اداریہ

صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے ہیں درندے ہر طرف مَیں عافیت کا ہوں حصار

خلیفہ اللہ تعالیٰ کے نبی کا نائب اور اس کی خصوصیات اپنے اندر سموئے ہوئے اس کے کاموں کو آگے بڑھاتا ہے۔ جس طرح نبی شریعت کا پاسبان اور محافظ اور اُس کے احکامات کی بابت لوگوں کو اپنا ذاتی نمونہ پیش کرتے ہوئے دعوتِ عمل دینے والا ہوتا ہے اسی طرح خلیفہ بھی۔ شریعت کیا ہے؟ ایک ایسا راستہ، ایسا قانون جس پر چل کر انسان اپنے پیدائش کے مقصد کو پالے۔ شریعت انسان کو خداتعالیٰ سے ملانے اور پھر اُس ذاتِ واحد و لاشریک کی محبت میں فنا ہوتے ہوئے اُس کے بندوں، اُس کی مخلوق کے حقوق ادا کرنے کے بارے میں انسان کی راہنمائی کرتی ہے۔ شریعت ایک ایسے قلعے کی مانند ہے جس کے مضبوط حصار کے اندر انسان دینی و دنیاوی راحت اور سکون اور آرام پانے کے ساتھ ساتھ طرح طرح کے ابتلاؤں اور پریشانیوں سے محفوظ رہتا ہے۔ بہت ہی خوش نصیب ہوتی ہے وہ قوم اور اُس زمانہ کے لوگ جس میں شریعت کا پاسبان، اس کی جیتی جاگتی تصویر اللہ کا نبی یا اُس کا برحق خلیفہ موجود ہو کہ وہ خدائی نصرت و تائید سے اپنے دور کے تقاضوں اور ضروریات کو شرعی احکامات پر مبنی عافیت کے مضبوط حصار سے ہم آہنگ کرتے ہوئے نہ صرف فی زمانہ شریعت کا نافذ العمل ہونا ثابت کرتا ہے بلکہ اپنے پیروکاروں کو افراط و تفریط سے بچاتا اور صراطِ مستقیم کا راہی بناتا ہے۔

ہم اس خوش نصیبی پر جس قدر خدائے واحد و یگانہ کا شکر ادا کریں کم ہے کہ آج جماعتِ احمدیہ کی زمامِ قیادت اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پانچویں خلیفہ حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے مبارک ہاتھ میں ہےجن کا کہنا خدا کا کہنا ہے اور جن کی اطاعت ’حصارِ عافیت‘ میں داخلے کی گارنٹی۔اس پُرخطر زمانے میں اس مبارک وجود کی جانب سے اسلامی شریعت کو قائم اور تعلیمات کی افادیت کو ثابت کیا جاتا ہے۔چند مثالیں پیش ہیں:

آج جب لادینیت عروج پر ہےاور لوگ اپنے خالق، اپنے پیدا کرنے والے کو بھول رہے ہیں اور اس کی وجہ سے انفرادی و اجتماعی بے امنی اور بے سکونی کا شکار ہو رہے ہیں، ہمارے پیارے امام دنیا کو حقیقی حصارِ عافیت یعنی خدا تعالیٰ کو پہچاننے کی طرف متوجہ فرما رہے ہیں۔ حضورِ انور نے متعدد فورمز پر قرآنی اور تاریخی مثالیں دے کر ثابت فرمایا ہے کہ دنیا میں حقیقی اور پائیدار امن کا قیام خدا تعالیٰ کی ذات کو پہچاننے اور اُس کے حقوق ادا کرنے، حقوق العباد کی ادائیگی اور قیامِ انصاف سے مشروط ہے۔

دعا اپنے اندر غیر ممکن کو ممکن میں بدل دینے کی طاقت رکھتی ہے لیکن فی زمانہ مادیت پرستی کے باعث غیر تو غیر اکثر مسلمان کہلانے والے بھی دعاؤں کی قبولیت سے متعلق شکوک و شبہات میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ آج امامِ وقت ایّدہ اللہ ہی لوگوں کو دعاؤں کی طرف متوجہ کرتے اور خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت کے ساتھ قبولیتِ دعا کے زندہ معجزات کے ساتھ دعاؤں کی افادیت کو ثابت فرماتے ہیں۔ بلاشبہ دنیا کے ہر خطے میں بسنے والے احمدی کسی نہ کسی طرح حضورِ انور کی دعاؤں کی قبولیت پر شاہد ہیں۔ ’’ایک شامی عرب دوست جو آجکل کینیڈا میں ہی مقیم ہیں ان کی اہلیہ نے یہ واقعہ لکھا کہ شادی کے بعد کئی سال تک وہ اولاد کی نعمت سے محروم رہے اور ان کی اہلیہ کو کسی نسوانی بیماری کا عارضہ تھا جس کی بنا پہ یا تو حمل ٹھہرتا نہیں تھا یا پرابلم ہو جاتی تھی اور تیسرے چوتھے یا دوسرے تیسرے مہینے میں ہی اسقاط ہو جاتا تھا تو انہوں نے حضور کی خدمت میں خط لکھا۔ حضور نے انہیں دعائیں بھی دیں اور دوا بھی بھجوائی۔ بالآخر کئی سالوں بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں پہلی بیٹی سے نوازا۔ پھر اس کے بعد دوسری بیٹی اور اب دو بیٹیوں کے بعد ایک بیٹا بھی عطا فرمایا ہے تو اب یہ شامی شخص اور اس کی اہلیہ سے زیادہ اور کون اس بات کا اندازہ لگا سکتا ہے کہ خلیفہ وقت کی دعا یقیناً تسکین جان کا موجب ہوتی ہے۔‘‘ (الفضل انٹرنیشنل 8؍ مارچ 2022ء صفحہ 6)

خلافت کے زیرِ سایہ حصارِ عافیت میں آنے کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ کورونا وبا کے پھوٹنے کے بعد دنیا کے اکثر مذہبی حلقے جو اجتماعی عبادات بجا لاتے ہیں تذبذب کا شکار ہوکر افراط و تفریط میں مبتلا نظر آئے۔ مسلمان حلقوں میں مسجد کی جگہ گھروں میں پنج وقتہ نماز اور نمازِ جمعہ کی ادائیگی سے متعلق بحثیں چھڑ گئیں اور بعض جگہ تو نوبت تصادم تک پہنچی۔ کچھ نے ایسی زیادتی کی کہ باوجود رخصت کے مسجد میں حاضر ہوکر بلا احتیاط باجماعت نماز ادا کرنا ضروری قرار دیا اور نتیجۃً نقصان اٹھایا اور کچھ ایسے تھے کہ احتیاط کے نام پر عبادات کو ہی ترک کر بیٹھے۔ لیکن امام جماعت احمدیہ عالمگیر نے 27؍ مارچ 2020ء کو اپنے دفتر سے نشر کیے جانے والے خصوصی پیغام میں دنیا بھر کے احمدیوں کو وبائی حالات میں گھروں میں نمازیں اور جمعے ادا کرنے کی تلقین فرمائی۔ اس پر خلیفۂ وقت کا دست و بازو، نظامِ سلسلہ حرکت میں آیا اور ہر ممکن ذریعہ سے احمدیوں کو گھروں میں عبادات بجا لانے کے مسائل سکھا دیے گئے۔ نتیجۃً ہر احمدی گھربلا تأمل گھروں میں عبادات بجا لانے لگا۔ الغرض جہاں امامِ وقت کو نہ ماننے والے تذبذب کا شکار ہوئے وہیں خلافت کی برکت سے نہ خوف اور پریشانی پیدا ہوئی اور نہ ہی فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی ہوئی۔ ایسا بھلا کیوں نہ ہوتا! وہ ’عافیت کے حصار‘ میں جو تھے۔

مغرب میں بسنے والے مسلمان معاشرے میں integrate کرنے کے سوال پر انگشت بدنداں نظر آتے ہیں۔ ایک طبقہ اس ’بہانے‘ معاشرے میں ایسا گھل مل گیا کہ اپنی روایات و اقدار اور مذہب کو ہی بھلا بیٹھا جبکہ ایک طبقہ ایسا دور ہٹا کہ دہائیاں گزارنے کے باوجود اجنبی کا اجنبی۔ نتیجۃً مغرب کے بعض لوگ انہیں معاشرے کا غیر صحت مند حصہ قرار دے کر بہت سی خرابیوں کا موردِ الزام ٹھہرانے لگے۔ حضورِ انور نے اس مشکل کا حل بہت خوبصورتی سے بتایا کہ ’’آپ سب ایک اچھا شہری بننے کی کوشش کرتے ہوئے معاشرے کا صحت مند وجود بنیں۔ اس معاشرے میں Integrate ضرور ہوں لیکن اپنی دینی اور اخلاقی اقدار کو نہ بھولیں۔ Integration کا بہترین طریق یہ ہے کہ اس معاشرے کی بہتری کی خاطر کوشاں رہیں۔‘‘ (الفضل انٹرنیشنل یکم اکتوبر2021ءصفحہ2) نیز ایک احمدی بچی کو معاشرے میں integrate ہونے کی بابت فرمایا کہ ’’ان کی اچھی باتیں اختیار کرو اور اپنی اچھی باتیں ان کو سکھاؤ۔‘‘ (الفضل انٹرنیشنل 3؍ دسمبر 2021ء صفحہ 3)

خلافت کی عظیم الشان برکات میں سے چند ایک کا ذکر ہی ممکن ہے۔ خلافت کی نعمتِ غیر مترقبہ کے شکرانے اور اس عظیم الشان حصارِ عافیت سے فیض پانے کے لیے ہم سب کو اپنی اپنی جگہوں پر چھوٹے چھوٹے امن کے گہوارے پیدا کرنے ہوں گے۔ حضورِ انور ایّدہ اللہ اپنے خطبات و خطابات میں ہمیں بحیثیت ہر دوانفرادی و اجتماعی اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنے، اللہ کے بندوں کے حقوق ادا کرنے، خدا تعالیٰ پر توکل کرنے، دعاؤں کی طرف خاص توجہ کرنے، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کے تقاضوں کو پورا کرنے، اپنے اندر پاکیزہ عملی تبدیلی پیدا کرنے، اپنے گھروالوں سے حسن سلوک کرنے، اپنی آنے والی نسل کی عمدہ تربیت کرنے سمیت ہر عمل صالح بجا لانے کی طرف بار بار توجہ دلاتے ہیں۔ اگرہم سب صدقِ نیت سے ان نصائح پر عمل کرنے کی کوشش کریں تو اللہ تعالیٰ ضرور ہماری کوششوں پر پیار کی نظر ڈالتے ہوئے ہمیں ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے گا اور ہم سب اپنے اپنے دائرہ، اپنے اپنے یونٹ میںحقیقی امن و عافیت کے سفیر بن جائیں گے۔ اور جس معاشرے کی بنیادی اکائی یعنی فردِ واحد اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے عمدہ اخلاق اپنالے وہ معاشرہ اخلاقی بلندیوں کو چھوتے ہوئے حقیقی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ وہ معاشرہ بجائے خود عافیت کا حصار بن جاتا ہے جس میں بسنے والا ہر فرد درندوں سے محفوظ شمار کیا جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں خلافت کی لازوال نعمت کا شکرانہ ادا کرنے اور خلیفۂ وقت کا حقیقی مطیع بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button