تعارف کتاب

صحیفۂ آصفیہ (مصنفہ خواجہ کمال الدین صاحب)

(اواب سعد حیات)

ایک قابل قدر کاوش تھی جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقام ومرتبہ بتاکر معزز اور صاحب اقتدار حکمران کو تبلیغ حق کی گئی ہے

محترم خواجہ کمال الدین صاحب پیشے کے لحاظ سے وکیل تھے جنہوں نے برصغیر کے اندر اور باہر اپنی ایک مسلمان لیکچرر کے طور پر شہرت بنائی۔ آپ کا لاہورشہر کے ایک قدیمی و معروف مسلمان گھرانے سے تعلق تھا۔ نوجوانی میں فارمین کرسچین کالج لاہور سے تعلیم کے دوران عیسائیت کی طرف مائل ہونے لگے۔ لیکن حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی ملاقات، آپ کی تحریرات کے مطالعے اور آپ کی پاکیزہ صحبت وکلمات نے خواجہ صاحب کے بہت سے وساوس کا خاتمہ کردیا۔ آپ نے احمدیت قبول کرکےحضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت کی سعادت بھی پائی اور بعض دفعہ حضور علیہ السلام کی طرف سے عدالتوں میں بھی پیش ہوئے۔

آپ کے بارے میں ملتا ہے کہ 1898ءمیں وکالت کی تعلیم مکمل کرکے پشاور میں پریکٹس شروع کی تھی، نیزاسلامیہ کالج لاہور میں بطور لیکچرر اور بعد ازاں بطور پرنسپل بھی کام کیا۔ 1912ء میں بمبئی میں مقیم ایک مخیرشخص نواب سید رضوی صاحب کی طرف سے پریوی کونسل میں ایک ذاتی مقدمہ دائر کرنے کے لیے ان کے ہی مہیا کردہ خرچ (8ہزار روپے اور 2 ہزار روپے) پر انگلستان کا سفر اختیارکیا، حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے قیمتی نصائح سے نوازا۔ آپ کو انگلستان میں بطور نمائندہ اسلام لیکچرز دینے کا موقع ملا، لندن شہر سے باہر واقع ووکنگ مسجد کی دوبارہ بحالی کے بعد وہاں امامت کے فرائض بھی ادا کرتے رہے۔ انگلستان میں ایک انگریزی رسالہ دی اسلامک ریویو کی ادارت کی اورمتعدد مطبوعات کے مصنف تھے۔

آپ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے بعد جاری ہونے والی قدرت ثانیہ، نظام خلافت سے منسلک رہے لیکن حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی بیعت کی سعادت سے محروم ہوگئے اور احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے سرکردہ لیڈر بن کرقادیان دارالامان سے تعلق توڑ بیٹھے اور قریباً 62سال کی عمر میں دسمبر 1932ء کو لاہور میں وفات پائی۔

موصوف کی زیر نظر کتاب صحیفہ آصفیہ کا ایڈیشن اول ماسٹرببلیوگرافی کےمطابق 23؍مئی 1909ء کو طبع ہواتھا تب مصنف جماعت احمدیہ قادیان کے ایک ممبر اور حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی بیعت میں تھے۔ تب ایڈیشن اول کی کل 1500 کاپیاں محض دو ہفتوں میں طبع کرواکر تقسیم کی گئی تھیں۔ یاد رہے کہ صحیفہ آصفیہ کا دوسرا ایڈیشن بھی جلد بعد میں یعنی 25؍ستمبر 1909ء کو سامنے آگیا تھاتب یہ مصنف صاحب امیراکدل، سری نگر میں مقیم تھے۔

اس کتاب کے ٹائٹل پر حضر ت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا الہام درج ہے: ’’دنیا میں ایک نذیر آیا، پر دنیا نے اسے قبول نہ کیا۔ لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی کو ظاہر کردےگا۔‘‘اور پھر ’’وما علینا الا البلاغ ‘‘کے بعد لکھاہے کہ’’ صحیفۂ آصفیہ الموسوم بہ تبلیغ بہ حضور نظام۔ خلد اللہ ملکہ۔ از جانب: حضرت قدوۃ السالکین سلطان العارفین سید المتقین عالی جناب امیر المومنین حضرت قبلہ حاجی حکیم مولوی نورالدین صاحب خلیفۃالمسیح الموعود علیہ السلام۔ مصنفہ: یکے از شاگردان حضرت خلیفۃ المسیح، خواجہ کمال الدین بی۔ اے۔ ایل۔ ایل۔ بی، وکیل چیف کورٹ پنجاب۔ مصنف کرشن اوتار۔سن 1909ء۔ مطبوعہ رفاہ عام سٹیم پریس لاہور باہتمام مولوی عبدالحق صاحب مالک و مینجر‘‘

کتاب کا مزید تعارف کروانے سے قبل عرض ہے کہ حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے تب ایک نہایت مؤثر اور بلیغ تبلیغی خط بھی تحریر فرمایا تھا جو کتاب صحیفہ آصفیہ کے ساتھ شاہانہ طریق پر فرمانروا کی خدمت میں پیش کیاگیا تھا۔ اس مضمون کے آخر پر اس خط کا مکمل متن پیش کیا جارہاہے۔

اور ایڈیشن دوم کے وقت حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی اجازت اور منظوری سے کتاب صحیفہ آصفیہ کے ساتھ ہی طبع کروادیا گیا۔ جس کی نقل اس کتاب کے ایڈیشن دوم کے بالکل شروع میں پیش کی گئی ہے۔ (احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کی ویب سائٹ پر موجود کتاب صحیفہ آصفیہ کے پی ڈی ایف نسخہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے خط کو کتاب کے آغاز سے ختم کرکے آخر پر درج کر دیا گیا ہے)

یاد رہے کہ مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد مسلمانوں کی جو خود مختار ریاستيں بر صغیر میں قائم ہوئیں ان میں سب سے بڑی اور طاقتور ریاست حیدر آباد دکن کی مملکت آصفیہ تھی۔ اس مملکت کے بانی نظام الملک آصف جاہ تھے۔ چنانچہ اسی نسبت سے اس ریاست کو مملکت آصفیہ یا آصف جاہی مملکت کہا جاتا ہے۔ اس کتاب کی تصنیف کے وقت حیدر آباد دکن پر آصف جاہ ششم میر محبوب علی خان حاکم تھے۔ جن کے خطابات میں GCB، GCSI وغیرہ تھے۔ آپ 1866ء میں پیدا ہوئے اور 1911ء میں وفات پائی۔ آپ ایک علم پرورشخصیت، مختلف زبانوں سے اچھی واقفیت رکھنے والےاور اپنے زمانے کے نامی گرامی علماء اور محققین کے سرپرست اور کفیل تھے۔ مشہور اردو لغت فرہنگ آصفیہ ان ہی کی سرپرستی کا نتیجہ تھا۔ مولوی عبدالحق مصنف تفسیر حقانی، قدر بلگرامی، مولانا شبلی، الطاف حسین حالی، پنڈت رتن ناتھ سرشار، مولانا عبد الحلیم شرر جیسے ان گنت ارباب علم نے ان کی سرپرستی میں ساری زندگی کسب معاش سے بےنیاز ہو کرآرام سے گزار دی۔ داغ دہلوی کا سرکار آصفیہ سے پندرہ سو روپیہ وظیفہ مقرر تھا۔ ان کی علمی سرپرستی کی وجہ سے انہیں شاہ العلوم کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔

کتاب صحیفہ آصفیہ کے ایڈیشن دوم میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کے تبلیغی خط کے بعد خواجہ کمال الدین صاحب کے لکھے ہوئےاس خط کی نقل بھی درج ہے جو انہوں نے مہاراجہ سر کشن پرشاد صاحب وزیر اعظم دولت آصفیہ کے نام تحریر کیا تھا۔ اس مختصر خط میں مکتوب الیہ کو گیتا کے حوالہ جات پیش کرکے ضرورت زمانہ کی دلیل سے احقاق حق کیا گیا تھا۔ مثلاًاس میں لکھاکہ’’یہ عریضہ اس عظیم الشان انسان کے ایک ادنیٰ غلام کی طرف سے ہے جو اس کل جگی زمانہ میں سری مہاراج کرشن جی کے نام نامی پر سری بھگوان کے اس ست بچن کے مطابق اس ملک ہندوستان میں ظاہر ہواہے جو سری مہاراج نے آج سے پانچ ہزار برس پہلے گیتا میں فرمایا تھا:

…(ترجمہ)جب کبھی دنیا میں ادھرم ہوجاتا ہے اس وقت میں کسی نہ کسی شکل میں ظاہر ہوتا ہوں …عالیجاہا۔ اس سرزمین پنجاب میں ایک مقدس انسان اٹھا اور اس الہام ربانی کے ماتحت آج سے تین سال پہلے کرشن رودھر گوپال ہونے کا دعویٰ کیا۔ وہ نیکوں کی پالنا اور بروں کا ناش کرکے دھرم کی بنیاد دنیا میں قائم کرگیا…۔‘‘(صفحہ ط تا ل)

کتاب صحیفہ آصفیہ میں مکتوب الیہ کو صداقت حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے متفرق دلائل سے جستہ جستہ آگاہ کیا گیا ہے مثلاً ضرورت زمانہ۔ انبیاء کے دشمنوں کی ہلاکت و ناکامی و بربادی۔ زمینی و آسمانی حالات و واقعات۔ انذار و تبشیر وغیرہ۔

مثلاً صفحہ 12 پر مَاکُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًاکے معانی و منطوق کو کھولا گیا ہے۔

صفحہ 17 پر ولَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهٖۚ أَفَلَا تَعْقِلُوْنَ کاغور کرنے کا بتایاگیا ہے۔ ( یہاں شائد کاتب کی غلطی سے ولقد لبثت…لکھا گیا ہے جبکہ فقد لبثت…ہی درست ہے)

صفحہ 18سے 20 تک علامات زمانہ درج کی گئی ہیں جن کا احادیث میں ذکر ملتاہے۔

سورج چاند گرہن کے ذکر کے بعد صفحہ 25 پر لیکھرام کے بارے میں قہری نشان کی تفصیلات درج ہیں۔

صفحہ 30 پر لکھاہے کہ’’ظل اللہ! حضور والا نے قرآن کریم میں ملاحظہ فرمالیا ہوگا کہ علم غیب کے راز کسی نجوم یا جفر کا نتیجہ نہیں ہوتے۔ بلکہ وہ انھیں پر ظاہر ہوتے ہیں جو خدا کے برگزیدہ مرسل ہوتے ہیں۔ اور نہ کوئی زید و بکر اس طاقت اور تحدی کے ساتھ بغیر خدا کے بلائے بول سکتا ہے جیسے قرآن مجید فرماتا ہے:

وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُطۡلِعَکُمۡ عَلَی الۡغَیۡبِ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَجۡتَبِیۡ مِنۡ رُّسُلِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ۔ (آل عمران: 180)

عٰلِمُ الۡغَیۡبِ فَلَا یُظۡہِرُ عَلٰی غَیۡبِہٖۤ اَحَدًا۔اِلَّا مَنِ ارۡتَضٰی مِنۡ رَّسُوۡلٍ۔ (الجن: 27-28)‘‘

پھر اگلے صفحات میں طاعون اور زلزلوں وغیرہ کے نشانات کی تفصیلات درج ہیں۔

صفحہ 48 پر لکھا کہ ’’اس وقت کا نذیر صرف ملک ہند کے لئے نذیر نہ تھا۔ بلکہ یہ امام اسلام کل دنیا کے لئے نذیر ہو کر آیا تھا۔ کیونکہ وہ غفلت و ضلالت جو عذاب الٰہی کی اصل محرک ہے۔ اس کی حکومت اس وقت کل دنیا پر تھی…‘‘

اگلے صفحات میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے چند دیگر نشانات کا ذکرکرکے افراد جماعت کی خدمات اسلامیہ اور تبلیغی کاوشوں کی ترقیات کا ذکرہے۔

الغرض یہ خواجہ کمال الدین صاحب کی طرف سے ایک قابل قدر کاوش تھی جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقام ومرتبہ بتاکر معزز اور صاحب اقتدار حکمران کو تبلیغ حق کی گئی ہے۔

نقل مراسلہ

من جانب

حضرت امیر المومنین علیہ السلام

بحضور

نظام خلد اللہ ملکہ،

جس کے ساتھ صحیفہ آصفیہ بھیجا گیا

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم محمد خاتم النبیین ورسول رب العالمین وَاٰلِہٖ مَعَ التَّسْلِیْم

بگرامی خدمت سلطان ابن السلطان سلطان ابن السلطان حضور سلطان دکن

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

اما بعد۔ بامتثال ارشاد واجب الانقیاد حضرت رب العالمین شاہان شاہ ملیک مقتدر مالک یوم الدین ان چند سطور کے پیش کرنے کی جرأت کرتا ہوں۔ اور وہ ارشادیہ ہے:۔

کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَتَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ (ہو تم بہت ہی اچھی جماعت وجود میں لائی گئی لوگوں کی بھلائی کے لئے۔ امر کرتے ہو پسندیدہ کام کے روکتے ہو نا پسند سے)

عالیجاہا۔ اگرچہ مادی محققوں کے نزدیک صرف سلسلہ اسباب و مسببات کے ماتحت تمام حوادث ارضیہ کا وقوع ہوتا ہے۔ بلکہ حوادث سماویہ کا حدوث بھی انہی اسباب سے ہے۔ مگر مترجمانِ کلمات الٰہیہ (صلی اللّٰہ علیھم اجمعین)کے پاس جو کلام الٰہی پہنچاہے۔ اس میں ان حوادث کے وقوع کے لئے اصل میں دو سبب بیان کئے گئے ہیں۔ اور آپ اور آپ جیسے ہزاروں بادشاہ اور سلاطین ان مترجموں (صلوٰت اللّٰہ علیھم) کو راستباز مانتے آئے ہیں۔ اور ان کے بیان کی تصدیق بدل و جان فرماتے رہے اور فرماتے ہیں۔ اور وہ اسباب ہماری پاک و مقدس لاریب فیہ من رب العالمین کتاب قرآن کریم میں یہ بیان ہوئے ہیں:۔

اول۔

مَا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ(النساء: 80) جو کچھ پہنچا تجھے کسی قسم کی بھلائی سے۔ پس وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔

اور دوم کی نسبت کسی قدر تفصیل کے ساتھ عرض کرتا ہوں کیونکہ اسی کا بیان میرا مقصود ہے۔

(الف)وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ (الشورىٰ: 31) جو کچھ پہنچا تم کو کسی مصیبت سے تو وہ بنسبت اس کے جو کمایا تمہاری طاقتوں نے اور عفوفرماتا ہے، وہ اللہ بہت بدیوں سے حاصل ہر مصیبت کا باعث بدی ہے۔

(ب)فَأَخَذَهُمُ اللّٰهُ بِذُنُوبِهِمْ وَاللّٰهُ شَدِيدُ الْعِقَابِ۔ (آل عمران: 12) پھر پکڑ لیا ان کو اللہ نے بسبب ان کی بدیوں کے، اور اللہ سب بدیوں کا بدلہ دینے والا ہے۔

(ج)ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوْا (الروم: 42)شرارت بر و بحر میں ظاہر ہوچکی ہے، بسبب اس کے جو کمایا ان کے ہاتھوں نے تو کہ چکھادے کچھ مزہ اس کا کہ انہوں نے کیا۔

(د)ذٰلِكَ جَزَيْنَاهُمْ بِمَا كَفَرُوا وَهَلْ نُجَازِي إِلَّا الْكَفُورَ (سبأ :18) یہ جزادی ہم نے انہیں اس لئے کہ کفر کیا انہوں نے اور نہیں جزا دیتے ہم مگر منکروں کو۔

(ہ)ذٰلِكَ جَزَيْنَاهُمْ بِبَغْيِهِمْ وَإِنَّا لَصَادِقُوْنَ(الانعام: 147) یہ بدلہ دیا ہم نے ان کو بسبب ان کی بغاوت کے اور ہم سچے ہیں۔

(و) وَمَا أَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَةٍ فَمِنْ نَفْسِكَ(النساء: 80)اور جو پہنچا تجھے کسی قسم کی تکلیف سے پھر وہ بباعث تیری اپنی جان کے ہے۔

(ز) ذٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ يَدَاكَ وَأَنَّ اللّٰهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيْدِ (الحج: 11) یہ بسبب اس کے کہ آگے کیا تیرے دونوں ہاتھوں نے، ا ور تحقیق اللہ ظالم نہیں بندوں پر۔

(ح) ذٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ ايَدَیكمَ وَأَنَّ اللّٰهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ(آل عمران) یہ بسبب اس کے کہ آگے کیا تمہارے ہاتھوں نے، ا ور تحقیق اللہ ظالم نہیں بندوں کے لئے۔

(ط)إِنَّ اللّٰهَ لَا يَظْلِمُ النَّاسَ شَيْئًا وَلَكِنَّ النَّاسَ أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُوْنَ(يونس: 45) تحقیق اللہ ظلم نہیں کرتا لوگوں پر کچھ بھی۔ ولکن لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔

(ی)وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُوْنَ (البقرة: 11) اوران کے لئے عذاب عظیم ہےاس لئے کہ جھوٹ بولتے ہیں۔

ان آیات کریمہ میں صاف صاف فرمایا گیا ہے کہ سلسلہ اسباب میں تکالیف شدیدہ اور مصائب شاقہ کا آنا صرف انسان کے اعمال بد کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اور اسی کا ثمرہ ہے بلکہ عربی زبان جو ام الالسنۃ ہے اس کے عجائبات سے بھی اسی کا صاف پتہ چلتا ہے کیونکہ تکالیف و مصائب کو قرآن کریم اور لسان عربی مبین نے عقاب فرمایا ہے جو اصل لفظ عقب سے نکلا ہے، اس کے معنی پیچھے کے ہیں۔ کیا معنی پہلے جب انسان ایسے امور کا ارتکاب کرتا ہے جس کا نتیجہ دکھ ہوتا ہے تو پیچھے دکھ آجاتا ہے۔

عالیجاہا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو حصوں پر منقسم فرمایا ہے ایک حصہ انسان کا وہ ہے جس پر فعل و ترک فعل میں انسانی دست تصرف اور استطاعت و مقدرت کا دخل نہیں۔ اور دوسرا حصہ وہ ہے جس پر انسان کو استطاعت و مقدرت اور تصرف عطا ہوا ہے۔ اگر پہلا حصہ حکومت انسانیہ کے ماتحت نہیں تو اس کے اس حصہ پر حکومت کرنے کے لئے حکام روحانی انبیاء و اولیاء علیھم الصلوٰت والتسلیمات اورجسمانی حکام سلاطین اور بادشاہوں کی حکومت کا بھی تعلق نہیں۔ مثلاً ہم لوگوں میں اس قدر ہڈیاں اعصاب، شریانیں، وریدیں ہونی چاہئیں۔ اس کے متعلق شرائع انبیاء و رسل و قوانین سلاطین ساکت ہیں۔

دوسرا حصہ جس پر ہماری حکومت ہے مثلاً زبان سے بولنا، ہاتھ پاؤں سے بشرط صحت کام لینا۔ اس حصہ میں اگر ہم ایسا تصرف کریں جو قوانین الٰہیہ اور قوانین حکام دنیا کے خلاف ہو تو دونوں ہمیں سزا دینے کو متوجہ ہوتے ہیں۔ اور ایک حد تک عفو بھی فرمائیں تو دوسرے حدو موقع پر واجب الاخذ بھی تجویز فرماتے ہیں۔ ان ظاہری حکام و بادشاہوں اور سلاطین کے قوانین چونکہ بدیوں کے اصل اصول کو دور کرنے میں کافی نہ تھے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے روحانی بادشاہ بھی وقتاً فوقتا ًآتے رہے اور آتے رہیں گے۔ مثلاً زنا بالجبر کا مرتکب، سلاطین ظاہر کے قوانین اور پولیس کے دست تصرف کے نیچے آکر سزا کا پانے والا ہوسکتا ہے۔ مگر نظر بد سے کام لینا اور کانوں کے ذریعہ ایسے امور کا سننا جو اصل مبداء زنابالجبر ہے۔ چونکہ قوانین سلاطین جسمانی کے ماتحت نہیں آسکتا۔ اور جب تک یہ انتظام نہ ہو۔ امن کا قیام مشکل ہے۔

اس لئے انبیاء و رسل کے ذریعہ ایسی سلطنت قائم ہوتی رہتی ہے۔ جو اصول جرائم کو باطل کرتی رہے۔ اور خاتم الرسل و النبیینﷺ کے بعد آپ کی امت میں ہمیشہ مجدد و ائمہ اس سلسلہ کی حفاظت کے لئے مامور ہوتے رہتے ہیں۔ اور جس طرح جسمانی بادشاہ توسیع ملک اور اندرونی انتظامات کے لئے شب و روز فکرمند رہتے ہیں اسی طرح یہ باطنی سلطنت والے ہر دم اسی طرح زندگی بسر کرتے ہیں۔

عالیجاہا۔ ظاہری سلطنتیں جس طرح بدامنی کے بعد پیدا ہوتی ہیں، باطنی سلطنتیں بھی اسی طرح روحانی بدامنی کے بعد پیدا ہوتی ہیں۔

ہاں۔ اس میں شک نہیں۔ کہ ہر ایک سلطنت کا ابتداء بہت خفیف رنگ میں ہوتا ہے۔ مگر آخر بتدریج الٰہی تائیدوں سے قوی ہوتا جاتا ہے۔ اور جس طرح ظاہری فوجیں امور ملک داری میں امداد کرتی ہیں اسی طرح الٰہی افواج باطنی سلطنت کے استحکام پر ممد ہوتی ہیں۔

قرآن کریم نے فرمایاہے۔

فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيْحًا وَجُنُودًا لَمْ تَرَوْهَا (الاحزاب: 10)کہ بھیجا ہم نے ان پر تیز ہواؤں اور ایسے لشکروں کو جو تم نے نہیں دیکھا۔

عالیجاہا۔ موجودہ وقت میں اخلاق ذمیمہ، رذائل اور روحانی امراض کا جیسا زور ہے اور جس طرح اس میں بد امنی نظر آتی ہے۔ تواریخ میں اس شدت کی روحانی بدامنی نظر نہیں آتی۔ فسق و فجور کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ کوئی بدی نہیں رہی۔ جس کا ارتکاب کھلا نہیں ہورہا۔ جماع الاثم شراب، کروڑوں کا ہر ہفتہ میں فروخت ہوتا ہے۔

حبائل الشیطان عورتیں بے حجاب ہیں۔ زنا جرم نہیں رہا۔ عام علماء، سجادہ نشین، اور امرا کے حالات آپ سے مخفی نہیں۔ مذہب صرف ہنسی، کھیل، تحقیر کا مشغلہ ہے۔ الاماشاء اللہ

قرآن کریم صرف جھوٹی قسموں کے کھانے کو کچہریوں میں رکھا ہے یا بلا فہم مطلب حفاظ کی زبان پر یا اس کے چند کلمات محض وظائف کے لئے ہیں۔ نہ دستور العمل بنانے کے لئے۔ کسی گھر میں وہ نہیں سمجھایا جاتا۔ اور امراء کے لئے تو جو امر کسی مذہب و ملت میں جائز نہ تھا سب مباح ہوگیا اس لئے حسب قانون، مستمرئہ الٰہیہ اس بدامنی کے وقت میں اللہ تعالیٰ نے ایک مجدد الوقت امام کو مبعوث فرمایا جس نے سالہاسال کی محنت شاقہ سے ایک جماعت کو قرآن پر عمل کرنے کے لئے قائم کیا۔ جزاہ اللہ عنا احسن الجزاءاور اس کے لئے تمام دنیا میں سزا دہندہ فوجیں روانہ فرمائیں۔ جیسا فرماتا ہے۔

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَى أُمَمٍ مِنْ قَبْلِكَ فَأَخَذْنَاهُمْ بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ(الانعام: 43)اور واللہ ضرور ہی بھیجے ہم نے تجھ سے پہلی قوموں میں۔ پھر پکڑا ہم نے انہیں۔ قحط یا بیماری میں۔ اس لئے کہ تضرع کریں۔

عالیجاہا۔ کوئی بھی نظر فرماوے کہ باساء اور ضراء کی کوئی حد رہی ہے۔ قحط ہے تو کتنا عام و وسیع ہے۔ طاعون نے کس قدر لوگوں کو ہلاک کردیا۔ بأس کے لئے بوئروں اور انگریزوں کی جنگ۔ جاپان اور روس کا باہمی قتال۔ شخصی حکومتوں کے عظیم الشان کارکنوں میں سلطان عبدالحمید کی 34 سالہ حکومت کے بعد اس کی موجودہ حالت۔ شاہ کجکلاہ ایران کے مصائب پر نظر کرتے ہوئے دل کانپ اٹھتا ہے۔ پھر آپ کے عہد میں موسیٰ ندی کی طغیانی۔ نظام میوزیم کی بجلی عبرت گاہیں ہیں۔ اس تحریک و توجہ کے لئے ایک مختصر رسالہ پیش نظر خدام والا مقام کیا جاتا ہے۔ اس کو مفید و بابرکت بنانا اللہ تعالیٰ کی توفیق پر منحصر ہے۔ عرض یہ ہے کہ اس عظیم الشان مجدد اور مصلح کی آپ کے زیرسایہ ملک میں بیجا مخالفت نہ ہو۔ اور اس کو جماعت کو جو امن پسند ہے بے وجہ کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ اور مسلمانوں کی حالت کی طرف خصوصاً حضور کی توجہ مبذول ہو۔

(دستخط) نورالدین

از قادیان

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button