یادِ رفتگاں

ڈاکٹرحیات عمرخضر صاحب مرحوم، کچھ یادیں کچھ باتیں

(ڈاکٹر منور احمد۔ آکسفورڈ، یوکے)

میرے عزیز دوست محترم ڈاکٹر حیات عمرصاحب ولد محمد سعید صاحب خاموشی کے ساتھ اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے۔ مرحوم چند ہفتوں سے ہسپتال میں زیر علاج تھے۔ کافی عرصے سے مختلف بیماریاں لاحق تھیں۔ دو بار دل کا آپریشن ہو چکا تھا، ذیابیطس کے لیے انسولین کے انجیکشن لگاتے تھے، گردے بالکل ناکارہ ہو چکے تھے، ہر ہفتہ دو تین دفعہ ڈائلیسز کے لیے ہسپتال جانا پڑتا تھا، خون کی کمی کی وجہ سے کئی بار بلڈ ٹرانسفیوژن کی ضرورت پڑی، گھٹنوں کے دردوں کی وجہ سے زیادہ چل پھر نہیں سکتے تھے لیکن آپ نے بڑے عزم و ہمت کے ساتھ اپنی بیماریوں کا مقابلہ کیا اوربالآخر مورخہ 10؍اگست 2021ء بروز منگل یہ نوع انسانی کا خدمت گزار باکردار مخلص احمدی نوّے برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون

محترم ڈاکٹر حیات عمر خضر صاحب مرحوم 10؍ جولائی 1931ء کو ہندوستان کے شہر سرگودھا میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کےبعد1955ء میں نشترمیڈیکل کالج میں داخلہ لیا۔ میرا تعارف موصوف سے اسی کالج کے زمانے میں ہی ہوا۔ وہاں وہ حیات عمرخضرکے نام سے ہی جانے جاتےتھے۔ کلاس فیلو کے طور پر بھی رابطہ تھااورپھراحمدی ہونے کے ناطے جماعتی پروگراموں اور دیگر سر گرمیوں میں تو اکثر ملاقات رہتی تھی۔ کچھ عرصہ ہوسٹل میں ان کے ساتھ ایک کمرے میں رہنے کا بھی موقع ملا اور اس طرح انہیں بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ وہ بہت خوش مزاج، خوش ذوق اورنفاست پسند انسان تھے۔ کمرے میں ہر چیز بڑے سلیقے کے ساتھ ایک خاص ترتیب سے رکھتے تھے، اور پسند نہیں کرتے تھے کہ کوئی کسی چیز کو ادھرسے اُدھر کرے، روز مرہ کے معمول میں بھی باقاعدگی کا عنصر نمایاں تھا۔ طالب علمی کے زمانے میں کچھ وزن بڑھ گیا، اس پر کسی نے طنز کی، تب سے ورزش شروع کی اور پھرپوری زندگی باقاعدگی سےورزش کرتے رہے۔

طبیعت میں مزاح بھی تھا اکثر لطیفے سناتے رہتے تھے۔ پاس ہونے کی خوشی میں پارٹی کا اہتمام کیا گیا۔ ایک کلاس فیلو کے بھائی وکیل تھے اپنے ایک دو وکیل دوستوں کے ساتھ مدعوتھے، وکیلوں نے یکے بعد دیگرے ڈاکٹروں کے متعلق لطیفے سنا سنا کر ہماراخوب جلوس نکالا، ہم نے کہا خضر یار! تم بڑے لطیفے سناتے رہتے ہو آج موقع ہے اور تم خاموش ہو کچھ تو بولو۔ غالباً وہ اُن کے مہمان ہونے کا لحاظ کررہے تھے۔ بس اک اشارہ کافی تھا، خضر میاں میدان میں اُترے اور وکیلوں کے متعلق ایک ایسازوردار لطیفہ سنایا کہ اُن سب کی بولتی بند کردی۔ اُنہیں ماننا پڑا کہ وہ لطیفہ اُن کے سب لطیفوں پر بھاری تھا۔

میڈیکل کی تعلیم سے 1960ء میں فارغ ہونے کے بعد کچھ عرصہ پاکستان میں ملازمت کی اور بعد ازاں سعودی عرب چلے گئے اور وہاں سے انگلینڈ آگئے۔ آکسفور ڈیونیورسٹی سےشعبہ نفسیات میں کورس کیا اور ایک کامیاب اورپیشہ ورنفسیاتی معالج کے طور پر پہلےLuton اور پھر Devon/Cornwal میں کام کرتے رہے۔ Devon/Cornwal میں صدر جماعت کی حیثیت سے خدمت کی توفیق بھی پائی اور بڑی جانفشانی سے اپنے فرائض سر انجام دیے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد2008ءمیں علم کی پیاس اُنہیں آکسفورڈ لے آئی اور وفات تک یہیں رہے۔

علمی ذوق رکھتے تھے، عربی ادب سے خاص لگاؤ تھا۔ پرانے عرب شعراء لبید وغیرہ کا مجموعہ کلام اپنے پاس رکھتے تھے، عربی تفاسیر کا مطالعہ کرتے اور اپنے نوٹس لکھتے رہتے تھے۔ حدیث نبوی کی تعمیل میں آخری عمر تک اپنے علم میں اضافہ کی کوشش کرتے رہے، آکسفورڈ یونیورسٹی میں فلکیات کی تعلیم حاصل کی، یونیورسٹی کی لائبریری کے ممبر تھے اور جب تک ان کی صحت نے اجازت دی باقاعدگی سے اس سے استفادہ کرتے رہے، آپ Yiddish زبان بھی سیکھ رہےتھے۔ اکثر محترم مبارک احمد بسرا صاحب مربی سلسلہ (حال بریڈ فورڈ)، ڈاکٹر حیات عمر صاحب اور خاکسار جیوش سنٹر، مسلم کرسچین سینٹر کی میٹنگز میں اور دیگر علمی مجالس اور پروگراموں میں جایا کرتے تھے، آپ وہاں تبلیغ کے مواقع کی تلاش میں رہتے تھے۔ گرمی سردی حتیٰ کہ برف باری کے موسم میں بھی ہمارے آکسفورڈ سٹی سینٹر میں تبلیغ کے اسٹال پر حاضر ہوجاتے تھے۔ خلیفہ وقت اور جماعت کی محبت اُن کی شخصیت کا نمایاں وصف تھا۔

آپ نے اپنے بچوں کا ہمیشہ بہت خیال رکھا۔ گو اپنی زندگی کے آخری چند سال انتہائی نا مساعد حالات میں گذارے لیکن کیا مرنجاں مرنج قسم کی طبیعت پائی تھی! ان سب مشکلات کے باوجود اپنی بشاشت کو برقرار رکھا، اپنی زندگی کے خوشگوار لمحات کا اکثر ذکر کرتےتھے، لطیفے اور چٹکلے خوب سناتے تھے، خود بھی محظوظ ہوتے اور سننے والے بھی۔ کبھی انہیں پریشان یا غمگین نہ دیکھا، نہ کسی کے خلاف شکوہ شکایت کرتے سنا، وفات سے قریباً چند ماہ قبل کہنے لگےکہ میں جلد ہی نوے سال کا ہو جاؤں گا لیکن میں ایسا (یعنی اتنا بوڑھا) محسوس نہیں کرتا۔ بےشمار و ا قعا ت ا یسے ہیں جواُن کی شخصیت کابھرپوراحاطہ کرتے ہیں۔

مرحوم موصی تھے۔ بڑی تفصیل سے اپنی آمد کا حساب کر کے شرح کے مطابق بر وقت چندہ کی ادائیگی کرتے تھے۔ وفات سے چند سال قبل ہی اپنے حصہ جائیداد کی مکمل ادائیگی کردی تھی۔ 13؍اگست 2021ء بروز جمعۃ المبارک بعد نماز جنازہ Godalming قبرستان کے قطعہ موصیان میں اُن کی تدفین عمل میں آئی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان کے درجات بلند فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ ترین مقام سے نوازے۔ آمین ثم آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button