الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

مکرم ڈاکٹر نصیر احمد منصور صاحب

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 29؍جولائی 2013ء میں مکرم مظفر احمد چٹھہ صاحب کے قلم سے اُن کے ماموں زاد مکرم ڈاکٹر نصیر احمد منصور صاحب کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔

مکرم ڈاکٹر نصیر احمد منصور صاحب 15؍مئی1935ء کو اپنے ننھیال چک99شمالی سرگودھا میں پیدا ہوئے۔ حضرت چودھری غلام رسول صاحب بسراؓ آپ کے نانا اور محترم چودھری ولی محمد صاحب آف گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ آپ کے دادا تھے۔ آپ کے والد محترم چودھری خوشی محمد صاحب نے ابتدائی زمانے میں زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سے گریجوایشن کی تھی اور حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے اُن کی تقرری سندھ کی زمینوں پر بطور مینیجر فرمائی تھی۔ زراعت میں اعلیٰ تعلیم کی بنیاد پر اُنہیں وہاڑی میں پچاس ایکڑ زرعی اراضی بھی الاٹ کی گئی چنانچہ بعدازاں آپ وہیں آباد ہوگئے لیکن جوانی میں ہی وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہیں۔

مکرم ڈاکٹر نصیر احمد منصور صاحب نے ابتدائی تعلیم بورے والا اور فیصل آباد سے حاصل کی۔ لاہور سے بی ایس سی اور نشتر میڈیکل کالج ملتان سے ایم بی بی ایس کیا۔ وہیں سے ڈی او ایم ایس (آنرز) کا امتحان دیا اور اوّل آئے۔ امتیازی کامیابی کے ساتھ آئی سپیشلسٹ بنے۔امریکن بائیوگرافیکل انسٹیٹیوٹ کی جانب سے آنکھوں کے پچاس ہزار کامیاب آپریشن کرنے پر بیسویں صدی کا اعلیٰ ترین ایوارڈ حاصل کیا۔ کئی اداروں کی طرف سے اپنے شعبے میں آپ کی مثالی خدمات کا اعتراف کیا گیا۔انٹرنیشنل بورڈ آف ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے 1997ء کے لیے Man of the Year بھی نامزد کیا۔ قومی پریس کے علاوہ جماعتی طور پر بھی آپ کی خدمات کو سراہا گیا اور ایم ٹی اے نے ممتاز آئی ہسپتال بورے والا میں دو گھنٹے کی دستاویزی فلم تیار کی جسے ایم ٹی اے سے دو بار پیش کیا گیا۔ آپ کو کئی مقامی تنظیموں کی جانب سے فلاحی خدمات پر متعدد اعزازات سے نوازا جاتا رہا۔ کتاب Who‘s Who میں بھی آپ کا نام شامل ہے۔ اپنی طبّی ترقیات کے لیے غیرممالک کے متعدّد سفر بھی آپ نے کیے۔

محترم ڈاکٹر صاحب نے مختلف سطحوں پر لگائے جانے والے طبّی کیمپس میں اپنی خدمات پیش کیے رکھیں۔ اپنے آبائی گاؤں میں مفت ڈسپنسری قائم کی جہاں سے دوائیں بھی مفت فراہم کی جاتیں۔ آپ تیرہ سال تک مقامی جماعت کے صدر اور امیر ضلع وہاڑی رہے۔ اس دوران مسجد بیت الحمد کی تعمیر، مربی ہاؤس کی خرید اور احمدیہ قبرستان کے لیے دو ایکڑ اراضی کی الاٹمنٹ آپ کی نمایاں خدمات ہیں۔ آپ معاملات کو نہایت دانشمندی اور حکمت عملی سے طے کرتے۔ لہجہ نرم اور مزاج دھیما تھا۔ عفو کا وصف آپ کے کردار کا نمایاں پہلو تھا۔ 1974ء کے فسادات میں آپ کے گھر کا تمام سامان جلادیا گیا اور ہسپتال کو شدید نقصان پہنچایا گیا۔ آپ اپنے افراد خانہ کے ساتھ بمشکل گاڑی میں جان بچاکر نکل پائے۔ تاہم کسی کے خلاف نہ دل میں کینہ رکھا نہ بددعا کی۔ ہمیشہ دشمنوں کے لیے بھی صرف ہدایت کی دعا ہی کی۔

محترم ڈاکٹر صاحب نے 7؍اپریل 2013ء کو 78سال کی عمر میں لندن میں وفات پائی جہاں ایک ہفتہ قبل ہی آپ اپنے بیٹوں کے پاس پہنچے تھے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسجد فضل لندن میں مرحوم کی نماز جنازہ پڑھائی۔ آپ موصی تھے۔جنازہ ربوہ لایا گیا اور بہشتی مقبرہ میں تدفین عمل میں آئی۔ آپ نے بیوہ کے علاوہ پانچ بیٹے اور ایک بیٹی یادگار چھوڑے ہیں۔ سب بچے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔

………٭………٭………٭………

محترمہ آپا فاطمہ صاحبہ

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 25؍جولائی 2013ء میں ہندوؤں سے احمدیت کی آغوش میں آنے والی ایک خاتون المعروف آپا فاطمہ کے بارے میں مکرمہ ن۔درد صاحبہ کا ایک مختصر مضمون شامل اشاعت ہے۔

مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ ربوہ میں واقع ہمارے مکان کے سرونٹ کوارٹر کے ایک کمرے میں ہماری والدہ نے ایک خاتون کو ٹھہرایا جو ہماری والدہ کو آپا کہتی اور ہم بچے اُسے آپا کہتے۔اُن کے متعلق معلوم ہوا کہ قادیان میں وہ اپنے شوہر صدیق صاحب مرحوم کے ساتھ ہمارے گھر کے ایک حصے میں رہائش پذیر تھیں اور میری والدہ سے قرآن کریم اور اردو وغیرہ پڑھنا سیکھتی تھیں۔ ہجرت کے بعد ربوہ آگئیں تو کچھ عرصے بعد شوہر کی وفات ہوگئی۔ اولاد کوئی نہیں تھی۔ دوبارہ شادی کی تو دوسرے شوہر بھی ایک عرصے بعد وفات پاگئے۔ ربوہ ریلوے سٹیشن کے سامنے ایک کمرے والا کوارٹر اُن کا گھر تھا۔ ایک روز میری والدہ نے خواب میں انہیں پریشان دیکھا تو فوراً لاہور سے ربوہ پہنچیں۔ ربوہ جاکر معلوم ہوا کہ اُنہیں کوارٹر خالی کرنے کا آرڈر ملا ہے۔ چنانچہ آپا فاطمہ کا سامان اور اُن کو امّی اپنے ہاں لے آئیں۔

خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو آزمائش میں ضرور ڈالتا ہے لیکن اُن کو بےیارومددگار نہیں چھوڑتا۔ یا یوں کہہ لیں کہ جو خدا کے ہوجاتے ہیں اُن کا سارا جہان ہوجاتا ہے۔

اُن کا مختصر سا سامان جس کمرے میں رکھا گیا وہ صبر شکر کے ساتھ وہاں رہنے لگیں۔ اُس میں ایک کھڑکی تھی جو باہر کی طرف کھلتی تھی۔ ہم نے ایک بار پوچھا کہ کیا آپ کو سردیوں کی راتوں میں ڈر نہیں لگتا۔ مسکراکر کہنے لگیں کہ میرے ساتھ میرا خدا ہوتا ہے، وہ خود کہتا ہے کہ اُسے تو اونگھ بھی نہیں آتی۔ مَیں سوجاتی ہوں تو وہ میری حفاظت کرتا ہے۔

آپا فاطمہ کی زندگی تعلق باللہ کی ایک جیتی جاگتی تصویر تھی۔ نہایت سادہ، صابر، شاکر، عبادت گزار، متوکّل اور بےحد غیرت مند خاتون تھیں۔ کئی بار اُن سے کہا کہ شام کو چائے اکٹھے پیا کریں لیکن وہ مسکراکر کہہ دیتیں کہ مَیں نے پی لی ہے۔ اگر زیادہ زور دیا کہ چائے کا مزہ اکٹھے پی کر آتا ہے تو پھر اپنا چائے کا مگ لاکر ہمارے ساتھ بیٹھ کر پی لیتیں۔ کئی بار امّی نے کہا کہ کھانا ہمارے ساتھ کھالیا کرو یا رات کو ہمارے ساتھ آکر سوجایا کرو۔ لیکن اُن کی غیور طبیعت ہمیشہ ایسے کاموں میں آڑے آتی۔ کبھی کسی کا یا اپنے حالات کا شکوہ نہ کرتیں۔ فیصل آباد سے کپڑا لاتیں جو محلے کی عورتیں خرید لیتیں اور آپ سادہ شلوار قمیص سی کر پیسے کمالیتیں۔ موصیہ تھیں اور باقاعدگی سے چندہ جات ادا کرتیں۔ لجنہ کے پروگراموں میں باقاعدہ شامل ہوتیں۔ پردے کی بےحد پابند تھیں۔

آپا فاطمہ صبح سویرے اُٹھ کر نماز ادا کرکے قرآن کریم کی تلاوت کرتیں۔بعد میں اُن کی مستقل ڈیوٹی قصرخلافت میں لگ گئی تو نہایت جوش، جذبے اور ذمہ داری سے اس ڈیوٹی کو تاعمر نبھایا۔ موسم کی سختی کبھی آڑے نہ آئی۔ ایک دن باتوں باتوں میں ہمیں کہنے لگیں کہ اسلام قبول کرنے سے قبل مَیں ہندو مذہب سے تعلق رکھتی تھی۔ کس طرح خداتعالیٰ نے احسان کرکے ایک ہندو کو احمدی بنایا اور اب قصرخلافت میں نوکری۔ یہ کہتے ہوئے اُن کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو چھلک پڑے۔

اُن کی یہ خواہش اور دعا تھی کہ خدا تعالیٰ چلتے پھرتے اپنے پاس بلالے۔ خدا تعالیٰ نے اُن کی یہ دعا قبول کرلی اور ایک روز اُن کے کمرے میں جاکر دیکھا تو اُن کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کرچکی تھی۔

………٭………٭………٭………

مکرمہ امۃالحفیظ خانم صاحبہ

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 26؍جولائی 2013ء میں مکرمہ ط۔محمود صاحبہ کے قلم سے اُن کی والدہ محترمہ امۃالحفیظ خانم صاحبہ کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔

مکرمہ امۃالحفیظ خانم صاحبہ یکم ستمبر 1931ء کو ڈلہوزی میں پیدا ہوئیں اور 8؍اپریل 2012ء کو لندن میں انہوں نے وفات پائی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ جمعہ میں آپ کا ذکرخیر فرمایا اور بعد نماز جمعہ نماز جنازہ حاضر پڑھائی۔ مرحومہ آٹھویں حصے کی موصیہ تھیں۔ جنازہ پاکستان لے جایا گیا اور تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں عمل میں آئی۔ آپ وفات سے آٹھ ماہ پہلے ہی انگلستان آئی تھیں۔

محترمہ امۃالحفیظ خانم صاحبہ لجنہ میں مسلسل خدمات بجالاتی رہیں۔ بیس سال سے زائد عرصے تک صدر لجنہ اماءاللہ کوئٹہ رہیں۔ پردے کی پابند تھیں اور دوسروں کو بھی دین کو دنیا پر مقدّم کرنے کی تلقین کیا کرتی تھیں۔1992ء میں اپنے شوہر کی ٹرانسفر ہونے پر لاہور آگئیں اور یہاں بھی مختلف حلقوں میں خدمت کی توفیق پائی۔ صدر حلقہ کے طور پر بھی خدمت بجالاتی رہیں۔ دعوت الی اللہ کا بہت جوش تھا۔ چنانچہ جب اپنے بچوں کے پاس لندن آئیں تو تبلیغ کرنے کے لیے انگریزی بولنی سیکھی اور بہت تھوڑی مدّت میں اتنی اچھی بولنے لگیں کہ حیرت ہوتی تھی۔

آپ سے پہلے آپ کی والدہ کے ہاں پیدا ہونے والے کئی بچے کم سنی میں ہی فوت ہوجاتے رہے۔ آپ کی والدہ ایک نیک، دعاگو اور خدمت دین کے لیے ہمہ وقت حاضر رہنے والی خاتون تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کی دعاؤں کو سنا اور خاص دعا اور بشارت کے نتیجے میںمکرمہ امۃالحفیظ خانم صاحبہ پیدا ہوئیں۔ آپ کا رجحان بچپن سے ہی نیکی کی طرف تھا۔ قرآن کریم سے آپ کو عشق تھا اور کئی سپارے حفظ کیے تھے۔ بہت دعاگو تھیں۔ بہت سی بچیوں کے رشتوں کے لیے سو سو نوافل ادا کرتیں۔ دل بہت صاف تھا۔ کسی کے خلاف کینہ یا غصہ دل میں نہیں رہتا تھا۔ غریب پرور تھیں اور صدقات کثرت سے دیتیں۔ کوئٹہ میں رہتی تھیں تو یہ طریق تھا کہ بہت سی فقیر عورتوں اور بچوں کے لیے گھر میں تنوری روٹی اور چائے کے ناشتے کا انتظام کرتیں اور اُن کی عزّتِ نفس کا بھی خیال رکھتیں۔ جانوروں اور پرندوں کا بھی خیال رکھتیں۔ مہمان نواز بھی بہت تھیں۔ وسیع حلقہ احباب تھا۔ خود بھی باقاعدہ روزے رکھتیں اور کئی مستحقین کی سحری و افطاری کا بھی اہتمام کرتیں۔کئی سال کوئٹہ میں اور پھر ربوہ میں اعتکاف بیٹھتی رہیں۔ کثرت سے نفلی روزے بھی رکھتیں۔

مرحومہ کو خداتعالیٰ نے چار بیٹوں اور چار بیٹیوں سے نوازا۔ آپ نے بچوں کی تربیت میں کوئی کسر نہ اٹھارکھی۔ اسی مقصد کے لیے 1974ء میں بچوں کو ساتھ لے کر ربوہ آبسیں جبکہ آپ کے شوہر بسلسلہ ملازمت لاہور میں مقیم تھے۔

آپ نے زندگی میں غم بھی بہت دیکھے۔ کم عمری میں ہی والدہ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا تو دو چھوٹے بھائیوں کی بھی پرورش کی۔ 2003ء میں شوہر محترم شمس الحق خان صاحب کی وفات ہوئی اور دو سال بعد جواں سال بیٹے مکرم ڈاکٹر مبین الحق خان صاحب کی وفات کا گہرا صدمہ برداشت کیا لیکن کبھی آہ و بکا نہیں کی اور بے صبری کا کلمہ منہ سے نہ نکالا۔

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button