متفرق مضامین

دنیاکی بقا اپنے رب کو پہچاننے اور اس کی اطاعت میں ہے (قسط اوّل)

از افاضات امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

آگ ہے پر آگ سے وہ سب بچائے جائیں گے

جو کہ رکھتے ہیں خدائے ذو العجائب سے پیار

ہر احمدی کا کام ہے کہ جہاں اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرے دنیا کو بھی بتائے کہ ان آفات سے بچنے کا صرف ایک ہی علاج ہے کہ ایک خدا کو پہچانو اور اس کے پیاروں کو ہنسی ٹھٹھے کا نشانہ نہ بناؤ!

دنیا کے حالات روز بروز بدلتے جا رہے ہیں۔ دنیا جہاں مادی ترقیات کی نئی منازل طے کررہی ہے وہیں روحانی لحاظ سے پستی اور زوال کا شکار ہو رہی ہے۔ کئی ملحدانہ طاقتیں عواقب سے بے پرواہ اپنی دنیاوی طاقت کے زعم میں خدا کی پیاری دنیا اور اس میں رہنے والی اس کی پیاری مخلوق کی بربادی کے درپے ہیں۔ لیکن ہم احمدی اس لحاظ سے نہایت خوش قسمت ہیں کہ ہمیں امام وقت کو مان کر خدا ئے واحد کو ایک بار پھر پہچاننے کی توفیق ملی۔

دنیاوی طور پر جہاں ناعاقبت اندیش لوگ اور راہنما اپنی اپنی دینی تعلیمات سے دور ہیں وہیں اسی دوری کے سبب وہ خود کو خدا کا درجہ دےبیٹھے ہیں۔ لیکن اس غیر یقینی صورت حال میں بھی امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے خطبات، خطابات اور پیغامات کے ذریعہ ان راہنماؤں کو اسلام کی پر امن تعلیم کی حقیقت بتلا رہے ہیں۔ تمام انسانیت کو یہ سمجھا رہے ہیں کہ دنیا کی بقا اب اپنے رب کو پہچاننے اور اس کی حقیقی اطاعت سے وابستہ ہے۔

حضور انور گذشتہ چند خطبات جمعہ میں روس اور یوکرائن کے حالیہ تنازعہ کے تناظر میں دنیا کے موجودہ حالات کی سنگینی کا ذکر کرتے ہوئے نہ صرف احباب جماعت کو متوقع تیسری عالمی جنگ کے خطرات کو ٹالنے کے لیے مسلسل دعاؤں کی تحریک فرمارہے ہیں بلکہ دنیا کی بڑی طاقتوں کو بھی اس جنگ کی ممکنہ تباہی سے متنبہ کرتے ہوئے خون ریزی سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے۔ حضور انور نےفرمایا: ’’یہ امر نہایت افسوسناک ہے کہ یوکرائن میں جنگ چھڑ گئی ہے اور حالات انتہائی سنگین صورتِ حال اختیار کر چکے ہیں۔ نیز یہ بھی عین ممکن ہے کہ روسی حکومت کے آئندہ اقدامات اوراس پر نیٹو(NATO) اور بڑی طاقتوں کے ردّعمل کے باعث یہ جنگ مزید وسعت اختیار کر جائے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے نتائج انتہائی خوف ناک اور تباہ کن ہوں گے۔ لہٰذا یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ مزید جنگ اورخون ریزی سے بچنے کی ہر ممکنہ کوشش کی جائے۔ اب بھی وقت ہے کہ دنیا تباہی کے دہانے سے پیچھے ہٹ جائے۔ مَیں روس، نیٹو (NATO)اور تمام بڑی طاقتوں کو پُرزور تلقین کرتاہوں کہ وہ اپنی تمام تر کوششیں انسانیت کی بقا کی خاطر تنازعات کو ختم کرنے میں صَرف کریں اور سفارتی ذرائع سے پُر امن حل تلاش کریں۔‘‘ (پریس ریلیز 24؍فروری 2022ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم مارچ 2022ء)

پھر فرمایا: ’’دنیا کے، جنگوں کے جو آج کل کے حالات ہیں اس کے لیے دعا کریں۔ یہ خوفناک سے خوفناک ترہوتے جارہے ہیں۔ اب تو ایٹمی جنگ کی بھی دھمکیاں دی جانے لگی ہیں۔ جیسا کہ پہلے بھی مَیں نے کہا ہےاور کئی دفعہ کہہ چکا ہوں کہ جس کے خوفناک نتائج ہوں گے اور اس کے نتائج اگلی نسلوں کو بھی بھگتنے پڑیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو ان لوگوں کو عقل دے۔ ان دنوں میں درود بھی بہت پڑھیں۔ استغفار بھی بہت کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے گناہوں کو بھی معاف فرمائے اور دنیا کے لیڈروں کو بھی عقل اور سمجھ عطا فرمائے‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ4؍مارچ 2022ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 25؍مارچ 2022ءصفحہ9)

حضورِانور نےیوکرائن کے جنگ زدہ علاقوں میں مزید شورش بڑھنے پر احباب جماعت کو ایک مرتبہ پھر دعاؤں کی طرف خاص طور پر توجہ دلاتے ہوئے فرمایا: ’’جیسا کہ میں ہمیشہ تحریک کر رہا ہوں آجکل دنیا کے حالات کے لیے دعائیں کرتے رہیں، ان میں کمی نہ کریں۔ خاص طور پر یہ دعا کریں کہ دنیا اپنے پیدا کرنے والے کو پہچاننے لگ جائے، یہی ایک حل ہے دنیا کو تباہی سے بچانے کا۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور ہماری دعائیں بھی قبول فرمائے‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ 18؍مارچ 2022ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل8؍اپریل2022ءصفحہ9)

پھر فرمایا کہ ’’اسی طرح دنیا کے جو حالات ہیں اس بارے میں بھی کہنا چاہوں گا کہ دعاؤں کو جاری رکھیں۔ اللہ تعالیٰ دنیا کو تباہی سے بچائے اور انسانوں کو عقل دے اور اپنے پیدا کرنے والے کو پہچاننے والے ہوں۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ25؍ مارچ 2022ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل15؍اپریل2022ءصفحہ10)

حضور انور نے خطبہ عید الفطر فرمودہ2؍مئی 2022ء میں فرمایا کہ دنیا آج کل تباہی کی طرف جارہی ہے اور دنیا کو بچانا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ یہ اس لیے ہورہا ہے کہ دنیا میں بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ نہیںدی جارہی ہے۔ اگر دنیا میں آپس میں بندوں کے حقوق ادا کیے جاتے تو نہ تو ہم عراق، شام، افغانستان میں تباہی دیکھتے۔ یہ بھی خوش فہمی ہے کہ ایٹمی ہتھیار استعمال نہیں کیے جائیں گے لیکن باتیں تو ہورہی ہیں اور اس کی کوئی ضمانت بھی نہیں دے سکتا۔ بہر حال اس کا انجام تو بے حد خطرناک ہوسکتاہے۔ اب یہ احمدیوں کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کو حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائی جائے۔ سوشل میڈیا پر فضول باتیں کرکے وقت ضائع کرنے کے بجائے لوگوں کو خدا کی طرف بلانے کی دعوت دی جائے اور یہ سمجھانے کی کوشش کی جائے کہ خدا تعالیٰ کے احکام کی ادائیگی پر ہی دنیا میں امن قائم کیا جاسکتا ہے۔ پس یہ طریقہ تبلیغ کے نئے راستے بھی کھولے گا۔(خلاصہ خطبہ عید الفطرفرمودہ 2؍مئی 2022ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 6؍مئی2022ءصفحہ16)

اس سے قبل ایک لمبے عرصے سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز دنیا کو اس طرف توجہ دلا رہے ہیں کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے کو پہچانے، اس کی طرف توجہ کرے اور اس کے احکام کی پیروی کرے۔ ذیل میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے چند ارشادات درج ہیں جن میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس طرف توجہ دلائی ہے۔

اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹنے کی ضرورت

جلسہ سالانہ بیلجیم 2018ء کے موقع پر اختتامی خطاب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’آجکل ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کی اپنی خودغرضیوں کی وجہ سے جو خود اس نے اپنے لئے مشکلات اور مصائب سہیڑے ہوئے ہیں ان کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی آفات کا سلسلہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ کہیں طوفانوں نے انسانوں کی بربادی کے سامان کئے ہوئے ہیں تو کہیں قحط سالی نے انسانوں کو مصائب اور مشکلات میں گرفتار کیا ہو اہے۔ جن سامانوں پر انسان کو بھروسہ تھا وہ تباہ ہو رہے ہیں۔ پس ایسے میں ایک مومن کو پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹنے کی ضرورت ہے۔ اور جیسا کہ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا راستہ دکھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے فرستادے کو بھیجا ہے جنہوں نے مختلف طریقوں سے، مختلف ذریعوں سے، مختلف الفاظ میں مختلف باتوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ہماری رہنمائی فرمائی ہے۔ یہ رہنمائی جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر مشتمل ہے ہمیں ہر قسم کی آفات سے بچانے اور ہماری زندگی کے سامان کرنے کے لئے ایک ایسا ذریعہ ہے جو ہمیشہ کے لئے جاری رہنے والا ہے اور اگر ہم اس پر عمل کرنے والے ہوں تو بہترین نتائج پیدا کرنے والا ہے۔

…پس انسان کے لئے مصائب و مشکلات سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں سوائے اس کے کہ خدا تعالیٰ کی طرف جھکے اور خدا تعالیٰ کو اپنا معاون و مددگار بنائے۔ حالات ایسے ہوں جہاں ہر طرف انسان مشکلات میں گھرا ہو۔ جنگوں کے بھی خطرے ہیں۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ کس طرح بچا جا سکتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک شعر میں اس کا ذکر کردیا۔

آگ ہے پر آگ سے وہ سب بچائے جائیں گے

جو کہ رکھتے ہیں خدائے ذوالعجائب سے پیار

(درثمین اردو صفحہ154)

پس اللہ تعالیٰ سے پیار رکھنا ضروری ہے۔‘‘

(خطاب فرمودہ 16؍ستمبر2018ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل15؍فروری2019ء صفحہ24، 19)

دنیا ایک تباہی کی طرف جا رہی ہے

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’اَفَاَمِنَ الَّذِیۡنَ مَکَرُوا السَّیِّاٰتِ اَنۡ یَّخۡسِفَ اللّٰہُ بِہِمُ الۡاَرۡضَ اَوۡ یَاۡتِیَہُمُ الۡعَذَابُ مِنۡ حَیۡثُ لَا یَشۡعُرُوۡنَ (النحل: 46)

آج مادیّت کی وجہ سے، مادیّت پسندی کی وجہ سے انسان بعض اخلاقی قدروں سے دُور، مذہب سے دُور اور خدا سے دُور جا رہا ہے اور بہت کم ایسے ہیں جو اس حقیقت کو سمجھتے ہیں کہ تمام وہ نعمتیں اور وہ چیزیں جن سے انسان فائدہ اٹھا رہا ہے خداتعالیٰ کی پیدا کردہ ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کی وجہ سے انہیں انسان کے تابع کیا ہوا ہے اور پھر اس اشرف المخلوقات کو جو دماغ اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اس سے وہ نت نئی ایجادیں کرکے اپنی سہولت اور حفاظت کے سامان کر رہا ہے۔ پس یہ بات ایسی ہے کہ جو انسان کو اس بات کی طرف توجہ دلانے والی بننی چاہئے کہ وہ اپنے خدا کا شکر گزار بنے، اپنے مقصد پیدائش کو سمجھے، جو کہ اس خدائے واحد کی عبادت کرنا ہے جس نے یہ سب نعمتیں مہیا کی ہیں، جس نے یہ تمام نظام پیدا کیا اور انسان کی خدمت پر لگایا ہے۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا بہت کم ایسے ہیں جو اس حقیقت کو سمجھتے ہیں بلکہ ان لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جو نہ صرف سمجھتے نہیں بلکہ اس کے خلاف چل رہے ہیں اور مادیت پسندی اور مادیت پرستی میں اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ نہ صرف مذہب سے تعلق نہیں رہا بلکہ مذہب کا مذاق اڑانے والے بن رہے ہیں، انبیاء کے ساتھ استہزاء کرنے والے ہیں اور ایسا طبقہ بھی ہے جو خدا کے وجود کا نہ صرف انکاری ہے بلکہ مذاق اڑانے والا ہے۔ خدا سے انکار کے بارے میں کتابیں لکھی جاتی ہیں اور سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتب میں ان کا شمار ہوتا ہے، بڑی پسندیدہ کتب میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ یورپ اور مغرب میں ایسے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جو خدا سے دُور جا رہے ہیں جو اس قسم کا بیہودہ لٹریچر پیدا کر رہے ہیں اور ایسے پیدا کردہ لٹریچر کو پسند کرنے والے ہیں اور اس بات میں یہ لوگ اس لحاظ سے مجبور ہیں ان کی بیچارگی بھی ہے کہ ان کو ان کے مذہب نے دل کی تسلی نہیں دی۔

ایک خدا کی بجائے جو سب طاقتوں کا سرچشمہ اور ہر چیز کا خالق ہے، اس کو چھوڑ کر جب یہ لوگ ادھر ادھر بھٹکتے ہیں اور کئی خداؤں کے تصور کو جگہ دیتے ہیں، دعا کے فلسفے اور دعا کے معجزہ سے ناآشنا ہیں اور زندہ خدا کے تعلق سے ناآشنا ہیں۔ تو پھر ظاہر ہے کہ یہ جو ایسے لوگ سوچتے ہیں ان سوچنے والے ذہنوں کو خدا اور مذہب کے بارے میں یہ بات بے چینی میں بڑھاتی ہے کہ تصور تو مذہب کا ہے لیکن ہمیں کچھ حاصل نہیں ہو رہا۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ یہ ایک خدا کو بھول گئے ہیں اور یہی چیز ان کو مذہب سے دور لے جا رہی ہے، جیسا کہ مَیں نے کہا، بعض اس میں اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ خدا کے تصور سے ہی انکاری ہیں اور صرف انکاری نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر استہزاء آمیز الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ پھر ایک طبقہ ایسا ہے جو اسلام کے بغض اور کینے میں اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ ہر روز اسلام، بانی ٔاسلام حضرت محمد مصطفیٰﷺ اور قرآن کریم پر نئے سے نئے انداز میں حملہ آور ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ قرآن اور آنحضرتﷺ کی طرف وہ باتیں منسوب کرتے ہیں جن کا قرآن کی تعلیم اور آنحضرتﷺ کے عمل سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ تو بہرحال یہ لوگ اور پہلی قسم کے لوگ جو مَیں نے بتائے جو مذہب سے دور ہٹے ہوئے ہیں اور خدا کے تصور کو نہ ماننے والے ہیں یہ بھی تنقید کا نشانہ بنانے کے لئے زیادہ تر اسلام اور مسلمانوں کی مثالیں پیش کرتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ان سب کو نظر آ رہا ہے کہ مذہب کا اور خدا کی ذات کا صحیح تصور پیش کرنے والی اگر کوئی تعلیم ہے تو اب صرف اور صرف اسلام کی تعلیم ہے، قرآن کریم کی تعلیم ہے۔ بعض سے تو اسلام اور آنحضرتﷺ سے بغض اور کینے کا اظہاراس قدر ہوتا ہے کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اس زمانے میں، ان پڑھی لکھی قوموں میں، مغرب میں، جو اپنے آپ کو بڑا ترقی یافتہ اور آزادی کا علمبردار اور دوسروں کے معاملے میں دخل نہ دینے کا دعویٰ کرنے والے ہیں یہاں ایسے لوگ ہیں جو تمام حدیں پھلانگ گئے ہیں اور اسلام دشمنی نے ان کو بالکل اندھا کر دیا ہے۔

ہر احمدی کا فرض

…ہر احمدی کا فرض ہے کہ جہاں مخالفین کے اعتراض کو ردّ کریں، ان کو جواب دیں وہاں ان شرفاء کا شکریہ بھی اداکریں جو ابھی تک اخلاقی قدریں رکھے ہوئے ہیں۔ اُن تک اسلام کی خوبصورت تعلیم پہنچائیں۔ ان کے اندر جو نیک فطرت اور انصاف پسند انسان ہے، اس کو ایک خدا کا پیغام پہنچائیں۔ آج دنیا میں جو ہر طرف افراتفری ہے اس کی وجوہات بتائیں کہ تم لوگ خدا سے دور جا رہے ہو، اپنے پیدا کرنے والے خدا کو پہچانو، ان میں بھی ایک خدا کا پیغام پہنچائیں ان کو بتائیں کہ دل کا چین اور سکون دنیا کی چکا چوند اور لہو و لعب میں نہیں ہے، نشہ میں نہیں ہے۔ دلی سکون کے لئے یہاں کے لوگ نشہ کی بہت آڑ لیتے ہیں، ہر قسم کا نشہ کرتے ہیں۔ ان کو بتائیں کہ اصل سکون خدا کی طرف آنے میں ہے، اس لئے اس خدا کو پہچانو جو واحد اور تمام قدرتوں کا مالک ہے۔ جو لوگ حد سے بڑھے ہوئے ہیں اور مذہب سے دور جانے والے ہیں یا مذہب اور خاص طور پر اسلام سے استہزاء کرنے والے ہیں، ان کے پیچھے نہ چلو۔ اللہ تعالیٰ حد سے گزرنے والوں کی پکڑبھی کرتا ہے، ولڈرز(Wilders)جیسے لوگوں کو بھی بتائیں کہ اللہ کے عذاب کو دعوت نہ دو، اور اللہ کی غیرت کو نہ بھڑکاؤ۔

دنیا خدا کو بھولی ہوئی ہے

…تو بہرحال آج کل دنیا جس مادیت پرستی میں پڑی ہوئی ہے، اور اس میں کوئی تخصیص نہیں ہے، مغرب بھی اسی طرح ہے اور مشرق بھی اسی طرح ہے، سب خدا کو بھولے ہوئے ہیں۔ پھر بعض طبقے جو مزید آگے بڑھے ہوئے ہیں وہ پھر اللہ تعالیٰ کی غیرت کو بھڑکانے والے بھی ہیں، نہ صرف بھولے ہوئے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں بیہودہ گوئی بھی کرتے ہیں۔ یہ سب باتیں خداتعالیٰ کے عذاب کو آواز دینے والی ہیں۔ پس ہر احمدی کا فرض بنتا ہے کہ دنیا کے ہر ملک میں اتمام حجت کرنے کے لئے کمر بستہ ہو جائے۔ اسلام کی صحیح تصویر دنیا کو دکھائیں۔ عیسائیوں کو بھی، یہودیوں کو بھی، لامذہبوں کو بھی اور مسلمانوں کو بھی جو تمام نشانات دیکھنے کے باوجود مسیح موعود کا انکارکر رہے ہیں۔

علاج: ایک خدا کو پہچانو!

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’اگر مَیں نہ آیا ہوتا تو ان بلاؤں میں کچھ تاخیر ہو جاتی، پر میرے آنے کے ساتھ خدا کے غضب کے وہ مخفی ارادے جو ایک بڑی مدت سے مخفی تھے ظاہر ہو گئے‘‘۔ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ268)

گزشتہ 100سال کا جائزہ لیں تو زلزلوں اور آسمانی آفات کی تعداد گزشتہ کئی 100سال سے زیادہ ہے۔ گزشتہ گیارہ بارہ سو سال میں اتنی آفات نہیں آئیں جتنی گزشتہ 100سال میں آئی ہیں۔ اس سال بھی کئی زلزلے اور طوفان آئے اور دنیا میں کئی جگہ آئے، یہ انسان کو وارننگ ہے کہ خدا کو پہچانو۔ ہر احمدی کا کام ہے کہ جہاں اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرے دنیا کو بھی بتائے کہ ان آفات سے بچنے کا صرف ایک ہی علاج ہے کہ ایک خدا کو پہچانو اور اس کے پیاروں کو ہنسی ٹھٹھے کا نشانہ نہ بناؤ…یہ ساری چیزیں بتا رہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کام کر رہی ہے اور انسان کو اس طرف توجہ دلا رہی ہے کہ ایک خدا کی پہچان کرو اور حد سے آگے نہ بڑھو، انبیاء کا اور خدا کا استہزا ء نہ کرو۔

یہ آیت جومَیں نے تلاوت کی ہے، اس میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، اس کا ترجمہ یہ ہے کہ کیا وہ لوگ جنہوں نے بُری تدبیریں کیں امن میں ہیں کہ اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے یا ان کے پاس عذاب وہاں سے آ جائے۔ جہاں سے وہ گمان نہ کرتے ہوں۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہی بتایا ہے کہ بُری تدبیر کرنے والے اللہ کے سامنے ٹھہر نہیں سکتے ہیں۔ جب یہ لوگ حد سے بڑھتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کی چکی چلتی ہے۔ پس یہ بظاہر جو چھوٹے چھوٹے طوفان اور زلزلے ایک تسلسل کے ساتھ اس سال دنیا میں آئے ہیں، ان سے عبرت حاصل کرنی چاہئے۔ مغرب کو بھی اور مشرق کو بھی اور ہر مذہب والے کو بھی۔ مسلمانوں کو بھی اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو بھی۔ اس بات کو سوچیں اور وجہ تلاش کریں کہ کیوں خدا کا عذاب بھڑ کا ہے۔ آواز دینے والے کی اس آواز پر غور کریں، جو آپ نے فرمایا تھا کہ مَیں نہ آیا ہوتا تو بلاؤں میں تاخیر ہو جاتی۔ پس اگر ان بلاؤں سے بچنا ہے تو اس آنے والے کی آواز پر مسلمانوں کو بھی غور کرنا ہو گا اور عیسائیوں کو بھی غور کرنا ہو گا اور دوسرے مذاہب والوں کو بھی غور کرنا ہو گا اور لامذہب والوں کو بھی غور کرنا ہو گا۔ ورنہ پھرآواز دینے والے کا یہ اعلان بھی ہے کہ ’’اے یورپ! تُو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تُو بھی محفوظ نہیں اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا۔ مَیں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں۔ وہ واحد یگانہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اس کی آنکھوں کے سامنے مکروہ کام کئے گئے اور وہ چپ رہا۔ مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا۔ جس کے کان سننے کے ہوں سنے کہ وہ وقت دور نہیں۔ مَیں نے کوشش کی کہ خدا کی امان کے نیچے سب کو جمع کروں‘‘۔

پھر آپؑ فرماتے ہیں: ’’خدا غضب میں دھیما ہے تو بہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے۔ جو خدا کو چھوڑتا ہے وہ کیڑا ہے نہ کہ آدمی۔ اور جو اُس سے نہیں ڈرتا وہ مُردہ ہے نہ کہ زندہ‘‘۔ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ269)

پس یہ پیغام ہے جو آج ہر احمدی نے دنیا میں، دنیا کی بقا کے لئے، دنیا کوبچانے کے لئے دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی خدا کی حقیقی پہچان کی توفیق دے اور دنیا کو بھی اس واحد خدا کی پہچان کرانے والا بنائے تا اس واحد اور یگانہ خدا کے عذاب کی بجائے ہم اس کے رحم کو حاصل کرنے والے بن سکیں۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرموہ 24؍اگست 2007ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل لندن 14؍ستمبر 2007ء صفحہ 5تا 7)

مقصد پیدائش کو سامنے رکھیں

اللہ تعالیٰ نے انسان کا مقصد پیدائش قرآن کریم میں بڑے واضح طور پر بیان فرمایا ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اسی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’یہ یادرکھناچاہئے کہ صرف ظاہری اخلاص اور وقتی طورپر چاہے وہ وقت کی قربانی ہویا مال کی قربانی ہو، ایک حقیقی مومن کے لئے کافی نہیں ہے بلکہ مستقل مزاجی سے نیکیوں پر قدم مارنا اور تقویٰ پر چلنا اور اپنی پیدائش کے مقصد کو ہمیشہ یادرکھنایہ ایک حقیقی مومن کی شان ہے، اور شان ہونی چاہئے۔ اور مقصدِ پیدائش کے بارے میں خداتعالیٰ نے جو ہمیں توجہ دلائی ہے اُسے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔

اس بارے میں حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیں یاددہانی کرواتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’اگرچہ مختلف طبائع انسان اپنی کوتاہ فہمی یا پست ہمتی سے‘‘ یعنی اگراتنی سمجھ بوجھ نہ ہویا ہمت چھوٹی ہو اس کی وجہ سے ’’مختلف قسم کے مدّعااپنی زندگی کے لئے ٹھہراتے ہیں اور فقط دنیا کے مقاصد اور آرزوؤں تک چل کرآگے ٹھہر جاتے ہیں۔ مگر وہ مدّعاجو خداتعالیٰ اپنے پاک کلام میں بیان فرماتا ہے یہ ہے وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّالِیَعْبُدُوْنِ (الذّٰاریّٰت: 57) یعنی میں نے جنّوں اور انسانوں کواس لئے پیداکیا ہے کہ وہ مجھے پہچانیں اور میری پرستش کریں۔ پس فرمایاکہ اس آیت کی رُو سے اصل مدّعاانسان کی زندگی کاخداتعالیٰ کی پرستش اور خداتعالیٰ کی معرفت اور خداتعالیٰ کے لئے ہو جانا ہے۔ ‘‘ (اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد10 صفحہ414)

ہمارا مقصد مستقل مزاجی سے خداتعالیٰ کی عبادت کرنا ہے

پس یہ ہمیں یادرکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں آکر وقتی جوش اور جذبے کے تحت بعض قربانیاں کر لینا ہمارا مقصدنہیں ہے بلکہ ہمارا مقصد مستقل مزاجی سے خداتعالیٰ کی عبادت کرنا ہے اور عبادت کے معیار اس وقت حاصل ہوتے ہیں جب خداتعالیٰ کی معرفت حاصل ہو۔ یہ علم ہو کہ خداتعالیٰ تمام طاقتوں کا مالک ہے اور میرے ہرقول اور ہر فعل کو دیکھ رہا ہے اور نہ صرف ظاہری طورپر دیکھ رہا ہے بلکہ میرے دل کی گہرائی تک اس کی نظر ہے۔ میری نیتوں کا بھی اُس کو علم ہے جو ابھی ظاہر نہیں ہوئیں۔ اور جب یہ حالت ہو تو پھر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک انسان کوشش کرتا ہے کہ وہ خداتعالیٰ کے لئے ہوجائے۔ یعنی کوئی عمل صرف دنیاوی خواہشات پوری کرنے کے لئے نہ ہو بلکہ ہر کوشش اور ہر نیکی خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہو۔ ہماری عبادتیں صرف اُس وقت نہ ہوں جب ہمیں خداتعالیٰ کی مدد کی ضرورت ہے، جب ہم کسی مشکل میں گرفتار ہیں، جب ہماری دنیاوی ضرورتیں پوری نہیں ہو رہیں، بلکہ ہماری عبادتیں آسائش اور کشائش میں بھی ہوں۔ یہ نہ ہو کہ دنیاوی معاملات اور دنیاوی بکھیڑے اور دنیاوی کاروبار ہمیں خداتعالیٰ کی عبادت سے دُور کردیں۔ یہ مسجدصرف ایک عمارت نہ رہے اس مسجدکی وسعت اور خوبصورتی صرف یہی نہ یاددلائے کہ ہم نے اتنا وقت مسجدکی تعمیر کے لئے صَرف کر دیا۔ اتنے وقارِعمل ہم نے کئے، اتنے پیسے ہم نے بچائے۔ ہم نے اتنے گھنٹے وقارِ عمل کیا۔ ہم نے اتنا چندہ اس کی تعمیر کے لئے دیا، بلکہ یہ عمارت یہ یادکروانے والی ہوکہ اس دنیا میں مسجد کی تعمیر کرنا اگلی زندگی میں خداتعالیٰ کے اُس انعام کاوارث بنائے گا جس میں خداتعالیٰ جنت میں گھر بنا کر دے گا۔ اور یہ گھر بھی اُس وقت بنے گاجب اِس گھر کی تعمیر کے بعد اس کا حق ادا ہورہا ہوگا۔ اور مسجد کا حق ادا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کے اس ارشادپر عمل کرنے سے جس کا ایک جگہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اُن آیات میں ذکر فرمایا ہے جن کی میں نے تلاوت کی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لَاتُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَابَیْعٌ کہ اللہ تعالیٰ کے حقیقی مومن وہ ہیں جن کو اُن کی تجارتیں اور خرید و فروخت غافل نہیں کرتیں۔ کس چیز سے غافل نہیں کرتیں؟ فرمایا: عَنْ ذِکْرِاللّٰہ۔ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اور نمازوں کے قائم کرنے سے اور زکوٰۃ اداکرنے سے۔ پس ہم احمدیوں نے وہ حقیقی مومن بننا ہے جوان خصوصیات کے حامل ہوں۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ یکم نومبر 2013ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل22؍نومبر2013ءصفحہ6)

کائنات کی ہر شے سے خداکی پہچان

اس کائنات کا ذرہ ذرہ اپنے خالق کا پتا دیتا ہے اور اس کی حمد و ثنا کے گیت گاتا نظر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حقیقی مومنین کی یہ نشانی بیان فرمائی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کو ہر وقت یاد رکھتے ہیں اور دست بہ کار و دل بہ یار کا حقیقی مظہر ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’فرمایا کہ اَلَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِھِمْ کہ وہ لوگ جو اللہ کو یاد کرتے ہیں کھڑے ہوئے بھی اور بیٹھے ہوئے بھی اور اپنے پہلوؤں کے بَل بھی۔ وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش پر غور کرتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے زمین اور آسمان کو پیدا کیا۔ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلًا۔ سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ بے ساختہ یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے ربّ! تو نے ہرگز یہ چیزیں یوں ہی پیدا نہیں کیں۔ بے مقصد پیدا نہیں کیں بلکہ ہر پیدائش کا ایک مقصد ہے اللہ تعالیٰ کی جتنی مخلوق اس زمین پر بھی پائی جاتی ہے چاہے وہ زہریلے جانور ہی ہوں، ان کا بھی ایک مقصد ہے۔ اور پاک ہے تُو۔ پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔ ہم کہیں تیری اس بات کا انکار کرکے تیری خدائی کا انکارکرکے آگ کے عذاب میں نہ پڑنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے مبعوث کئے ہوئے کو ماننے کے بعد پھر اور بھی زیادہ ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف توجہ پیدا ہو اور ہر وقت ہر سوچ کے ساتھ اور ہر چیز جو اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہے اس کو دیکھ کر ایک احسان مندی اور شکر گزاری کے جذبات پیدا ہوں۔ اور جب ذکر ہو گا تو عبادت کی طرف توجہ ہو گی اور جب عبادت کی طرف توجہ پیدا ہو گی تو اللہ تعالیٰ کے جو احکامات ہیں ان کی پابندی کرنے کی طرف بھی توجہ پیدا ہو گی۔ تو یہ ایک ایسا دائرہ ہے جس کے اندر آ کر انسان پھر نیکیوں پر عمل کرتا ہے۔ نیکیوں کو کرنے کی توفیق پاتا ہے اور شکرگزاری کے جذبات سے سرشار رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے جو چیز بھی زمین و آسمان میں پیدا کی ہے اس پر غور کرکے اللہ تعالیٰ پرایک بندے کا ایمان مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی پہچان کرنے کی کوشش کرنے والا ہو۔

اس علاقے میں بھی ہم دیکھتے ہیں اونچے پہاڑ ہیں۔ گہری کھائیاں ہیں۔ آبشاریں ہیں۔ ندی نالے ہیں۔ جھیلیں ہیں، لیک ڈسٹرک کا علاقہ کہلاتا ہے، بہت ساری جھیلیں ہیں۔ تو یہ سب جو ہیں خدا کا تصور پیش کرتی ہیں۔ ان چیزوں کی تصویر کشی کرتی ہیں جو خداتعالیٰ نے پیدا کیں اور ہمارے فائدے کے لئے پیدا کیں۔ اگر ہم کائنات کا نقشہ دیکھیں تو جو بھی اپنی دوربینوں سے سائنسدانوں نے تصویر لی ہے کائنات کے اس پورے یونیورس (Universe) کی تو ہماری زمین جو ہے ان ستاروں کے جھرمٹ میں ایک چھوٹا سا ایسا نقطہ نظر آتا ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ یہ لکھا جاتا ہے کہ ہماری زمین یہیں کہیں ہو گی۔ اس زمین میں ہی بے شمار چیزیں اللہ تعالیٰ نے ایسی پیدا کر دی ہیں جو انسان جب دیکھے تو نئی سے نئی لگتی ہیں۔ کسی بھی رستے پہ چلے جائیں، کسی بھی جنگل میں چلے جائیں، کسی بھی دریا کے کنارے کھڑے ہو جائیں، ریگستانوں میں کھڑے ہو جائیں تو آپ کو اللہ تعالیٰ کی قدرت ایک نئے رنگ سے نظر آئے گی۔ قدرت کے جلوے ایک نئی شان سے ظاہر ہو رہے ہوں گے جو خداتعالیٰ کی خدائی پر بے اختیار یقین قائم کرتے ہیں۔ یہ بھی ایک احمدی کی شان ہے کہ اس زمانہ کے امام کو پہچان کرا ن چیزوں کی طرف مزید توجہ پیدا ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کی صنّاعی کی طرف، قدرت کی طرف، اس کی پیدائش کی طرف ایک توجہ پیدا ہوئی۔ ورنہ علامہ اقبال ایک مشہور شاعر تھے انہوں نے اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہوئے ایک شکوہ کی نظم لکھی جس کا نام شکوہ تھا کہ اللہ تعالیٰ مجھے شکل مجاز میں نظر آ۔ مسلمان بھی تھے، عالم بھی تھے، بہت پڑھے ہوئے بھی تھے لیکن اللہ تعالیٰ کی پیدائش کو دیکھ کر خداتعالیٰ کی پہچان ان کو نہ ہو سکی۔ لیکن ایک احمدی خاتون جو زمانے کے امام کی پیاری بیٹی تھی انہوں نے ان کی گودمیں تربیت پائی تھی، انہوں نے اس کا جواب لکھا کہ مجھے پہاڑوں کی بلندیوں میں دیکھو، مجھے گہری کھائیوں میں بھی دیکھو، ع

مجھے دیکھ رفعت کوہ میں، مجھے دیکھ پستی کاہ میں

اور ہر چیزاور خداتعالیٰ کی جو ہرپیدائش ہے، اس میں مَیں شکل مجاز میں نظر آؤں گا اور تمہیں ہر چیز کو دیکھ کر، میری صناعی کو دیکھ کر میری یاد آنی چاہئے۔ تو یہ ہے ایک احمدی کا طرہ امتیاز جس کواللہ تعالیٰ کی پہچان ہر چیز کو دیکھ کر پہلے سے زیادہ ہوتی ہے اور ایمان مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جاتا ہے۔

…یہ جو علوم ہیں یہ بھی دین کی مدد کے لئے ہیں اور یہ بھی اللہ تعالیٰ نے انسا ن کو جو عقل دی ہے اس کی وجہ سے انسان حاصل کرتا ہے۔ آج سائنس میں بڑی ترقی ہے۔ یہ ترقی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں پہلے بیان کر دی تھی کہ ایک وقت میں ہوگی اور انسان دنیا میں بھی ہر علم میں ترقی کرے گا لیکن اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیرنہیں ہوسکتا۔ سائنسدانوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بھی جب غور کرتے ہیں تو ان پر بھی ایک دفعہ ایسی کیفیت طاری ہو جاتی ہے جو الہامی کیفیت ہوتی ہے، چاہے وہ اس وقت خدا سے مانگ رہے ہوں یا نہ مانگ رہے ہوں۔ محنت، توجہ اور شوق ہوتا ہے پھر ایک چیز کی لگن ہوتی ہے اور اس کے لئے پھر لاشعوری طور پر اللہ تعالیٰ سے مدد بھی مانگ رہے ہوتے ہیں۔ اس وقت پھر اللہ تعالیٰ ان کے لئے راستے کھولتا ہے اور ان کو نئے راستے دکھاتا ہے۔ اللہ کرے کہ ہم صحیح رنگ میں اس کے عبادت گزار بھی بنیں اور اس کی پیدائش کو دیکھ کر اس پر غور کرتے ہوئے اس کے وجود پر ایمان مضبوط سے مضبوط تر کرتے چلے جانے والے ہوں۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ10؍اپریل2009ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم مئی2009ءصفحہ5تا6)

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button