متفرق مضامین

قدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت

خصوصی پیغام امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نشر کردہ مورخہ 15؍ مئی 2022ء برموقع دوسرا The God Summit (منعقدہ 14 و 15؍ مئی 2022ء)

’’جو شخص مشکل اور مصیبت کے وقت خدا سے دعا کرتا اور اس سے حل مشکلات چاہتا ہے وہ بشرطیکہ دعا کو کمال تک پہنچاوے خدا تعالیٰ سے اطمینان اور حقیقی خوشحالی پاتا ہے۔ اور اگر بالفرض وہ مطلب اس کو نہ ملے تب بھی کسی اَور قسم کی تسلی اور سکینت خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کو عنایت ہوتی ہے اور وہ ہرگز ہرگز نامراد نہیں رہتا اور علاوہ کامیابی کے ایمانی قوت اس کی ترقی پکڑتی ہے اور یقین بڑھتا ہے لیکن جو شخص دعا کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف منہ نہیں کرتا وہ ہمیشہ اندھا رہتا اور اندھا مرتا ہے۔‘‘

(ادارہ ریویو آف ریلیجنز کو مورخہ 14 اور 15؍ مئی 2022ء بروز ہفتہ و اتوار دوسرے کامیاب The God Summit کا آن لائن انعقاد کرنے کی توفیق ملی۔ اس پروگرام کے لیے امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ الودود بنصرہ العزیز نے ازراہِ شفقت ایک خصوصی پیغام ریکارڈ کروایا جسے احبابِ جماعت کے استفادے کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔)

تسمیہ پڑھنے کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

ریویو آف ریلیجنز اس سال خدا تعالیٰ کے وجود پہ جو Summit منعقد کر رہے ہیں انہوں نے مجھے بھی کہا کہ میں بھی اس بارے میں کچھ ان سے شیئر کروں، کچھ کہوں۔ اس وقت مَیں

دعاؤں کی قبولیت کے بارے میں چند واقعات

پیش کر دیتا ہوں لیکن اس سے پہلے میں

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو دعا کے متعلق پُرحکمت اور معرفت سے پُر باتیں

کی ہوئی ہیں ان میں سے چند ایک بیان کرنا چاہتا ہوں جن سے پتہ لگے کہ دعا کیا چیز ہے اور کس طرح کی دعائیں اللہ تعالیٰ قبول کرتا ہے کس حالت میں قبول کرتا ہے مختصراً پیش کروں گا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’میں سچ کہتا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ کے حضور ہماری چلاہٹ ایسی ہی اضطراری ہو تو وہ اس کے فضل اور رحمت کو جوش دلاتی ہے۔ اور اس کو کھینچ لاتی ہے۔‘‘(ملفوظات جلد1صفحہ198ایڈیشن1984ء)یعنی اگر اللہ تعالیٰ کے حضور دل سے آواز نکلی ہو، چلاہٹ ہو تو پھر اللہ تعالیٰ فضل فرماتا ہے اور دعاؤں کو قبولیت بخشتا ہے۔

پھر فرمایا کہ ’’ابتلاؤں میں ہی دعاؤں کے عجیب و غریب خواص اور اثر ظاہر ہوتے ہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ہمارا خدا تو دعاؤں ہی سے پہچانا جاتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد3صفحہ201ایڈیشن1984ء)

پھر آپؑ نے یہ بھی فرمایا کہ

دعا سے عجیب عجیب کارنامے سرانجام پاتے ہیں لیکن دعا کرنے والے آدابِ دعا سے واقف نہیں جو قبولیت دعا کے لیے ضروری ہیں

اور اگر لوگ ان سے واقف ہو جائیں اور دعا صحیح طریقے سے کریں اور اللہ تعالیٰ کے آگے چلائیں اور گڑگڑائیں ضرورت بیان کریں اور حقیقی رنگ میں دعا کے جو لوازمات ہیں ان کو پورا کرنے والے ہوں تو اللہ تعالیٰ دعاؤں کو سنتا بھی ہے اور اسی سے اپنے وجود کا ثبوت بھی دیتا ہے۔

پھر ایک موقع پر آپؑ نے فرمایا کہ ’’جو شخص مشکل اور مصیبت کے وقت خدا سے دعا کرتا اور اس سے حل مشکلات چاہتا ہے وہ بشرطیکہ دعا کو کمال تک پہنچاوے خدا تعالیٰ سے اطمینان اور حقیقی خوشحالی پاتا ہے‘‘۔ اس شرط کے ساتھ کہ دعا کو کمال تک پہنچائے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے فرمایا کہ ’’اور اگر بالفرض وہ مطلب اس کو نہ ملے‘‘ جس چیز کے لیے دعا کر رہا ہے اگر وہ مقصد حاصل نہیں بھی ہوتا ’’تب بھی کسی اَور قسم کی تسلی اور سکینت خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کو عنایت ہوتی ہے‘‘ ضروری نہیں ہے کہ جس مقصد کے لیے دعا کر رہا ہے وہ ضرور مقصد پورا ہو جائے اگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ نہیں بھی مل رہا اور حقیقی دعا ہے جو رنگ دعا کا ہونا چاہیے وہ اس شخص میں پیدا ہو گیا ہے جو دعا کر رہا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ اس دعا کو اگر اس طرح من و عن پورا نہ بھی کرے لیکن کم از کم سکینت دل کو دے دیتا ہے۔ انسان کی تسلی ہو جاتی ہے اور اس کو اطمینان حاصل ہو جاتا ہے ’’اور وہ ہرگز ہرگز نامراد نہیں رہتا‘‘۔ اس کو یہ خیال نہیں ہوتا کہ میں نامراد ہو گیا، میری دعا قبول نہیں ہوئی یا اللہ تعالیٰ کا مجھے پتہ نہیں لگا اور فرمایا کہ ہرگز نامراد نہیں رہتا ’’اور علاوہ کامیابی کے ایمانی قوت اس کی ترقی پکڑتی ہے‘‘۔ ایمان میں بھی ترقی کرتا ہے ’’اور یقین بڑھتا ہے لیکن‘‘ جودعا نہیں کرتے ان کے بارے میں فرمایا کہ

’’جو شخص دعا کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف منہ نہیں کرتا وہ ہمیشہ اندھا رہتا اور اندھا مرتا ہے‘‘۔

فرماتے ہیں کہ ’’……جو شخص روح کی سچائی سے دعا کرتا ہے وہ ممکن نہیں کہ حقیقی طور پر نامراد رہ سکے بلکہ وہ خوشحالی جو نہ صرف دولت سے مل سکتی ہے اور نہ حکومت سے اور نہ صحت سے بلکہ خدا کے ہاتھ میں ہے جس پیرایہ میں چاہے وہ عنایت کر سکتا ہے ہاں وہ کامل دعاؤں سے عنایت کی جاتی ہے۔‘‘ اگر دعائیں ہوں تو یہ سب چیزیں مل جاتی ہیں جو انسان چاہ رہا ہوتا ہے جو تسلی اور سکون نہ تمہیں کوئی دولت دے سکتی ہے، نہ حکومت کے اختیارات تمہیں وہ سکون اور تسلی دے سکتے ہیں، نہ صحت سے اپنی ذات کے لیے تم وہ سکون پا سکتے ہو لیکن جب دعا کر رہے ہو تو اللہ تعالیٰ ایسے انتظام کر دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ ساری چیزیں تمہاری خواہشات میں پوری ہو جاتی ہیں جن کو دنیاوی وسائل پورا نہیں کر سکتے۔ فرمایا کہ

’’اگر خدا تعالیٰ چاہتا ہے تو ایک مخلص صادق کو عین مصیبت کے وقت میں دعا کے بعد وہ لذت حاصل ہو جاتی ہے جو ایک شہنشاہ کو تخت شاہی پر حاصل نہیں ہو سکتی۔ سو اسی کا نام حقیقی مرادیابی ہے جو آخر دعا کرنے والوں کو ملتی ہے۔‘‘

(ایام الصلح، روحانی خزائن جلد14 صفحہ237)

پھر آپؑ نے ایک جگہ فرمایا کہ یہ سچی بات ہے کہ جو شخص اعمال سے کام نہیں لیتا وہ دعا نہیں کرتا اور صرف یہ کہنا کہ مَیں نے دعا کرلی اور جو اسباب ہیں ان کو استعمال نہیں کیا، اپنے عملوں کو ٹھیک نہیں کیا، ان کو خداتعالیٰ کی رضا کے مطابق نہیں ڈھالا تو پھر وہ شخص جو ہے ناں اس کے متعلق یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ دعا کرتا ہے۔

اعمال کی بہتری بھی ضروری ہے۔ اسباب کا استعمال بھی ضروری ہے۔

پھر دعا کرو اور اللہ تعالیٰ پھر قبول بھی کرتا ہے جہاں جہاں وسائل ہیں اور جہاں بالکل ہاتھ پیر بندھ جاتے ہیں ا ور انسان مجبور ہو جاتا ہے وہاں کوئی اسباب استعمال نہیں ہو سکتے لیکن اللہ تعالیٰ انسان کی نیت کو جانتا ہے یہ دیکھ لیتا ہے کہ یہ انسان مخلص ہے، اس کے عمل نیک ہیں اور یہ خالص ہو کر میری طرف آیا ہے تو تب بھی اللہ تعالیٰ دعا قبول کر لیتا ہے۔ فرمایا کہ اگر اعمال تمہارے اچھے نہیں ہیں اور پھر تم دعا کرتے ہو تو پھر تم خدا تعالیٰ کی آزمائش کر رہے ہوتے ہو اور یہ نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ کی آزمائش نہ کرو اس لئے فرمایا کہ دعا کرنے سے پہلے اپنی تمام طاقتوں کو خرچ کرنا ضروری ہے اور یہی معنی دعا کے ہیں۔ پہلے لازم ہے کہ انسان اپنے اعتقاد و اعمال پر نظر کرے۔ یہ دیکھنا چاہیے کہ ہمارے اعمال کیا ہیں ہمارا اعتقاد کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ پر ہمیں پورا بھروسہ ہے اور یقین رکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی نہیں جو ہماری ضرورتوں کو پورا کرے۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد1صفحہ124 ایڈیشن1984ء)

اب ان باتوں کے ساتھ میں چند واقعات جیسا کہ مَیں نے کہا تھا پیش کرتا ہوں۔

آئیوری کوسٹ

کا ایک واقعہ ہمارے معلم نے لکھا۔ ایک مخلص احمدی ہیں وہاں عبداللہ صاحب ان کے بارے میں لکھا کہ میرے بھائی کو اس طرح پولیس پکڑ کر لے گئی ہے اور عدالت نے اس کو نشہ بیچنے کے جرم میں بیس سال قید کی سزا سنا دی۔ کہتے ہیں میں بڑا پریشان تھا کہ میرے بھائی کو اس طرح پولیس پکڑ کے لے گئی ہے۔ مجرم نہیں ہے۔ کہتے ہیں اس پریشانی کی حالت میں انہوں نے مجھے یہاں لندن میں خط لکھا۔کہتے ہیں خلیفۃ المسیح کو میں نے خط لکھا دعا کے لیے اور خود بھی اپنے بھائی کی رہائی کے لیے دعا شروع کر دی۔ کہتے ہیں لیکن اس کے باوجود رہائی کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی تھی۔ کہتے ہیں ایک دن خواب میں مَیں نے دیکھا، مجھے لکھ رہے ہیں وہ کہ خلیفۃ المسیح کو دیکھا، آپ کو دیکھا اور آپ نے فرمایا کہ پریشان نہ ہو اور صبر کرو تمہارا بھائی جلدی رہا ہو جائے گا۔ صبح جب میں اٹھا تو مجھے بڑی تسلی تھی اور یقین تھا کہ ان شاء اللہ تعالیٰ اللہ کوئی معجزہ دکھائے گا اور میرا بھائی رہا ہو کے آ جائے گا لیکن بھائی نے کیا رہا ہونا تھا الٹا کچھ دن کے بعد ان کی والدہ کی طبیعت خراب ہو گئی۔ ان کو شہر کے بڑے ہسپتال میں لے جانا پڑا اور وہاں انہوں نے داخل کر لیا۔کہتے ہیں میں بڑا پریشان کہ پہلے ایک مصیبت تھی اب دوسری مشکل بھی آگئی۔والدہ بیمار ہو گئی ہیں، بڑی کرب کی حالت تھی، بڑی بے بسی کی حالت تھی، بہت پریشان تھا کہ مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔ پھر مَیں نے دعا کی تو کہتے ہیں رات کو سویا تو پھر انہوں نے مجھے خواب میں دیکھا اور میں نے ان کو کہا کہ اٹھو اور جا کے دروازہ کھولو۔ کہتے ہیں میں بیدار ہو گیا۔ ایک دم میں جاگا، آنکھ کھلی میری تو دیکھا دروازے پر کوئی knockکر رہا تھا۔ جا کے میں نے دروازہ کھولا تو کہتے ہیں وہاں میرا بڑا بھائی موجود تھا۔ اس نے کہا کہ پولیس نے مجھے آج رہا کر دیا ہے اور کہتے ہیں یہ سب اللہ تعالیٰ کے فضل سے دعاؤں کی برکت کا معجزہ ہے اور خلیفہ وقت سے تعلق کا معجزہ ہے۔

اب

بینن کا ایک واقعہ

ہے۔ تین چار ملکوں کا بیچ میں فاصلہ ہے۔ وہاں اس طرح وسائل اور آپس کے اس طرح لوگوں کے رابطے کوئی نہیں ہیں اور کوئی نہیں ایک دوسرے کو جانتے لیکن اللہ تعالیٰ دعاؤں کے نظارے ہر جگہ دکھاتا ہے۔ ایک نومبائع ہیں وہ کہتے ہیں کہ گاؤں میں سیکنڈری سکول کے امتحان کے لیے صرف تین بچے کوالیفائی ہوئے اور وہ تینوں احمدی تھے اور وہاں گاؤں میں ایسی کوئی پڑھائی بھی نہیں ہوتی کہ جسے کہا جائے کہ آگے جو بورڈ کا امتحان ہو گا اس میں اچھے نمبروں میں پاس ہو جائیں گے بلکہ پاس بھی ہوں گے کہ نہیں۔ تو کہتے ہیں مجھے خط لکھا انہوں نے کہ دعا کریں کہ اس طرح گاؤں کی پڑھائی کا ایسا انتظام نہیں ہے اور ہم نومبائع بھی ہیں اور سارے گاؤں کے سکول میں سے صرف تین بچے سلیکٹ(select) ہوئے ہیں باقی سب کو رجیکٹ (reject)کر دیا گیا ہے، ہم اچھے نمبروں میں پاس ہو جائیں۔ اچھے نمبروں میں کیا صرف پاس ہی ہو جائیں تو بڑی غنیمت ہے۔ تو اس پہ میں نے ان کو بچوں کی کامیابی کے لیے دعا کا جواب دیا تو کہتے ہیں جب یہ خط ہمیں ملا تو ہمیں یقین ہو گیا کہ اب ہمارے بچے اور میرے بچوں کو بھی یقین ہو گیا کہ ضرور اللہ تعالیٰ فضل کرے گا اور ہم تینوں بچے پاس ہو جائیں گے۔ چنانچہ جب بورڈ کا رزلٹ آیا تو نہ صرف پاس ہوئے ہوئے تھے بلکہ بڑے اچھے نمبروں میں پاس ہوئے ہوئے تھے۔ تو کہتے ہیں اس کے بعد سے اللہ تعالیٰ پہ ہمارا یقین اور ایمان اور بڑھ گیا۔

پھر اسی طرح ایک اَور واقعہ

گیمبیا

کا لکھا ہے۔ یہاں بھی کہتے ہیں ایک دوست ہیں عمر صاحب انہوں نے 2017ء میں فیملی کے ساتھ بیعت کی تھی۔ ان کی بیوی کو یوٹرس(uterus) کا کینسر، رحم کا کینسر تھا۔ سات سال قبل بچے کی پیدائش ہوئی تھی اور اس کے بعد کینسر ہو گیا۔ ڈاکٹروں نے کہہ دیا کہ اس کا کوئی علاج نہیں اور تمہارے اولاد پیدا ہونا ممکن ہی نہیں ہے۔ ان کی بیوی اس وجہ سے بڑی پریشان رہتی تھی۔ ایک بیماری بھی ہے اولاد بھی نہیں اور ہو سکتی۔ زندگی موت کا سوال ہے۔ پتہ نہیں کتنی زندگی رہتی ہے کہ نہیں۔ چھوٹا بچہ ہے اس کی بھی خوشیاں دیکھیں گی کہ نہیں۔ بہرحال بیعت کرنے کے بعد کہتے ہیں ان کی بیوی نے ایک لیف لیٹ لیا اس پر تصویر میری تھی۔ کہتی ہیں وہ تصویر دیکھ کر پتہ نہیں میرے دل میں خیال پیدا ہوا اور سکون پیدا ہوا تو میں دعا بھی کرتی رہی اور اللہ تعالیٰ سے مزید تسکین کی دعا مانگتی رہی۔ پھرانہوں نے مجھے خط لکھا اور اپنی دعا کی درخواست کے ساتھ بیماری اور اولاد کی خواہش کا بھی ذکر کیا۔ اللہ کا فضل ایسا ہوا کہ کچھ دیر کے بعد وہ حاملہ ہو گئیں اور جب ڈاکٹروں اور نرسوں نے چیک کیا تو حیران تھے۔ وہ ان کو کہہ رہے تھے کہ ہم نے تو جواب دے دیا تھا اور یہ میڈیکلی ممکن نہیں تھا کہ اب اس عورت کا بچہ پیدا ہو۔ پھر جب انہوں نے pregnancyٹیسٹ کے بعد دوبارہ کینسر کا ٹیسٹ کیا اور دیکھا تو وہ بھی بالکل نیگیٹو (negative)آیا۔ اس پر ڈاکٹر بڑے حیران تھے۔ ڈاکٹر نے اس نومبائع خاتون سے پوچھا تم نے کون سی دوائی استعمال کی ہے کہ جس سے یہ کینسر بھی ختم ہو گیا اور تمہاری یہ مشکل اور اس طرح کی تکلیف دور ہو گئی جس پر میڈیکلی تو ہمیں یقین تھا کہ نہیں ہو سکتی۔ کہنے لگی میں نے کوئی دوا نہیں استعمال کی۔ مَیں نے تو خلیفۂ وقت کو دعا کے لیے لکھا تھا اور خود بھی دعا کر رہی تھی اور یہ دعا کی برکتیں ہیں اور یہی میرا علاج ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے اس کی وجہ سے فضل فرمایا ہے۔

ایک اَور

کبابیر

کی خاتون ہیں۔ کہتی ہیں چھ دفعہ میرے حمل ضائع ہوا اور ڈاکٹروں نے میری حالت کو غیر معمولی قرار دے دیا۔ بچے کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی تھی۔ اس دوران میں ان کے خاوند یہاں لندن آئے۔ یہاں میرے سے ان کی ملاقات ہوئی۔ انہوں نے ساری حالت بتائی۔ دعا کی درخواست کی۔ اس وقت مَیں نے انہیں کہا کہ اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا۔ آپ کے ان شاء اللہ تعالیٰ حمل ٹھہر جائے گا، بچہ بھی پیدا ہو جائے گا۔ چنانچہ اس کے کچھ عرصہ بعد حمل ٹھہر گیا اور ایک بچی اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا کی اور پھر یہیں اللہ تعالیٰ کے فضل ختم نہیں ہوئے بلکہ بیٹی کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک بیٹے سے بھی نوازا ہے۔

پھر

مالدا صوبہ بنگال انڈیا

کے ایک معلم صاحب ہیں ان کے گردے خراب ہو گئے۔ یہ 2005ء کی بات ہے۔ اور ڈاکٹروں نے علاج کرنے کی کوشش کی۔ کوئی صورت پیدا نہیں ہو رہی تھی۔ ڈاکٹروں نے جواب دے دیا کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ 2005ء میں جب مَیں قادیان گیا ہوں تو وہاں ان کی فیملی ملاقات تھی انہوں نے اپنی بیماری کا ذکر کیا۔ معلم صاحب نے دعا کی درخواست کی اور اس کے کچھ عرصہ کے بعد وہ دوبارہ چیک اپ کرانے ہسپتال گئے تو ڈاکٹر حیران رہ گئے کہ گردے غیر معمولی طور پر ٹھیک ہو گئے ہیں اور اللہ کے فضل سے اس کے بعد وہ بالکل صحت یاب ہیں۔ تو یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے دعا کے بارے میں کہ

غیر ممکن کو یہ ممکن میں بدل دیتی ہے

(ماخوذ از کلام محمودصفحہ105شائع کردہ نظارت نشر واشاعت قادیان 2000ء)

پھر

فرانس

کے رہنے والے ایک صاحب ہیں۔ کہتے ہیں میں جس علاقے میں رہتا ہوں وہاں کوئی احمدی نہیں تھا۔ 2016ء میں انہوں نے بیعت کی تو کہتے ہیں بچپن میں آٹھ یا نو سال کی عمر میں ایک کتاب پڑھی تھی جس کا نام ’’مسیح الدجال‘‘ تھا۔ اس کتاب میں تین گروہوں کا ذکر تھا، ایک فلاح پانے والے دوسرے بزدل اور تیسرے شہداء۔ اس وقت مَیں نے خداتعالیٰ سے دعا کی کہ اے اللہ! مجھے فلاح پانے والے گروہ میں شامل کرنا۔ کچھ عرصہ بعد یہ ہجرت کر کے کسی عرب ملک سے فرانس آ گئے۔ کہتے ہیں یہاں ایک ٹی وی چینل نظر آیا، اس کی وجہ سے جماعت سے متعارف ہوا۔ ایم ٹی اے کو دیکھا انہوں نے اور پھر اس کو دیکھتے رہے اور جماعت کی صداقت کے قائل ہو گئے لیکن بیعت نہیں کی۔ تو کہتے ہیں کسی وجہ سے میرے ہاں اولاد نہیں تھی تو ایم ٹی اے پہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جو دعائیں آتی تھیں وہ مَیں نے سننی شروع کیں اور ساتھ پڑھتا بھی تھا۔ اپنے لیے دعا بھی کرتا تھا تو ان دعاؤں کی برکت سے خدا تعالیٰ نے کچھ ہی عرصہ بعد مجھے اولاد سے نوازا۔ حالانکہ اس سے قبل ڈاکٹر کہہ چکے تھے کہ میرے ہاں کوئی اولاد نہیں ہو سکتی۔ یہ بھی کہتے ہیں میرے لیے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ایک نشان اللہ تعالیٰ نے مجھے اس طرح دعا قبول کر کے دکھایا۔

پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ ایک خادم تھے کام کے نہ ملنے کی وجہ سے بڑے پریشان تھے اور ایک دن بہت پریشانی کے عالم میں آئے اور بہت رونے لگ گئے اور رونا اس بات پہ تھا کہ میں چندہ نہیں ادا کر سکتا۔ خیر مبلغ کہتے ہیں میں نے ان کو کہاکہ آپ خلیفۃ المسیح کو باقاعدگی سے خط لکھا کریں، دعا کے لیے کہیں تو کچھ عرصہ کے بعد یہ آئے اور کہاں تو یہ حالت تھی کہ چندہ نہیں ادا کر سکتے تھے کہاں آتے ہی کہنے لگے کہ مجھے وصیت فارم دیں میں نے وصیت کرنی ہے۔ مَیں نے کہا تم وصیت کس طرح کرو گے تمہاری تو آمد کوئی نہیں۔ انہوں نے کہا نہیں اب اللہ نے دعاؤں کو قبول کیا ہے اور مجھے مستقل ایک نوکری چالیس ہزار فرانک سیفا کی مل گئی ہے اور اس پر میں اب وصیت کروں گا اور یہ دعاؤں کو قبول کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا ہے اس لیے میرے لیے ضروری ہے کہ وصیت کروں اور بڑی باقاعدگی سے بڑے اخلاص سے اب باقاعدہ چندہ دینے والے ہیں۔ ایمان اور یقین میں بڑھ رہے ہیں اللہ تعالیٰ پر ان کو پہلے سے بڑھ کر ایمان ہو گیا ہے۔

پھر ایک

کونگو کنشاسا

کے آدمی ہیں۔ وہاں کے مبلغ نے لکھا کہ ہم نے وہاں پروگرام کے تحت قیدیوں میں کھانا تقسیم کیا۔ قیدیوں کو اسلام کی تعلیمات کے بارے میں بتایا۔ کہتے ہیں چند دن کے بعد اس پروگرام کے ایک دوست مشن ہاؤس میں آئے اور کہنے لگے میں بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ جب ان سے پوچھا گیا کیوں بیعت کیوں کرنا چاہتے ہیں، کیا ہوا ہے، کہاں سے آئے ہیں، آپ کا کیا تعارف ہے؟ وہ کہنے لگے کہ جس جیل میں آپ آئے تھے میں بھی اس جیل میں قید تھا۔ میں بے قصور تھا اور بے قصور جیل میں ڈالا گیا تھا۔ جرم میرے ایک ساتھی نے کیا تھا اور وہ دوڑ گیا اور مجھے انہوں نے پکڑ کر جیل میں ڈال دیا۔ کہتے ہیں جیل میں جب آپ لوگ آئے اور پروگرام کے بعد آپ نے دعا کرائی۔ دعا کے بارے میں حکمت بتائی اور پھردعا بھی کرائی۔ کہتے ہیں میں بھی شامل تھا تو میں نے وہاں دعا کی کہ اے اللہ! اگر تُو دعائیں سنتا ہے اور اگر یہ لوگ سچے ہیں تو میری مددکر اور مجھے یہاں سے رہائی دلوا دے۔ تجھے پتہ ہے کہ مَیں بے قصور ہوں۔ تو کہتے ہیں مَیں نے دل میں سوچا ہوا تھا کہ اگر یہ جماعت سچی ہے تو اللہ تعالیٰ میری دعا ضرور قبول کر لے گا۔ اس دعا کوکرتے کرتے یہ بات میرے دل میں گڑ گئی کہ

اگر جماعت سچی ہے تو میری دعا بھی آج قبول ہو جائے گی اور اللہ تعالیٰ غیب سے رہائی کے سامان بھی پیدا کر دے گا۔

کہتے ہیں چنانچہ ایسا ہی ہو گیا۔ وہ میرا ساتھی جو جرم کر کے فرار ہو گیا تھا وہ اچانک خود بخود نہ صرف واپس آ گیا بلکہ جیل میں آ کے سب کے سامنے میری بے گناہی کا اعلان کر دیا اور خود کو گرفتاری کے لیے پیش کر دیا۔ انہوں نے کہا یہ گناہ گار نہیں مَیں اصل مجرم ہوں۔ تو اس وجہ سے مَیں آج رہا ہوکے سیدھا مشن ہاؤس آ گیا ہوں اور جماعت کا جب اسے مزید تعارف کروایا گیا تو کہنے لگا میرے لیے اللہ تعالیٰ نے خود اس جماعت کی سچائی کا ثبوت دے دیا ہے اور اپنے وجود کا بھی ثبوت دے دیا ہے۔ دعاؤں کی قبولیت کا بھی ثبوت دے دیا ہے اور اسی وقت بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو گیا۔تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ فرمایا ہے۔

قدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت

اُس بےنشاں کی چہرہ  نمائی یہی تو ہے

(درثمین اردو صفحہ158)

اس طرح اللہ تعالیٰ اپنے نشانات دکھاتا ہے اور یہ سینکڑوں ہزاروں واقعات ہر سال آتے ہیں۔ ان میں سے چند ایک مَیں نے بیان کیے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایمان اور ایقان میں بھی مضبوط کرے اور دعائیں کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو قبول بھی فرمائے اور اللہ تعالیٰ یہ Summitجس نیت سے منعقد کیا جا رہا ہے اس کو اللہ تعالیٰ بابرکت فرمائے اور لوگوں کے لیے ازدیاد ایمان کا باعث بنے۔

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button