک سوال جو بار بار اٹھایا جاتا ہے کہ اب نسل انسانی ہزاروں سال کا سفر کر کےاس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ دنیا کےلیے بہترین نظام جمہوریت کا نظام ہے۔ اور یہ وہ نظام ہے جس کے ذریعے سے معاشرہ ترقی کرتا ہے اور انسانوں کےحقوق اور ان کی آزادی محفوظ ہوتی ہے۔ جمہوریت کے دَور میں شخصی خلافت اور اس کی اطاعت کی بات کرنا معاشرے کو پسماندہ ماضی کی طرف دھکیلنا ہے۔

نظام خلافت کا مقصد کیا ہے؟

اگر یہ فیصلہ کرنا ہو کہ کسی مقصدکے لیے بہترین طریقہ یا نظام کون سا ہو سکتا ہو تو سب سے پہلے یہ دیکھناپڑتا ہے کہ وہ مقصد کیا ہے؟ اسی طرح اس سوال کا جائزہ لینے سے پہلے ضروری ہے کہ ’’نظام خلافت‘‘ کا سب سے بڑا مقصد کیا ہے؟ ان مقاصد کو سامنے رکھ کر ہی یہ بحث کی جا سکتی ہے کہ ان مقاصد کے حصول کے لیے بہترین نظام کون سا ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے کہ خلافت نبوت کی جانشین ہوتی ہے اور نبوت کے مقاصد کو جاری رکھتی ہے۔ اس بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’وہ رسول جو مبعوث ہو اس کا کیا کام ہو؟ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِکَاس کا پہلا کام یہ ہو کہ وہ تیری آیات ان پر پڑھے۔ دوسرا کام وَیُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَالۡحِکۡمَۃَ ان کو کتاب سکھائے اور تیسرا کام یہ ہو کہ حکمت سکھائے۔ چوتھا کام وَیُزَکِّیۡہِمۡ ان کو پاک کرے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد میں مبعوث ہونے والے ایک رسول کے لئے دعا کی اور اس دعا ہی میں ان اغراض کو عرض کیا جو انبیاء کی بعثت سے ہوتی ہیں۔ اور یہ چار کام ہیں۔ میں نے غور کر کے دیکھا ہے کہ کوئی کام اصلاح عالم کا نہیں جو اس سے باہر رہ جاتا ہو۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اصلاح دنیا کی تمام اصلاحوں کو اپنے اندر رکھتی ہے۔

انبیاء علیہم السلام کے اغراض بعثت پر غور کرنے کے بعد یہ سمجھ لینا بہت آسان ہے کہ خلفاء کا بھی یہی کام ہوتا ہے کیونکہ خلیفہ جو آتا ہے اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ اپنے پیشرو کے کام کو جاری کرے پس جو کام نبی کا ہو گا وہی خلیفہ کا ہوگا۔‘‘ (تقریر منصب خلافت: بحوالہ خلافت علی منہاج النبوۃ جلد اول صفحہ44)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا کیا مقصد ہے، اس بارے میں آپ فرماتے ہیں: ’’وہ کام جس کے لئے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اس کی مخلوق کے رشتہ میں جو کدورت واقعہ ہو گئی ہے اس کو دور کر کے محبت اور اخلاص کے تعلق کو دوبارہ قائم کروں اور سچائی کے اظہار سے مذہبی جنگوں کا خاتمہ کر کے صلح کی بنیاد ڈالوں اور وہ دینی سچائیاں جو دنیا کی آنکھ سے مخفی ہو گئی ہیں ان کو ظاہر کر دوں۔ اور وہ روحانیت جو نفسانی تاریکیوں کے نیچے دب گئی ہے اس کا نمونہ دکھلائوں۔‘‘ (لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد20صفحہ 180)

مندرجہ بالا ارشادات سے یہ ظاہر ہے کہ خلافت کا قیام اس لیے ہوتا ہے کہ دنیا کو اللہ تعالیٰ کی آیات اور کتاب اللہ کی تعلیم دی جائے۔ حکمت سکھائی جائے اور بنی نوع انسان کا تزکیہ نفس کیا جائے۔ انسانوں کا اپنے رب سے زندہ تعلق پیدا کیا جائے۔ دنیا کی کوئی بھی حکومت خواہ جمہوری حکومت یا کوئی اور طرز حکومت ہو ان مقاصد کے حصول کے لیے کھڑی نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کا یہ دعویٰ ہوتا ہے کہ وہ آیات اللہ کی تعلیم دینے اور تزکیہ نفس کرنے اور انسانوں کو خدا سے ملانے کے لیے کام کر رہی ہے۔ اور نہ ہی کبھی کسی پارلیمنٹ یا کسی اور طرز کے جمہوری ادارے نے اس کام کا بیڑا اٹھایا ہے۔ اس لیے عقل اس اعتراض کو قبول نہیں کر سکتی کہ اس دَور میں الٰہی جماعت کے لیے واجب الاطاعت خلافت کی کیا ضرورت ہے؟ اس جماعت میں جمہوری نظام کیوں رائج نہیں کیا جاتا؟ یہ حقیقت پیش نظر رہنی چاہیے کہ دنیاوی حکومت کا نظام اور ایک مذہبی جماعت کا نظام خواہ وہ کسی بھی مذہبی جماعت کا نظام ہو اپنے مقاصد کے لحاظ سے ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔

کسی بینک کے نظام پر یہ اعتراض نہیں ہو سکتا کہ اس کا نظام اس طرح کیوں نہیں چلایا جا رہا جس طرح کسی ملک کی فوج کا نظام چلایا جا تا ہے، یا کسی یونیورسٹی پر یہ اعتراض نہیں ہو سکتا کہ اس کے طلبہ جمہوری طرز پر اپنے وائس چانسلر کا انتخاب کیوں نہیں کرتے؟ یا کسی سیاسی پارٹی پر یہ اعتراض نہیں کیا جاسکتا کہ اس کا نظم و نسق کسی کاروباری کمپنی کی طرح کیوں نہیں چلایا جاتا؟ یا کسی ملک کی فوج کے متعلق یہ تجویز کبھی نہیں دی جاتی ہے کہ اس کے فیصلے اس میں شامل فوجیوں کے منتخب نمائندے کریں کیونکہ ان سب اداروں کی نوعیت ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے۔ اسی طرح عقل کی رو سے ایک مذہبی جماعت پر بھی یہ اعتراض نہیں کیا جا سکتا کہ اس کا نظام ایک واجب الاطاعت خلیفہ کے تحت کیوں کام کرتا ہے؟ کیونکہ ایک مذہبی جماعت کے روحانی مقاصد کسی حکومت کے مقاصدسے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔

خلافت احمدیہ کی نعمت کیوں ضروری ہے؟

اب اس سوال کا جائزہ لیتے ہیں کہ خاص طور پر اس دَور میں خلافت احمدیہ کی نعمت کیوں ضروری ہے؟ اس سوال کو حل کرنے کے لیے دو امور پیش نظر رکھنے ضروری ہیں۔ ایک تو یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا بنیادی مقصد کیا ہے؟ کیونکہ خلافت احمدیہ کا کام یہی ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے مقاصد کو آگے بڑھائے اور دوسرا یہ موازنہ ضروری ہے کہ اس دَور میں خلافت احمدیہ نظام خلافت کا کیا تصور پیش کر رہی ہے اور باقی گروہ خلافت کا کیا تصور پیش کر رہے ہیں؟

جیسا کہ پہلے حوالہ درج کیا جا چکا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ خدا اور اس کے بندوں کے درمیان تعلق کو مضبوطی سے قائم کیا جائے۔ اور مذہبی حوالے سے عصر حاضر میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انسانوں کو خدا کے وجود پر یقین نہیں رہا۔ بالفاظ دیگر اس دَور میں دہریت کی مختلف اقسام تیزی سے پھیل رہی ہیں۔

اگر ہم اپنی توجہ اس زمانے پر مرکوز رکھیں اور اس زمانے سے مراد انیسویں صدی یا بیسویں صدی نہیں بلکہ اکیسویں صدی کے گذشتہ دس پندرہ سال ہیں، تو ہمیں مذہبی عقائد کے اعتبار سے ایک رجحان نظر آتا ہے جو کہ مذہبی اقدار کی بنیاد کے لیے خطرناک ہے۔ ورلڈ ویلیو سروے نے دنیا کے نوے ممالک کا جائزہ لے کر جو اعداد و شمار شائع کیے ہیں ان کے مطابق 1981ء اور 2007ء کے درمیان زیادہ آمد رکھنے والے ممالک کے لوگوں میں مذہبی رجحانات میں کمی ہو رہی تھی لیکن اس کے ساتھ جن 49؍ممالک کا جائزہ لیا گیا ان میں سے 33؍کے عوام میں مذہبی رجحانات بڑھ رہے تھے۔ لیکن 2007ء سے اب تک انہی 49؍ممالک کا جائزہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان ممالک میں سے 43؍ممالک کے اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان میں مذہبی رجحانات میں کمی ہو رہی ہے۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ اس دَور کا سب سے بڑا مسئلہ خدا تعالیٰ سے دوری اور خدا تعالیٰ کے وجود سے انکار ہے۔

(https://www.worldvaluessurvey.org/WVSNewsShow.jsp?ID=433)

ظاہر ہے کہ جب خدا تعالیٰ کے وجود سے ہی انکار کر دیا جائے تو دین کی بنیاد سے ہی انکار کر دیا جاتا ہے۔ اور یہ سوچ دنیا کو دہریت کی طرف لے جاتی ہے۔ اور ایسا دنیا کی تاریخ میں بار بار ہوا ہے کہ دنیا میں اس طرح کی سوچ پیدا ہوئی یا پیدا کی گئی اور یہ خوف پیدا ہوا کہ اب نسل انسانی خدا سے دور ہوتی جائے گی۔ اس زہر کے تریاق کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاء بھیجے۔ اور جب انبیاء کے گذرنے کے بعد ایسے حالات پیدا ہوئے کہ دشمنوں نے خدا تعالیٰ کے نور کو بجھانے کا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو قائم رکھنے اور اس خوف کی حالت کو بدلنے کے لیے وہ انتظام فرمایا جس کا ذکر سورت نور کی آیت 56میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے: وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ۪ وَ لَیُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِیْنَهُمُ الَّذِی ارْتَضٰى لَهُمْ وَ لَیُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًاؕیَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِكُوْنَ بِیْ شَیْــٴًـاؕوَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ۔ (النور: 56)تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اورنیک اعمال بجا لائے ان سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور ان کے لئے ان کے دین کو جو اس نے ان کے لئے پسند کیا ضرور تمکنت عطا کرے گا اور ان کی خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ اور جو اسکے بعد بھی نا شکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نا فرمان ہیں۔

یہ آیت کریمہ اس مضمون کو ظاہر کرتی ہے کہ جب بھی دین حق کو خطرہ ہو تو اس خوف کو دور کرنے اور دین کو استحکام اور تمکنت عطا کرنے میں نظام خلافت کا گہرا تعلق ہے۔

مذہبی معاملات میں اختلافات کا حل

لیکن جب بھی مذہب کی بات کی جائے تو یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ ہر مذہب کے اندر بھی شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ اگر اسلام کی مثال لی جائے تو ہم سب جانتے ہیں کہ اسلام میں بہت سے فرقے ہیں۔ اور ان میں کئی معاملات میں ایک دوسرے سے شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ ان اختلافات کے ماحول میں ہر چیز مشتبہ ہو جاتی ہے۔ اگر پیروی کریں تو کس کی کریں؟ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں امت میں شدید اختلافات پیدا ہونے کی پیشگوئی فرمائی، وہاں یہ راہنمائی بھی فرمائی کہ اس دَور میں ایک مومن کا کیا لائحہ عمل ہونا چاہیے؟ سنن ابن ماجہ کی یہ حدیث اس بارے میں یہ راہنمائی کرتی ہے: حدثنا عبد اللّٰه بن احمد بن بشير بن ذكوان الدمشقي، حدثنا الوليد بن مسلم، حدثنا عبد اللّٰه بن العلاء يعنى ابن زبر، حدثني يحيى بن ابي المطاع، قال: سمعت العرباض بن سارية، يقول: قام فينا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ذات يوم، فوعظنا موعظة بليغة وجلت منها القلوب، وذرفت منها العيون، فقيل: يا رسول اللّٰه، وعظتنا موعظة مودع، فاعهد إلينا بعهد، فقال: عليكم بتقوى اللّٰه، والسمع، والطاعة، وإن عبدا حبشيا، وسترون من بعدي اختلافا شديدا، فعليكم بسنتي، وسنة الخلفاء الراشدين المهديين، عضوا عليها بالنواجذ، وإياكم والامور المحدثات، فإن كل بدعة ضلالة۔ (سنن ابن ماجہ،کتاب السنۃ، بَابُ اتِّبَاعِ سُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ ) عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے، آپ نے ہمیں ایک مؤثر نصیحت فرمائی، جس سے دل لرز گئے اور آنکھیں ڈبڈبا گئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا: اللہ کے رسول!آپ نے تو رخصت ہونے والے شخص جیسی نصیحت کی ہے، لہٰذا آپ ہمیں کچھ وصیت فرما دیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اللہ سے ڈرو، اور امیر کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو، گرچہ تمہارا امیر ایک حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، عنقریب تم لوگ میرے بعد سخت اختلاف دیکھو گے، تو تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا، اس کو اپنے دانتوں سے مضبوطی سے تھامے رہنا، اور دین میں نئی باتوں سے اپنے آپ کو بچانا، اس لیے کہ ہر بدعت گمراہی ہے۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح دین کے استحکام اور تمکنت اور نظام خلافت کا گہرا تعلق ہے اسی طرح اختلافات کے فتنہ سے نجات پانے اور خلافت کی اطاعت کا گہرا تعلق ہے۔ اگر اسلام میں شدید اختلافات پیدا ہوں تو اس سے نجات خلافت راشدہ سے وابستہ ہو کر ہی پائی جا سکتی ہے۔

جب بھی خلافت راشدہ کا ذکر ہوتا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اس حدیث کا ذکر ضرور کیا جاتا ہے اور اس عظیم پیشگوئی کا بار بار ذکر کیا جانا چاہیے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تک اللہ کو منظور ہو گا تمہارے درمیان نبوت موجود رہے گی پھر اللہ اسے اٹھانا چاہے گا تو اٹھا لے گا پھر طریقہ نبوت پر گامزن خلافت ہو گی اور وہ اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ کو منظور ہو گا۔ پھر جب اللہ اسے اٹھانا چاہے گا تو اٹھا لے گا۔ پھر کاٹ کھانے والی حکومت ہو گی وہ بھی اس وقت تک ہو گی جب تک اللہ کو منظور ہو گا۔ پھر جب اللہ چاہے گا اسے بھی اٹھا لے گا۔ اس کے بعد ظلم کی حکومت ہو گی وہ بھی اس وقت تک رہے گی جب تک منظور خدا ہو گا۔ پھر جب اللہ چاہے گا وہ اسے بھی اٹھا لے گا۔ پھر طریقہ نبوت پر گامزن خلافت آجائے گی۔ (مسند احمد بن حنبل۔ مسند الکوفین اردو ترجمہ از محمد ظفر اقبال جلد ہشتم ناشر مکتبہ رحمانیہ حدیث نعمان بن بشیر صفحہ116و117)

یہ حدیث صاف ظاہر کر رہی ہے کہ دَور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافتِ راشدہ کا دور آئے گا اور اس کے بعد ظلم و زیادتی کے ادوار آئیں گے۔ اور آخر اللہ تعالیٰ ایک مرتبہ پھر امت مسلمہ میں خلافت راشدہ کا دَور جاری فرمائے گا۔

ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں ایک طویل ابتلا کے دَور کے بعددوبارہ خلافت یا امامت کا دَور آئے گا۔ اور یہ کہ اس دَور میں اسلام اپنی حقیقی عظمت دوبارہ حاصل کرے گا۔ اور اس بنا پر ہمیشہ سے مسلمانوں میں اس موعود دَور کا شدید انتظار پایا جاتا رہا ہے۔ یہ انتظار اتنا شدید تھا کہ ایک مقام کے متعلق شیعہ احباب کے ایک فرقہ کا خیال تھا کہ امام مہدی اس مقام پر کسی غار میں غائب ہوئے ہیں اور جب خدا چاہے گا خروج کریں گے۔ ایک قبیلہ کے لوگ مغرب کے وقت اس مقام پر جمع ہو کر امام مہدی سے خروج کی التجا کرتے تھے اور یہ استدعا کرتے رہتے تھے یہاں تک کہ اندھیرا ہو جاتا اور ستارے نکل آتے۔ پھر یہ لوگ اپنے گھروں کو لوٹ جاتے اور یہ سلسلہ اگلے روز مغرب کے وقت دوبارہ شروع ہوجاتا۔ اور یہ سلسلہ صدیوں تک جاری رہا۔ (مقدمہ تاریخ ابن خلدون اردو ترجمہ عبد الرحمٰن دہلوی ناشر الفیصل تاجران کتب لاہور اگست 1993ء صفحہ186 و 187)

بادشاہ اپنے مقاصد کے لیے خلیفہ کے لفظ کا استعمال کرتے ہیں

اس پیشگوئی کا ایک حصہ تو واضح طور پر پورا ہو چکا ہے۔ ان پیشگوئیوں کی وجہ سے مسلمانوں کے اکثر فرقے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ دوبارہ خلافت یا امامت کا قیام بہت ضروری ہے۔ اس نکتے پر بہت کم اختلاف پایا جاتا ہے۔ انہی معروف پیشگوئیوں کی وجہ سے بہت سے خاندانوں کی بادشاہت نے خلافت کا لقب اختیار کیا۔ جس طرح خلافت راشدہ کے بعد اموی بادشاہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خلافت کا دعویٰ کرتے رہے۔ گو کہ ان میں نیک بادشاہ بھی گذرے لیکن ایسے بادشاہ بھی گذرے جنہیں دینی اقدار کی کچھ بھی پروا نہیں تھی۔ 725ء میں بنو عباس نے بنو امیہ کو اقتدار سے محروم کر کے سلطنت حاصل کر لی اور اس کے ساتھ خلافت کا لقب بھی اختیار کر لیا۔ ان کا حال بھی اموی خلفاء سے مختلف نہیں تھا۔ ان میں نیک دل بادشاہ بھی گذرے لیکن مجموعی طور پر ان بادشاہوں کے دَور کو کسی طرح بھی خلافت راشدہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ابھی عباسی خاندان کی نام نہاد خلافت بغداد میں قائم تھی کہ عالم اسلام میں دو اور سلطنتوں نے خلافت کا لقب اختیار کر لیا۔ 909ء میں افریقہ میں عبد اللہ المہدی نے قیروان میں علوی خلافت کی بنیاد رکھی۔ بعد میں اس کا دارالحکومت مصر منتقل کر دیا گیا۔ یہ نام کی خلافت بھی اس وقت تک قائم رہی جب تک سلطان صلاح الدین ایوبی نے اسے مغلوب کر کے ختم نہیں کر دیا۔ اور اندلس میں اموی بادشاہت کی باقیات تو پہلے ہی قائم تھی لیکن 929ء میں ان کے بادشاہ عبد الرحمٰن ناصر نے بھی خلیفہ کا لقب اختیار کر لیا۔ اس دَور میں عالم اسلام میں تین بادشاہتوں نے خلافت کا لقب اختیار کیا ہوا تھا۔ اور یہ سب بادشاہ علیحدہ مسلک کے پیروکار تھے۔ عباسی خلفاء حنفی فقہ، اندلسی خلفاء مالکی اور مصر میں علوی خلفاء اسماعیلی فقہ کے پیروکار تھے۔ جب تاتاریوں نے بغداد میں عباسی سلطنت کو تباہ کیا تو مصر میں مملوک خاندان نے عباسی خاندان کے شخص کو ڈھونڈ کر نام کا خلیفہ مقرر کر دیا لیکن بادشاہت میں اس کا کوئی اختیار نہیں ہوتا تھا۔

اس کے بعد 1511ء میں ترکی میں سلطان سلیم نے بادشاہت حاصل کی اور بعد میں خلیفہ کا لقب اختیار کیا۔ اور اس کے لیے اس نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ مصر پر حملہ کر کے مملوک سلطنت ختم کی اور ان کے سرداروں کو قتل کر کے نام کے عباسی خلیفہ محمد کو جو قاہرہ میں بے کسی کی حالت میں موجود تھا مجبور کیا کہ اپنی نام نہاد خلافت سلیم کو منتقل کرے۔ اس طرح مملوک بادشاہوں کے زیر سایہ خلافت ختم ہوگئی اور ایک کے بعد دوسرے عثمانی بادشاہ خلافت کا لقب اختیار کرتے گئے۔ یہاں تک کہ پہلی جنگ عظیم میں شکست کے بعد مارچ 1924ء میں یہ خلافت بھی اپنے اہل وطن کے ہاتھوں ختم کر دی گئی۔ ظاہر ہے کہ یہ بھی ملوکیت ہی تھی اور اسے بھی کسی طرح حقیقی خلافت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ صرف اپنی سلطنت کی مضبوطی اور اس کا مذہبی جواز ثابت کرنے کے لیے ایک نام اختیار کیا ہوا تھا۔

یہ ایک المیہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چار خلفائے راشدین کا دَور ختم ہونے کے بعد عالم اسلام میں ہر وقت ایک یا ایک سے زائد بادشاہ خلیفہ کا نام اختیار کرتے رہے لیکن انہیں خلافت کے حقیقی مقاصد سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ ان میں سے کئی بادشاہ بدترین مظالم اور خلاف اسلام حرکات کے مرتکب بھی ہوتے رہے۔ اس وجہ سے مسلمانوں میں خلافت کا تصور دھندلا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کی وجہ سے ان کے ذہنوں میں یہ بات تو اچھی طرح راسخ تھی کہ ان کی نجات حقیقی نظام خلافت کے قیام سے وابستہ ہے لیکن اس مقدس لفظ کی حقیقت ان کے ذہنوں سے اوجھل ہو گئی۔ اور جیساکہ ہم جائزہ پیش کریں گے کہ اس وجہ سے گذشتہ ایک صدی میں بھی بار بار خوفناک المیوں نے جنم لیا۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب تقریباً تمام فرقے اس بات پر یقین رکھتے ہیں تو پھر اس مسئلہ پر جماعت احمدیہ کی کیا خصوصیت ہے؟ ایک پہلو تو یہ ہے کہ اکثر فرقوں کے نزدیک خلافت کا قیام ایک پیشگوئی کی حیثیث رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ میں نظام خلافت سو سال سے زائد عرصہ سے قائم ہے۔

خلافت احمدیہ کا قیام اور ترکی کی نام نہاد خلافت کا خاتمہ

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد 1908ء میں خلافت احمدیہ کا مبارک آغاز ہوا۔ اس وقت ترکی کی سلطنت عثمانیہ قائم تھی اور اس کے بادشاہ اپنے مفادات کے لیے خلافت کا لقب استعمال بھی کرتے تھے اور کئی عرب ممالک اور حجاز پر بھی سلطنت عثمانیہ کی حکومت قائم تھی۔ یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ مؤرخین کے نزدیک صدیوں سے قائم سلطنت عثمانیہ کے خاتمہ کا آغاز 1908ء میں Young Turk Revolutionسے ہوا تھا۔

(https://courses.lumenlearning.com/boundless-worldhistory/chapter/the-ottoman-empire/ accessed on 30.4.2022)

گو کہ اس وقت امت مسلمہ کتنے ہی فرقوں میں تقسیم تھی۔ اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مسلمانوں کی خاطر خواہ تعداد ان بادشاہوں کو روحانی لحاظ سے کوئی اہمیت دیتی تھی۔ لیکن اکثر مسلمانوں کے ذہن میں خلافت کا غلط تصور بسا ہوا تھا۔ اور ان کا تصور یہی تھا کہ خلیفہ کے لیے ایک وسیع علاقے پر حکمران ہونا اور اس کے پاس دنیاوی حشمت اور تزک و احتشام کا ہونا ضروری ہے۔ خواہ اسے اسلامی احکامات کی کوئی پروا ہو یا نہ ہو اور اسے مسلمانوں کی دینی اور روحانی حالت سے کوئی سروکار ہو یا نہ ہو۔ ایسے دَور میں جب مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد سیاسی طور پر محکوم تھی یہ بادشاہت انہیں ماضی کی عظمتوں کی یاد دلاتی تھی۔ حالانکہ اس قسم کی موروثی بادشاہت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خلافت راشدہ سے کیا نسبت؟ اُس دَور میں صرف جماعت احمدیہ ہی تھی جو کہ خلافت کا حقیقی تصور پیش کر رہی تھی کہ خلافت کے مقاصد وہی ہیں جو کہ نبوت کے ہیں۔ یعنی لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی آیات، کتاب اور حکمت کی تعلیم دے۔ اور انہیں روحانی طور پر پاک و صاف کرے۔ اور انہیں خدا کے ساتھ تعلق کی تعلیم دے۔ اور یہی خلافت کے اصل مقاصد ہیں۔ محض دنیاوی بادشاہت حاصل کرنا اور دنیا کے مختلف علاقوں پر قبضہ کر کے اپنے زیر تسلط لانا تو کسی روحانی خلافت کے مقاصد نہیں ہو سکتے۔

بہر حال جب پہلی جنگ عظیم کا آغاز ہوا تو سلطنت عثمانیہ جرمنی کا اتحادی بن کر میدان جنگ میں کود پڑی۔ اور اس وقت برطانیہ اور سلطنت عثمانیہ کی افواج ایک دوسرے سے نبرد آزما تھیں۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ اس وقت کئی عرب ممالک سلطنت عثمانیہ کے تحت تھے اور وہ اب آزاد ہونا چاہتے تھے۔ انہوں نے سلطنت برطانیہ کے ساتھ مل کر سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کر دی۔ اس وقت ہندوستان کے بہت سے مسلمان سلطنت برطانیہ کی افواج میں شامل ہو کر ترکی کی افواج پر گولیاں چلا رہے تھے اور اس وقت انہیں یہ خیال نہیں آتا تھا کہ وہ اپنے خلیفۃ المسلمین کی افواج پر گولیاں چلا رہے ہیں۔ ہندوستان کے لاکھوں مسلمان برطانوی افواج میں شامل ہو کر جنگ میں شامل ہوئے۔ 1916ء میں ایک لاکھ تیرہ ہزار اور1917ءمیں دو لاکھ چوہتر ہزار اور 1918ء میں پانچ لاکھ ہندوستانی مسلمان برطانوی فوج میں شامل ہو کر میدان جنگ میں گئے اور کئی محاذوں میں انہوں نے ترک افواج کو شکست دی۔ (تحریک خلافت مصنفہ میم کمال او کے ناشر قائد اعظم اکیڈمی اگست 1991ءصفحہ 43تا 67)

ہندوستان میں تحریک خلافت

بہر حال جب پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ کو شکست ہوئی تو جلد ہی واضح ہو گیا کہ فاتح اتحادی سلطنت عثمانیہ کے حصے بخرے کر دیں گے بلکہ شکست خوردہ ممالک میں بھی ترکی سے امتیازی سلوک کیا جائے گا تو ہندوستان کے مسلمانوں میں ترکوں سے ہمدردی کی ایک نئی لہر پیدا ہوئی اور شدید سے شدید تر ہوتی گئی۔ لکھنؤ، دہلی اور دوسرے شہروں میں جلسے شروع ہو گئے۔ ان میں یہ قراردادیں منظور کی گئیں کہ ترکی کے بادشاہ سلطان محمد چہارم مسلمانوں کے خلیفہ ہیں۔ اور خلافت کے مذہبی مسئلے میں کسی غیر مسلم کو مداخلت کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ خلیفہ کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ ایک وسیع علاقے پر حکومت کرتا ہو۔ اس لیے ضروری ہے کہ عرب ممالک اور سلطنت عثمانیہ کے دوسرے علاقےترکی کے بادشاہ کے ماتحت رکھے جائیں۔ شریعت کی رو سے مقدس مقامات مسلمانوں کے خلیفہ کے ماتحت رہنے ضروری ہیں۔ اور اس تحریک کاایک نمایاں پہلو یہ تھا کہ ممتاز سیاسی لیڈر گاندھی جی اس تحریک کے ایک اہم لیڈر کے طور پر سامنے آ رہے تھے اور اس کے اجلاسات کی صدارت کر رہے تھے۔

(The Indian Muslims – A documentary record 1900-.1947 p 115)

سیکرٹری مسلم کانفرنس ظہور احمد صاحب اور مولوی سلامت اللہ فرنگی محل کی طرف سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کو ایک اہم اجلاس میں شرکت کا دعوت نامہ موصول ہوا۔ حضورؓ بیماری کی وجہ سے اس میں تشریف نہیں لے جا سکے لیکن حضورؓ نے ایک مضمون کی صورت میں اپنی راہنمائی اپنے نمائندوں کے ساتھ اس اجلاس میں پڑھنے کے لیے بھجوائی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے ان بنیادی نکات کی طرف توجہ دلائی کہ یہ دعویٰ کہ ترکی کے بادشاہ مسلمانوں کے متفقہ خلیفہ ہیں درست نہیں۔ جماعت احمدیہ میں اللہ تعالیٰ کا قائم کردہ نظام خلافت موجود ہے اور وہ تو کسی طرح بھی ترکی کے بادشاہ کو اپنا مذہبی خلیفہ تسلیم نہیں کر سکتے۔ اور کئی دوسرے فرقے بھی ترکی کے بادشاہ کو مذہبی طور پر خلیفہ تسلیم نہیں کرتے۔ اور باقی ممالک کی طرح عرب ممالک کو بھی اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا اختیار ہونا چاہیے۔ اور اس وقت وہ واضح طور پر ترکی سے آزاد ہونا چاہتے ہیں۔ البتہ تمام مسلمانوں کو قدرتی طور پر ترکوں کے مستقبل سے گہری ہمدردی ہے اور اس کے لیے طویل منصوبہ بندی کر کے ہمت سے ان کی ہر طرح کی مدد کرنی چاہیے۔ (انوارالعلوم جلد 4صفحہ433 تا 456۔)

جیسا کہ مندرجہ بالا حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ اس تحریک کے آغاز کا باعث بھی یہی المیہ تھا کہ اکثر مسلمانوں کے ذہنوں میں خلافت کا تصور ہی واضح نہیں تھا۔ ان کے علماء کے نزدیک بھی خلافت دنیاوی موروثی بادشاہت اور جاہ و حشم کا نام تھا اور وہ اس کی روحانی اور مذہبی حقیقت سے بے خبر تھے۔ اس تحریک کا نتیجہ کیا نکلا؟ اس کا انجام بہت سے المیوں پر ہوا۔

1۔ احمدی، شیعہ، بریلوی اس تحریک سے علیحدہ رہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے علماء نے اس تحریک کی حمایت نہیں کی۔ اور اس تحریک میں شامل علماء نے ان کے خلاف فتوے صادر کرنے شروع کیے۔ اس کے نتیجے میں ہندوستان کے مسلمانوں میں پھوٹ پڑ گئی۔ عدم برداشت کا یہ عالم تھا کہ جب ایک اجلاس میں محمد علی جناح نے اس تحریک کی روش سے اختلاف کیا تو اس تحریک کے ایک قائد مولانا شوکت علی بھرے اجلاس میں ان پر تشدد کرنے کے لیے حملہ آور ہونے لگے تھے کہ لوگوں نے بیچ بچائو کرایا۔

(Pan Islamism in British India by Naeem Qureshi , Oxford 2008 p180)

2۔ ایک طرف تو مسئلہ خلافت کی آڑ میں مسلمانوں کے خلاف فتوے دیے جا رہے تھے اور یہ کہا جا رہا تھا کہ یہ ایک مذہبی مسئلہ ہے اور اس مسئلے پر برطانوی حکومت کی مداخلت جائز نہیں اور دوسری طرف گاندھی جی اس تحریک کے نمایاں ترین قائدین کی حیثیت اختیار کر چکے تھے۔ ان کے جلسوں کی صدارت کرتے اور مدرسوں میں جا کر طلبہ کو نصیحت کرتے کہ خلافت تباہ کر دی گئی اب تم نے اچھا مسلمان بنناہے۔ اس کے علاوہ کٹر آریہ سماجی لیڈر سوامی شردھانند صاحب بھی اس تحریک میں شامل ہو گئے اور انہیں مساجد میں لیکچر دینے کے لیے بلایا جاتا۔ آخر کار ایک پر تشدد واقعہ کے بعد گاندھی جی نے اس تحریک سے علیحدگی اختیار کر لی۔ اور سوامی شردھانند نے شدھی تحریک شروع کرکے مسلمانوں کو مرتد کرنا شروع کر دیا۔ انہی دنوں میں اقبال نے سلیمان ندوی صاحب کو لکھا: ’’اسلام کا ہندوئوں کے ہاتھ بک جانا گوارا نہیں ہو سکتا۔ افسوس اہل خلافت اپنی اصل راہ سے بہت دور جا پڑے۔‘‘ (زندہ رود مصنفہ جاوید اقبال ناشر شیخ غلام علی اینڈ سنز 1985ءصفحہ131)

3۔ پہلے اس تحریک نے یہ موقف اختیار کیا کہ سلطان محمد چہارم (وحید الدین)مسلمانوں کے خلیفہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین ہیں۔ لیکن جب وہ بادشاہت سے معزول کر دیے گئے تو اسی تحریک کے کرتا دھرتا لوگوں نے ان کو شیطان، مردود، مقہور اور قابل نفرت کے القابات سے نوازا اور اگلے بادشاہ کی شان میں گیت گانا شروع کر دیے۔ اور جمعیت العلماء اسلام نے یہ قرارداد منظور کی کہ خلیفہ مقرر اور معزول ہو سکتا ہے لیکن اس کو حکومت سے علیحدہ رکھنا جائز نہیں۔ اس طرح دنیا میں اسلام کا تماشا بنایا گیا۔

4۔ اس تحریک کے قائدین نے ہندوستان سے ہجرت کا فتویٰ دیا۔ کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے یہ فتویٰ ابو الکلام آزاد صاحب نے دیا تھا۔ ایک اندازہ کے مطابق چالیس ہزار سے کافی زائد مسلمانوں نے اپنی نوکریاں اور کاروبار چھوڑے اور اپنی قیمتی جائیدادیں اونے پونے ہندوئوں کے ہاتھ فروخت کیں اور افغانستان ہجرت کر گئے۔ پہلے تو افغانستان کے بادشاہ امیر امان اللہ نے انہیں سبز باغ دکھائے لیکن آخر کار اس نے برطانیہ سے صلح کر لی اور بہت سے مسلمان افغانستان میں مر گئے، ان کی عورتوں پر آوازیں کسی گئیں، اور یہ تباہ ہو کر ہندوستان واپس آ گئے۔ اسی طرح سول نا فرمانی کی تحریک چلائی گئی اور مسلمان طلبہ کو سکولوں اور کالجوں سے نکال لیا گیا، کئی مسلمانوں نے اپنی نوکریاں چھوڑ دیں اور وکلاء نے پریکٹس ترک کی۔ ان سب خالی جگہوں کو ہندوئوں نے پر کیا اور نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلا۔

5۔ ایک وقت میں اتحاد بین المسلمین کے لیے تحریک خلافت کے بعض لیڈروں نے سوویت یونین کے کمیونسٹ اور دہریہ لیڈروں سے بھی روابط پیدا کیے اور ان کے ساتھ مل کر پروگرام بنانے شروع کیے اور ایک مرحلہ پر یہ تجویز بھی زیر غور آئی کہ کمیونسٹ لیڈرشپ کی مدد سے امیر افغانستان کو خلیفہ بنا لیا جائے۔ اس قسم کی منصوبہ بندی میں کمیونسٹ لیڈر ٹراٹسکی بھی شامل تھے۔ عقل اس عجیب و غریب طریق کو قبول نہیں کر سکتی کہ دہریہ اور مذہب دشمن طبقہ کی مدد سے اسلامی خلافت قائم کرنے کی کوشش کی جائے۔

(Pan Islamism in British India, by Naeem Qureshi, Oxford, p 168&202)

6۔ یہ تمام نقصانات اٹھانے کے بعد نتیجہ یہ نکلا کہ مصطفیٰ کمال پاشا اور ترکی کی پارلیمنٹ نے خود سلطنت عثمانیہ کی خلافت کو ختم کر دیا۔ یہ تمام نقصانات اور جگ ہنسائی اس لیے برداشت کرنی پڑی کیونکہ اس تحریک میں شامل عوام و خواص کے ذہنوں میں جو خلافت کا تصور تھا وہ ہی درست نہیں تھا۔ اس تصور کا اور صحیح اسلامی خلافت کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ صحیح تصور وہی ہے جو جماعت احمدیہ پیش کرتی ہے۔

تحریک خلافت کے بعد قیام خلافت کی کوششیں

یہ تحریک تو ناکامی پر ختم ہوئی لیکن خلافت کی حقیقت نہ سمجھنے کی وجہ سے المیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ اب ایک اور تنظیم کی مثال پیش کی جاتی ہے جس کا آغاز 1953ء میں ہوا۔ یہ تنظیم حزب التحریر کے نام سے موسوم ہے۔ اس کے بانی تقی الدین النبھانیمشرقی یروشلم کے ایک عالم اور قاضی تھے۔ مشرقی یروشلم اس وقت اردن کے تحت تھا۔ انہوں نے ایک تنظیم حزب التحریر قائم کی۔ اس تنظیم کا مقصد مسلمانوں میں خلافت قائم کر کے انہیں ایک ملک کی صورت میں متحد کرنا ہے۔ اور اس کے لیے ایک مجوزہ آئین بھی جاری کیا گیا۔ لیکن طریقہ کیا تجویز کیا گیا؟ اس کا طریقہ یہ تجویز کیا گیا کہ مختلف مسلمان ممالک میں سازش کر کے اور حکومت کا تختہ الٹ کر وہاں پر خلافت قائم کی جائے۔ ان عزائم کے ساتھ یہ دعویٰ بھی ہےکہ ہم تشدد کے قائل نہیں ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ خلافت مسلمان ممالک کے با اثر افراد اور اداروں کو اپنے ساتھ ملا کر اور ان سے بغاوت کراکے قائم کی جائے گی۔ اور یہ کوئی خیالی منصوبہ نہیں ہے۔ بار بار مسلمان ممالک میں بغاوت کرانے کی کوشش کی گئی۔ 1968ء میں اس تنظیم نے اردن کی فوج کے بعض اراکین کے ذریعہ وہاں پر تختہ الٹانے کی کوشش کی۔ 1974ء میں مصر میں بھی اس قسم کی کوشش کی گئی۔ اور بعض اور مسلمان ممالک میں بھی اس قسم کی کوششیں کی گئیں۔ اور 1990ء کے بعد سے وسطی ایشیا میں اس تنظیم کی سرگرمیوں میں اضافہ ہو گیا اور ایک اندازے کے مطابق چالیس ممالک میں اس کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ حزب التحریر نے پاکستان میں بھی اپنی سرگرمیاں شروع کیں لیکن 2004ء میں ان پر پابندی لگا دی گئی۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ ان کے نزدیک خلافت کے قیام کا پہلا زینہ یہی ہے کہ مسلمان ملکوں میں بغاوت کے ذریعہ فساد برپا کیا جائے۔ اور اس کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں نکل سکتا کہ مسلمان ممالک پہلے سے بھی زیادہ کمزور ہو جائیں۔ اور اس غلطی کی بنیاد کیا ہے؟ خلافت کے ایک غلط تصور کی پیروی کی جا رہی ہے۔ ایک ایسا تصور جس کا اسلامی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں۔ اور یہ غلطیاں اس وقت تک جاری رہیں گی جب تک خلافت کے اس حقیقی تصور کو نہیں اپنایا جاتا جسے خلافت احمدیہ پیش کرتی ہے۔

(https://ctc.usma.edu/political-islam-in-central-asia-the-role-of-hizb-al-tahrir/)

چند دہائیاں قبل پاکستان میں ایک تنظیم قائم کی گئی۔ اس تنظیم کا نام ’’تحریک خلافت پاکستان‘‘ تھا اور یہ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کے زیر قیادت کام کرتی تھی۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے اس کا مقصد پاکستان میں خلافت کا قیام تھا۔ بجا طور پر ڈاکٹر اسرار احمد صاحب اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ عالم اسلام کی نجات خلافت کے دوبارہ قیام سے وابستہ ہے۔ اس تنظیم نے خلافت کا کیا تصور پیش کیا؟

اس تنظیم نے بھی خلافت کے قیام کو سیاسی اقتدار کے حصول سے وابستہ قرار دیا۔ اس ضمن میں ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی تحریروں اور تقاریر کا مجموعہ ’’پاکستان میں نظام خلافت۔ کیا کیوں اور کیسے؟‘‘ کا جائزہ لیا جائے تو اس میں اس امر کا اظہار ملتا ہے کہ علم نہیں کہ خلافت کا قیام کہاں سے شروع ہو گا لیکن قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا آغاز پاکستان میں حصول اقتدار سے ہو گا۔ ان کا نظریہ تھا کہ پاکستان کے عوام براہ راست چار یا پانچ سال کے لیے ایک خلیفہ منتخب کریں گے یعنی اس کا انتخاب بھی محدود مدت کےلیے ہوگا۔ اور اس کی رائے مجلس شوریٰ پر حاوی ہو گی۔ یہ نہیں ہو گا کہ جو اس کی بیعت کریں یا جو مسلمان اس کے ماتحت ہوں وہ کسی ایک فقہ پر عمل کریں گے۔ یہ سب علیحدہ علیحدہ اپنی اپنی فقہ پر عمل پیرا ہوں گے اور ہر فقہ کا اپنا اپنا علیحدہ بورڈ ہو گا۔ دوسرے الفاظ میں اس خلافت کے قیام کے ساتھ اس سے وابستہ مسلمانوں میں کوئی اتحاد بھی پیدا نہیں ہو گا بلکہ ہر ایک کی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد علیحدہ ہو گی۔ اس قسم کی فرضی خلافت سے خلافت راشدہ کے مقاصد کس طرح حاصل ہو سکتے ہیں؟ اس پر کسی زیادہ تبصرے کی ضرورت نہیں۔ یہ تصورات خلافت راشدہ سے زیادہ کسی آمرانہ صدارتی نظام کا چربہ معلوم ہوتے ہیں۔

داعش کی بربریت

آخر میں ہم قریب کے زمانےکی مثال پیش کرتے ہیں اور یہ مثال داعش کی مثال ہے۔ اس تنظیم کی داغ بیل تو 1999ء میں ابو مصعب الزرقاوی نے ڈالی تھی لیکن اس کی طرف پوری دنیا کی توجہ اس وقت مرکوز ہوئی جب 2014ء میں اس تنظیم نے عراق اور شام کے وسیع علاقوں پر اپنی حکومت قائم کر لی اور 29؍جون 2014ء کو اپنے مقبوضہ علاقوں میں خلافت قائم کرنے کا اعلان کر دیا۔ ان کی طرف سے ابو بکر البغدادی نامی شخص کو خلیفہ بنانے کا اعلان کیا گیا۔ اور صرف قبضہ نہیں کیا بلکہ سنجار کے علاقہ میں یزیدی مسلک سے وابستہ ہزاروں لوگوں کو قتل بھی کر دیا اور ہزاروں کو غلام اور لونڈیاں بنا لیا۔ شیعہ احباب کو بھی اپنے مظالم کا نشانہ بنایا۔ لاکھوں لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ صرف شیعہ اور یزیدی مسلک کے لوگ ہی ان سے خوف زدہ نہیں تھے کیونکہ ان کے بانی ابو مصعب الزرقاوی نے تکفیر کے فن کو کافی ترقی دی تھی اور ایسے قوانین وضع کیے تھے کہ جن کی رو سے صرف شیعہ احباب ہی نہیں بلکہ ان سنی احباب کو بھی جو ان کے سلفی مسلک سے وابستہ نہیں تھے کافر قرار دیا گیا تھا۔ اور جب انہیں کافر قرار دے دیا تو پھر ان کے نزدیک ہر ظلم جائز تھا۔ کیا یہ اسلام کی خدمت تھی کہ لوگوں کو غلام اور لونڈیاں بنانا شروع کردو۔ ظالمانہ طریق پر ان کے سر قلم کر کے ان کی وحشیانہ ویڈیو جاری کرو۔ انہیں جسمانی تشدد کا نشانہ بنائو۔ یہ سب کچھ قریب کے زمانہ میں ہوا اور ابھی ان کے مظالم کی یادیں تازہ ہیں اس لیے زیادہ تفاصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن اس کی بنیاد یہی ہے کہ اس گروہ کے ذہن میں خلافت کا جو تصور ہے وہ دنیاوی اقتدار اور تسلط تک محدود ہے۔ اسلام کی تبلیغ اور مسلمانوں کی خدمت اور اس دَور میں جو ہر طرف سے اسلام پر اعتراضات ہو رہے ہیں ان کا جواب دینے کی زحمت اور قرآن کریم کی خدمت جیسے خیالات ان لوگوں کے ذہنوں میں آ ہی نہیں سکتے۔

ان ٹھوس تاریخی حقائق کی بنیاد پر ہر انصاف پسند اسی نتیجے پر پہنچے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیاں تو بر حق ہیں کہ مسلمانوں کے زوال کی صدیاں قیام خلافت سے ختم ہوں گی۔ لیکن دنیا بھر کے مسلمانوں میں خلافت کا صحیح تصور وہی ہے جو جماعت احمدیہ پیش کرتی ہے اور خلافت احمدیہ اس لیے نعمت ہےکہ اگر کسی نے خلافت کی حقیقت سمجھنی ہے تو اسے خلافت احمدیہ کی طرف ہی دیکھنا پڑے گا۔ جماعت احمدیہ کے مخالفین نے جو بھیانک تصورات پیش کیے ہیں ان کی وجہ سے نہ صرف اسلام اعتراضات کا نشانہ بنابلکہ مسلمانوں کو ان گنت مصائب کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔ اور یہ تصورات عالمی امن کے لیے بھی خطرہ ثابت ہوئے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button