حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

حقیقی تقویٰ و طہارت کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف جھکے رہنا چاہیے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیز نے خطبہ جمعہ 28؍ اکتوبر 2011ءمیں فرمایا:

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے جو جماعت قائم فرمائی اور اُس کو یہ اعزاز بخشا کہ وہ پہلوں کے ساتھ ملا دی گئی یہ کوئی معمولی اعزاز نہیں ہے، یہ کوئی معمولی جماعت نہیں ہے۔ ہزاروں لاکھوں نیک فطرت مسلمان اس زمانے کے پانے کی خواہش میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ پس ہم میں سے ہر ایک کو جو اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت سے منسوب کرتا ہے اُن باتوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے جن پر پہلوں نے عمل کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیعت کا تعلق جوڑا۔ آپ کی امت میں شامل ہوئے اور آپؐ کی تربیت کے زیرِ اثر اللہ تعالیٰ سے ایسا پختہ تعلق جوڑا کہ ان لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ (البقرۃ: 208) جو اپنی جان کواللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے بیچ ڈالتے ہیں۔ پس انہوں نے خدا کی رضا کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کی۔ اپنی جان کو بھی مشکل میں ڈالا اور اُس کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ اُن کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنا ہوتا تھا اور پھر اللہ تعالیٰ بھی اُنہیں بے انتہا نوازتا رہا۔ صحابہ کرام قرآنِ کریم کے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرتے تھے بلکہ اُنہیں اس حد تک اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا شوق تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتے تھے کہ کس طرح نیکیاں کریں۔ بعض اس حد تک سوال پوچھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں روک دیا کہ شریعت نازل ہو رہی ہے تم سوال نہ کرو۔ کیونکہ اگربعض تمہارے سوالات پرتمہیں احکامات مل جائیں تو تمہیں مشکل میں ڈال سکتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ رَؤوْفٌ بِالْعِبَاد ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے۔ اپنی خاص رحمت کی نظر رکھتا ہے جو بندے کو تکلیف سے بچاتی ہے، اُس بندے کو جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہر تکلیف کو اُٹھانے کے لئے تیار ہو جاتا ہے، اُس کے احکامات پر عمل کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اُس پر خاص شفقت فرماتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ سے پختہ تعلق جوڑنے والے بھی اپنے ماحول میں خدا تعالیٰ کی صفات کے پرتَو بنتے ہیں۔ اُن تمام احکامات کو ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے بھی شفقت کا سلوک کرتے ہیں۔ اُن کے حق ادا کرتے ہیں۔ پس یہ وہ حقیقی اسلام ہے جو بندے کا خدا سے تعلق جوڑ کر پھر حقوق العباد کی طرف بھی توجہ دلاتا ہے۔ اور یہی حقیقی اسلام صحابہ نے پایا اور سیکھا اور عمل کر کے دکھایا اور یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیں سکھانے آئے ہیں، ہمیں بتانے آئے ہیں، ہمیں اُن راستوں پر چلانے آئے ہیں۔ پس اس کے لئے ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ اس وقت اس سلسلے میں مَیں آپ کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چند اقتباسات پیش کروں گا جو ہمیں اپنے جائزوں کی طرف، اپنی حالتوں کی طرف توجہ دلانے والے ہیں۔ سب سے پہلے تو میں نے جو اقتباس لیا ہے اس میں آپ نے اس زمانے کا نقشہ کھینچا ہے اور پھر بتایا کہ جماعت کو کیسا ہونا چاہئے؟

آپؑ عام علماء کے بارے میں جو اس زمانے کے علماء ہیں جنہوں نے آپ کو نہیں مانا فرماتے ہیں کہ

’’مَیں دیکھتا ہوں کہ اس وقت قریباً علماء کی یہی حالت ہو رہی ہے لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْن (الصف: 03)‘‘ (قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ علماء کی آجکل یہی حالت ہے کہ تم وہ کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں فرمایا کہ یہ اس) ’’کے مصداق اکثر پائے جاتے ہیں اور قرآنِ شریف پر بگفتن ایمان رہ گیا ہے؛ ورنہ قرآن شریف کی حکومت سے لوگ بکلّی نکلے ہوئے ہیں۔ احادیث سے پایا جاتا ہے کہ ایک وقت ایسا آنے والا تھا کہ قرآنِ شریف آسمان پر اُٹھ جائے گا۔ میں یقیناًجانتاہوں کہ یہ وہی وقت آگیا ہے۔ حقیقی طہارت اور تقویٰ جو قرآن شریف پر عمل کرنے سے پید اہوتا ہے آج کہاں ہے؟ اگر ایسی حالت نہ ہو گئی ہوتی تو خدا تعالیٰ اس سلسلہ کو کیوں قائم کرتا۔ ہمارے مخالف اس بات کو نہیں سمجھ سکتے لیکن وہ دیکھ لیں گے کہ آخر ہماری سچائی روزِ روشن کی طرح کھل جائے گی‘‘۔ فرماتے ہیں :’’خدا تعالیٰ خود ایک ایسی جماعت تیار کر رہا ہے جو قرآنِ شریف کی ماننے والی ہوگی‘‘۔ (اب یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے جو آپ نے جماعت پر ڈالی ہے۔ آپ نے توقع رکھی ہے کہ قرآنِ کریم کی ماننے والی ہو گی۔ قرآنِ کریم کو ماننا صرف ایک کتاب کو ماننا نہیں بلکہ اُس کے احکامات پر عمل کرنا ہے) فرمایا: ’’ہر ایک قسم کی ملونی اس میں سے نکال دی جائے گی‘‘ (ہمیں اپنے یہ جائزے لینے کی ضرورت ہے تاکہ ہر ایک قسم کی ملونی جو دنیاوی ملونی ہے اس میں سے نکال دی جائے۔) ’’اور ایک خالص گروہ پیدا کیا جاوے گا اور وہ یہی جماعت ہے۔ اس لیے مَیں تمہیں تاکید کرتا ہوں کہ تم خدا تعالیٰ کے احکام کے پورے پابند ہو جاؤ اور اپنی زندگیوں میں ایسی تبدیلی کرو جو صحابہ کرامؓ نے کی تھی۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی تمہیں دیکھ کر ٹھوکر کھاوے‘‘۔ (ہر احمدی کو نمونہ ہونا چاہئے) فرمایا: ’’ہاں مَیں یہ بھی کہتا ہوں کہ ہر شخص کافرض ہے کہ وہ افتراء اور کذب کے سلسلہ سے الگ ہو جاوے۔ پس تم دیکھو اور منہاجِ نبوت پر اس سلسلہ کو دیکھو‘‘۔ (جو سلسلہ نبوت کے طریق پر چل رہا ہے۔ جو نبوت چلانا چاہتی ہے اُس پر چلو) ’’یہ مَیں جانتا ہوں کہ جب خدا تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے اور زمین پر بارش ہوتی ہے تو جہاں مفید اور نفع رساں بوٹیاں اور پودے پیدا ہوتے ہیں اُس کے ساتھ ہی زہریلی بوٹیاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں‘‘۔ (اس بارے میں آپ نے بتایا کہ کچھ لوگ ایسے بھی پیدا ہوں گے جو غلط قسم کے دعوے کرنے والے ہوں گے۔ بہر حال پھر آپ فرماتے ہیں) ’’پس ہر شخص کا فرض ہے کہ اس وقت خدا تعالیٰ سے کشودِ کار کے لیے دعا کرے‘‘ (کہ جو کام ہیں وہ پورے ہوں۔ جس مقصد کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آئے ہیں وہ پورے ہوں) ’’اور دعاؤں میں لگا رہے۔ ہمارے سلسلہ کی بنیادنصوصِ قرآنیہ اور حدیثیہ پر ہے۔ پھر اس سلسلہ کی تائید اور تصدیق کے لیے اﷲ تعالیٰ نے آیاتِ ارضیہ اور سماویہ کی ایک خاتَم ہم کو دی ہے‘‘۔ (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سچائی کے جو زمینی اور آسمانی نشانات ہیں وہ دئیے ہیں اور ایک ایسی مہر دی ہے جو تمام لوگوں پر آپ کی صداقت کی حجت ہے) فرمایا’’یہ بخوبی یاد رکھو کہ جو شخص خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اسے ایک مہر دی جاتی ہے اور وہ مہر محمدی مہر ہے جس کو ناعاقبت اندیش مخالفوں نے نہیں سمجھا‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 467-468۔ ایڈیشن 2003ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button