متفرق

حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیشہ عورتوں میں بھی دینی خدمت کی تحریک فرماتے تھے

دنیا میں بہت سے بڑے آدمی گزرے ہیں جنہوں نے اپنے اعمال سے بنی نوع انسان کو بہت فائدہ پہنچایا ہے۔ اور جن کے ذکر سے صفحات تاریخ بھرے پڑے ہیں۔ مگر جن کا ذکر ہوا ہے ان سے بھی زیادہ وہ لوگ ہیں جن کو اپنی بڑائی کےظاہر کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ ورنہ وہ نہ معلوم کیسے بڑے آدمی بنتے۔ مثلاً بہت سے بچے جو بلوغت سے پہلے ہی فوت ہو جاتے ہیں۔ کون کہہ سکتا ہے کہ ان میں کیسے کیسے قویٰ موجود ہوں گے اور اگر وہ زندہ رہتے تو ان میں سے کتنے بچے دنیا میں عظیم الشان تغیرات پیدا کرنے والے ہوتے۔ ان میں وہ بھی ہوں گے جو روحانیت کے کمالات حاصل کرنے کے قابل ہوں گے۔ وہ بھی جو زندہ رہتے تو جرأت و دلیری میں نام پاتے، وہ بھی جو بڑے فلاسفر ہوتے۔ وہ بھی جو بڑے موجد ہوتے۔ وہ بھی جو بڑے مد بّر ہوتے۔ مگر موت نے ان کی سب خوبیوں کو ڈھانپ لیا۔ اور ان کو غیب درغیب مصالح کی وجہ سے اپنے قویٰ کے اظہار کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔ ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر ابراہیم( آپ کا صاحبزادہ) زندہ رہتا تو نبی ہوتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی بشیر اوّل اور مبارک احمد کی نسبت الہام میں خبر دی گئی تھی کہ یہ نہایت اعلیٰ قابلیتیں اور طاقتیں لے کر پیدا ہوئے تھے۔ اور اگر زندہ رہتے تو بہت بڑے آدمی ہوتے۔ پس ان لوگوں کے علاوہ جن کو ترقی کا موقع ملا اور انہوں نے کارہائے نمایاں کیے ایک اور بھی گروہ ہے جسے کام کا موقع نہیں ملا۔ ورنہ وہ بھی بڑے کام کے لوگ ہوتے۔

وہ بچے جن کو موت نے کنج تنہائی میں سلا دیا۔ وہی نہیں ہیں جن کی طاقتیں ظاہر نہیں ہوئیں۔ بلکہ زندوں میں سے بھی ہزاروں ہیں کہ جن کو اپنے فطرتی قویٰ کے اظہار کا موقع نہیں ملا۔ ورنہ قدرت نے ان کے اندر ایسے قویٰ رکھے ہیں۔ وہ دنیا میں عظیم الشان تغیرات پیدا کرنے کے موجب ہو جاتے۔ ایک مشہور جرنیل یا کمانڈر نے فوج میں امتیاز تب پیدا کیا ہے جبکہ اسے فوج میں لگایا گیا۔ ورنہ اور ہزاروں ہیں جو اسی کی سی طاقتیں رکھتے ہیں۔ اور اسی کے سے دل گردہ کے آدمی ہیں۔ مگر چونکہ انہیں فوج میں داخل ہونے کا موقع نہیں ملا۔ ان کی بہادری اور جرأت کا اظہار ہی نہیں ہو سکا۔ اور گمنامی میں ہی اس دنیا سے گزر گئے۔ پس ایک مشہور جرنیل کی نسبت یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے فطرتی قویٰ کے لحاظ سے اپنی فوج میں سے ممتاز تھا۔ مگر یہ نہیں کہہ سکتےکہ وہ سب دنیا کے آدمیوں سے اپنی فطرتی طاقتوں اور استعدادوں میں بڑھا ہوا تھا۔ کیونکہ بہت ہیں جن کو کسی نہ کسی وجہ سے اپنی طاقتوں کے اظہار کا موقع ہی نہیں ملا۔ اسی طرح ایک بڑا سائنسدان جو اپنے ہم پیشوں پر خاص فوقیت رکھتا ہو اُسے چونکہ موقع مل گیا اس نے اپنے کمالات ظاہر کر دیے۔ لیکن افریقہ کے جنگلوں اور سائبیریا کے بیابانوں اور ہمالیہ کی چوٹیوں پر بہت سے ایسے رہنے والے ہوں گے کہ جنہیں سائنس کے مطالعہ کا اگر ویسا ہی موقع ملتا جیسا کہ اس سائنسدان کو ملا ہے تو وہ اس سے بہت زیادہ استعداد رکھتے تھے اور ضرورنہایت نافع ثابت ہوتے۔

غرض کے انسانی زندگی کے سمندر میں بہت سے موتی ہیں جن کو نکالا نہیں گیا۔ ورنہ وہ ان موتیوں سے بھی زیادہ چمکدار اور آبدار تھے۔ جن کی روشنی دنیا والوں کی نظروں کو خیرہ کرتی ہے۔ اور جن کی تعریف و توصیف میں وہ رطب اللسان رہتے ہیں۔ اور اگر وہ ظاہر ہوتے تو شاید بہت ہیں جو اس وقت ایک فن کے کامل ماہر مانے جاتے ہیں۔ مگر ان کی موجودگی میں ایک طفل مکتب کی حقیقت رکھتے۔

درحقیقت اگر غور کیا جائے تو ہر فن کے صاحب کمال صرف اس فن کے مطالعہ کرنے والوں میں سے ممتاز ہوتے ہیں۔ لیکن ان کے علاوہ اس وقت کروڑوں انسان ہوتے ہیں جو کہ اگر ایسی تربیت کو حاصل کرتے جو دوسروں کو ملی ہے تو وہ ضرور صاحب کمال ہوتے۔

غرض کہ انسان کے جو ہر کام کرانے سے ظاہر ہوتے ہیں۔ اور جب انسان سے کام نہ لیا جاوے تو اس کے کمالات کا اظہار نہیں ہو سکتا۔ جو ہر کے ظاہر ہونے کا ایک ہی طریق ہے کہ انسان کو کام کرنے کا موقع دیا جائے۔ افریقہ کے جنگلوں کے رہنے والوں کی نسبت کون خیال کرسکتا ہے کہ ان میں بھی کوئی علم ترقی پا سکتا ہے لیکن درحقیقت اگر وہ بھی اسی طرح موجودہ علم کی تعلیم پائیں جس طرح اہل یورپ اور امریکہ کو نصیب ہے تو ان میں سے بہت سے سپینسر اورڈارون پیدا ہوجائیں۔ اور کئی ایڈیسن اور مارکونی ظاہر ہوجائیں۔ اور متعدد کاخ اور پسٹور اپنی علمی تحقیقاتوں سے دنیا کو محو حیرت کر دیں۔ لیکن ان کو موقع نہیں دیا گیا پھر ان کے کمالات کا اظہار کیوں کر ہو۔

موجودہ زمانہ میں عورتوں کو کام کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔ اس لئے ان کی فطرتی قوتوں کے نشوو نما پانے کے ذرائع مفقود ہو گئے ہیں۔ اور مسلمان آبادی کا نصف حصہ گویا بالکل بیکار ہو رہا ہے۔ باوجود اس تنزل کے جو مسلمانوں کے ساتھ اس زمانے میں وابستہ ہے پھر بھی ان میں کوئی نہ کوئی لائق مرد پیدا ہوتا رہتا ہے مگر کیا وجہ کہ عورتوں میں کام کرنے والی نہیں ملتیں۔ اس لئے کہ عورتوں کو کام کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ اور انہیں صرف ایک کھلونا تصور کر لیا گیا ہے جو خاوند کے دل بہلانے کے لیے اس کے ہاتھ میں دے دیا جاتا ہے۔

اگر عورتوں سے کام لیا جائے اور ان مختلف میادین ترقی میں جو ان کے لئے موزوں ہوں ان کو سمند طبع کی جولانی کا موقع دیا جائے تو بہت سے عیوب و نقائص کو دور کرنے والی باہمت عورتیں پیدا ہوجائیں۔

دنیا والے دنیا کا حال جانیں اور اس کے متعلق فکر کریں ہم تو یہ کہتے ہیں کہ دین کم سے کم مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے آیا ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ عورتوں سے دین کی حفاظت کا کام نہ لیا جاوے۔

صحابہ کی عورتیں جہادوں میں شامل ہوتی تھیں اور ان کا یہ کام تھا کہ وہ پیاسوں کو پانی پلائیں۔ زخمیوں کی مرہم پٹی کریں۔ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں جنگ میں شامل ہوتی تھیں اور یہ کام کرتی تھیں۔ بعد ازاں ان کے ذریعہ شریعت اسلامی کوبہت کچھ فائدہ پہنچتا رہا۔ اور وہ علمی خدمت بجا لاتی رہیں۔ پھراب عورتیں ان کاموں میں ہمت نہیں کرتیں۔ اسی لئے کہ اُن کو موقع نہیں دیا گیا۔ ورنہ ضرور ان میں سے ایسی عورتیں بھی نکلتیں کہ جو اپنی بہنوں کی علمی ترقی کا ذریعہ بن جاتیں جو بعض مردوں سے زیادہ فرقہ نسواں کی اصلاح کر سکتی تھیں۔ ضرور تھا کہ ان میں سے ایسی عورتیں بھی نکلتیں جو خدمت دینی کے شوق میں مردوں سے بھی بڑھ جاتیں۔ جو مالی ایثار میں مردوں سے زیادہ ہمت دکھاتیں مگر افسوس کہ ان کو موقع نہیں دیا گیا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیشہ عورتوں میں بھی دینی خدمت کی تحریک فرماتے تھے۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت کی عورتیں نسبتاًدینی اور علمی مشاغل میں زیادہ حصہ لیتی رہتی ہیں۔

دعوۃ الی الخیر کی تحریک جب میں نے شروع کی۔ تو مجھے یہ بھی خیال پیدا ہوا کہ احمدی خواتین کا بھی تو فرض ہے کہ وہ اس کام میں پورے زور سے مدد کریں۔ اور اگر انہیں اس طرف توجہ نہیں ہوئی تو ان کا قصور نہیں کیونکہ کب انہیں کام کرنے کا موقع دیا گیا۔ اور انہوں نے انکار کر دیا؟ اس لیے میں نے کہا کہ ایک دعوۃ الی الخیر کا زنانہ فنڈ کھولا جائے جس میں عورتوں کے چندے شائع کیے جائیں۔ اور عورتوں میں تحریک کی جائے کہ وہ بھی اس دینی کام میں ہمارا ہاتھ بٹائیں۔ آج کل دین کی سب سے پہلی مدد مالی مدد ہے اور وہ اس کام میں تو کم سے کم فورا ًحصہ لے سکتی ہیں۔

میری اس تحریک کو خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ مدد مل گئی کہ حضرت ام المومنین نے بھی اس کام کے لیے چندہ دیا ہے اور میں زنانہ دعوۃ الی الخیر فنڈ کی ابتدا اسی رقم سے کرتا ہوں۔ اور امید رکھتا ہوں کہ احمدی خواتین اس نظیر کی اتباع کے لیے پوری ہمت دکھائیں گی۔ کیونکہ دین کی تبلیغ مردوں اور عورتوں کا مشترکہ کام ہے۔ حضرت ام المومنین نے اس کے لئے دو صد روپیہ دیے ہیں۔ اللہ اس کے ساتھ اور رقم بھی شامل کرکے اس میں برکت دے۔

( اخبار الفضل قادیان 25؍فروری1914ء صفحہ 11)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button