حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

یہ ہمارے پر ہے کہ ہم اس تعلیم کو کس حد تک اپنے اوپر لاگو کرتے ہیں

سمجھ کر قرآن کریم کی تلاوت ہونی چاہئے۔ قرآن کریم کا ادب بھی یہی ہے کہ اس کو سمجھ کر پڑھا جائے۔ اگر اچھی طرح ترجمہ آتا بھی ہو تب بھی سمجھ کر، ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کا حق ادا کرتے ہوئے پڑھنا چاہئے تاکہ ذہن اس حسین تعلیم سے مزید روشن ہو…جتنی بھی سمجھ ہے، بعض تو بڑے واضح احکام ہیں، سمجھنے کے بعد ان پر عمل کرنا بھی ضروری ہے۔ کسی بھی اچھی بات کا یا نصیحت کا فائدہ تبھی ہو سکتا ہے جب وہ نصیحت پڑھ یا سن کر اس پر عمل کرنے کی کوشش بھی ہو رہی ہو گی۔ کیونکہ تلاوت کا ایک مطلب پیروی اور عمل کرنا بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ فرما دیا ہے کہ یہ قرآن میں نے تمہارے لئے، ہر اس شخص کے لئے جو تمام نیکیوں اور اچھے اعمال کے معیار حاصل کرنا چاہتا ہے اس قرآن کریم میں یہ اعلیٰ معیار حاصل کرنے کے لئے تمام اصول اور ضابطے مہیا کر دئیے ہیں۔ ہر قسم کے آدمی کے لئے، ہر قسم کی استعداد رکھنے والے کے لئے، اور نہ صرف یہ کہ جیسا کہ مَیں نے کہا کسی خاص آدمی کے لئے نہیں رکھے ہیں بلکہ ہر طبقے اور ہر معیار کے آدمی کے لئے رکھے ہیں۔ اور اس میں ہر آدمی کے لئے نصیحت ہے وہ اپنی استعداد کے مطابق سمجھ لے۔ فرمایا کہ وَلَقَدۡ یَسَّرۡنَا الۡقُرۡاٰنَ لِلذِّکۡرِ فَہَلۡ مِنۡ مُّدَّکِرٍ(القمر: 18)اور یقیناً ہم نے قرآن کو نصیحت کی خاطر آسان بنا دیا ہے۔ پس کیا ہے کوئی نصیحت پکڑنے والا۔ اب یہ ہمارے پر ہے کہ ہم اس تعلیم کو کس حد تک اپنے اوپر لاگو کرتے ہیں اور اس کی تعلیمات سے نصیحت پکڑتے ہیں … اس کے ہر حکم پر جس کے کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے اس پر عمل کریں۔ اور جن باتوں کی مناہی کی گئی ہے، جن باتوں سے روکا گیا ہے ان سے رکیں، ان سے بچیں، اور کبھی بھی ان لوگوں میں سے نہ بنیں جن کے بارے میں خود قرآن کریم میں ذکر ہے۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 21؍ اکتوبر 2005ء

مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 11؍ نومبر 2005ء صفحہ 6)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button