بنیادی مسائل کے جوابات

بنیادی مسائل کے جوابات (نمبر34)

(ظہیر احمد خان۔ مربی سلسلہ، انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)

(امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے پوچھےجانے والے بنیادی مسائل پر مبنی سوالات کے بصیرت افروز جوابات)

٭…سورۃ النور کی ایک آیت کی تشریح نیز قرآن کریم کی آیات کی تشریح کرنے کے متعلق حضور انور کی راہنمائی

٭…کیا ایک خاتون جس نے خود بیعت نہ کی ہو دوسروں کو احمدیت کی تبلیغ کرسکتی ہے؟ کیا یہ کہنا درست ہے کہ میرا فلاں برج ہے؟ اور حضرت مسیح موعودؑ نے جو شمس و نجوم کی تاثیرات کا ذکر فرمایا ہے اس کی کیا حقیقت ہے؟

٭… مالی لین دین کے ایک معاملے پر حضور انور کی راہنمائی

٭… روزے کے دوران کورونا ویکسین کا انجیکشن لگوانے کے متعلق حضور انور کی راہنمائی

سوال: ایک خاتون نےسورۃ النور کی ایک آیت کی خود تشریح کر کے اسے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں پیش کرکے اس بارے میں راہنمائی چاہی نیز پوچھا کہ کیا ایسا کرنے کی اجازت ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 10؍مارچ 2021ء میں اس بارے میں درج ذیل راہنمائی فرمائی:

جواب: آپ نے اس آیت کی جو تشریح کی ہے، اچھی ہے۔ اورآپ کی تشریح میں بیان تقریباً ساری باتیں جماعتی لٹریچر میں بھی موجود ہیں۔ ایک آدھ بات آپ نے زائد بیان کی ہے۔ مثلاًیہ کہ زیتون کاتیل 550 ڈگری پر جلتا ہے اس لیے اس کے دیے کےگرنے سے آگ نہیں بھڑکتی۔ شاید یہ بھی جماعتی لٹریچر میں کسی جگہ بیان ہوئی ہے لیکن میری نظر سے نہیں گزری۔

باقی جہاں تک قرآن کریم کی تفسیر کرنے کی بات ہے تو اس کےلیے بنیادی طور پر قرآن کریم میں بیان تعلیمات، آنحضورﷺ کی سنت، احادیث نبویہﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا وسیع اور گہرا علم ہونا ضروری ہے۔ اس کے بعد انسان قرآن کریم کی تفسیر بیان کرنے کا اہل ہو سکتا ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تفسیر القرآن کے جو اصول بیان فرمائے ہیں، انہیں مختصراً میں آپ کے استفادہ کےلیے یہاں درج کر رہا ہوں۔

حضورؓ نے ایک رؤیاکی بنا پر قرآن کریم کی تفسیر کے تین اصول بیان کرتے ہوئے فرمایا:جب تم میں کسی آیت کے مفہوم کے متعلق اختلاف پیدا ہو جائے تو تم قرآن کریم کی دوسری آیتوں پر غور کیا کرو کہ وہ کن معنوں کی تائید کرتی ہیں۔ اگر آیات نہ ملیں تو احادیث نبوی میں اس کا مفہوم تلاش کرو۔ اور اگر احادیث نبوی سے بھی تمہیں اس کے معنی نہ ملیں تو کسی ملہم کے کلام اور اس کی تشریحات کی طرف دیکھو۔ کیونکہ خداتعالیٰ سے تازہ روشنی اور الہام پانے کی وجہ سے اس کا ذہن منور ہو جاتا ہے۔ (ماخوذ از خطبہ جمعہ فرمودہ 21؍نومبر1947ء مطبوعہ خطبات محمود جلد 28)

حضورؓ اپنی تصنیف ’’حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے کارنامے‘‘میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیان فرمودہ اصول تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کو سمجھنے کےلیے ضروری ہے کہ انسان خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرے۔ قرآن کریم پر غور کرےاور اس بات کو مد نظر رکھے کہ اس کا ہر ایک لفظ ترتیب سے رکھا گیا ہے۔ اس کا کوئی لفظ بے مقصد نہیں ہے۔ اس کا کوئی لفظ بے معنی نہیں ہے۔ قرآن کریم اپنے ہر دعویٰ کی دلیل خود بیان کرتا ہے۔ قرآن کریم اپنی تفسیر آپ کرتا ہے۔ قرآن کریم میں تکرار نہیں ہے۔ قرآن کریم میں محض قصے نہیں ہیں۔ قرآن کریم کا کوئی حصہ منسوخ نہیں ہے۔ خدا تعالیٰ کے کلام اور اس کی سنت میں اختلاف نہیں ہوسکتا۔ عربی زبان کے الفاظ مترادف نہیں ہوتے بلکہ اس کے حروف بھی اپنے اندر مطالب رکھتے ہیں۔ قرآن کریم کی سورتیں بمنزلہ اعضائے انسانی ہیں جو ایک دوسرے سے مل کر اور ایک دوسرے کے مقابل پر اپنے کمال ظاہر کرتی ہیں۔ (ماخوذ از حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کارنامے، انوار العلوم جلد 10 صفحہ 157 تا 159)

یہ زرّیں اصول مد نظر رکھ کر آپ اگرسمجھتی ہیں کہ آپ قرآن کریم کی تشریح کا حق ادا کر سکتی ہیں تو ضرور لکھا کریں اور لکھ کر بے شک مجھے بھیج دیا کریں۔ اور ویسے بھی قرآن کریم کسی ایک طبقہ کی ملکیت اور میراث نہیں ہے بلکہ یہ تمام بنی نوع انسان کےلیے ہدایت اور راہنمائی کا سر چشمہ ہے اور ہر طبقہ اور ہر درجہ کا انسان اپنی اپنی استعداد اور اپنی اپنی استطاعت کے مطابق اس سے فیضیاب ہو سکتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ملنے والے علوم قرآن کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’پانچواں اصولی علم جو آپؑ کو دیا گیا ہے یہ ہے کہ قرآن ذوالمعانی ہے اس کے کئی بطون ہیں۔ اس کو جس عقل اور جس فہم کے آدمی پڑھیں اس میں ان کی سمجھ اور ان کی استعداد کے مطابق سچی تعلیم موجود ہے گویا الفاظ ایک ہیں لیکن مطالب متعدد ہیں اگر معمولی عقل کا آدمی پڑھے تو وہ اس میں ایسی موٹی موٹی تعلیم دیکھے گا جس کا ماننا اور سمجھنا اس کیلئے کچھ بھی مشکل نہ ہوگا اور اگر متوسط درجہ کے علم کا آدمی اس کو پڑھے گا تو وہ اپنے علم کے مطابق اس میں مضمون پائے گا اور اگر اعلیٰ درجہ کے علم کا آدمی اس کو پڑھے گا تو وہ اپنے علم کے مطابق اس میں علم پائے گا۔ غرض یہ نہ ہو گا کہ کم علم لوگ اس کتاب کا سمجھنا اپنی عقل سے بالا پائیں یا اعلیٰ درجہ کے علم کے لوگ اس کو ایک سادہ کتاب پائیں اور اس میں اپنی دلچسپی اور علمی ترقی کا سامان نہ دیکھیں۔‘‘(دعوۃ الامیر، انوار العلوم جلد 7 صفحہ 513)

سوال: ایک غیر از جماعت عرب خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ میں نے ابھی بیعت نہیں کی کیونکہ ڈرتی ہوں کہ شاید شرائط بیعت کو پورا نہ کرسکوں۔ لیکن کیا میں اپنی سہیلیوں کو تبلیغ کر سکتی ہوں؟ نیز اس خاتون نےآسمانی بروج کے بارے میں راہنمائی چاہی اور پوچھا ہے کہ کیا یہ کہنا درست ہے کہ میرا فلاں برج ہے؟ نیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو شمس و نجوم کی تاثیرات کا ذکر فرمایا ہے اس کی کیا حقیقت ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 13؍مارچ 2021ء میں اس بارے میں درج ذیل ارشادات فرمائے:

جواب: اللہ تعالیٰ کے قرب کو پانے کےلیے مجاہدہ اور دعا لازمی شرط ہے۔ کسی نیکی کو پانے کےلیے صرف ارادہ کافی نہیں عمل بھی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جب اپنی سچی راہ دکھا دی ہے تو اب آپ کا کام ہے کہ دعا اور مجاہدہ کے ساتھ اس کا قرب پانے کی کوشش کریں۔ جب ایسا کریں گی تو اللہ تعالیٰ آپ کےلیے اپنے فضل سے اور بھی آسانیاں پیدا فرما دے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام قرآنی تعلیمات کی روشنی میں اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’تقویٰ کا مرحلہ بڑا مشکل ہے اسے وہی طے کر سکتا ہے جو بالکل خدا کی مرضی پر چلے۔ جو وہ چاہے وہ کرے اپنی مرضی نہ کرے۔ بناوٹ سے کوئی حاصل کرنا چاہے تو ہر گز نہ ہو گا۔ اس لئے خدا تعالیٰ کے فضل کی ضرورت ہے اور وہ اسی طرح سے ہو سکتا ہے کہ ایک طرف تو دعا کرے اور ایک طرف کوشش کرتا رہے۔ خدا تعالیٰ نے دعا اور کوشش دونوں کی تاکید فرمائی ہے۔ اُدْعُوْنِيٓ أَسْتَجِبْ لَكُمْ میں تو دعا کی تاکید فرمائی ہے اور وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا میں کوشش کی۔ جب تک تقویٰ نہ ہو گا اولیاء الرحمٰن میں ہر گز داخل نہ ہو گا اور جب تک یہ نہ ہو گا حقائق اور معارف ہر گز نہ کھلیں گے۔‘‘(البدر جلد 3 نمبر2 مورخہ 8؍جنوری 1904ء صفحہ3)

خدا تعالیٰ کی طرف سے ہونے والے انعامات کے شکرانہ کا ایک طریق یہ ہے کہ ان انعامات میں دوسروں کو بھی شریک کیا جائے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے آپ کی جو احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی طرف راہنمائی فرمائی ہے۔ اب آپ بھی جس طرح بہتر سمجھیں اپنی سہیلیوں کو اس سچی راہ کی تبلیغ کر کے اللہ تعالیٰ کے اس احسان کاشکر ادا کر سکتی ہیں۔

آسمانی برجوں کا قرآن میں مختلف جگہوں پر ذکر کیا گیا ہے۔ چنانچہ فرمایا: وَ لَقَدۡ جَعَلۡنَا فِی السَّمَآءِ بُرُوۡجًا۔ (الحجر: 17) اور یقیناً ہم نے آسمان میں (ستاروں کی) کئی منزلیں بنائی ہیں۔ پھر فرمایا: تَبٰرَکَ الَّذِیۡ جَعَلَ فِی السَّمَآءِ بُرُوۡجًا۔ (الفرقان: 62)یعنی برکت والی ہے وہ ہستی جس نے آسمان میں ستاروں کے ٹھہرنے کے مقام بنائے ہیں۔ پھر فرمایا: وَ السَّمَآءِ ذَاتِ الۡبُرُوۡجِ۔ (البروج: 2) یعنی میں برجوں والے آسمان کو شہادت کے طور پر پیش کرتا ہوں۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے سورج، چاند، کواکب اورنجوم وغیرہ اجرام فلکی کا بھی قرآن کریم میں بکثرت ذکر فرمایا ہے۔

احادیث نبویﷺ میں ان اجرام فلکی کا ذکر مختلف معنوں میں ملتا ہے۔ چنانچہ احادیث میں اس بات کا تذکرہ موجود ہے کہ قیصر روم ہرقل(جو علم النجوم کا بہت بڑا ماہر تھا) نے ستاروں کی نقل وحرکت سے اندازہ لگا لیا تھا کہ حضورﷺ کی بعثت ہو چکی ہے یا آپ کی بعثت کا زمانہ قریب ہے۔ (صحیح بخاری کتاب بدء الوحی)پھر حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ ستارے آسمان کی زینت کےلیے، شیاطین کو مارنے کےلیے اورراستہ معلوم کرنے کےلیے علامت کے طور پر بنائے گئے ہیں اور جس نے اس سے ہٹ کر ان کی کوئی اور تاویل کی تو اس نے غلطی کی اور ایک ایسی چیز کے درپے ہوا جس کا اسے کوئی علم نہیں۔ (صحیح بخاری کتاب بدءالخلق باب فی النجوم) اسی طرح فرمایا: جس نے نجوم کے ذریعہ سے کچھ سیکھا اس نے جادو کا ایک حصہ پایا۔ (سنن ابی داؤد کتاب الطب باب فی النجوم) پھر حضورﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ سورج اورچاند کے گرہن کا کسی کی موت و حیات سے کوئی تعلق نہیں۔ (صحیح بخاری کتاب الجمعۃ بَاب الصَّلَاةِ فِي كُسُوفِ الشَّمْس) لیکن سورج اور چاند کے گرہنوں کو حضورﷺ نے اپنے مہدی کے مبعوث ہونے کے دو بے مثل نشان قرار دیے، جو اپنے وقت پر پوری شان کے ساتھ پورے ہوئے اور مسیح محمدی کی صداقت پر اپنی مہر تصدیق ثبت کر گئے۔

(سنن دار قطنی کتاب العیدین باب صِفَةِ صَلَاةِ الْخُسُوفِ وَالْكُسُوفِ وَهَيْئَتِهِمَا)

قرآن و حدیث کی ان تعلیمات کی روشنی میں علمائے امت اجرام فلکی کی خدائی مشیئت کے بغیر از خود زمینی حوادث پر اثر ڈالنے کی تاثیرات کے عقیدہ کو شرک قرار دیتے ہیں۔ نیز ان اجرام فلکی کی حرکات و سکنات سے غیب کی خبریں معلوم کرنے کے نظریہ کو شیطانی اور گناہ کبیرہ قرار دیتے ہیں۔ تاہم ان کی رفتار و حرکات کے ذریعہ وقت اور زمانہ کے تعین اور موسموں وغیرہ کی تبدیلی کے قائل ہیں۔

حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کےغلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تحریرات میں اجرام فلکی کا نہایت بصیرت افروز ذکر فرمایا ہے۔ چنانچہ اس بارے میں مخالفین کے ایک اعترض کا جواب دیتے ہوئے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’ہم یہ عقیدہ نہیں رکھتے کہ سورج، چاند اور ستاروں میں سے کوئی ایک بھی اپنے فعل میں مستقلاً آزاد اور ذاتی طور پر مؤثر ہے یا اسے افاضہ تاثیرات میں کوئی اختیار ہے یا انوار کے پہنچانے اور بارشوں کو برسانے اور ابدان، اجسام اور ثمرات کی نشو و نما میں انہیں بالارادہ کوئی دخل ہے…اور اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اشیاء کے خواص ایک حقیقت ہیں اور ان میں اس علیم و حکیم خدا کے اذن سے جس نے کوئی چیز بے فائدہ پیدا نہیں کی، تاثیرات ہیں …اور حق یہ ہے کہ سورج، چاند اور ستاروں کی تاثیرات ایسی چیزیں ہیں جنہیں مخلوق ہر وقت اور ہر آن دیکھتی ہے اور ان سے انکار کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ مثلاً موسموں اور ان کی حالتوں کا اختلاف اور ہر موسم کا مخصوص امراض، معروف نباتات اور مشہور کیڑے مکوڑوں کے ساتھ خاص ہونا ایسی چیز ہے جسے تو جانتا ہے…اور تو جانتا ہے کہ جب سورج طلوع ہو اور روشنیاں پھیلیں تو بلا شبہ اس وقت نباتات، جمادات اور حیوانات میں خاص اثر ہوتا ہے۔ پھر جب دن ڈھلنے اور غروب ہونے کے قریب ہو تو اس وقت میں اور طرح کی تاثیرات ہیں۔ حاصل کلام یہ کہ سورج کے بُعد اور اس کے قُرب کا درختوں، پھلوں، پتھروں اور بنی آدم کے مزاجوں میں نمایاں اثر اور قوی تاثیرات ہوتی ہیں …اور چاند کی کتنی خاصیتیں ہیں جنہیں دہقان اور زراعت پیشہ لوگ جانتے ہیں …اور حکماء اس بات پر متفق ہیں کہ لوگوں کی سب سے زیادہ معتدل صنف خط استواء میں رہنے والے لوگ ہیں اور خاص تاثیر ہی ان کی صحت کامل اور ان کے فہم اور فراست کی برتری کا سبب ہے۔‘‘(حمامۃ البشریٰ، روحانی خزائن جلد 7صفحہ285 تا 288اردو ترجمہ صفحہ 265-270 شائع کردہ نظارت نشرواشاعت قادیان)

آسمانی برجوں کا ذکر کرتے ہوئے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’رحمٰن وہ ذات کثیر البرکت اور مصدر خیرات دائمی ہے جس نے آسمان میں برج بنائے۔ برجوں میں آفتاب اور چاند کو رکھا جو کہ عامہ مخلوقات کو بغیر تفریق کافر و مومن کے روشنی پہنچاتے ہیں۔‘‘(براہین احمدیہ، روحانی خرائن جلد 1 صفحہ 448 حاشیہ نمبر 11)

پھر ان اجرام فلکی کی تاثیرات کے بارے میں حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’یہ ستار ے فقط زینت کیلئے نہیں ہیں جیسا عوام خیال کرتے ہیں بلکہ اِن میں تاثیرات ہیں۔ جیسا کہ آیت وَ زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنۡیَا بِمَصَابِیۡحَ وَ حِفۡظًا سے، یعنی حِفظًا کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے۔ یعنی نظام دنیا کی محافظت میں ان ستاروں کو دخل ہے اُسی قسم کا دخل جیساکہ انسانی صحت میں دوا اور غذا کو ہوتا ہے جس کو الوہیت کے اقتدار میں کچھ دخل نہیں بلکہ جبروت ایزدی کے آگے یہ تمام چیزیں بطور مردہ ہیں۔ یہ چیزیں بجز اذن الٰہی کچھ نہیں کر سکتیں۔ ان کی تاثیرات خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ پس واقعی اور صحیح امر یہی ہے کہ ستاروں میں تاثیرات ہیں جن کا زمین پر اثر ہوتا ہے۔ لہٰذا اس انسان سے زیادہ تر کوئی دنیا میں جاہل نہیں کہ جو بنفشہ اور نیلوفر اورتربد اور سقمونیا اور خیار شنبر کی تاثیرات کا توقائل ہے مگر اُن ستاروں کی تاثیرات کا منکر ہے جو قدرت کے ہاتھ کے اوّل درجہ پر تجلی گاہ اور مظہر العجائب ہیں جن کی نسبت خود خدا تعالیٰ نے حفظًا کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یہ لوگ جو سراپا جہالت میں غرق ہیں اس علمی سلسلہ کو شرک میں داخل کرتے ہیں۔ نہیں جانتے جو دنیا میں خدا تعالیٰ کا قانونِ قدرت یہی ہے جو کوئی چیز اس نے لغو اور بے فائدہ اور بے تاثیر پیدا نہیں کی جبکہ وہ فرماتا ہے کہ ہر ایک چیز انسان کیلئے پیدا کی گئی ہےتو اب بتلاؤ کہ سماء الدنیا کو لاکھوں ستاروں سے پُر کر دینا انسان کو اس سے کیا فائدہ ہے؟ اور خدا کایہ کہنا کہ یہ سب چیزیں انسان کیلئے پیدا کی گئی ہیں ضرور ہمیں اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ ان چیزوں کے اندر خاص وہ تاثیرات ہیں جو انسانی زندگی اور انسانی تمدّن پر اپنا اثر ڈالتی ہیں۔ جیسا کہ متقدمین حکماء نے لکھا ہے کہ زمین ابتدا میں بہت ناہموار تھی خدا نے ستاروں کی تاثیرات کے ساتھ اس کو درست کیا ہے۔‘‘(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 282تا283،حاشیہ)

پس مذکورہ بالا حوالہ جات سے مستنبط ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان میں جو چاند، سورج، سیارے اور ستارے نیز بروج کے نام پر ان کی مختلف منزلیں اور مقام بنائے ہیں، یہ بلامقصد نہیں ہیں۔ بلکہ جہاں ان اجرام فلکی کی حرکات و سکنات کے نتیجے میں ہماری زمین پر دن رات ادلتے بدلتےہیں، سال، مہینے اور دن بنتے، موسموں میں تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ وہاں یہ اجرام بہت سے اور طریقوں سے بھی زمین اور اہل زمین پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ ان کی بعض تاثیرات کا ہم اپنی روزمرہ کی زندگی میں مشاہدہ بھی کرتے رہتے ہیں اوران کی کئی نئی تاثیرات سائنس روز بروز دریافت بھی کرتی رہتی ہے۔ اورشاید کئی تاثیرات سائنس کبھی بھی دریافت نہ کر سکے۔

علم النجوم کے ماہرین اور ہیئت دانوں نے سورج کے ستاروں میں حرکت کرنے اورزمین کے سورج کےگرد چکر لگانے کے حوالے سے مختلف حساب لگا کرسال کے بارہ مہینوں کے لحاظ سے بارہ حصے بنائے ہیں اور انہیں بارہ برجوں کے نام دیئے ہیں۔ کسی کی تاریخ پیدائش کے اعتبار سے اسے کسی برج کے تحت شمار کرنے میں تو بظاہر کوئی حرج کی بات نہیں لیکن ان خیالی اور فرضی برجوں سے علم غیب حاصل کرنے اور آئندہ زندگی کے بارے میں پیشگوئیوں کے دعاوی سب اٹکل پچو اور تک بندیوں کے زمرہ میں آتا ہے۔ اس کا حقیقت اور مصفیٰ علم غیب سے کوئی بھی تعلق نہیں۔

سوال: مالی لین دین کے ایک قضائی معاملہ میں ایک فریق کے محترم مفتی صاحب سے اس معاملے کی بابت فتویٰ کی درخواست کرنے اور اس درخواست کی نقل حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں پیش کرنے پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درخواست دہندہ کو اپنے مکتوب مورخہ 25؍مارچ 2021ء میں اس بارے میں اصولی ہدایت دیتے ہوئے درج ذیل ارشاد فرمایا:

جواب: آ پ نے اپنے تنازعہ کے بارے میں فتویٰ کے حصول کےلیے جو تفصیلی خط محترم مفتی سلسلہ صاحب کو بھجوایا تھا اور اس کی ایک نقل مجھے بھی بھجوائی تھی۔ میں نے محترم مفتی صاحب کو آپ کے اس خط کا جواب دینے کی ہدایت دی تھی اور ساتھ انہیں لکھا تھا کہ وہ اس جواب کی ایک نقل مجھے بھی بھجوائیں۔

محترم مفتی صاحب کافتویٰ نیز آپ کے تنازعہ سے متعلق دارالقضاء یوکے اورشعبہ امور عامہ یوکے میں موجود فائلز اسی طرح عدالت کے فیصلہ کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جو فیصلہ ہوا ہے وہ بالکل ٹھیک ہے اور عدالت نے جو(حرجانہ کی) زائد رقم آپ کے ذمہ ڈالی ہے وہ سود کے زمرہ میں ہر گز نہیں آتی۔ عدالت کی نظر میں وہ فریق ثانی کا حق ہے اور شرعی لحاظ سے بھی فریق ثانی کے اس رقم کے لینے میں کوئی امر مانع نہیں، وہ اس رقم کو وصول کر سکتے ہیں۔

سوال: روزے کے دوران کورونا ویکسین کا انجیکشن لگوانے کے جواز کی بابت ایک غیر از جماعت ادارہ کے فتویٰ کی ایک جماعتی جریدے میں اشاعت پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےاپنے مکتوب مورخہ 13؍اپریل 2021ء میں اس شرعی مسئلہ پر روشنی ڈالتے ہوئے درج ذیل ارشاد فرمایا۔ جواب: ایسی خبریں اور فتوے الفضل میں شائع کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اور اگر کسی وجہ سے اسے شائع کرنا ناگزیر تھا تو ساتھ ہی جماعتی مسلک بھی شائع کرنا چاہیے تھا کہ یہ فلاں ادارہ کا فتویٰ ہے۔ جبکہ جماعتی مسلک اس کے برعکس ہے۔ تاکہ آپ کا یہ خبرنامہ پڑھ کر کسی کو غلطی نہ لگتی۔

بہرحال فوری طور پر اب اس کی تردید شائع کریں اور اس میں صاف صاف جماعتی مسلک درج کریں کہ روزہ کی حالت میں ہر قسم کا انجیکشن خواہ وہ Intramuscular ہو یا Intravenous ہو لگوانا منع ہے۔ اور اگر کسی احمدی کو کورونا ویکسین کی Appointment رمضان میں ملتی ہے تو اسلام نے جو رخصت دی ہے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ انجیکشن والے دن روزہ نہ رکھے اور رمضان کے بعد اس روزہ کو پورا کر لے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو احادیث نبویہﷺ سے استدلال فرماتے ہوئے روزہ کی حالت میں آنکھوں میں سرمہ لگانے کی بھی اجازت نہیں دی۔ اور آپ الفضل میں اس فتویٰ کے مطابق انجیکشن کو بھی جائز قرار دے رہے ہیں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button