حضرت مصلح موعود ؓ

صداقتِ اسلام اور ذرائع ترقیٔ اسلام (قسط نمبر 3)

(خطاب حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ، فرمودہ 22؍فروری 1920ءبمقام بندے ماترم ہال (امرتسر)

سورة فاتحہ کی لطیف تفسیر

(گذشتہ سے پیوستہ)پھر جب خدا تعالیٰ کی ربوبیت کے ماتحت انسان کی تکمیل ہوجاتی ہے اور وہ کام کرنے کے قابل ہو جاتا ہے تو جس طرح ماں باپ جوان بچہ کو کام پر لگانے کے لئے اس کو سامان مہیا کر دیتے ہیں اسی طرح خدا تعالیٰ بھی کرتا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے کہ جب انسان کام کرنے کے قابل ہو جاتا ہے تو اس وقت یہ ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ محض اپنے فضل سے بغیر اس کی محنت اور کوشش کے کام کرنے کے اسباب عطا کرتا ہے۔ اس بات سے اسلام کی دوسرے مذاہب پر بہت بڑی فضیلت ثابت ہوتی ہے کیونکہ بعض مذاہب والے ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ نجات صرف ہمارے ہی مذہب میں ہے مگر کوئی اوراس میں داخل نہیں ہو سکتا۔ لیکن قرآن شریف ایسا نہیں کہتا بلکہ یہ کہتا ہے کہ خدا تمام لوگوں کا رب ہے اور اس نے جو مذہب لوگوں کے نجات پانے کے لئے بھیجا ہے اس کا دروازہ ہر ایک کے لئے کھلا ہے پھر اسلام اس خدا کو پیش کرتا ہے جو رحمانیت کی صفت بھی رکھتاہے۔ یعنی وہ صرف ربوبیت ہی نہیں کرتا بلکہ اپنے فضل سے لوگوں کو ایسے سامان بھی عطا کرتا ہے جن کے حصول میں ان کے اعمال کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ اس میں بعض مذاہب پر اس طرح اسلام کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کہ وہ کہتے ہیں خدا بغیر عمل کے انسان کو کچھ نہیں دیتا۔ حالانکہ یہ بات تجربہ اور مشاہدہ بلکہ نیچر کے بالکل خلاف ہے۔ کیونکہ سورج، زمین، پانی، ہوا ایسی چیزیں ہیں جن کے بغیر کوئی انسان زندہ نہیں رہ سکتا۔ اب اگربغیر عمل کے خدا انسان کو کچھ نہ دیتا تو ان کو بھی پیدا نہ کرتا۔ مگر اس نے پیدا کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ بغیر عمل کے بھی دیتا ہے اور اگر ان چیزوں کو عمل کا نتیجہ مانا جائے تو یہ کسی طرح بھی صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ انسان عمل تو تب کر سکتے جب کہ زندہ ہوتے اور زندہ ہوا کے بغیر رہ نہیں سکتے۔ پس ثابت ہوا کہ انسانوں کو ہوا پہلے ملی پھر انہوں نے کوئی عمل کیا۔ اسی طرح کھانا ہے۔ اگر کھانا انسان کے عمل کرنے سے پہلے نہ ہوتا تو وہ زندہ نہ رہ سکتا اور جب زندہ نہ رہ سکتا تو عمل بھی نہ کر سکتا۔ پس اسلام کی تعلیم کے مطابق خدا تعالیٰ رحمان ہے۔ یعنی بغیر محنت کے دیتا ہے اوربےحد دیتا ہے۔ دیکھو ہوا جو انسان کو مفت اور بغیر اس کی محنت اور مشقت کے ملتی ہے ایسی ہے کہ اس کی کوئی حد بندی نہیں ہو سکتی اور ہر ایک کومل جاتی ہے۔ اسی طرح پانی ہے یہ بھی بےحد ہے۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کی زندگی کے قیام کے لئےجس قدر کسی چیز کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے اس قدر وہ آسانی سے حاصل ہوتی ہے۔ مثلاً کھانا ہے یہ اگر انسان کو نہ ملے تو ایک حد تک صبر کر سکتا ہے۔ لیکن پانی نہ ملنے پر اس سے کم اور ہوا نہ ملنے پر اس سے بھی کم عرصہ زندہ رہ سکتا ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے کھانا مہیا کرنے کے لئے جس قدر محنت اور کوشش رکھی ہے پانی مہیا کرنے کے لئے اس سے کم اور ہوا حاصل کرنے کے لئے اس سے بھی کم رکھی ہے۔ تو ان چیزوں کی انسان کو جتنی جتنی ضرورت ہے خدا تعالیٰ نے ان کا حصول اتنا ہی آسان بنایا ہے۔ پانی کے بغیر تو انسان کچھ عرصہ صبر کر سکتا ہے مگر ہوا کے بغیر ذرا بھی نہیں کر سکتا اس لئے خدا تعالیٰ نے ہوا کے لئے کچھ بھی قیمت نہیں رکھی۔ پس یہ اس کی رحمانیت کا ثبوت ہے۔ اور قرآن کریم کہتا ہے کہ وہ رحمان ہے۔ پھر اسلام کہتا ہے۔ یہیں خدا کی صفات کا خاتمہ نہیں ہو جاتابلکہ اس سے آگے خدا تعالیٰ کی یہ صفت ہے کہ جب کوئی انسان کام کرتا ہے تو خدا تعالیٰ یہ نہیں کہتا کہ چونکہ اس نے میرے ہی دئیے ہوئے ذرائع سے کام کیا ہے اس لئے مَیں اسے اس کے کام کا کوئی بدلہ نہیں دوں گا بلکہ پہلے کی نسبت اور زیادہ ان ذرائع کو بڑھا دیتا ہے۔ دیکھو جو انسان خدا تعالیٰ کے دئیے ہوئے ہاتھ سے کام لے اس کا ہاتھ اور زیادہ طاقتور ہو جاتا ہے۔ اور جو خداتعالیٰ کے عطا کردہ دماغ سے کام لیتا ہے اس کا دماغ اور زیادہ مضبوط ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ علوم پڑھتے ہیں ان کی نسلیں بہ نسبت ان لوگوں کی نسلوں کے جو علوم سے بے بہرہ ہوتے ہیں بہت جلدی علوم میں ترقی کر لیتی ہیں۔ ہندوستان میں ہی دیکھ لو مسلمانوں اور ہندوؤں کے بچے چوڑے چماروں یا اور ایسی قوموں کے بچوں سے جن میں علم نہیں آسانی سے علوم حاصل کر لیتے ہیں۔ تو اسلام بتاتا ہے کہ خدا وہ خدا ہے کہ جب انسان اس کو دئیے ہوئے سامانوں سے خواہ وہ سامان جسمانی ہوں یا روحانی کام لیتا ہے تو خدا تعالیٰ ان کو اور زیادہ بڑھا دیتا ہے اور بڑھ چڑھ کر فائدہ پہنچاتا ہے۔

اسلام کا خدا وہ ہے کہ جس کی اور بھی صفات ہیں۔ بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں جو حسن اور احسان سے بات نہیں مانتے بلکہ خوف اور ڈرکی وجہ سے مانتے ہیں اس لئے اسلام نے ساتھ ہی بتا دیا کہ ہم یہی نہیں کہتے کہ خدا تعالیٰ سے اس لئے تعلق پیدا کرو کہ وہ محبت کرنے والا ہے اور تمام خوبیوں کا جامع ہے اور تم پر بڑے بڑے احسان کرتا ہے بلکہ اگر تم باوجود اس کے احسانوں کے اس کے احکام پر عمل نہ کرو گے تو وہ تمہیں سزا دے گا۔ کیونکہ وہ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ہے۔ دیکھو جو لوگ دُنیا میں ظاہری اسباب سے کام نہیں لیتے وہ ذلیل اور رسو ا ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والی تعلیم پر عمل نہیں کرتے وہ بھی تباہ اور برباد ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ وہ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن ہے۔ پس دنیا میں جو لوگ محبت سے ماننے والے ہیں وہ تو خدا تعالیٰ کے احکام کو۔ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ۔ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم کے ماتحت مانیں گے۔ اور جو سزا کے خوف اور ڈر سے ماننے والے ہیں وہ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن کے ماتحت مانیں گے۔ کیونکہ وہ سمجھیں گے کہ اگر ہم خدا تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی کریں گے تو وہ ہمیں سزا دے گا۔

یہ اسلام کی خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے لئے اُصولی تعلیم ہے۔ اس کو اگر تفصیل سے دیکھا جائے تو ثابت ہو جاتاہے کہ اسلام کو دوسرے تمام مذاہب پر بہت بڑی فضیلت حاصل ہے۔ مگر خدا تعالیٰ سے تعلق یہی نہیں ہوتا کہ انسان خدا سے محبت کرے بلکہ اس کا لازمی نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ خدا کی مخلوق کی آپس میں بھی محبت اور اُلفت ہو۔ دیکھو بھائی بھائی جو آپس میں محبت کرتے ہیں وہ کیوں کرتے ہیں اسی لئے کہ ایک ماں باپ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسی طرح اہلِ ملک آپس میں محبت کرتے ہیں کیوں؟ اسی لئے کہ ایک ملک سے تعلق رکھتے ہیں۔ پس جب دنیاوی طور پر ایک چیز سے تعلق رکھنے والے آپس میں محبت کرتے ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ ایک خدا سے تعلق رکھنے والوں کی آپس میں محبت نہ ہو۔ کیا خدا تعالیٰ ماں باپ یا ملک سے کم درجہ کا ہے اگر خدا تعالیٰ کا ان سب سے برا درجہ ہے تو کیا وجہ ہے کہ ایک محلہ، ایک شہر، ایک ملک اور ایک ماں باپ سے تعلق رکھنے والے تو آپس میں محبت کریں مگر ایک خدا سے محبت اور تعلق رکھنے والے آپس میں محبت نہ کریں۔ ان کی محبت سب سے زیادہ اور سب تعلقات کی نسبت مضبوط ہوتی ہے اور دُنیا میں لوگوں پر ظلم و ستم کرنے والے وہی لوگ ہوتے ہیں جو خد اتعالیٰ سے تعلق نہیں رکھتے۔ جو لوگ خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتے ہیں وہ اس کے بندوں سے بھی ضرور محبت کرتے ہیں۔

تو اسلام ہمیں اسی طرف لے جاتا ہے اور کہتا ہے کہ جب کوئی خدا تعالیٰ کی ان صفات کو دیکھتا ہے کہ ایک طرف وہ حسن میں کامل ہے ہر ایک خوبی اس میں پائی جاتی ہے اور وہ اپنے بندوں پر احسان کرتا ہے اور دوسری طرف وہ طاقت اور قوت میں کامل ہے جو اس سے تعلق توڑتا ہے اسے سزا دیتا ہے تو اس کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ وہ خدا کو اپنے سامنے دیکھ لیتا ہے اور اس کے دل میں خدا تعالیٰ کے بندوں کی محبت جوش زن ہو جاتی ہے۔ اس وقت وہ دنیاوی لحاظ سے اپنے اور دوسرے مذاہب کے لوگوں میں کوئی فرق نہیں پاتا۔ اس وقت وہ یہ نہیں کہتا کہ فلاں چونکہ ہندو ہے یا عیسائی ہے یا سکھ ہے یا اور کسی مذہب کا ہے اس لئے اس کو دکھ دینا چاہئے۔ بلکہ وہ یہ کہتا ہے کہ سب خدا تعالیٰ کی مخلوق ہے اس سے مجھے محبت اور پیار کرنا چاہئے۔ تو اسلام کہتا ہے کہ جب کوئی انسان اس درجہ پر کھڑا ہو جاتا ہے تو یہ کہتا ہے کہ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ اے خدا ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں۔ گویا اس وقت انسان یہ نہیں کہتا کہ مَیں ایسا کرتا ہوں بلکہ تمام بندوں کی طرف سے کہتا ہے کہ میری عبادت ان کی عبادت ہے اور مَیں اپنے لئے ہی نہیں بلکہ ان سب کے لئے مدد چاہتا ہوں۔ دنیا میں بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دوسروں کو زبانی تو کہہ دیتے ہیں کہ ہمارا مال تمہارا ہی مال ہے۔ لیکن اگر کوئی ان کے مال سے ایک پیسہ بھی لے تو لڑنے مرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ مگر اسلام کہتا ہے کہ جب انسان کا تعلق خدا تعالیٰ سے ہو جاتا ہے تو اس وقت وہ خدا تعالیٰ کے حضور اپنے آپ کو ہی پیش نہیں کرتا۔ بلکہ یہی کہتا ہے کہ اے خدا ہم سب تیری عبادت کرتے ہیں تُو ہم سب کی مدد کر اور سب کو انعام دے۔ پس یہ اسلام کی تعلیم ہے کہ اسلام سب کو اپنا بھائی سمجھنے اور سب کو فائدہ پہنچانے کی تلقین کرتا ہے۔

یہ تو بندہ کا خدا سے تعلق پیدا کرنے کا طریق ہے۔ مگر یہ یک طرفہ بات ہے۔ کامل اور مکمل تعلیم وہ ہو سکتی ہے جو اس امر کا بھی ثبوت پیش کرے کہ خدا تعالیٰ بھی بندہ سے محبت اورپیار کرتا ہے کیونکہ اگر ایک شخص کو خدا تعالیٰ سے ملنے کا تو شوق ہو لیکن خدا تعالیٰ کو اس سے محبت نہ ہو تو پھر کیا فائدہ۔ پس وہ مذہب سچا نہیں ہو سکتا جو صرف بندہ کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت پیدا کر دے۔ بلکہ سچا مذہب وہی ہو سکتا ہے جو اس بات کا بھی ثبوت پیش کرے کہ خدا تعالیٰ بھی بندہ سے محبت کرتا ہے۔ اس کے متعلق جب ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں کہ کیا کہتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کو بھی بندہ سے محبت پیدا ہو جاتی ہے۔ چنانچہ خدا تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے۔ قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ (آل عمران: 32)اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ان لوگوں کو کہہ دے کہ اگر تمہارے اندر خدا کی محبت ہے تو آؤ میری غلامی میں داخل ہو جاؤ۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تم خداکے محبوب بن جاؤ گے۔ یعنی خدا تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگ جائے گا اس سے ظاہر ہے کہ اسلام اسی پر بس نہیں کرتا اور دیگر مذاہب کی طرح یہی نہیں کہتا کہ تمہارے دل میں خدا کی محبت پیدا ہو جائے گی بلکہ یہ بھی کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگ جائے گا۔ یہ اسلام اور دوسرے مذاہب میں بہت بڑا فرق ہے۔

یہ مَیں نے پہلے بتایا ہے کہ اپنے مذہب کو اعلیٰ ثابت کرنے کے لئے یہ غلط طریق ہے کہ دوسرے مذاہب کے بزرگوں کو گالیاں دی جائیں اور ان مذاہب کی کسی خوبی کا اعتراف نہ کیا جائے۔ اگر کسی کے پاس خوبی ہے تو اس کو پیش کرنا چاہئے دوسروں کو گالیاں دینے کا کیا فائدہ۔ کسی کو گالیاں دینے اور مارنے کی ضرورت اسی وقت ہوا کرتی ہے کہ جب اور طریق سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ ایک طاقتور اور زبردست تو سزا دینے کے وقت بھی نرمی اورڈھیل ہی دیا کرتا ہے۔ دیکھو چوہے بلی کی کتنی ادنیٰ مثال ہے۔ بلی ایک ذلیل سا جانور ہے مگر وہ بھی چوہے کو پکڑتے وقت اپنا وقار دکھاتی ہے۔ پکڑ کر چھوڑ دیتی ہے پھر جب چوہا بھاگنے لگتا ہے تو پھر پکڑ لیتی ہے۔ اسی طرح کئی بار پکڑتی اور چھوڑتی ہے۔ تو طاقتور اور زبردست انسان چھچھورا نہیں ہوتا۔ چھچھورا پن وہی انسان دکھاتا ہے جو اپنی کمزوری کو محسوس کرتا ہے۔ تو یہ کسی کی صداقت اور خوبی کی دلیل نہیں ہے کہ دوسروں کو گالیاں دی جائیں۔ بلکہ صداقت کی دلیل یہ ہے کہ اپنی خوبیاں پیش کی جائیں۔ اگر واقع میں وہ خوبیاں ہوں گی تو ضرور قبول کی جائیں گی۔ ڈنڈے اور زور سے تو کوئی خوبی نہیں منوائی جاتی۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button