یادِ رفتگاں

محترم چودھری حمید اللہ صاحب وکیل اعلیٰ کا ذکر خیر

(سید شمشاد احمد ناصر۔ مبلغ سلسلہ امریکہ)

یہ مارچ 1969ء کا واقعہ ہے کہ جامعہ احمدیہ ربوہ میں علمی مقابلہ جات ہورہے تھے۔ خاکسار نے پہلی مرتبہ مقابلہ تقاریر اردو میں شجاعت گروپ کی طرف سے حصہ لیا۔ یہ مقابلہ شام کے وقت جامعہ احمدیہ کے ہال میں ہو رہا تھا۔ خاکسارنے دوران تقریر زور سے ڈائس پر مکا مارا۔ عجیب اتفاق تھا کہ مکا مارنے کے ساتھ ہی ہال کی بجلی چلی گئی جبکہ خاکسار نے اندھیرے میں ہی اپنی تقریر جاری رکھی۔ بجلی کی واپسی کاانتظار نہیں کیا۔ مقابلے کے منصفین حضرات نے خاکسار کو بھی انعام کا حقدار قرار دیا۔ ان میں سے ایک منصف مکرم چودھری حمیداللہ صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدیدتھے۔ جو ان دنوں کالج میں پروفیسر تھے۔ بعد میں آپ سے ملاقات ہوئی تو آپ نے خاکسار کی تقریر کو سراہا اور اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ خاکسار نے اندھیرے میں بھی تقریر جاری رکھی۔ بتانے لگے میں نےدو باتوں کا جائزہ لیا ہے ایک تو یہ کہ تقریر رٹی ہوئی نہ تھی۔ دوسرایہ کہ اس عزم اور اعتماد کا مظاہرہ ہو رہا تھا کہ ہم روشنیوں کا انتظار نہیں کرتے بلکہ خود روشنیاں پھیلائیں گے تا دنیا میں اجالا ہو۔ یہ خاکسار کا آپ کے ساتھ پہلا تعارف تھا۔

اس کے بعد کوئی خاص ملاقات یاد نہیں سوائے ان ملاقاتوں کے جن کی اپنی ڈائری وغیرہ میں رپورٹ کرنا ہوتی تھی کہ دوران ہفتہ کس بزرگ یا صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملاقات کی۔

حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الخامس اید اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 12؍فروری 2021ء میں مکرم ومحترم چودھری حمید اللہ صاحب کی بطور صدر خدام الاحمدیہ تقرری پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے 1969ء میں آپ کے بارے میں جو ارشاد فرمایا تھا وہ بھی پڑھ کر سنایا جس میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ’’ غرض اللہ تعالیٰ کے فضل سے پچھلے تین سال میں خدام الاحمدیہ نے خاصی ترقی کی ہے لیکن پہاڑوں کی بلند چوٹیوں کی طرح خدام الاحمدیہ کے لیے کوئی ایک چوٹی مقرر نہیں کہ جہاں جا کر وہ یہ سمجھیں کہ بس اب ہم آخری بلندی پر پہنچ گئے۔ ہمارا کام ختم ہو گیا۔ یہ تو ایسے پہاڑ کی چڑھائی ہے کہ جس کی چوٹی کوئی ہے ہی نہیں۔ کیونکہ یہ وہ پہاڑ ہے جس کے اوپر ارضِ رَبّ ِکریم ہے اور انسان اور اللہ تعالیٰ کے درمیان جو فاصلہ ہے وہ غیر محدود ہے اور ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے اور اسی میں ہماری زندگی اور حیات ہے کہ ہم کسی جگہ پر تھک کر بیٹھ نہ جائیں۔ یا کسی جگہ ٹھہر کر یہ نہ سمجھ لیں کہ ہم نے جو حاصل کرنا تھا کر لیا۔ نہیں، ہمارے لیے غیر محدود ترقیات اور رفعتیں مقدر کی گئی ہیں اور اگر ہم کوشش کریں اور واقعہ میں اللہ تعالیٰ ہمارے دل میں اخلاص اور ایثار اور محبت ذاتی اپنے لیے محسوس کرے تو وہ ہم پر فضل نازل کرتا چلا جائے گا اور کرتا چلا جاتا ہے۔ جس کے نتیجہ میں انسان خدا تعالیٰ سے اور زیادہ پیار حاصل کرتا ہے اور اپنے نفس سے وہ اَور زیادہ دور اور بیگانہ ہو جاتا ہے۔ ‘‘(مشعل راہ جلد 2صفحہ212تا 214)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کے اس ارشاد کا ایک ایک لفظ چودھری صاحب نے اپنی ذات میں پورا کر کے دکھایا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نہ صرف خدام الاحمدیہ کی صدارت کے دوران بلکہ وفات تک ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق بخشی اور آپ کوہمیشہ کی رفعتیں اور جاودانی حیات عطا فرمائی اور یہ کیوں نہ ہوتا کہ آپ نے انتہائی اخلاص، وفاداری اور سخت محنت کے ساتھ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی خاطر اپنی تمام تر زندگی خلافت احمدیہ کے سپردکردی اورخلافت کے منشاء کو سمجھنے اور اس پر پورا پورا عمل کرتے ہوئے زندگی گزاری۔ آپ کی وفات سے یقیناً ایک خلا پیدا ہوا لیکن اللہ تعالیٰ کی اس پیاری جماعت میں ایک سے بڑھ کر ایک مخلص ہے جو اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی کی خاطر اپنا تن، من، دھن سب کچھ قربان کرنےکے لیے تیار ہوتا ہے کیونکہ یہ خدا کی جماعت اور خدائی سلسلہ ہے اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ اس جماعت میں ایسےمخلص پیدا فرماتا رہے گا ان شاءاللہ۔

خاکسار مکرم چودھری حمید اللہ صاحب کے ساتھ اپنی چند یادیں تحریر کرنے لگا ہے جس سے آپ کی سیرت کے کچھ پہلو سامنے آتے ہیں۔ خاکسارجامعہ سے فراغت کے بعد کچھ عرصہ پاکستان میں ہی میدانِ عمل میں خدمت کی توفیق پاتارہا پھرحضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے خاکسار کا تقرر گھانا کے لیے فرمایا تو میدان عمل سے ویزے کی کارروائی کے لیے ربوہ آنا ہوا۔ اس وقت مکرم چودھری صاحب ناظر ضیافت مقرر ہو چکے تھے۔ خاکسار چند دوستوں کے ہمراہ جن میں مکرم محمود احمد بنگالی صاحب مرحوم سابق صدر خدام الاحمدیہ مرکزیہ و بعدہ امیر جماعت احمدیہ آسٹریلیااور مفتی احمد صادق صاحب تھے، دارالضیافت چلاگیا۔ چودھری صاحب سے مزید تعارف ہوا۔ آپ نے ہم سب کی خوب خاطر تواضع کی اور سیرالیون سے آئے ہوئے ایک مبلغ صاحب کے ساتھ میری واقفیت بھی کروائی۔ یہ بھی فرمانے لگے کہ یہ افریقہ سے آئے ہیں ان کے ساتھ بیٹھا کرو اور وہاں کے حالات معلوم کرو اور اس کے مطابق تیاری کرو۔ پھر تو دارالضیافت میں اکثر آنا جانا ہوتا تھا اور چودھری صاحب کی صحبت سے مستفیض ہونے کا موقع ملتا رہا۔

صبر اور حکمت عملی

چودھری صاحب کے اندر صبر اور حکمت عملی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ آپ کوئی بات سن کر فوری ردعمل ظاہر نہ کرتے بلکہ غور سے بات سنتے اور پھرسوچ سمجھ کربات کا جواب دیتے۔ وہ بھی صرف اگر ضروری ہوتا۔ آپ غیر ضروری باتوں میں تو پڑتے ہی نہ تھے۔ انہی ایام کا واقعہ ہے کہ چند دوستوں کے ہمراہ آپ کے ساتھ گفتگو جاری تھی۔ صبر اور حکمت عملی پر بات چل رہی تھی بلکہ گھریلو معاملات کے بارے میں تھی کہ انسان جو اپنی بیوی کے ساتھ چھوٹی چھوٹی باتوں پر کچھ جھگڑا کرتا ہےوہ نہیں ہونا چاہیے۔ چودھری صاحب اپنا واقعہ بتانے لگے کہ اگر میرے گھر اپنی اہلیہ کے ساتھ کسی ایسی بات کی نوبت آجائے اور مجھے معلوم ہو کہ ان کی بات صحیح نہیں ہےتو بھی میں اسی وقت انہیں یہ نہیں کہتا کہ آپ غلط ہیں اورصحیح بات اس طرح ہے بلکہ دو تین ماہ تک انتظار کرتا ہوں اور جب موقع آئے تو بتاتا ہوں کہ فلاں دن آپ کی بات صحیح نہ تھی۔ خاکسار نے یہ واقعہ اس وقت ایک مضمون کی صورت میں مصباح اور الفضل کو لکھ بھیجا جو شائع بھی ہوگیا۔ بعد میں ایک لطیفہ بھی ہوا۔ خاکسار نےاپنے مضمون میں یہ بھی لکھا کہ اس وقت دارالضیافت کے ناظر مکرم چودھری حمید اللہ صاحب ہیں آپ نے وہ مضمون پڑھا اور جب میں انہیں ملنے گیا تو مجھے ساتھ لے کر ٹہلنے لگے اور اس مضمون پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ نے مضمون میں میرا نام بھی لکھ دیا۔ ہر ایک کو بتا دیا ہے کہ اگر یہاں کوئی کام خراب ہو جائے تو وہ سیدھے آ کر مجھے پکڑ لیں سب کو پتا چل گیا ہے کہ اس کو پکڑنا ہے۔ یہ بات کہتے ہوئے آپ مسکرارہے تھے۔

شادی اور ولیمہ

خاکسار کی شادی 18؍اگست 1976ء کو ہوئی۔ میرے ایک مربی دوست( خداوند کریم انہیں غریق رحمت فرمائے) سے میں نے ذکر کیا کہ ولیمے کا انتظام کرنا ہے اور مجھے علم نہیں کہ یہ کام کس طرح ہوگا۔ کہنے لگے اس کی فکر نہ کریں۔ میں نے پوچھا کیسے؟ کہنے لگے کہ چودھری حمید اللہ صاحب کے پاس چلتے ہیں اور ان سے ذکر کرتے ہیں وہ کوئی حل نکال کر دیں گے۔ میں نے کہا لنگر خانے میں تو ولیمہ نہیں کرنا۔ کہنے لگے وہ صحیح مشورہ دے کر آپ کا مسئلہ حل کر دیں گے۔ میں نے کہا مجھے تو یہ بات کرتے ہوئے ہی شرم آتی ہے میں نہیں جاتا۔ وہ زبردستی مجھے چودھری صاحب کی خدمت میں لے گئے اورخود ہی چودھری صاحب سے بات بھی کردی۔ آپ نے فوراً فرمایا میں بندوبست کر دیتا ہوں۔ ہم سے پوچھا کہ کتنے لوگوں کو بلانے کا ارادہ ہے؟ میں نے بتایا کہ چار سو کے قریب۔ تو انہوں نے قورمہ، پلاؤاورزردہ کے لیے سب ضروری حساب لگایا اور کہا کہ سات سو روپے خرچہ آئے گا۔ فرمانے لگے کہ یہ سارا انتظام لنگر خانے میں ہوگا آپ اتنی رقم جمع کرا دیں۔ ہم نے رقم جمع کرا دی اور ہمیں صحیح وقت پر کھانا پک کر ہمارے گھر میں ہی مل گیا۔ فجزاہم اللہ خیراً۔

جلسہ سالانہ کے وقت

جلسہ سالانہ میں میری ڈیوٹی لنگر خانہ نمبر ایک میں روٹی پکوائی پر ہوتی تھی۔ 1966ء سے1973ءتک مجھے یہ خدمت کرنے کا موقع ملا۔ خاکسار نے بارہاحضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ، حضرت سید میر داؤد احمد صاحب، چودھری حمید اللہ صاحب، میر محمود احمد صاحب، صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب، صاحبزادہ مرزاغلام احمد صاحب، پروفیسر نصیر احمد خان صاحب، پروفیسر عبدالرشید غنی صاحب اور سمیع اللہ سیال صاحب کو ہمہ تن جلسے کا کام کرتے دیکھا ہے۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے ربوہ میں جلسہ چلانے کے انتظامات ہر جہت سے مکمل ہوتے تھے اور اس کی ایک بڑی وجہ ان بزرگان کی انتھک محنت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کاجذبہ تھا۔ ہم دیکھتے کہ یہ سب احباب ان دنوں میں آرام تو اپنے اوپر حرام کر لیتے تھے۔ اگر کوئی اور دھن تھی تو یہی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کی حد درجہ خدمت ہو اور جلسہ کامیاب ہو اور خدا تعالیٰ کی رضا اور خلیفۃ المسیح کی خوشنودی حاصل ہو۔

افریقہ میں چودھری صاحب کی آمد

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے آپ کو وکیل اعلیٰ مقرر فرمایا تو آپ افریقہ دورے پر تشریف لائے۔ خاکسار اس وقت سیرالیون میں تھا۔ مولانا خلیل احمد مبشر صاحب امیر اور مشنری انچارج تھے۔ آپ امیر صاحب کے ساتھ خاکسار کے علاقے میں تشریف لائے تو ہر جگہ کا دورہ فرمایا حتّٰی کہ چھوٹے چھوٹے دیہات میں تشریف لے گئے۔ جہاں پرائمری سکول تھے ان کے حالات کا جائزہ لیا۔ اس موقع کے چند واقعات ذہن میں آتے ہیں۔

جماعت احمدیہ سیرالیون کی مجلس عاملہ کا اجلاس بلایا گیا۔ چودھری صاحب نے تمام سیکرٹریان کے کام کا جائزہ لیا۔ جب آپ کسی کوکوئی ہدایت دیتے تو ایک نیشنل سیکرٹری جن کی کارکردگی کچھ بہتر نہ تھی بلکہ نہ ہونے کے برابر تھی وہ ہر بات پر بڑے زور کے ساتھ ان شاءاللہ ان شاءاللہ کہتے آپ نے کچھ مرتبہ تو سنا پھر انہیں مخاطب کر کے فرمایا کہ جو صرف ان شاءاللہ ان شاءاللہ کہتے ہیں وہ کام تھوڑا کرتے ہیں یا بالکل بھی نہیں کرتے۔ ایک اور سیکرٹری سے فرمایا عذر پیش کر کے اپنے نفس کو دھوکا نہ دیں۔ انگریزی میں مفہوم تھا کہ عذر کر کے اپنے عزائم کو زخمی نہ کریں۔ ایک اور سیکرٹری کو فرمایا

Failing to plan is planning to fail

افریقہ میں جہاں جہاں آپ کو جماعتی اسکول یا جلسوں میں تقریر کرنے کا موقع ملا آپ کی یہ تین باتیں بہت نمایاں نظر آئیں:

1۔ اپنی تقاریر میں نظام جماعت سمجھاتے۔

2۔ جلسہ سالانہ کے نظام سے واقفیت کراتے۔

3۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کے پڑھنے کی تلقین فرماتے۔

نیز آپ اپنی تقاریر میں نوے سے پچانوے فیصد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اقتباسات ہی بیان فرماتے تھے۔ اپنی طرف سے کم ہی کچھ کہتے۔

ہر چیز کی مکمل تیاری کرنا

سیرا لیون ہی میں اپنے دورے کے دوران جب آپ خاکسار کے مشن ہاؤس اور جماعت مگبور کا میں تشریف لائے تو ان دنوں ملکی حالات ہر لحاظ سے مخدوش تھے۔ ہمارے علاقے میں تو پانی کی بھی بہت قلت تھی اور وہاں پر آپ کی رہائش کے لیے کوئی خاطر خواہ جگہ بھی نہ تھی۔ مشن ہاؤس بہت ہی چھوٹے دو کمروں پر مشتمل تھا۔ ایک کمرے میں دو چارپائیاں تھیں جن پر ہم 6افراد خانہ سوتے۔ دونوں چارپائیوں کے درمیان بالکل بھی جگہ نہ ہوتی تھی بلکہ دوسری چارپائی پر جاتے آتے پہلی چارپائی کراس کرنا پڑتی تھی۔ دوسرا کمرہ مہمانوں کے لیے تھا مگرکمرہ اتنا چھوٹا تھا کہ ایک چارپائی کی جگہ تھی اور وہ چارپائی بھی ہسپتال والی لوہے کی تھی جو آپ کو دینا مناسب نہ سمجھا گیا۔ اس لیے وہاں ایک احمدی کے غیر مستعمل ہوٹل کو صاف کرکے آپ کی رہائش کے قابل بنایا گیا۔ آپ نے نہانا تھا۔ خاکسارمشن ہاؤس سے وہاں سب کچھ لے گیا۔ تولیہ، صابن، شیشہ، کنگھی۔ پانی کی بالٹی وغیرہ رکھ دی گئی اور خاکسار نے بےتکلفی میں بتا دیا کہ آپ کے نہانے کے لیے چیزیں رکھ دی ہیں۔ آپ نے از راہ تفنن فرمایا میں تو اپنے ساتھ ہر چیز لے آیا ہوں سوائے پانی کے۔

آپ خاکسار کے علاقے کے پیرا ماؤنٹ چیف سے بھی ملے جس کی ایک یادگار تصویر خاکسار کے پاس ہے جس میں پیرا ماؤنٹ چیف نے اپنا روایتی لباس بھی پہنا ہوا ہے۔ اسی طرح ایک اور گاؤں روکمبی میں بھی آپ تشریف لے گئے۔ یہ گاؤں خاکسار کےذریعے احمدی ہوا تھا۔ وہاں پر موجود دیہاتی لوگوں نے آپ کا پُرزور استقبال کیا۔ گاؤں کی سڑک پر آمد کا گیٹ لگایا جس پر بینر لگے ہوئے تھے۔ آپ سب کو دیکھ کر خوش ہوئے اور مختصراًاحمدیت اور خلافت کے متعلق تقریر کی۔

جب آپ سیرالیون سے واپس تشریف لے گئے تو جاتے وقت مجھے ایک اعلیٰ قیمتی اوور کوٹ تحفہ دے گئے جو خاکسار نے کئی سال استعمال کیا۔ فجزاہ اللہ احسن الجزاء

دفتری ملاقات اور تبلیغ کے بارے میں ہدایت

مکرم چودھری صاحب بہت ساری خوبیوں سے متّصف تھے۔ قریباً بیس سال قبل جب خاکسار چھٹیوں پرپاکستان گیا اورچودھری صاحب سے دفتری ملاقات ہوئی جس میں صرف خاکسار ہی تھا۔ آپ نے کھڑے ہو کر میرا استقبال کیا اور بیٹھنے کے لیے کہا۔ اس کے بعد میز پر پڑی ہوئی کتاب کھولی اور فرمانے لگے کہ میں آپ کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا حوالہ سنانے لگا ہوں اور اس طرح آپ نے مجھے یہ حوالہ سنایا جو سیر روحانی سے تھا اور اس کے آخری الفاظ بڑے جلال کے ساتھ پڑھے: ’’ اَب خداکی نوبت جوش میں آئی ہے۔ اور تم کو ،ہاں تم کو،ہاں تم کو، خداتعالیٰ نے پھر اِس نوبت خانہ کی ضرب سپرد کی ہے۔ اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو! اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو! اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو! ایک دفعہ پھر اس نوبت کو اِس زور سے بجاؤ کہ دُنیا کے کا ن پھٹ جائیں۔ ایک دفعہ پھر اپنے دل کے خون اِس قرنا میں بھر دو۔ ایک دفعہ پھر اپنے دل کے خون اِس قرنا میں بھر دو کہ عرش کے پائے بھی لَرز جائیں اور فرشتے بھی کا نپ اُٹھیں تاکہ تمہا ری دردناک آواز یں اور تمہارے نعرہ ہائے تکبیر اور نعرہ ہائے شہادتِ توحید کی وجہ سے خدا تعالیٰ زمین پر آجا ئے اور پھر خدا تعالیٰ کی بادشاہت اِس زمین پر قائم ہو جا ئے۔ اِسی غرض کےلئے مَیں نے تحریک جدید کو جا ری کیا ہے اور اِسی غرض کےلئے مَیں تمہیں وقف کی تعلیم دیتا ہوں۔ سیدھے آؤ اور خدا کے سپاہیوں میں داخل ہو جا ؤ۔ محمدؐ رسول اللہ کا تخت آج مسیحؑ نے چھینا ہؤا ہے۔ تم نے مسیحؑ سے چھین کرپھر وہ تخت محمدؐ رسول اللہ کو دینا ہے اور محمد رسو ل اللہ نے وہ تخت خدا کے آگے پیش کرنا ہے اور خدا تعالیٰ کی بادشاہت دنیا میں قائم ہو نی ہے۔ پس میری سنو اورمیری بات کے پیچھے چلو کہ مَیں جو کچھ کہہ رہا ہوں وہ خدا کہہ رہا ہے۔ میری آواز نہیں ہے، مَیں خدا کی آواز تم کو پہنچا رہا ہوں۔ تم میری مانو!خدا تمہارے ساتھ ہو! خدا تمہا رے ساتھ ہو!! خدا تمہا رے ساتھ ہو اور تم دُنیا میں بھی عزّت پا ؤ او ر آخرت میں بھی عزت پاؤ۔ ‘‘

(سیرروحانی،پیش لفظ صفحہ ج ایڈیشن2017ء)

جب آپ نے یہ اقتباس پڑھا آپ کی آواز بہت بلند تھی۔ اسے مکمل کرنے کے بعد کہنے لگے کہ اس طرح امریکہ میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہی میری دفتری ملاقات تھی۔

اسی طرح ایک اور دفعہ جب چھٹی پر گیا، دفتری ملاقات میں صرف یہ ہدایت دی کہ لوکل احمدیوں کو کاموں میں شامل کریں۔ ان کی تربیت کریں۔ ان کا خلافت سے تعلق قائم کر دیں تو سارے کام آسان ہو جائیں گے۔ یہی کامیابی کی جڑ ہے اور فرمانے لگے کہ امریکہ میں احمدیت کا پیغام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں پہنچا اور آپؑ کی دعوت مباہلہ سے ڈوئی کی ہلاکت ہوئی۔ یہ آپ کی صداقت اور قبولیت دعا کا ایک بہت بڑا نشان تھا۔ اس نشان کو وہاں کے لوگوں میں باربار بیان کیا کریں اس سے لوگوں میں تبلیغ ہوگی۔

روح شفا

خاکسار جب ایک دفعہ چھٹی پر پاکستان گیا تو تحریک جدید کے گیسٹ ہاؤس میں رہائش تھی تو جاتے ہی پیٹ کی خرابی کی وجہ سے شدید بیمار ہو گیا۔ ایک ڈاکٹر صاحب نے بڑی محبت سے گھر آکر علاج کیا۔ چنانچہ اس بیماری کی وجہ سے دو چار دن گھر سے نہ نکل سکا۔ جب میں قدرے ٹھیک ہو گیا تو مسجد جاتے ہوئے چودھری صاحب سے ملاقات ہوئی۔ مجھ سے پوچھا کہ کہاں غائب ہو؟ عرض کی کہ میں پیٹ کی بیماری کی وجہ سے شدید بیمار ہو گیا تھا اور کمزوری بھی بہت ہو گئی تھی۔ آپ نے فرمایا کہ ناصر دواخانہ سے ایک دوائی ’’روح شفا‘‘ ملتی ہے وہ ساتھ رکھا کریں۔ اسے استعمال کریں بہت مفید ہے اور اس قسم کی بیماریوں میں بہت اچھی ہے۔

چنانچہ خاکسا رنے اسی دن وہ دوائی خریدی اور استعمال شروع کر دیا۔ اس کے بعد سے بھی میں کوشش کرتا ہوں کہ یہ دوائی ساتھ ہو۔ اللہ تعالیٰ فضل فرماتا ہے۔ کئی دوستوں کو امریکہ میں اسہال کی تکلیف میں دی ہے اور پیٹ کی خرابی میں تو خداتعالیٰ کے فضل سے بہت مفید ثابت ہوئی ہے۔ الحمد للہ۔

امیر مقامی

ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے آپ کو ربوہ کا امیر مقامی مقرر فرمایا۔ اس وقت کی ایک بات مجھے یاد ہے کہ آپ تمام مساجد سے روزانہ فجراور عشاء کی نماز کی حاضری منگواتے تھے۔ نماز باجماعت کا آپ خود بھی بہت اہتمام فرماتے تھے۔ خاکسار نے خود اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ جب آپ کی رہائش اپنے ذاتی مکان دارالرحمت میں تھی تو مسجد بلال میں باقاعدگی سے حاضر ہوتے اور پھر جب تحریک جدیدمیں آپ کی رہائش ہوئی تو مسجد محمودمیں باقاعدگی سےفجر، عصر، مغرب اور عشاء پرحاضر ہوتے تھے اور موسم کی پرواہ کیے بغیر خواہ بارش ہو سردی ہو گرمی ہو آپ نماز کے لیے ضرور حاضر ہوتے۔ نماز ظہر دفتر میں باجماعت ادا ہوتی تھی۔

مضامین پر پسندیدگی کا اظہار

خاکسار کو خدا تعالیٰ نے امریکہ میں قلمی جہاد کی توفیق بھی عطا فرمائی ہے۔ خاکسار کبھی کبھار آپ کو اخبارات میں شائع ہونے والے تراشے بھی بھجواتا۔ آپ انہیں بھی غور سے پڑھتے اور ہمیشہ خط کا جواب دیتے اور پسندیدگی کا اظہار فرماتے۔ ایک دفعہ خاکسار نے مضمون لکھا کہ انڈے کو اندر سے ٹوٹنے دیں۔ اس پر بہت اظہار پسندیدگی فرمایا۔

خطوط کا ذکر آگیا ہے تو ایک اور خط کا ذکر کرتا ہوں۔ ایک سیرا لیونی مبلغ جو پاکستان کے جامعہ سے فراغت کے بعد واپس آئے تھے، نے مجھے خط لکھا کہ آپ کے خسرِ محترم مکرم الطاف خان صاحب کاپاکستان میں انتقال ہو گیا ہے۔ یہ خبر میرے لیے بالکل اچانک تھی اور مجھے گھر سے کہیں سے بھی کوئی اطلاع نہ تھی۔ میری اہلیہ زچگی میں تھیں۔ ایک دو دن پہلے میری بیٹی طیبہ کی پیدائش ہوئی تھی۔ اب مجھے سمجھ نہ آئے کہ اپنی اہلیہ کو اس حالت میں کس طرح خبر دوں اور یہاں پر سنبھالنے والا بھی کوئی نہیں۔ چنانچہ خاکسار نے بیگم کو بتایا کہ نزدیکی شہر مکینی جا رہا ہوں اور تھوڑی دیر میں آجاؤں گا۔ شہر قریباً چھ میل دور تھا یہاں پر جماعت نے ابھی نیا نیا مڈل سکول کھولا تھا اور اس کے پر نسپل میری اہلیہ کے پھوپھی زاد ہیں۔ مکرم مولانا منور احمد صاحب مرحوم میری اہلیہ کے پھوپھا تھے۔ چنانچہ میں ان کے پاس گیا اور بتایا کہ مجھے اس طرح خط آیا ہے کہ میرے خسر مکرم الطاف خان صاحب وفات پا گئے ہیں۔ انہوں نے خبر سنی اور انا للہ پڑھا۔ پھر میں نے کہا کہ آپ مع فیملی تیار ہو جائیں اور میرے ساتھ ہی گھر چلیں اور میری اہلیہ کو یہ خبر بتا ئیں اور تسلی بھی دیں۔ چنانچہ وہ سب گھر والے تیار ہو کر میرے ساتھ ہی آگئے۔ یہ بھی یاد رکھنے والی بات ہے کہ اس زمانے میں خط بھی پندرہ دن کے بعد ملتا تھا اور فون تو تھا ہی نہیں کہ کسی طرح اس خبر کی تصدیق ہو جاتی۔ بہرحال یہ دن پریشانی میں گزرے۔ ایک دن مکرم چودھری حمید اللہ صاحب کا لندن سےخط آیا آپ ان دنوں لندن تشریف لے گئے ہوئے تھے، جس میں آپ نے میرے ماموں سید خورشید بخاری صاحب کی وفات پر تعزیت کی ہوئی تھی۔ اس خط سے یہ عقدہ حل ہوا کہ میرے خسرصاحب کی وفات نہیں ہوئی تھی بلکہ ماموں کی وفات ہوئی تھی۔ بعد میں دیگر ذرائع سے بھی اس بات کی ہی تصدیق ہوئی۔

بعض ضروری ہدایات

حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت خاکسار کو سیرا لیون اور بنگلہ دیش کے جلسوں میں مرکزی نمائندہ کے طور پر بھجوایا۔ مکرم چودھری صاحب نے ہر بارخاکسار کو اس سلسلے میں یہ ہدایات دیں کہ حضور کے ہر حکم اور منشاء کو جماعت تک پہنچائیں۔ جلسے کے نظام کو صحیح طور پر سمجھائیں اور اس کی برکات بتائیں۔ ہر روز کی کارروائی کی پوری رپورٹ روز کے روز حضور کی خدمت میں فیکس کریں خواہ لوگوں کے ساتھ میٹنگ ہو دورہ ہو یا کچھ بھی کیا ہو، اس کی رپورٹ روزانہ بھجوائیں۔ اس کا ایک مقصد تو آپ نے یہ بتایا کہ تمہاری کارروائی کے بارے میں حضور کو علم رہے گا اور دوسرا یہ کہ دعا بھی ہوتی رہے گی۔ خاکسار نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان سب باتوں پر عمل کرنے کی کوشش کی۔ جس کا مجھے بہت فائدہ ہوا۔ جب ان جلسوں کے بعدحضور انورنے ازراہ شفقت ملاقات کی اجازت عطا فرمائی تو ملاقات سے پہلے ہر چیز حضور کے علم میں تھی اور آپ ان امور کے بارے پوری طرح آگاہ تھے۔ اور اس پر خوشنودی کا اظہار بھی فرمایا۔ الحمد للہ

شکریہ اور تحائف

خاکسار نے ذکر کیا ہے کہ آپ سیرالیون تشریف لائے تھے اس موقع پر خاکسار نے ایک دعوت کا بھی اہتمام کیا جس میں علاقے کےاسکول کے اساتذہ، ہسپتال کے ڈاکٹر حضرات اور ان کی فیملیز کو بھی مدعو کیا گیا۔ خاکسار کی اہلیہ نے سارا کھانا پکایا اور کھانے میں پاکستانی کھانے کے علاوہ مٹھائی بھی بنائی۔ آپ نے ہر چیز بہت پسند کی اور بار بار میری اہلیہ کے لیے شکریہ کہا۔ صرف یہی نہیں بلکہ جب آپ واپس پاکستان آئے تو میرے خسر محترم الطاف خان صاحب سے اس بات کا ذکر کیا کہ ان کی بیٹی نے بہت خدمت اورمہمان نوازی کی ہے۔ ہم جب بھی چھٹی پر پاکستان جاتے تو آپ سے درخواست کرتے کہ وہاں تحریک جدید میں رہائش کا انتظام کر دیں۔ آپ نے وہاں پر دو کوارٹر بنائے ہوئے ہیں۔ جن میں بیرون ملک سے آنے والے مبلغین اپنی فیملیز کے ساتھ چھٹی گزار سکتے ہیں۔ یہ ایک نعمت غیرمترقبہ ہے اور جتنا عرصہ وہاں مبلغ اور ان کی فیملی رہتی ہے ہر قسم کی ضروریات کا خیال رکھتے۔ ایک دفعہ جب میں گیا تو صبح ناشتہ کرنے دارالضیافت چلا گیا۔ دس بجے کے قریب آپ سے سرراہ ملاقات ہوئی تو آپ نے سب سےپہلے یہی سوال کیا کہ جگہ ٹھیک ہے کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتائیں اور ناشتہ کر لیا ہے؟ میں نے بتایا کہ ناشتہ تو لنگر خانہ جا کر کیا تھا۔ فرمانے لگے کہ وہاں کیوں گئے تھے؟ میں نے تو ہدایت کی تھی کہ آپ کو کوارٹر میں تینوں وقت کا کھانا ملنا چاہیے اور پھر منتظمین سے اس بات پر بازپرس کی۔

ایک دفعہ ہم گئے تو خاکسار کی اہلیہ نے کہا کہ میں نے چودھری صاحب کی بیگم سے ملنا ہے وقت لے لیں۔ مَیں نے غالباً فجر کی نماز پر اس بات کا ذکر کیا کہ میری اہلیہ آپ کے گھر جانا اور ملنا چاہتی ہیں۔ کہنے لگے اپنی اہلیہ سے پوچھوں گا ان دنوں ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے غالباً دو دن بعد فرمایا کہ آج اس وقت اپنی اہلیہ کو بھجوا دیں۔ جب اہلیہ آدھ پون گھنٹےبعدمل کر واپس آئیں تو ایک بیگ پکڑا ہوا تھاجس میں چودھری صاحب کی بیگم صاحبہ کی طرف سے بچیوں کےلیے تحائف تھے حالانکہ وہ وہاں موجود بھی نہیں تھیں۔

اِس وقت میرے سامنے آپ کے لکھےدرجنوں خطوط پڑے ہیں۔ میں نے سب کو دیکھا اور پڑھا تو یہ باتیں ان سب میں مشترک تھیں ہر خط کا جواب دیا تھا۔ جس بارے میں خط لکھا اس پر ہدایات دیں۔ کارکردگی اور خصوصاً پریس اور میڈیا پر اظہار خوشنودی کیا اور دعائیں دیں۔

اب ایک آخری بات لکھ کر اس مضمون کو ختم کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے خاکسار جب بھی پاکستان میں اپنی چھٹی گزار کر واپس آیا۔ آپ نے از راہ شفقت دعاؤں سے الوداع کیا اور اکثر اوقات دفتر کے کارکنان کو اکٹھا کر کے دعا کراتے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی ساری دعائیں قبول فرمائے اور آپ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ علیین میں جگہ دے اور ہمیں آپ کی نصائح اور ہدایات کے مطابق اپنے وقف کے تقاضے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاہم بھی خلافت احمدیہ کے لیے سلطان نصیر ثابت ہوں۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button