انبیاء سچائی ہی کے ذریعہ سے تبلیغ کرتے ہیں اور یہی آج ہمارا کام ہے
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 9؍ستمبر2011ء)
اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کی سچائی اور صدق ہی اُسے اپنے وقت میں، اپنی زندگی میں یعنی اُس نبی کی زندگی میں اُس فرستادے کی زندگی میں لوگوں کی توجہ کھینچنے کا ذریعہ بناتا ہے اور کچھ بعد میں دین کی ترقیات دیکھ کر، ماننے والوں کے عمل دیکھ کر، اُس جماعت کو دیکھ کر جو اُس نبی کے ساتھ جُڑی ہوتی ہے، خدا کی طرف سے رہنمائی پاکر ہدایت پاتے ہیں۔ بہر حال جب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر غور کرتے ہیں تو آپ کو لوگ، اُس زمانے کے کفار بھی صدوق و امین کے نام سے ہی جانتے تھے۔(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، حدیث بنیان الکعبۃ… صفحہ 155، ما دار بین رسول اللّٰہﷺ وبین رؤساء قریش صفحہ 224 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی ہی تھی کہ جب آپ نے اپنے عزیزوں اور مکّہ کے سرداروں کو جمع کر کے کہا کہ اگر مَیں تمہیں کہوں کہ اس ٹیلے کے پیچھے ایک فوج چھپی ہوئی ہے جو تمہیں نظر نہیں آ رہی تو کیا یقین کر لو گے۔ جو بظاہر ناممکن بات تھی کہ اُس کے پیچھے کوئی فوج چھپی ہو یہ ہو نہیں سکتا کہ نظر نہ آئے۔ لیکن اس کے باوجود سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) تُو نے کبھی جھوٹ نہیں بولا اس لئے ہم یقین کر لیں گے۔(صحیح بخاری کتاب التفسیر، سورۃ تبت یدا ابی لہب باب 1/1 حدیث نمبر 4971)
پھر آپ نے اُن لوگوں کو تبلیغ کی۔ لیکن یہ دنیا دار لوگ تھے۔ جو پتھر دل تھے اُن پر تو اس کا کوئی اثر نہیں ہوا، اُن کے انجام بھی بد ہوئے، کچھ بعد میں مسلمان ہوئے۔
تو بہر حال انبیاء اپنی سچائی سے ہی دنیا کو اپنی طرف بلانے کے لئے قائل کرتے ہیں۔ قرآنِ کریم نے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تبلیغ کے ذکر کو بیان فرماتے ہوئے قرآنِ کریم میں آپ کے یہ الفاظ محفوظ فرمائے ہیں کہ فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہِ أَفَلَا تَعْقِلُوْنَ (سورۃ یونس: 17) یعنی پس میں اس سے پہلے بھی تمہارے درمیان ایک عمر گزار چکا ہوں کیا تم عقل نہیں کرتے۔ یہ وہ دلیل ہے جو نبوت کی سچائی اور خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجے جانے کے متعلق دی کہ مَیں نے ایک عمر تمہارے درمیان گزاری ہے کبھی جھوٹ نہیں بولا اب بوڑھا ہونے کو آیا ہوں تو کیا اب جھوٹ بولوں گا اور وہ بھی خدا تعالیٰ پر؟ جس نے جھوٹ کو شرک کے برابر قرار دیا ہے اور یہ بھی میری تعلیم میں درج ہے۔ اور مَیں تو آیا ہی توحید کے قیام کے لئے ہوں۔ پس یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب تھا۔ پس انبیاء کی تبلیغ کا بہت بڑا ذریعہ اور ہتھیار اُن کی سچائی کا اظہار ہوتا ہے۔ اُن کی زندگی کے ہر پہلو میں سچائی کی چمک ہوتی ہے جس کا حوالہ دے کر وہ اپنی تبلیغ کرتے ہیں اپنا پیغام پہنچاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی یہ الہام ہوا کہ وَلَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ۔ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ اور مَیں ایک عمر تک تم میں رہتا رہا ہوں کیا تم کو عقل نہیں۔ اس بارے میں ’’نزول المسیح‘‘ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ
’’قریباً 1884ء میں اللہ تعالیٰ نے مجھے اس وحی سے مشرف فرمایا کہ وَلَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہِ أَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۔ اور اس میں عالم الغیب خدا نے اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ کوئی مخالف کبھی تیری سوانح پر کوئی داغ نہیں لگا سکے گا۔ چنانچہ اس وقت تک جو میری عمر قریباً پینسٹھ سال ہے (جب آپ نے یہ لکھا فرمایا کہ میری عمر پینسٹھ سال ہے) کوئی شخص دُور یا نزدیک رہنے والا ہماری گزشتہ سوانح پر کسی قسم کا کوئی داغ ثابت نہیں کرسکتا بلکہ گزشتہ زندگی کی پاکیزگی کی گواہی اللہ تعالیٰ نے خود مخالفین سے بھی دلوائی ہے جیساکہ مولوی محمد حسین صاحب نے نہایت پُرزور الفاظ میں اپنے رسالہ اشاعۃ السنۃ میں کئی بار ہماری اور ہمارے خاندان کی تعریف کی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ اس شخص کی نسبت اور اس کے خاندان کی نسبت مجھ سے زیادہ کوئی واقف نہیں اور پھر انصاف کی پابندی سے بقدر اپنی واقفیت کے تعریفیں کی ہیں۔ پس ایک ایسا مخالف جو تکفیر کی بنیاد کا بانی ہے پیشگوئی وَلَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ کا مصدق ہے‘‘۔ (نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 590)
پس سچائی ایک ایسی چیز ہے جو نبی کے سچا ہونے کے لئے اور تبلیغ کے لئے ایک بہت بڑا ذریعہ ہے، تبھی تو اللہ تعالیٰ بھی اپنے انبیاء کی اس بات کو کہ مَیں ایک عمر تک تم میں رہا ہوں کبھی جھوٹ نہیں بولا کیا اب بولوں گا، اس بات کو اپنے پیاروں کی ایک بہت بڑی خاصیت اور صفت کے طور پر پیش فرماتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں یہ اقتباس بھی جو پڑھا ہے، آپ نے سنا۔ جب آپ کی سیرت پر دشمن بھی داغ نہیں لگا سکے تو سچائی جو سیرت کا سب سے اعلیٰ وصف ہے اس کے بارے میں کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ نعوذ باللہ آپ جھوٹے ہیں۔ آجکل کے مولوی یا جو بھی اعتراض کرنے والے ہیں جو مرضی کہتے رہیں۔ ہاں منہ سے بَک بَککرتے ہیں کرتے رہیں لیکن کسی بات کو ثابت نہیں کر سکے۔ اور آج بھی جو لوگ نیک نیت ہیں اور نیک نیت ہو کر خدا تعالیٰ سے ہدایت اور مدد مانگتے ہیں، اللہ تعالیٰ اُن پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سچائی ثابت فرماتا ہے۔
…پس یہ سچائی ہے جس کو انبیاء لے کر آتے ہیں جس کا اظہاراُن کی زندگی کے ہر پہلو سے ہوتا ہے اور یہ سچائی ہی ہے جس کو ہم نے (جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ماننے والے ہیں ) دنیا پر ظاہر کرنا ہے۔ کیونکہ انبیاء کے ماننے والوں کا بھی کام ہے کہ جس نبی کو وہ مانتے ہیں اُس کی سچائی کے بارے میں بھی دنیا کو بتائیں۔ اُنہیں بھی ہدایت کے راستوں کی طرف لائیں اور اس زمانے میں اسلام ہی وہ آخری مذہب ہے جو سب سچائیوں کا مرکز ہے۔ یہی وہ واحد مذہب ہے جو اپنی تعلیم کو اصلی حالت میں پیش کرتا ہے۔ یہی وہ واحد مذہب ہے جس میں ابھی تک خدا تعالیٰ کی کتاب اپنی اصل حالت میں موجود ہے اور انشاء اللہ قیامت تک موجود رہے گی۔ یہ قرآنِ کریم کا دعویٰ ہے جو سچائی اور ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ باقی سب مذہبی کتب میں کہانیوں اور قصوں اور جھوٹ کی ملونی ہوچکی ہے۔ پس اس سچائی سے دنیا کو روشناس کروانا ایک مسلمان کا فرض ہے۔ لیکن مسلمانوں کی اکثریت تو خود غلط کاموں میں پڑی ہوئی ہے جیسا کہ پہلے بھی میں نے بیان کیا وہ کسی کو سچائی کا کیا راستہ دکھائیں گے۔
…ہم احمدی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کی جماعت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، ہم نے یہ سچائی کا پیغام دنیا کو پہنچانا ہے، لیکن کس طرح؟ پہلے تو ہمیں اپنے آپ کو سچا ثابت کرنا ہو گا۔ انبیاء نے اپنی سچائی کی دلیل اپنی زندگی میں سچ کی مثالیں پیش کرکے دی کہ روزمرہ کے عام معاملات سے لے کر انتہائی معاملات تک کسی انسان سے تعلق میں، Dealing میں کبھی ہم نے جھوٹ نہیں بولا۔ پس یہ سچائی کا اظہار ہمیں بھی اپنی زندگیوں میں کرنا ہو گا۔ اور یہی کام ہے جو انبیاء کے ماننے والوں کا ہے کہ جس طرح انبیاء اپنی مثال دیتے ہیں اُن کے حقیقی ماننے والے بھی اپنی سچائی کو اس طرح خوبصورت کر کے پیش کریں کہ دنیا کو نظر آئے۔ ہمیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر عمل کرنے کا حکم ہے۔ پس اس اسوہ پر چلتے ہوئے سچائی کے خُلق کو سب سے زیادہ ہمیں اپنانا ہو گا۔ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مشن کو تبھی پورا کر سکتے ہیں جب اس خُلق کو اپنائیں گے۔ تبھی ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو دنیا تک پہنچانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ لیکن سچائی کے یہ معیار تبھی حاصل ہوں گے جب ہم ہر سطح پر خود اپنی زندگی کے ہر لمحے کو سچائی میں ڈھالیں گے۔ ہماری گھریلو زندگی سے لے کر ہماری باہر کی زندگی اور جو بھی ہمارا حلقہ اور ماحول ہے اُس میں ہماری سچائی ایک مثال ہو گی، تبھی ہماری باتوں میں بھی برکت ہو گی، تبھی ہمارے اخلاق اور سچائی دوسروں کو متأثر کر کے احمدیت اور اسلام کے قریب لائیں گے۔ پس اس کے لئے ہمیں ایک جدوجہد اور کوشش کرنی ہو گی۔ اپنے عملوں کو سچائی سے سجانا ہو گا۔ اگر ہم چھوٹے چھوٹے مالی فائدوں کے لئے جھوٹ کا سہارا لینے لگ گئے تو پھر ہماری باتوں کا کیا اثر ہوگا۔