افریقہ (رپورٹس)

زیمبیا میں رونما ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کی روک تھام کے لیے جماعتی مساعی اور منسٹر آف گرین اکانومی اینڈ انوائرمنٹ سے جماعتی وفد کی ملاقات

(طاہر احمد سیفی۔ نمائندہ الفضل انٹرنیشنل زیمبیا)

’’ماحولیات‘‘ کا لفظ بڑا وسیع ہے۔ اس کا تعلق پوری کائنات سے ہے جسے ہم دنیا کہتے ہیں۔ ایک صحت مند اور آرام دہ زندگی کے لیے دنیا کے ماحولیات کی حفاظت بہت ضروری ہے۔ دنیا جس تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کر رہی ہے اس سے اگرچہ انسان کی آسائش و آرام کی بے شمار چیزیں وجود میں آ رہی ہیں مگر ان کے پہلو سے انسان کی زندگی اور اس کی صحت کو نقصان پہنچانے والے بے شمار مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔

اگر ہم ان مسائل کو کسی ایک لفظ میں سمیٹنا چاہیں تو وہ کثافت اور آلودگی ہے گویا ہمارے دور کا سب سے اہم مسئلہ اس ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانا ہے۔ اسی کے بعد انسانی زندگی کو مادّی راحت و آرام کے ساتھ جسمانی صحت اور روحانی سکون کی نعمتوں سے بھی مالا مال کر سکتے ہیں۔

ماحولیاتی آلودگی کا تعلق پوری انسانیت سے ہے۔ آج دنیا کے تمام ممالک کسی نہ کسی نوعیت کی فضائی آلودگی کا شکار ہیں۔ پہلے فضائی آلودگی صرف شہری اور صنعتی علاقوں کے لیے ایک مسئلہ تھا، پچھلی دو تین دہائیوں سے دیہی علاقے بھی اس آلودگی کی زد میں آگئے ہیں۔ تیز رفتار صنعتی ترقی کے نتیجے میں گھریلو پیداوار میں اضافہ تو ہوا ہے، مگر اس سے انسانی صحت کے لیے بڑے مسائل پیدا ہوگئے ہیں، پھر ہمارے ہاں ترقی اور خوشحالی صرف شہروں تک محدود ہے، اس لیے دیہات سے بڑی تعداد میں لوگ نقل مکانی کر کے خوشحالی کی تلاش میں بڑے شہروں کا رخ کر رہے ہیں، اس کے نتیجے میں سڑکوں پر بھیڑ بڑھ گئی ہے اور شہری علاقوں کی فضائی کیفیت دھماکہ خیز ہوتی جا رہی ہے۔ صحت سے متعلق زیادہ تر مسائل ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے پیدا ہو رہے ہیں۔

اٹھارھویں صدی میں آنے والے صنعتی انقلاب نے انسان کو جدید دنیا میں لا کھڑا کیا مگر انسان تیزی سے ترقی کرتے ہوئے یہ بھول گیا کہ وہ تیزی سے ترقی نہیں کر رہا بلکہ وسائل کا جلدی سے خاتمہ کر رہا ہے۔ ترقی کی دوڑ میں انسان یہ بھی بھول گیا کہ اس کا مستقبل کیا ہو گا۔ اس دوران دولت مندوں نے دھڑا دھڑ فیکٹریاں اور کارخانے قائم کرنے شروع کر دیے۔ بڑے پیمانے پر جنگلات کا خاتمہ کیا گیا اور نئے شہر اور کالونیاں قائم کرنے کے لیے فصلوں اور زراعت کا خاتمہ کیا گیا۔ اب عالم یہ ہے کہ ہر طرف آبادی ہی آبادی ہے۔ شہر ختم ہوتے ہیں تو فیکٹریاں اور کارخانے شروع ہو جاتے ہیں۔ فصلیں اور جنگلات ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہوتے جا رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے انسان کو آئندہ چند سالوں میں آلودگی کے ساتھ ساتھ غذائی قلت کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔

ماحولیات کے مسئلے پر دوسرے معاملات اور مسائل کی طرح اس معاملے میں بھی اسلامی تعلیمات موجود ہیں اور عوام اور حکومت دونوں ان تعلیمات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں،بلکہ دونوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان تعلیمات سے فائدہ اٹھا کر ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کی کوشش کریں اور نسل انسانی کو خالق کائنات کی رضا اور منشا کے مطابق زندگی گزارنے کا موقع فراہم کریں۔

مندرجہ بالا خطرات کے پیش نظر جماعت احمدیہ زیمبیا کی طرف سے زیمبیا کے سابق صدر کے ماٹو کے تحت درخت لگانے اور غذائی قلت کو پورا کرنے کے لیے ایک منفرد قدم اٹھایا گیا جس میں جماعتی سطح پر پیٹوکے سنٹر میں پھلدار پودوں کی نرسری کا باقاعدہ قیام عمل میں لایا گیا۔ جس میں نہ صرف 15 اقسام کے پھلدار پودے اگائے جاتے ہیں بلکہ کسانوں اور طلباء کو پودے اگانے اور قلمکاری کرنے کے طریقوں کے ساتھ ساتھ ان کو مختلف قسم کے پھلوں کے بیج اور پلاسٹک کی تھیلیاں بھی مہیا کی جاتی ہیں۔

محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب تک جماعتی ٹیم کو 500 سے زائد کسانوں اور طلباء کو سکھانے اور 15000 سے زائد مختلف پھلدار پودے گورنمنٹ کے اداروں، شہروں اور دیہاتوں میں تقسیم کرنے کی توفیق مل چکی ہے۔

جماعت احمدیہ کی اس کاوش کو نہ صرف مقامی سطح پر سراہا گیا بلکہ نیشنل سطح پر بھی بہت زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی۔ گورنمنٹ کی طرف سے منسٹرز اور ہائی پروفائل گورنمنٹ آفیشلز نے متعدد بار نرسری کو دیکھنے کے لیے مشن ہاؤس کا وزٹ کیا اور پودے حاصل کیے۔

حال ہی میں اس کی تازہ جھلک ہمیں اس طرح بھی دیکھنے کو ملی کہ جب اس جماعتی کام کی ویڈیو منسٹر آف گرین اکانومی اینڈ انوائرنمنٹ کو پہنچائی گئی تو ویڈیو دیکھنے کے بعد انہوں نے کہا کہ میں جماعتی وفد کے ساتھ ملاقات کرنا چاہتا ہوں۔

چنانچہ مورخہ 4؍اپریل 2022ء بروز پیر تین رکنی جماعتی وفد مکرم محمد جاوید صاحب نیشنل صدر و مشنری انچارج زیمبیا کے ہمراہ منسٹری آف گرین اکانومی اینڈ انوائرنمنٹ کے آفس پہنچا اور منسٹر صاحب سے ملاقات کی۔ ملاقات میں مکرم صدر و مشنری انچارج صاحب زیمبیا نے منسٹر صاحب کو جماعت کا تعارف، غریب طلباء کے حصول تعلیم کے لیے جماعتی مساعی اور دیگر انسانیت کے لیے جماعتی خدمات کے بارے میں بتایا اور گزشتہ تین سالوں سے تقسیم کیے جانے والے پھلدار پودوں کی رپورٹ پیش کی۔

منسٹر صاحب نے اپنے دفتر میں جماعتی وفد کو خوش آمدید کہا اور جماعتی سرگرمیوں کو بہت زیادہ سراہا اور جماعتی ترقیات کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کرنے کے بعد کہا کہ ہمارا ملک بہت زیادہ پھل درآمد کر رہا ہے مجھے یقین ہے کہ ہمارے مقامی لوگوں کو پھلوں کی شجرکاری شروع کرنے سے نہ صرف روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں مدد ملے گی بلکہ ہمارے ملک کو سرسبز اور صحت مند بنانے میں بھی مدد ملے گی۔ براہ مہربانی زیادہ سے زیادہ مقامی لوگوں کو مختلف پھلوں کے پودے لگانے کے بارے میں تربیت دیں اور میں بھی اپنی ٹیم کے ساتھ آپ لوگوں کے ساتھ مل کر کام کروں گا تاکہ ان منصوبوں کے ذریعے ہمارے لوگوں کو فائدہ ہو اور ہماری معیشت کو ترقی ملے۔

آخر پر صدر صاحب کی طرف سے منسٹر صاحب کو قرآن کریم اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطابات و خطوط پر مشتمل کتاب ’’ World Crisis and the Pathway to Peace‘‘ بھی تحفةً دی گئی۔

اس ملاقات کی تصاویر کو منسٹر صاحب نے اپنے سوشل میڈیا کے پیج پر بھی شیئر کیا اور قرآن کریم والی تصویر کے نیچے لکھا ’’what a wonderful gift‘‘۔ اس طرح سوشل میڈیا کے ذریعے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہزاروں لوگوں تک جماعت کا پیغام پہنچانے کی توفیق ملی۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری ان کوششوں میں برکت ڈالے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اسلام احمدیت کا پیغام پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(رپورٹ: طاہر احمد سیفی۔ نمائندہ الفضل انٹرنیشنل )

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button