حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

احمدیوں کا ایک فرض: اسلام کی تعلیمات کو پھیلانا

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 04؍ جون 2004ء)

اللہ تعالیٰ نے ہم احمدیوں پر یہ انعام اور احسان بھی فرمایا ہے کہ اس نے ہمیں اس گروہ میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی جو تمام انبیاء پر یقین رکھنے والا اور ان پر ایمان لانے والا ہے۔ اور سب سے بڑھ کریہ کہ ہادیٔ کامل حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں شامل فرمایا اور پھر یہ بھی انعام فرمایا کہ اس ہادیٔ کامل صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق اور عاشق کامل علیہ السلام کی جماعت میں بھی شامل فرما دیا اور اس لحاظ سے ہم اپنے آپ کو جتنا بھی خوش قسمت سمجھیں کم ہے اور اس احسان پر اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔ لیکن واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہم پر ایک ذمہ داری بھی ڈالتا ہے کہ جس قیمتی خزانے کو تم نے حاصل کیا ہے، جس لعل بے بہا کو تم نے پا لیا ہے اس کو اپنے تک ہی محدود نہیں رکھنا بلکہ اس خزانے کو اور ان خزائن کو جو ہزاروں سال سے مدفون تھے، ان خزانوں کو جن کو حاصل کرنے کے بعد انسان خدا تک پہنچ سکتا ہے، دوسروں تک بھی پہنچائیں، انہیں بھی شیطان کے چنگل سے آزاد کروائیں، اور اللہ تعالیٰ کے عبادت گزار بندے بنائیں۔ اور اس حدیث پر عمل کرنے والے ہوں کہ جو تم اپنے لئے پسند کرتے ہو وہ دوسروں کے لئے بھی پسند کرو۔ ان کو بھی اس میں سے حصہ دو، اس خزانے کو، اس گہر نایاب کو دبا کر ہی نہ بیٹھ جاؤ بلکہ اس کو دنیا کے ہر شخص تک پہنچاؤ۔ مسلمانوں کو بھی پہنچاؤ کہ وہ بھولے بیٹھے ہیں اور اس انتظار میں ہیں کہ کب کوئی مہدی اور مسیح آتا ہے اور ان کی رہنمائی کرتا ہے۔ اور اسی انتظار میں وہ دجال کے دجل کے نیچے دبتے چلے جا رہے ہیں اور نقصان اٹھاتے چلے جا رہے ہیں۔ ہر طرف سے ان پر سختیاں ہیں۔ کچھ ان کو سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا ہو رہاہے۔ یہاں تک کہ مسلمان اپنے ملکوں میں بھی آزادی سے سانس لینے کے حقدار نہیں ہیں۔ اپنے ملکوں میں بھی وہ وہی کچھ کرنے پر مجبور ہیں جو دجال ان سے کروانا چاہتا ہے۔ پھر جیسا کہ میں نے کہایہ مسلمان خود غرض ملّاؤں اور دجالی قوتوں کے پنجے میں پھنس کے ظلم کی چکی میں اس طرح پس رہے ہیں کہ جس کی کوئی انتہا نہیں اور ان ہوس پرست مُلّاؤں نے انہیں دین سے بھی دور کر دیا ہے اور مسلمان کہلانے کے باوجود خداتعالیٰ کی تعلیم پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے بھی دور جا چکے ہیں۔ لیکن ایک احمدی کو کیونکہ عمومی طور پر انسانیت سے ہمدردی بھی ہے اور پھر مسلمانوں سے تو خصوصی طور سے ہمدردی ہونی چاہئے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والے ہیں۔ ہم پر فرض بنتا ہے کہ ان کو ان اندھیروں سے نکالیں، ان تک اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچائیں کہ مسیح اور مہدی کی جماعت میں شامل ہو جاؤ تو فلاح پاؤ گے۔

اسی طرح عیسائیوں اور دوسرے مذاہب والوں کو بھی اسلام اور احمدیت کا پیغام پہنچائیں۔ ایک درد کے ساتھ ان کے لئے دعائیں کریں۔ ان کو اللہ تعالیٰ کا عبادت گزار بنائیں۔ دنیا میں تیزی سے تباہی آ رہی ہے اور بڑی تیزی سے تباہی کی طرف دنیا بڑھ رہی ہے۔ اس کی نزاکت کے پیش نظر ہمیں اس طرف بہت توجہ دینی چاہئے۔ تبھی ہم اللہ تعالیٰ کی نظروں میں بہترین ٹھہر سکتے ہیں، تبھی ہم خیر امت ہونے کا حق ادا کر سکتے ہیں۔ اپنی امت کے کسی شخص کے ذریعے کسی دوسرے شخص کے ہدایت پا جانے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کس قدر خوشی کا اظہار فرمایا ہے۔اس کا اندازہ اس حدیث سے ہوتا ہے۔ حضرت سہل بن سعد ؓروایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے حضرت علیؓ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ بخدا تیرے ذریعے ایک آدمی کا ہدایت پا جانا، تیرے لئے اعلیٰ درجہ کے سرخ اونٹوں کے مل جانے سے زیادہ بہتر ہے۔(مسلم کتاب فضائل الصحابہ۔ باب فضائل علی بن ابی طالب)

سرخ اونٹ اس زمانے میں بڑی قدر و قیمت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ جس طرح اس زمانے میں بڑی بڑی کاریں ہیں یا شاید اس سے بھی زیادہ۔ کیونکہ اس زمانے میں سفر کا ذریعہ خاص طور پر ریگستان میں، اور وہ ریگستانی علاقہ ہی تھا اونٹ ہی ہوتا تھا۔ تو فرمایا کہ دنیاوی لحاظ سے جو ایک اعلیٰ معیار ہے کسی انعام کا اس سے بڑھ کر کسی کی ہدایت کا باعث بن کر کسی کو سیدھے راستے پر لا کر تم اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی برکتوں کے مورد ہو گے۔

غرض کہ اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے والے کا دنیاوی نظر سے بھی کوئی مقابلہ نہیں ہے، کوئی موازنہ نہیں ہے۔ انسان کی سوچ سے ہی باہر ہے، اس لئے اس طرف بہت توجہ کریں۔ آپ لوگ جو ان ملکوں میں بیٹھے ہوئے ہیں، یہاں بھی فرض بنتا ہے کہ اسلام کی تعلیم کو پہنچائیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’ ہمارے اختیار میں ہو تو ہم فقیروں کی طرح گھر بہ گھر پھر کر خداتعالیٰ کے سچے دین کی اشاعت کریں اور اس ہلاک کرنے والے شرک اور کفر سے جو دنیا میں پھیلا ہوا ہے لوگوں کو بچا لیں۔ اگر خداتعالیٰ ہمیں انگریزی زبان سکھا دے تو ہم خود پھر کر اور دورہ کرکے تبلیغ کریں اور اس تبلیغ میں زندگی ختم کر دیں خواہ مارے ہی جاویں‘‘۔ (ملفوظات جلد دوم۔ صفحہ 219۔ الحکم 10؍جولائی 1902ء)

… اللہ کرے کہ ہم میں سے ہر ایک سچی تڑپ کے ساتھ نوع انسانی کی سچی ہمدردی اور امت محمدیہ کے ساتھ محبت کے جذبے کے تحت حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا یہ پیغام دنیا کے ہر فرد تک پہنچانے والا ہو اور ہم اُسے پہنچاتے چلے جائیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے آج کل، جیسا کہ پہلے میں نے کہا، ایم ٹی اے کا بھی ایک ذریعہ نکال دیا ہے، اپنے دوستوں کو اس سے متعارف بھی کرانا چاہئے۔ لیکن یہ یاد رکھیں کہ پیغام پہنچانے کے، تبلیغ کرنے کے بھی کوئی طریقے، سلیقے ہوتے ہیں۔ اس سچی تڑپ اور جوش اور جذبے کے ساتھ حکمت اور دانائی کا پہلو بھی مدنظر رہنا چاہئے۔ حکمت کے ساتھ اس پیغام کو پہنچانا چاہئے تاکہ دنیا پر اثر بھی ہو اور جس نیت سے ہم پیغام پہنچا رہے ہیں وہ مقصد بھی حاصل ہو، نہ کہ دنیا میں فساد پیدا ہو۔ اس لئے اس قرآنی آیت کو اس معاملے میں ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے۔

فرمایا: اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَالۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ وَجَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ؕ اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنۡ ضَلَّ عَنۡ سَبِیۡلِہٖ وَہُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُہۡتَدِیۡنَ(النحل:126)یعنی اپنے رب کے راستے کی طر ف حکمت کے ساتھ اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دے اور ان سے ایسی دلیل کے ساتھ بحث کر جو بہترین ہو۔ یقیناً تیرا رب ہی اسے، جو اس کے راستے سے بھٹک چکا ہو، سب سے زیادہ جانتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کا بھی سب سے زیادہ علم رکھتا ہے۔

پس جو مختلف ذرائع ہیں ان کو استعمال کریں جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا۔ لیکن مختلف لوگوں کی مختلف طبائع ہوتی ہیں ان طبائع کے مطابق ان کو نصیحت ہونی چاہئے، ان کو تبلیغ ہونی چاہئے۔ اگر ایسی صورت پیدا ہو جائے جہاں فتنہ پیدا ہونے کا خطرہ ہو تو دعائیں کرتے ہوئے کیونکہ اصل چیز تو دعا ہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو کھینچتی ہے تو اللہ سے دعائیں کرتے ہوئے اس سے مدد مانگتے ہوئے ایسی جگہوں سے پھر بچنا چاہئے، اٹھ جانا چاہئے عارضی طور پر۔ لیکن یہ نہیں ہے کہ ان لوگوں کے لئے دعائیں کرنی بند کر دیں بلکہ ان لوگوں کی ہدایت کے لئے مسلسل اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہنا چاہئے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:’’جسے نصیحت کرنی ہو اسے زبان سے کرو۔ ایک ہی بات ہوتی ہے وہ ایک پیرایہ میں ادا کرنے سے ایک شخص کو دشمن بنا سکتی ہے اور دوسرے پیرائے میں دوست بنا دیتی ہے۔ پس وَجَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ کے موافق اپنا عمل درآمد رکھو۔ اسی طرز کلام ہی کا نام خدا نے حکمت رکھا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے یُؤۡتِی الۡحِکۡمَۃَ مَنۡ یَّشَآءُ‘‘ (البقرۃ:270)۔(الحکم جلد 7 نمبر 9 مورخہ 10؍مارچ 1903ء صفحہ 8)

جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے فرمایاکہ حکمت بھی اسے میسر آتی ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ چاہے اس لئے داعی الی اللہ کو ایک تبلیغ کرنے والے کو اللہ تعالیٰ کے آگے بہت جھکنے والا اور اس سے ہر وقت مدد مانگنے والا ہونا چاہئے۔ جب ہم اللہ تعالیٰ کی طرف کسی کو بلا رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے واسطے سے ہی سب کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔ اس لئے دعوت الی اللہ کرنے سے پہلے بھی دعائیں کریں۔ اس دوران میں بھی دعائیں کریں اور ہمیشہ بعد میں بھی دعائیں کرتے رہنا چاہئے۔ اور اللہ تعالیٰ کے حضور ہی جھکتے رہنا چاہئے۔ اور اس سے حکمت و دانائی اور اس کا فضل ہمیشہ طلب کرتے رہنا چاہئے۔ اور جب اس طرح کام کو شروع کریں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ بےانتہا برکت پڑے گی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button