میڈیکل و سائنس

جان بچانے کےلیے انسانی جسم میں سؤر کے دل کی ٹرانسپلانٹیشن کرنےکی ممانعت نہیں

سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ حال ہی میں امریکہ کے ڈاکٹروں نے انسانی جان بچانے کےلیے سؤر کے دل کو بیمار انسان کے جسم میں ٹرانسپلانٹ کیا ہے۔ کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 02؍فروری 2022ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا:

جواب: میں پہلے بھی کسی موقع پر اس بارے میں بتا چکا ہوں کہ جہاں انسانی جان بچانے کا سوال ہو، وہاں اس قسم کے طریق علاج میں کوئی حرج کی بات نہیں۔ شراب کو بھی اسلام نے حرام قرار دیا ہے لیکن دوائیاں جو انسانی جان بچانے کا موجب ہوتی ہیں، ان میں اس کا استعمال جائز ہے۔ کیونکہ یہ سب اضطرار کی حالتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جہاں سؤر کے گوشت کی حرمت بیان فرمائی ہےوہاں اضطراری حالت میں اس کے استعمال کی اجازت بھی دی ہے۔

پس علاج کے طور پر جان بچانے کےلیے انسانی جسم میں سؤر کے دل کی ٹرانسپلانٹیشن کرنا جو دراصل ایک اضطرار ہی کی حالت ہے، جائز ہے اور اس میں کوئی ممانعت نہیں۔

پرانے علماء و فقہاء میں سے بعض کا کہنا ہےکہ سؤر کا گوشت کھانا منع ہے لیکن اس کے بال اور کھال وغیرہ کا استعمال جائز ہے اور بعض نے تو یہاں تک کہا ہے کہ اس کی چربی کھانا بھی جائز ہے۔ اگرچہ ہمارے نزدیک عام حالات میں سؤر کی کسی بھی چیز کا ایسا استعمال جو کھانے کے مفہوم میں شامل ہو جائز نہیں۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سورۃ البقرہ کی آیت 174 کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ’’اس آیت میں جو لَحۡمُ الۡخِنۡزِیۡرِفرمایا اس کے متعلق فقہاء میں اختلاف ہے کہ لحم میں چربی بھی شامل ہے یا نہیں۔ جہاں تک لغت کا سوال ہے شَحْم یعنی چربی کو لَحۡم سے الگ قسم کا خیال کیا جاتا ہے۔ لیکن مفسرین کہتے ہیں کہ لحم کے نام میں شحم شامل ہے۔ گو مفسرین کی دلیل ذوقی ہے اور لغت والوں کی بات اس مسئلہ میں زیادہ قابل اعتبار ہے۔ مگر اس کے باوجود میرے نزدیک سؤر کی شحم یعنی چربی جائز نہیں۔ اور اس کی دلیل میرے پاس یہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا ہے کہ مردہ جانور کی چربی حرام ہے۔ اور سؤر کی حرمت اور مردہ کی حرمت ایک ہی آیت میں اور ایک ہی الفاظ میں بیان کی گئی ہے۔ پس دونوں کا حکم ایک قسم کا سمجھا جائے گا۔ لیکن سؤر کی جلد کا استعمال جائز ہوگا کیونکہ وہ کھائی نہیں جاتی۔‘‘(تفسیر کبیر جلد چہارم، تفسیر سورۃ النحل صفحہ 260)

اسی طرح اس سوال کہ ٹوتھ برش (tooth brush)کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے، یہ برش اکثر سؤر کے بالوں سے بنائے جاتے ہیں؟ کا جواب دیتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ’’ہماری تحقیقات تو یہ ہے کہ سب کے سب برش سؤر کے بالوں کے نہیں ہوتے۔ باقی رہا سؤر کے بالوں کا استعمال۔ یہ شرعی لحاظ سے جائز ہے۔ کیونکہ سؤر کا گوشت حرام کیا گیا۔ جو کھانے کی چیز ہے۔ اور بال کوئی کھاتا نہیں۔ ایک بڑے بزرگ نے تو یہاں تک کہا ہے کہ سؤر کی چربی بھی جائز ہے کیونکہ سؤر کا لحم حرام کیا گیا ہے نہ کہ چربی۔ دوسرے فقہاء نے کہا ہے۔ یہ فتویٰ دینے والے کی بزرگی میں تو کلام نہیں مگر اُن کا یہ استدلال غلط ہے۔ ان کوزبان کے لحاظ سے غلطی لگی ہے۔ کیونکہ چربی لحم میں شامل ہوتی ہے۔ انہوں نے علیحدہ سمجھی ہے۔‘‘(اخبار الفضل قادیان دارالامان نمبر5 جلد16، مورخہ17؍جولائی1928ء صفحہ7)

یہودی مذہب میں بھی سؤر کی افزائش اوراس کا کھانا حرام ہے لیکن انسانی جان بچانا چونکہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے اس لیے عصر حاضر کے یہودی علماء کے نزدیک سؤر سے دل کا حصول یہودی ضوابط خوراک کی کسی بھی طرح خلاف ورزی نہیں ہے۔

اسی طرح عصر حاضر کے بعض مسلمان علماء نے بھی یہی فتویٰ دیا ہے کہ اگر مریض کی زندگی ختم ہونے، اس کے کسی عضو کی ناکامی، مرض کے پھیلنے اور شدید تر ہونے، یا جسم کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو سؤر کے دل کے Valve انسان کو لگائے جا سکتے ہیں۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button