خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 13؍مئی 2022ء

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابوبکر صدیق عبداللہ بن عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

٭…حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دَور کے فتنےاور اُن کے خلاف مہمات کاتذکرہ

٭…آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعدمالک بن نویرہ مرتد ہوگیا اور زکوٰۃ کی فرضیت کے قائل مسلمانوں کو قتل کیا

٭…حضرت ابوبکرؓ کے دَور میں ہر ایک شخص جس کو سزا دی گئی اس نے نہ صرف مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تھی بلکہ مرتد بھی ہو گئے تھے

٭…جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوہ موجود ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ حضرت خالد بن ولیدؓ پر دوران ِجنگ یا فوراً بعد شادی کرنے پر بلاوجہ اعتراض کیا جائے

٭…حضرت ابوبکرؓ نے حضرت خالدؓ کے نام خط میں لکھا کہ تقویٰ اختیار کرو اور تمہارے ساتھ جو مسلمان ہیں ان کے ساتھ باپ کی طرح پیش آؤ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 13؍مئی 2022ء بمطابق 13؍ہجرت 1401ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے مورخہ 13؍مئی 2022ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔جمعہ کی اذان دینےکی سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے میں آئی۔

تشہد،تعوذ،تسمیہ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا:

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دَور کے فتنےاور اُن کے خلاف مہمات کا ذکر ہورہا تھا۔ حضرت خالد بن ولیدؓکی بطاح کے علاقےکی جانب مالک بن نویرہ کی طرف پیش قدمی کی تفصیل یوں بیان ہوئی ہے۔مالک بن نویرہ کا تعلق بنو تمیم کی ایک شاخ بنو یربوع سے تھا۔اس نے 9ہجری میں اپنی قوم کے ساتھ اسلام قبول کیا۔اپنی قوم کے سرداروں میں سے ایک تھا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اپنے قبیلے کی زکوٰة کے اموال وصول کرنے کی ڈیوٹی سپرد کرتے ہوئے عاملِ زکوٰة کے عہدے پر مقرر کیا تھا۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد عرب میں ارتداد اور بغاوت کی لہر اٹھی تو مالک بن نویرہ بھی مرتد ہوگیا اورایک طرف تو اس نے اپنے قبیلے کے اُن مسلمانوں کو قتل کیا جو زکوٰة کی فرضیت کے ساتھ ساتھ اسے مدینہ بھجوانے کے بھی قائل تھےجبکہ دوسری طرف نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والی باغیہ سجاح کے ساتھ شامل ہو گیا جوایک بہت بڑا لشکر لے کر مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے آئی تھی۔

سجاح قبیلہ بنو تمیم سے تعلق رکھتی تھی اور اپنے مسیحی قبیلہ اور خاندان کی بنا پر مسیحیت کی اچھی خاصی عالم عورت تھی۔سجاح نے مالک کے علاوہ بنو تمیم کے دوسرے سرداروں کو بھی مصالحت کی دعوت دی لیکن وکیع کے سوا کسی نے یہ دعوت قبول نہیں کی۔ سجاح نے مالک وکیع اور اپنے لشکر کے ہمراہ دوسرے سرداروں پر دھاوا بول دیا۔ گھمسان کی جنگ ہوئی ، جانبین کے کثیر تعداد میں آدمی قتل ہوئے لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد مالک اور وکیع نے اپنی غلطی محسوس کرنے پر دوسرے سرداروں سے مصالحت کر لی اور اس طرح قبیلہ تمیم میں امن قائم ہو گیا۔سجاح نے بنو تمیم سے بوریا بستر اٹھایا اور مدینہ کی جانب کوچ کر دیا۔ نباح کی بستی میں پہنچ کر اوس بن خزیمہ سے اس نے شکست کھائی جس کے بعدمدینہ کی طرف پیش قدمی نہ کرنے کی شرط پر اس کی جاں بخشی ہوئی۔پھر یہ اپنے لشکر کے ہمراہ یمامہ پہنچی۔

یمامہ میں مسیلمہ نے سجاح کواپنا ہمنوا بنانے کے لیے اس سے شادی کرلی ۔ مسیلمہ نےمہر کی مد میں اس کی خاطر عشاء اور فجر کی نمازوں میں تخفیف کر دی۔بعدازاں یمامہ کی زمینوں کی لگان کی نصف آمد سجاح کو دینے پر تصفیہ طے پایا۔بعض کے نزدیک سجاح نے حضرت عمرؓ کے زمانے میں اسلام قبول کیا یہاں تک کہ حضرت امیر معاویہؓ نے قحط والے سال اسے اس کی قوم کے ساتھ بنوتمیم میں بھیج دیا جہاں وہ وفات تک مسلمان ہونے کی حالت میں مقیم رہی۔

حضرت ابوبکرؓ کے حکم پر جب حضرت خالدؓ مالک بن نویرہ سے مقابلے کے لیے بطاح آئے تو انہوں نے مختلف فوجی دستے اِدھر اُدھر روانہ کیے کہ جہاں پہنچیں اسلام کی دعوت دیں۔ جو جواب نہ دے اُسے گرفتار کریں اور جو مقابلہ کرے اُسے قتل کردیں۔ایک دستہ مالک بن نویرہ کے ساتھ بنو ثعلبہ بن یربوع کے چند آدمی عاصم، عبید، عرین اور جعفر کو گرفتار کرلایا۔اس دستے میں ان لوگوں کے نماز پڑھنے یا نہ پڑھنے پراختلاف شہادت کی وجہ سے حضرت خالدؓ نے ان لوگوں کو قید کردیا۔ شدید سردی کی وجہ سے حضرت خالدؓ نے حکم دیا: ’’ادفئوا اسراکم‘‘ یعنی اپنے قیدیوں کو گرم کرو۔ لیکن سپاہیوں نے مقامی محاورے کے اعتبار سے سمجھا کہ قتل کرو۔اس لیے انہوں نے ان سب کو قتل کرڈالا۔

تاریخ طبری میں مذکور ہے کہ حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ سے عرض کیا کہ خالدؓ ایک مسلمان کے خون کا ذمہ دار ہے اس لیے اسے قید کردیا جائے۔ حضرت ابوبکرؓنے فرمایا کہ خالد بن ولیدؓسے اجتہادی غلطی ہوئی ہے لہٰذا اس معاملے میں خاموشی اختیار کرواور حضرت ابوبکرؓ نے مالک کا خون بہا ادا کردیا۔ایک روایت کے مطابق حضرت خالد ؓ مہم سے پلٹ کر حضرت ابوبکرؓ کے پاس گئے اور سارا واقعہ سُنا کر معذرت چاہی جو حضرت ابوبکرؓ نے قبول فرمائی۔ ایک اور مصنف لکھتے ہیں کہ مالک بن نویرہ کےقتل کی روایات میں بہت زیادہ اختلاف ہےکہ آیا وہ مظلوم قتل ہوا یاقتل کا مستحق تھا۔ کبر ،غرور، تردّداور جاہلیت مالک کے اندرباقی رہی ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفہ رسولؐ کی اطاعت اور بیت المال کے حق زکوٰة کی ادائیگی میں ٹال مٹول نہ کرتا۔ اگر مالک بن نویرہ کے خلاف کوئی حجت ودلیل نہ ہو تو صرف زکوٰة روک لینا ہی اس پر فرد جرم عائد کرنے کے لیے کافی ہے۔

حضرت خالد بن ولیدؓ کے متعلق ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ آپؓ نے دوران جنگ مالک بن نویرہ کی بیوی لیلیٰ بنتِ منہال سے شادی کی اور عدت گزرنے کا بھی انتظار نہیں کیا۔ علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ جب لیلیٰ بنت منہال حلال ہو گئی تو حضرت خالدؓ نے اُس سے شادی کی۔علامہ ابن خلکان لکھتے ہیں کہ ام ّتمیم نے تین مہینے گزار کر اپنی عدت پوری کی اور پھر حضرت خالدؓ کی طرف سے نکاح کا پیغام اُس نے قبول کر لیا۔ حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی لکھتے ہیں کہ مالک بن نویرہ نے اس عورت کو ایک عرصے سے طلاق دے رکھی تھی اورجاہلیت کی پائیداری میں اسے یوں ہی گھر میں ڈال رکھا تھا۔اسی رسم جاہلیت کے توڑنے پر قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی تھی:وَاِذَا طَلَّقۡتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغۡنَ اَجَلَہُنَّ فَلَا تَعۡضُلُوۡھُنَّ۔یعنی جب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور اُن کی عدت پوری ہو جائے تو اُنہیں روکے نہ رکھو۔لہٰذا اس عورت کی عدت تو کب کی پوری ہو چکی تھی اور نکاح حلال ہو چکا تھا کیونکہ اُس نے طلاق دے کر صرف اپنے گھر میں رکھا ہوا تھا۔

ڈاکٹر علی محمد صلابی لکھتے ہیں کہ شرعی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو خالدؓ نے ایک جائز کام کیا اور اس کے لیے شرعاًجائز طریقہ اختیار کیا اور یہ فعل تو اس ذات سے بھی ثابت ہے جو خالدؓ سے افضل تھے۔اگر خالد ؓپر یہ اعتراض ہے کہ انہوں نے جنگ کے دوران میں یا اس کے فوراً بعد شادی کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ مریسیع کے فوراً بعد جویریہ بنت حارثؓ سے شادی کر لی تھی اور یہ اپنی قوم کے لیے بڑی بابرکت ثابت ہوئی تھیں کہ اس شادی کی وجہ سے ان کے خاندان کے سو آدمی آزاد کر دیے گئے کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سسرالی رشتہ میں آ گئے اور اس شادی کے بابرکت اثرات میں سے یہ ہوا کہ ان کے والد حارث بن ضرارؓ مسلمان ہو گئے۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خیبر کے فوراً بعد صفیہؓ بنت حُیَیّ بنت اخطب سے شادی کی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس سلسلے میں اُسوہ اور نمونہ موجود ہے تو عتاب اور ملامت کی کوئی وجہ نہیں کہ حضرت خالد بن ولیدؓ پر بلاوجہ الزام لگایا جائے۔

حضور انور نے فرمایا کہ مَیں نے اس لیے یہ تفصیل بیان کی ہے کہ بعض کم علم آج کل بھی یہ سوال اٹھاتے ہیں اور حضرت ابوبکرؓپر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ اس بارے میں صحیح تھے اور حضرت ابوبکرؓ نے نعوذ باللہ انصاف سے کام نہیں لیا اور غلط رنگ میں حضرت خالد بن ولیدؓکی حمایت کی ہے۔ حالانکہ حضرت ابوبکرؓ نے یہ ساری تفصیلات دیکھیں اورسارا جائزہ لے کر فیصلہ کیا اور اس سارے الزام سے حضرت خالدؓکو بری فرمایا۔

حضرت ابوبکرؓ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو حکم دے رکھا تھا کہ وہ قبیلہ اسد،غطفان اور مالک بن نویرہ وغیرہ سے فارغ ہو کر یمامہ کا رخ کریں۔ آپؓ نے ایک خط حضرت خالدؓکے نام لکھا کہ تمہیں میری وصیت ہے کہ اللہ وحدہٗ لاشریک سے تقویٰ اختیار کرو اور تمہارے ساتھ جو مسلمان ہیں ان کے ساتھ نرمی برتواورباپ کی طرح پیش آؤ۔جب بنو حنیفہ سے مقابلہ میں اترو تو بذات خود فوج کی کمان سنبھالو۔ میمنہ پر ایک شخص کو اور میسرہ پر ایک شخص کو اور شہسواروں پر ایک کو مقرر کرو۔اکابرین صحابہ اور مہاجرین و انصار سے برابر مشورہ لیتے رہو اور ان کے فضل و مقام کو پہچانو۔ جب دشمن صف بستہ ہوں تو ان پر ٹوٹ پڑو۔ ان کے قیدیوں کو تلواروں پر اٹھا لو۔ قتل کے ذریعہ ان میں خوف و ہراس پیدا کرو۔ ان کو آگ میں جھونکو۔ خبردار میری حکم عدولی نہ کرنا۔

حضرت خالدؓنے جب خط پڑھا تو مسلمانوں کو اپنے ساتھ تیار کیا اور بنو حنیفہ یعنی مسیلمہ سے قتال کے لیے روانہ ہوئے۔ مرتدین میںسے جن سے راستہ میںواسطہ پڑتا اس کو عبرتناک سزا دیتے۔ حضرت ابوبکر ؓنے حضرت خالدؓ کی حفاظت کے لیے ایک بہت بڑی فوج بہترین اسلحے سے لیس روانہ کی تا کہ لشکر خالدؓ پر کوئی پیچھے سے حملہ آور نہ ہو سکے۔ حضرت خالدؓکا گزر یمامہ کے راستے میں بہت سے بدو قبائل سے ہوا جو مرتد ہو گئے۔ ان سے جنگ کر کے انہیں اسلام کی طرف واپس لائے۔ راستہ میں سجاح کی بچی کھچی فوج ملی اُن کی خبر لی، انہیں قتل کیا اور عبرتناک سزائیں دیں۔ پھر یمامہ پر حملہ آور ہوئے۔

حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ نے آخرمیں فرمایا کہ جنگ یمامہ کی تفصیل ان شاء اللہ آئندہ بیان ہو گی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button