یادِ رفتگاں

مکرمہ آپا اختر النساء ملک صاحبہ دختر کپتان ملک عبداللہ خان دوالمیال

(ریاض احمد ملک)

ایک سادہ مگر دل میں احمدیت کا عشق رکھنے والی، حضرت مسیح موعودؑ کے عشق میں غرق ہونے والی، قادیان اور قادیان میں آنے والے امام کے گن گانے والی ،ائمہ احمدیت سے اُنس و محبت رکھنے والی، صوم و صلوٰۃ کی پابند، تہجد گزار مکرمہ آپا اختر النساء ملک صاحبہ دختر کیپٹن ملک عبداللہ خان اور پڑپوتی حضرت میراں بخش صاحبؓ (صحابی حضرت مسیح موعودؑ )ساکن دوالمیال ضلع چکوال (سابقہ ضلع جہلم)کے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ آپ کا جنم 1936ء میں دوالمیال گاؤں کےایک احمدی گھرانے میں ہوا۔ آپ کی والدہ کا نام ہاجرہ بی بی اوردادا کا نام عبدالستارتھا۔ آپ کے پڑ دادا حضرت میراں بخشؓ نے قادیان جا کر حضرت مسیح موعودؑ کے ہاتھ پر بیعت کر کے اپنے خاندان کو احمدیت کے نور سے منور کیا۔

حضرت میراں بخش صاحبؓ کی بیعت کا ایمان افروز واقعہ

حضرت میراں بخش صاحبؓ کی بیعت کی تفصیل کچھ اس طرح ہےکہ حضرت میراں بخش صاحب آف دوالمیال بڑے متکبر، مغرور اور متعصب اور سلسلہ احمدیہ کے شدید ترین مخالف تھے۔ ایک دفعہ آپ اور آپ کے ایک ساتھی بابا بہادر صاحب آف دوالمیال لاہور کسی مقدمہ کے سلسلے میں تشریف لے گئے۔ وہاں ہائی کورٹ میں غالباً تاریخ تھی۔ تاریخ سے جلدی ہی فارغ ہو گئے۔ تو حضرت میراں بخش صاحب نے کہا کہ چلو یار لاہور تک آگئے ہیں۔ دوالمیال میں ہر روز مرزا غلام احمد قادیانی کے قصے سنتے ہیں کہ اس نے امام مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہوا ہے۔ کیوں نہ آج قادیان جایا جائے تا کہ وہاں اپنی آنکھوں سے اس کو دیکھ تو لیا جائے اور صدق اور کذب کو پرکھنے میں آسانی ہو گی۔ دل میں جو خلش سی ہے آج اس خلش کو ختم کیا جائے۔ قادیان میں بنفس نفیس جا کر اس امام مہدی اس مسیح موعود کی زیارت کی جائے تا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے اور اپنے گائوں کے لوگوں کو قادیان کا صحیح رنگ میں نقشہ اور صحیح معلومات دے سکیں تا کہ گائوں میں اس قضیے کا خاتمہ ہو۔ ان کے ساتھی کو بھی یہ بات پسند آئی۔ اور یوں یہ دونوں ساتھی دل میں تجسس کا رنگ لیے حق کو پرکھنے کی خاطر ریل گاڑی پر قادیان کی جانب روانہ ہوئے۔ بٹالہ کے ریلوے سٹیشن پرپہنچے تو اس وقت قادیان کے لیے کوئی سواری نہ تھی۔ دل میں اُمنگ، تڑپ، تجسس اور جنون تھا۔ اس لیے دونوں نے عزم مسلسل کو جلا بخشتے ہوئے بٹالہ سے قادیان جانے والے راستے کی لوگوں سے معلومات لیں اور بٹالہ سے پیدل قادیان کو عازم سفر ہوئے۔ بے خوف و خطر منزل کی جانب رواں دواں۔ حسرتوں کا سفر، قادیان کی بستی کو دیکھنے کا سفر، صدق و کذب پرکھنے کا سفر، دونوں ساتھی ایسے سفر میں لمبے لمبے قدم اُٹھاتے جب قادیان میں داخل ہوئے تو فجرکی اذان ہو رہی تھی۔ تھکے ہارے مسافر دونوں جا کر قادیان میں مسجدمبارک کی سیڑھیوں پر سستانے کی غرض سے بیٹھ گئے۔ وہاں حضرت میراں بخش کے ساتھی کے دل میں وسوسہ آیا اور اُس نے سیڑھیوں پر بیٹھے ہوئے حضرت میراں بخشؓ سے کہا کہ میرا دل تو نہیں مانتا تُو جا اور اندر مسجدمبارک میں مرزا صاحب کو دیکھ آ۔ حضرت میراں بخش صاحبؓ نے اس کو بہت سمجھایا کہ اتنا لمبا سفر صرف اسی وجہ سے کیا ہے اس شخص کی ایک دفعہ زیارت کرلی جا ئے۔ ہر روز دوالمیال میں جس کے تذکرے ہوتے ہیں اور حافظ شہباز اور مولوی کرمداد جس کی سچائی کے گن گاتے ہیں۔ اور اب تو ہم اس کے بالکل قریب آگئے ہیں۔ اور تم میرے ساتھ لاہور سے صرف اسی مقصد کی خاطر آئے تھے تا کہ اس شخص کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ اب آخر میں یہاں آکر اس کو دیکھنے کے لیے مسجدمبارک کی سیڑھیاں چڑھنے اور اس کی زیارت کرنے سے تمہارے پائوں کیوں رک گئے ہیں۔ لیکن اس ساتھی نے حضرت میراں بخش کی بات کو نہ مانا اور سیڑھیوں پر رک گیا گویا اس کے پائوں کو کسی نے جکڑ لیا تھا۔ اور شرفِ زیارت سے بہرہ ور نہ ہو سکا۔

تذکرہ صفحہ 575، میں 1906ء کے الہامات کے تحت لکھا ہے: ’’مَیں نے دیکھا کہ رات کے وقت مَیں ایک جگہ بیٹھا ہوں اور ایک اور شخص میرے پاس ہےتب مَیں نے آسمان کی طرف دیکھا تو مجھے نظر آیا کہ بہت سے ستارے آسمان پر ایک جگہ جمع ہیں۔ تب مَیں نے ان ستاروں کو دیکھ کر اور انہیں کی طرف اشارہ کر کے کہا:

آسمانی باد شاہت

پھر معلوم ہوا کہ کوئی شخص دروازہ پر ہے اور کھٹکھٹاتا ہے۔ جب مَیں نے دروازہ کھولا تو معلوم ہوا کہ ایک سودائی ہے جس کا نام میراں بخش ہے۔ اس نے مجھ سے مصافحہ کیا اور اندر آگیا۔ اس کے ساتھ بھی ایک شخص ہے مگر اس نے مصافحہ نہیں کیا اور نہ وہ اندر آیا۔

اس کی تعبیر مَیں نے یہ کی کہ آسمانی بادشاہت سے مراد ہمارے سلسلہ کے برگزیدہ لوگ ہیں جن کو خدا زمین پر پھیلا دے گا۔ اور اس دیوانہ سے مراد کوئی متکبر، مغرور متولی یا تعصب کی وجہ سے کوئی دیوانہ ہے۔ خدا اس کو توفیق بیعت دے گا۔‘‘

ان الفاظ کے مصداق حضرت میراں بخش صاحبؓ داداجان حضرت کپتان عبداللہ صاحب پڑدادا محترمہ آپا اختر النساء ملک صاحبہ تھے جنہوں نے قادیان جا کر بیعت کی۔

جب حضرت میراں بخش صاحب سیڑھیاں چڑھ کر مسجدمبارک پہنچے تو اُدھر سے حضرت مسیح موعودؑ بھی مسجد میں داخل ہوئے۔ حضرت میراں بخش صاحب نے جب چہرہ مبارک دیکھا تو اپنے آپ کو بھول گئے۔ اور احمدیت قبول کرلی۔ اور اپنے آپ کوا حمدیت کے فدائیوں میں داخل کرلیا۔ اور صحابہ حضرت مسیح موعودؑ میں شامل ہو گئے اور دوسرا شخص جو اُن کے ساتھ تھا۔ نہ وہ سیڑھیاں چڑھا اور نہ اسے زیارت حضرت مسیح موعودؑ کا شرف حاصل ہوا اور نہ اسے احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی اور یوں وہ خدائی خبر جو اوپر درج ہے حضرت میراں بخش صاحبؓ پر پوری ہوئی کہ میراں بخش صاحب نے احمدیت قبول کرلی اور اس کا ساتھی کورے کا کورا واپس آگیا۔

واپس دوالمیال آئے تو احمدیت قبول کرنے کی بدولت آپ کی کایا پلٹ گئی۔ آپ نے احمدیت کے ایک فدائی کی حیثیت سے دوالمیال میں دن رات دعوت الیٰ اللہ پر صرف کیے۔ مخلص احمدی بن کر اسلام کی دل وجان سے خوب خدمت کی اور احمدیت کی دوالمیال اور نواح میں خوب منادی کی۔ حضرت میراں بخش صاحبؓ کے پوتے کپتان عبداللہ صاحب ربوہ میں سکونت پذیر رہے اور دوسرے پوتے ملک محمد شفیع صاحب جنہوں نے قادیان سے تعلیم حاصل کی دوالمیال میں رہائش پذیر رہے اور ان کی نسلیں خدا کے فضل سے احمدیت کے ثمرِ شیریں سے شیرینی حاصل کر رہی ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت میراں بخش صاحبؓ کی نسلوں کو اس نعمت سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونے اوراحمدیت کا دل و جان سے فدائی بننے کی توفیق عطا کرے نیز انہیں امام جماعت کے ساتھ تعلق قائم رکھنے اور سلسلہ کی بڑھ چڑھ کر خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور حضرت میراں بخش صاحبؓ کے درجات کو بلند کرے اور جنت کا مکین بنائے (آمین)(الفضل ربوہ 26؍جنوری1997ء)

آپ کے خاندان اور والد صاحب کی خدمات

محترمہ آپا اختر النساء ملک صاحبہ کے والد کپتان عبداللہ خان صاحب کی پیدائش دوالمیال میں ہوئی۔ آپ نے 1928ء میں مشن ہائی سکول ڈلوال سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اور دوالمیال کی ریت اور رواج و روایت کے مطابق ملازمت پیشہ اختیار کرنا تھا۔ آپ برما آرمی میں بھرتی ہوگئے اور اپنی روزو شب محنت اور دیانت داری سے اپنا کام کرنے کی بدولت آپ نے خوب ترقی کی۔ برما آرمی میں تقریباً32سال سروس کی اور بحیثیت کیپٹن (ریکارڈ آفیسر)ریٹائرڈ ہوئے۔ آپ نے ایک لمبے عرصے تک پریذیڈنٹ جماعتِ احمدیہ برما کی حیثیت سے اپنی خدمات سر انجام دیں اور رنگون میں اپنے زیر سایہ احمدیہ مسجد (بیت الحمد)مکمل کروائی۔ آپ کو برمی زبان پر بڑا عبور حاصل تھا۔ دوسری جنگِ عظیم میں، اپنی فیملی کے ساتھ (بیوی ہاجرہ بی بی صاحبہ، دختر اختر النساء صاحبہ اور پسر ڈاکٹر عبدالمنان صاحب) برما میں تھے۔ برما میں دوسری جنگِ عظیم میں قیدی رہے پھر آزاد ہونے پر وہاں برما میں ہی اپنی سروس مکمل کی اور وہاں ہی سے ریٹائرڈ ہوئے۔ آپ کو برمی زبان پر مکمل عبور تھا۔ قید کے دوران آپ اپنے ساتھ والے قیدیوں کے ترجمان بھی رہے اور ان کو برمی زبان میں اور انگلش میں ٹرانسلیشن کر کے پیغام پہنچایا کرتے تھے۔ جلسہ سالانہ ربوہ میں خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی جانب سے رات کو ایک پروگرام ہوتاتھا جس میں حضرت مسیح موعودؑ کے الہامات کو مختلف زبانوں میں سنایا جاتا تھا۔ اس میں برما زبان میں ترجمہ مکرم کیپٹن عبداللہ صاحب کیا کرتے تھے۔ مکرم کیپٹن ملک عبداللہ خان کو ربوہ میں کافی عرصہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے پرائیویٹ سیکرٹری کی حیثیت سے اپنی خدمات سر انجام دینے کی توفیق ملی۔

آپ کے والد برما میں اپنی فیملی کے ساتھ رہ رہے تھے دوسری جنگِ عظیم میں جب جاپانیوں نے رنگون پر حملہ کیا تو آپ نے اپنی فیملی کو دوالمیال بھیج دیا۔ آپ کی والدہ محترمہ جو ایک دلیر خاتون تھیں وہ اپنی دختر اختر النساء ملک صاحبہ اور پسر عبدالمنان صاحب کو ساتھ لے کرپہلے بذریعہ بحری جہاز رنگون سے بمبئی، پھر وہاں سے بذریعہ ٹرین کھیوڑہ، اور اس کے بعدکھیوڑہ سے بذریعہ بس چوآ سیدن شاہ اور وہاں سے بذریعہ ٹانگہ جو ایک احمدی محمد خان آف دوالمیال کا تھا اس پر سوار ہو کر بخیروعافیت سے دوالمیال پہنچ گئیں۔ اس کے بعد 46-1945ء میں آپ کی فیملی نے قادیان میں سکونت اختیار کی۔ ابتدائی تعلیم آپ نے قادیان میں حاصل کی پھر پاکستان بننے کے بعد قادیان سے ہجرت کر کے دوالمیال، اس کے بعد منڈی بہاول الدین میں رہے۔ قادیان میں کپتان عبداللہ صاحب کے علاوہ مکرم فتح محمد ولد شہباز خان، خالہ مسعودہ اہلیہ محمدافضل اور عطا محمد حکیم اور ان کی اہلیہ کرم بی بی صاحبہ، محمد صادق ولد ستار محمد بھی رہتے تھے۔

ایک ایمان افروز واقعہ

کیپٹن عبداللہ صاحب کا نہایت ہی ایمان افروز واقعہ آپ کے بھتیجے مکرم ملک منصور احمد اور مکرم عرفان احمد نے بتایا جو خاکساریہاں درج کر تا ہے۔ ایک دفعہ مسجداحمدیہ دوالمیال میں ایک جلسہ منعقد ہوا تھا جس میں بہت سارے احمدی مہمان آئے ہوئے تھے۔ کچھ مہمان قادیان سے بھی تھے۔ وہ رات کو آپ نے اپنے گھر کے سامنے لیفٹننٹ فتح محمد کی بیٹھک میں ٹھہرائے ہوئے تھے۔ رات کو فتح محمد بھی گھر آ گیا۔ جب اس کو پتا چلا کہ احمدی میری بیٹھک میں ٹھہرے ہوئے ہیں تو گھر والوں پر بہت غصہ کیا اور کہا کہ ابھی بیٹھک خالی کر دو۔ کپتان صاحب نے بہت کہا کہ صبح خالی کر دیں گے لیکن وہ بضد رہا اور مجبوراََکپتان صاحب نے ان مہمانوں کوکسی اور جگہ شفٹ کر دیا۔ آپ کے دل کو بہت ٹھیس لگی اور آپ نے کہا کہ فتح محمد سن لے تم نے اس بیٹھک سے ناحق میرے احمدی مہمانوں کو نکالا ہے۔ اب تمہاری بیٹھک کبھی آباد نہیں ہو گی اور اس میں کوئی مہمان اب نہیں آئے گا۔ اور اللہ نے اس دکھے دل سے نکلے ان الفاظ کو ایسے قبولیت کا رنگ دیا کہ اس وقت کی بہت اچھی بنی ہوئی بیٹھک آج تک غیر آباد ہے اور اس کے بعد اس میں آج تک کوئی مہمان نہیں آیا۔ اور سامنے کپتان کی بیٹھک میں ہمیشہ مہمان رونق افروز ہوتے رہے۔ اور وہ آباد رہی۔

ربوہ میں مستقل سکونت اور عشقِ مرکز

49-1948ء میں آپ کے والد جب ریٹائرڈ ہو کر واپس آئے تو آپ نے ربوہ مستقل سکونت محلہ باب الابواب میں اختیار کر لی۔ اور میٹرک کا امتحان نصرت گرلز ہائی اسکول ربوہ سے پاس کیا۔ آپ کی والدہ کی وفات کے بعد 1996ء سے آپ اپنے والد صاحب کے ساتھ رہ رہی تھیں۔ اور اپنے آپ کو اپنے والد صاحب کی خدمت کے لیے وقف کر دیا تھا۔ ان کے دمِ آخر تک آپ نے خدمت کا حق ادا کیا۔ آپ کے والد موصی تھے اور ان کی تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہوئی۔

آپ کے بیٹے ڈاکٹرعبدالمنان صاحب نے مجھے بتایا کہ آپ بہت سخی تھے اور خدا پر مکمل توکل رکھنے والے تھے۔ آپ کو میں نے کبھی تنگ دست نہیں دیکھا۔ آپ کو جب بھی کبھی ضرورت پڑی اللہ تعالیٰ نے پوری فرمادی۔ آپ نے بتایا کہ وفات پانے کے بعد چونکہ آپ موصی تھے۔ تو آپ کے اکائونٹ کے بارے میں جب پتاکرایا گیاتو آپ کے اکائونٹ میں چند سو روپے تھے۔ کیونکہ توکل علیٰ اللہ پر قائم ہونے والے وجود مادی چیزوں پر یقین نہیں رکھتے۔

آپ نے مزید مجھے بتایا کہ کپتان عبداللہ خان صاحب کو مرکز سے بہت پیار تھا۔ آپ کے دونوں بیٹے امریکہ میں ہوتے ہیں۔ انہوں نے آپ کو وہاں اپنے پاس رہنے کے لیے بہت اصرار کیالیکن آپ نے کہا کہ جو لذت اورجو سرورمرکز کی ہوائوں میں ہے اور جو سکون مرکز کی فضائوں میں ہے وہ کہیں اور نہیں اور میں تو مرکز کا مکین ہوں اور مرکز سے مجھے اُنس، پیار، اور محبت ہے اس لیے میں مرکز کو چھوڑکرتم لوگوں کے ہاں نہیں آسکتا۔ جب بھی آپ باہر گئے تو جلد از جلد مرکز میں واپس آنے کے خواہش مند رہے ۔

کپتان عبداللہ خان صاحب نے اپنی وفات سے تقریباً ایک ماہ پہلے اپنی بیٹی محترمہ اختر النساء ملک صاحبہ کو بتایا کہ چاول اور آٹا وغیرہ کافی اکٹھا کرلو۔ کیونکہ 14؍اگست کوبہت زیادہ مہمان آئیں گے ان کا بندوبست کرلواور14؍اگست1998ء کورات قریباً سوا دس بجے آپ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے اور ان کی یہ بات حرف بہ حرف پوری ہو گئی اور بہت زیادہ مہمان آپ کے ہاں پہنچ گئے۔ کیپٹن عبداللہ صاحب کی نماز جنازہ15؍اگست1998ءکوبعد نماز عصرمکرم چودھری مبارک مصلح الدین صاحب نے پڑھائی اور بعد ازاں بہشتی مقبرہ میں تدفین ہوئی۔ قبرتیار ہونے پرمکرم چودھری صاحب موصوف نے ہی دعا کروائی۔ مرحوم خدا کے فضل سے 8؍1کے موصی تھے۔

آپا اختر النساء کی خدمات

اپنے والد کی طرح محترمہ آپا اختر النساء ملک صاحبہ کی نس نس میں خدمت خلق کا جذبہ موجزن تھا۔ آپ نے حتی الامکان ہر کس و ناکس کی خدمت میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔ آپ محلے کی بچیوں کو اپنے گھر میں، قرآنِ مجید پڑھایا کرتی تھیں۔ تقریباََ 25سال تک آپ کو 1000سے زائد ناصرات اور لجنات کو قرآنِ مجید پڑھانے اور ان کی احسن رنگ میں تربیت کی توفیق ملی۔ آپ کے والد نے آپ کے نام 5 مرلے زمین کروا دی تھی اس پر آپ نے اپنے خرچ سے لجنہ ہال بنوا کر لجنہ کو عطیہ کر دیا تھا۔ اس میں اس محلے کی لجنات اور ناصرات اپنے تمام پروگرام سر انجام دے رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی جزائے خیر دے آمین۔

آپ کی فیاضیوں کا عجیب رنگ تھا۔ محلے کی خواتین کے لیے ہر وقت آپ کا گھر کھلا تھا وہ جب چاہیں آ کر ان کے ہاں اپنا کھانا پکا کر لے جائیں، روٹی پکا کر لے جائیں، جو ان کو ضرورت ہو لے جائیں، آپ کی جانب سے کوئی ممانعت نہیں تھی بلکہ آپ کو خوشی ہوتی تھی کہ آپ کسی کے کام آ رہی ہیں۔ آپ کے گھر سے پانی بھر کر لے جانے کی کوئی ممانعت نہیں تھی دن ہو یا رات وہ پانی بھر کر لے جائیں۔ ان کا لنگر بھی ہر ایک کے لیے کھلا تھا۔ آپ ہر غریب و ناکس کی مدد میں آگے آگے رہی ہیں آپ نے لا تعداد غریبوں کی ہر ممکن مددکی۔ آپ کے گھر سے کوئی سوالی خالی نہیں جاتا تھا۔ ربوہ میں جب جلسہ سالانہ منعقد ہوا کرتے تھے تو آپ نے اپنا گھر دوالمیال کے احمدیوں کے لیے وقف کیا ہوا ہوتا تھا، اور دوالمیال سے آئے ہوئے مہمانوں کی خدمت میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتی تھیں اور مہمانوں کی خدمت کر کے آپ کو فخر محسوس ہوتا تھا۔

یتیم بچے کی کفالت

آپ نے ایک یتیم بچہ کو اپنے گھر میں رکھا،اس کی پرورش کی، اس کو تعلیم دلوائی۔ اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھا۔ وہ بھی آپ کو اپنی ماں کی طرح چاہتا تھا۔ اور اس نے بھی آپ کی بہت خدمت کی۔ آپ نے اس کی شادی کرائی اور تمام اخراجات خود برداشت کیے۔ نہ صرف یہ بلکہ اسے اور اس کی بیوی کو جرمنی بھیجنے کےلیے ویزا کا بندوبست کیا اور اب وہ جرمنی میں برسرِ روزگار ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ان نیکیوں کا اجرِ عظیم عطا فرمائے آمین۔

آپ نے خدمتِ خلق اور خدمتِ انسانیت کے کارہائے نمایاں سر انجام دیے۔ گاؤں کی غریب اور بیکس خواتین کی دل کھول کرمالی خدمات سر انجام دیتی رہی ہیں آپ ایک خاموش سوشل ورکر تھیں۔ آپ کے خاندانِ مسیح موعودؑ کی خواتین سے کافی تعلقات تھے اور وہ بھی آپ سے بہت محبت کا سلوک رکھتی تھیں۔ آپ کے پاس حضرت مسیح موعودؑ کے کرتے کا ٹکڑا تھا جو آپ نے ایک فریم میں لگایا ہوا تھا، یہ ٹکڑا بھی آپ کو حضرت مسیح موعودؑ کے خاندان کی کسی خاتون نے تحفہ دیا تھا۔ اس کوہر ایک گھر میں آنے والے کو دکھاتی تھیں۔ خاکسار کو بھی آپ نے اس قیمتی تحفہ کو دکھایا تھا۔

آپا اختر النساء ملک ایک مشن کا نام

آپ ایک مشن کا نام تھیں، احمدیت پہ دل و جان نثار کرنے کا مشن، حضرت مسیح موعودؑ اور خلفائے احمدیت سے انس و وفا نبھانے کا مشن۔ احمدیت میں یقینِ کامل اور اصل اسلام کی دل میں تڑپ پیدا کرنے کا مشن، اپنے اور اپنے رشتہ داروں اور جاننے والوں کے اندر احمدیت کی حقیقی اطاعت بجا لانے والی روح پیدا کرنے کا مشن، سب کی دلداری اور ان کے جذبات اور ان کی مہمان نوازی کا تہ دل سے خیال رکھنے کا مشن۔ آپ ایک نافع الناس دعا گو وجود تھیں۔ اپنے قول و فعل سے شرفِ انسانیت کا بہت لحاظ رکھنے والی تھیں۔ آپ ایک سر گرم عمل لجنہ احمدیہ تھیں، با ہمت و حوصلہ اور مجاہدہ خاتون تھیں۔ اعلیٰ قوت ارادی کی مالک تھیں۔

تدفین

آپ نے ساری زندگی خدمتِ احمدیت اور اطاعتِ خلافت میں گزاری۔ آپ کی عمر 85سال سے زیادہ تھی لیکن آپ کے معمولات اور مصروفیات بالکل ویسی ہی رہیں جیسے کہ پہلے تھیں۔ آپ میں بلا کی استقامت تھی۔ آپ کی صحت آخری وقت تک بہت اچھی رہی۔ لیکن مشیتِ ایزدی کے سامنے کسی کی نہیں چلتی، ہر ایک نے اپنے مقررہ وقت پر اللہ کے حضور پیش ہونا ہے اس وعدہ کو نبھاتے ہوئے آپ نے اپنی جان 4؍اپریل2021ء کو ربوہ میں جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔ آپ موصیہ تھیں اور آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہوئی۔ آپ ڈاکٹر عبدالمنان ملک صاحب ویلنگ باروجماعت امریکہ اور ملک عبدالحنان صاحب فلاڈلفیا جماعت امریکہ کی ہمشیرہ تھیں۔ اور عبدالسبحان ملک صاحب فلاڈلفیا جماعت امریکہ کی پھوپھو تھیں۔آخری ایام میں ملک عبدالسبحان صاحب ربوہ میں آپ کی عیادت کے لیے آپ کے پاس تھے اور عبدالسبحان کو آپ کی کافی خدمت کا موقع نصیب ہوا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور آخرت کی حسنات سے نوازے۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button