تعارف کتاب

گورنمنٹ انگریزی اور جہاد

(ابو سلطان)

میں ایک حکم لے کر آپ لوگوں کے پاس آیا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اب سے تلوار کے جہاد کا خاتمہ ہے مگر اپنے نفسوں کو پاک کرنے کا جہاد باقی ہے

تعارف

یہ رسالہ 22؍مئی 1900ءکو شائع ہوا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اس رسالے میں حقیقت جہاد اور اس کی فلاسفی بیان فرمائی اور قرآن، حدیث اور تاریخ سے ثابت کیا کہ اوائل اسلام میں مسلمانوں کو جو جنگیں لڑنی پڑیں وہ محض وقتی مدافعانہ اور مذہبی آزادی قائم کرنے کے لیے تھیں۔

رسالہ گورنمنٹ انگریزی اور جہاد کی تالیف کی وجوہات

مسلمانوں کے اس عام عقیدےکی وجہ سے کہ مسیح موعود اور امام مہدی بزور شمشیر کافروں کو مسلمان بنائیں گے یا انہیں قتل کر دیں گے اور آپ کے دعویٰ مسیحیت اور مہدویت کی وجہ سے گورنمنٹ انگریزی انہیں مشکوک نگاہوں سے دیکھتی تھی۔

1871ء سے 1882ء تک مہدی سوڈانی کا جنگ و قتال کا ہنگامہ انگریز حکومت کو بھولا نہیں تھا۔

بعض مسلمان علماء حکومت کو آپ علیہ السلام کے خلاف اکساتے تھے کہ نعوذ باللہ آپ کے دعویٰ سے مہدی سوڈانی سے زیادہ نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔

پادری صاحبان دلائل کے میدان میں شکست کھانے کے بعدگورنمنٹ انگریزی کو آپ سے بدظن کر کے اپنا انتقام لینا چاہتے تھے۔

1857ء کی بغاوت پر ابھی تھوڑا عرصہ ہی گزرا تھا اور ہندوؤں نے یہ کہہ کر اپنے آپ کو علیحدہ کر لیا تھا کہ مسلمان اپنی حکومت دوبارہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ بعد ازاں اس رسالے میں اسلامی جنگوں کی وجوہات اور اقسام پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔

مضامین کا خلاصہ

اس کتاب کے ٹائٹل پیج پر آیتِ کریمہ ہَلۡ جَزَآءُ الۡاِحۡسَانِ اِلَّا الۡاِحۡسَانُ۔ (الرحمٰن: 61)کی آیت درج ہے۔

لفظ جہاد کے معنی

جہاد کا لفظ جہدسے مشتق ہے جس کے معنی ہیں کوشش کرنا اور پھر مجاز کے طور پر مذہبی لڑائیوں کے لیے بولا گیا۔ ہندوؤں میں جو لڑائی کو یدھ کہتے ہیں یہ جہاد کے لفظ سے بگڑا ہوا ہے۔

اسلام کو جہاد کی ضرورت کیوں پڑی اور جہاد کیا چیز ہے؟

اسلام کو پیدا ہوتے ہی بڑی بڑی مشکلات کا سامنا ہوا۔ ساری قومیں اس کی دشمن ہوگئیں۔ یہ معمول کی بات ہے کہ خدا کے نبیوں اور ماموروں کے وقت اس دَور کے علماء اور مشائخ کا فرقہ ہمیشہ ان سےحسد کرتا چلا آیا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وقت میں مشرکوں اور یہودیوں اور عیسائیوں کے عالموں نے نہ صرف حق کو قبول نہ کیا بلکہ عداوت پر آمادہ ہوگئے اور اسلام کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے درپے ہو گئے۔ انہوں نے دردناک طریقوں سے اکثر مسلمانوں کو ہلاک کیا اور ایک زمانہ دراز تک جو تیرہ برس کی مدت تھی ان کی طرف سے یہی کارروائی رہی اور نہایت بےرحمی سےخدا کے وفادار بندے اور نوع انسان کے فخر ان شریر درندوں کی تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے کیے گئے۔ خدا کےپاک اور قدوس رسولﷺ کو بھی بارہا پتھر مار مار کر خون سے آلودہ کیا گیا۔ پھر جب مخالفوں کی شوخی حد سے بڑھ گئی تو خدا کا غضب ان شریروں پر بھڑکا اور اس نے اپنے کلام قرآن شریف کے ذریعہ اپنے مظلوم بندوں کو اطلاع دی کہ آج میں تمہیں مقابلے کی اجازت دیتا ہوں۔ اسی حکم کا دوسرا نام جہاد رکھا گیا۔ اصل عبارت قرآن شریف کی یوں ہے اُذِنَ لِلَّذِیۡنَ یُقٰتَلُوۡنَ بِاَنَّہُمۡ ظُلِمُوۡا ؕ وَاِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصۡرِہِمۡ لَقَدِیۡرُ۔ (الحج: 40)مگر یہ حکم مختص الزمان والوقت تھا ہمیشہ کے لیے نہیں تھا۔ لیکن افسوس کہ نبوت اور خلافت کے زمانے کے بعد اس مسئلہ جہاد کے سمجھنے میں لوگوں نے بڑی بڑی غلطیاں کھائیں۔

فرمایا: عجیب اتفاق یہ ہے کہ عیسائیوں کو تو خالق کے حقوق کی نسبت غلطیاں پڑیں اور مسلمانوں کو مخلوق کے حقوق کی نسبت۔ یاد رہے کہ مسئلہ جہاد کو جس طرح پر حال کے اسلامی علماء نے جو مولوی کہلاتے ہیں سمجھ رکھا ہے، وہ ہرگز صحیح نہیں ہے یہ لوگ جب حکام کو ملتے ہیں تو اس قدر سلام کے لیے جھکتے ہیں گویا سجدہ کرنے کو تیار ہیں مگر اپنے ہم جنسوں کی مجالس میں اس ملک کو دارالحرب قرار دیتے ہیں اوراپنے عقیدہ جہاد پر جو سراسر غلط اور قرآن اور حدیث کے برخلاف ہے اس قدر جمے ہوئے ہیں کہ جو شخص اس عقیدے کو نہ مانتا ہو اس کا نام دجال رکھتے ہیں اور واجب القتل قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ میں بھی مدت سے اسی فتویٰ کے نیچے ہوں۔

ان مولویوں کا یہ خیال ہے کہ جب پہلے زمانے میں جہاد روا رکھا گیا تو پھر کیا وجہ ہے کہ اب حرام ہو جائے۔ اس کے دو جواب ہیں۔ اول یہ ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ہرگز کسی پر تلوار نہیں اٹھائی بجز ان لوگوں کے جنہوں نے پہلے تلواراٹھائی۔ دوسرے یہ کہ اگر یہ خیال کر بھی لیا جاوے کہ اسلام میں مولویوں کے خیال کے مطابق جہاد جائز تھا پھر بھی اس زمانے میں وہ حکم قائم نہیں رہا کیونکہ قرآن و حدیث میں لکھا ہے کہ مسیح موعود کے زمانہ میں جہاد یعنی مذہبی جنگوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ جیسا کہ آیت حَتّٰی تَضَعَ الۡحَرۡبُ اَوۡزَارَہَا۔ (محمد:5) میں اور حدیث یضع الحربمیں بخاری میں موجود ہے۔

مسلمانوں کے غلط عقیدہ جہاد کی تقویت کے دو اسباب

اوّل جاہل مولویوں نے حقیقت جہاد مخفی رکھ کر لوٹ مار اور قتل انسان کے منصوبے عوام کوسکھائے۔ دوسرے پادری صاحبوں نے بھی کثرت سے رسالے اور اشتہار وغیرہ چھپوائے کہ اسلام تلوار کےزور سے پھیلا ہے۔ یوں عوام نے جہاد کی دو گواہیاں پا کر اپنے وحشیانہ جوش میں ترقی کی۔

فرمایا: میرے نزدیک یہ بھی ضروری ہے کہ ہماری محسن گورنمنٹ ان پادری صاحبوں کو اس خطرناک افترا سے روک دے جس کا نتیجہ ملک میں بے امنی اور بغاوت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اصحاب نے برابر تیرہ سال تک جو صبر دکھایا وہ بزدلی کی وجہ سے نہ تھا بلکہ تمام لوازم مرد ی میں اور مردانگی ان میں پائے جاتے تھے۔ اور جب تلواراٹھائی تو وہی ہاتھ اور بازو تھے جو جہاد کے حکم کے بعد انہوں نے دکھائےاور بسا اوقات ایک ہزارجوان نے مخالف کے ایک لاکھ سپاہی نبرد آزما کو شکست دی۔ پس ان کا صبر محض خدا کے حکم سے تھا جو انہوں نے ہتھیار ڈال دیے اور بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح ہونے کو تیار ہوگئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان تمام دکھوں پر صبر کرنے کی تلقین فرمائی جب تک کہ آسمان سے حکم مقابلے کا آ گیا پس تیرہ سال تک صبر کے نمونے کی نظیر تمام اول اور آخر کے لوگوں میں تلاش کر کے ہمیں بتاؤ۔

مسلمانوں کا بے نظیر اخلاق فاضلہ کا نمونہ

حاصل کلام یہ ہے کہ جب کہ مسلمانوں کے پاس صبر اور ترک شر اور اخلاق فاضلہ کا یہ نمونہ ہےجس سے تمام دنیا پر ان کو فخر ہےتو یہ کیسی نادانی اور بدبختی اور شامت اعمال ہے جو اب اس نمونےکو بالکل چھوڑ دیا گیا ہے۔ نادانوں نے جہاد کا نام سن لیا ہے اور پھر اسی بہانہ سے اپنی اغراض کو پورا کرنا چاہا ہے یا محض دیوانگی کے طور پر مرتکب خون ریزی کے ہوئے ہیں۔ اگر کسی ایسے شخص کو جو اپنے خیال میں بازار میں چلاجاتا ہے اور ہم اس کا نام تک نہیں جانتے اور نہ وہ ہمیں جانتا ہے قتل کرنے کے لیے ہم پستول چھوڑتے ہیں اور یہ نیکی ہے تو پھر درندے ایسی نیکی بجا لانے میں انسانوں سے بڑھ کر ہیں۔

ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانے میں جب بہت سے مسلمان کافروں کی تلواروں سے قبروں میں پہنچ گئے تو خدا کی غیرت نے چاہا کہ جو تلواروں سے ہلاک کرتے ہیں وہ تلواروں سے ہی مارے جائیں۔ مجھے تعجب ہے کہ جب کہ اس زمانے میں کوئی شخص مسلمانوں کو مذہب کے لیے قتل نہیں کرتا وہ کس حکم سےناکردہ گناہ لوگوں کو قتل کرتے ہیں۔ اس گورنمنٹ انگریزی کے ماتحت کس قدر مسلمانوں کو آرام ہےکیا کوئی گن سکتا ہے۔ قبل ازیں سکھوں کے دَور میں مسلمانوں کا کیاحال تھا کہ بانگِ نماز بھی ایک جرم سمجھا گیا تھا۔ مجال تھی کہ کوئی اونچی آواز سے بانگ کہتا۔

اپنی جماعت کے لیے نصائح

فرمایا: اور میں اس وقت اپنی جماعت کو جو مجھے مسیح موعود مانتی ہے خاص طور پر سمجھاتا ہوں کہ وہ ہمیشہ ان ناپاک عادتوں سے پرہیز کریں۔ خدا نے مجھے مسیح موعود کر کے بھیجا ہے اور حضرت مسیح کا جامہ مجھے پہنایا ہے۔ اس لیے میں نصیحت کرتا ہوں کہ شر سے پرہیز کرواور نوع انسان کے ساتھ حق ہمدردی بجا لاؤ۔ اپنے دلوں کو بغضوں اور کینوں سے پاک کروکہ اس عادت سے تم فرشتوں کی طرح ہو جاؤ گے…خدا کے لیے سب پر رحم کرو تا آسمان سے تم پر رحم ہو…آؤ میں تمہیں ایسی راہ سکھاتا ہوں جس سے تمہارا نور تمام نوروں پر غالب رہے اور وہ یہ ہے کہ تم تمام سفلی کینو ں اور حسدوں کو چھوڑدو اور ہمدرد نوع انسان ہو جاؤ اور خدا میں کھوئے جاؤ۔ یہی وہ طریقہ ہے جس سے کرامتیں صادر ہوتی ہیں اور دعائیں قبول ہوتی ہیں اور فرشتے مدد کے لیے اترتے ہیں۔

دیکھو میں ایک حکم لے کر آپ لوگوں کے پاس آیا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اب سے تلوار کے جہاد کا خاتمہ ہے مگر اپنے نفسوں کو پاک کرنے کا جہاد باقی ہے۔ صحیح بخاری کی اس حدیث کو سوچو جہاں مسیح موعود کی تعریف میں لکھا گیا ہے کہ یَضَعُ الْحَرْب یعنی مسیح جب آئے گا تو دینی جنگوں کا خاتمہ کر دے گا۔ سو میں حکم دیتا ہوں کہ جو میری فوج میں داخل ہیں وہ ان خیالات کے مقام سے پیچھے ہٹ جائیں، دلوں کو پاک کریں اور اپنے انسانی رحم کو ترقی دیں۔ زمین پر صلح پھیلائیں کہ اس سے ان کا دین پھیلے گا۔

فرمایا: مسیح کا مینارے (پر نزول )جس کا حدیثوں میں ذکر ہے دراصل اس کی بھی یہی حقیقت ہے کہ مسیح کی ندا اور روشنی ایسی جلد دنیا میں پھیلے گی جیسے اونچے مینار پر سے آواز اور روشنی دور تک جاتی ہے۔ اس لیے ریل اور تار اور اَگن بوٹ اور ڈاک، تبلیغ اور سفر کی سہولت کے تمام اسباب مسیح کے زمانے کی ایک خاص علامت ہیں جن کو اکثر نبیوں نے ذکر کیا ہے اور قرآن بھی کہتا ہےکہ وَاِذَا الۡعِشَارُ عُطِّلَتۡ اور حدیث میں بھی ہے کہ یترک القلاص فلا یسعی علیھا۔ سو شکر کرو کہ آسمان پر نور پھیلانے کے لیے تیاریاں ہیں۔

پھر فرمایا کہ ایک طریق میرے دل میں گزرتا ہے کہ اگر امیر صاحب والی کابل نامی علماء کو جمع کر کے اس مسئلہ جہاد کو معرض بحث میں لاویں اور اس ملک کے علماء سے چند رسالے پشتو زبان میں تالیف کرا کر عام طور پر شائع کرا دیں تو اس قسم کی کارروائی کا لوگوں کے دلوں پر بہت اثر پڑے گا یقیناً امیر صاحب کی رعایا کی بڑی بدقسمتی ہوگی کہ اگر اس ضروری اصلاح کی طرف امیر صاحب توجہ نہیں کریں گے۔

پھر فرمایا کہ اسلام ہر گز یہ تعلیم نہیں دیتا کہ مسلمان راہزنوں اور ڈاکوؤں کی طرح بن جائیں اور جہاد کے بہانہ سے اپنے نفس کی خواہشیں پوری کریں۔ ان تمام تحریروں کے بعد ایک خاص طور پر اپنی محسن گورنمنٹ کی خدمت میں کچھ گزارش کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ یہ وحشیانہ عادت جو سرحدی افغانوں میں پائی جاتی ہے اور آئے دن کوئی نہ کوئی کسی بے گناہ کا خون کیا جاتا ہے اس کے دو اسباب ہیں اول وہ مولوی جن کے عقائد ہیں کہ غیر مذہب کے لوگوں اور خاص کر عیسائیوں کو قتل کرنا موجب ثواب عظیم ہے۔ دوسرا سبب میری رائے میں وہ پادری ہیں جنہوں نے حد سے زیادہ اس بات پر زور دیا ہے کہ اسلام میں جہاد فرض ہے اور دوسری قوموں کو قتل کرنا مسلمانوں کے مذہب میں بہت ثواب کی بات ہے۔ اس بات کی دلیل یہ ہے کہ جب پادری فنڈل صاحب نے 1849ء میں کتاب میزان الحق تالیف کرکے ہندوستان اور پنجاب اور سرحدی علاقوں میں شائع کی، جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نسبت توہین آمیز کلمے استعمال کیے اور اس بات کو شہرت دی کہ اسلام میں غیر مذہب کے لوگوں کو قتل کرنا جائز ہے تو ایسی باتوں کو سن کر سرحدی حیوانات جن کو اپنے دین کی کچھ بھی خبر نہیں، جاگ اٹھے۔ اور پھر میزان الحق کے زہریلے اثر کے بعد ہماری گورنمنٹ کو1867ء میں Actنمبر23سرحدی اقوام کے غازیانہ خیالات کو روکنے کے لیے جاری کرنا پڑا۔ پھر بڑی امید تھی کہ اس (ایکٹ)سے وارداتیں رک جاتیں لیکن افسوس کہ اس کے بعد پادری عمادالدین اور دیگر پادریوں نے تیز اور گندی تحریروں سے اس ملک کی اندرونی محبت اور مصالحت کو بڑا نقصان پہنچایا۔ ہماری گورنمنٹ کی طرف سے یہ کارروائی نہایت قابل تحسین ہوئی کہ مسلمانوں کو ایسی کتابوں کے جواب لکھنے سے منع نہیں کیا گیا اور جن فسادوں کی توقع تھی وہ اندر اندر ہی دب گئے۔

اختتام رسالے میں یہ تجویز پیش فرمائی: چاہیے کہ ہر ایک فرقہ کو قطعاً روک دیا جائے کہ وہ اپنی تحریروں اور نیز زبانی تقریروں میں ہرگز ہرگز کسی دوسرے مذہب کا صراحتاً یا اشارۃً ذکر نہ کرے، ہاں اختیار ہے کہ جس قدر چاہے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے۔ یوں نئے نئے کینوں کی تخم ریزی موقوف ہو کر لوگ باہمی محبت اور مصالحت کی طرف رجوع کریں گے۔

ضمیمہ رسالہ جہاد

عیسیٰ مسیح اور محمد مہدی کے دعویٰ کی اصل حقیقت اور جناب نواب وائسرائے صاحب کی خدمت میں ایک درخواست

فرمایا: میری طرف سے یہ دعویٰ کہ میں عیسیٰ مسیح ہوں نیز محمد مہدی ہوں اس خیال پر مبنی نہیں ہے کہ میں درحقیقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہوں نیز درحقیقت حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم ہوں گویا سچ مچ ان دو بزرگ نبیوں کی روحیں میرے اندر حلول کر گئی ہیں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ آخری زمانےکی نسبت یہ پیشگوئی تھی کہ وہ ایک زمانہ ایسا ہو گا کہ دو قسم کےظلم سے بھر جائے گا یعنی مخلوق کے حقوق کی نسبت اور دوسرا ظلم خالق کے حقوق کی نسبت۔ مخلوق کے حقوق کی نسبت یہ ظلم ہوگا کہ جہاد کا نام رکھ کر نوع انسان کی خون ریزیاں ہوں گی جبکہ دوسری قسم ظلم کی جو خالق کی نسبت ہے وہ اس زمانے میں عیسائیوں کا عقیدہ ہے جو خالق کی نسبت کمال غلو تک پہنچ گیا ہے اور اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ کسی طرح حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا بنا دیا جائے۔ اب آئے دن سرحدیوں کی ایک وحشی قوم ان انگریز حکام کو قتل کرتی ہے جو ان کے بھائی مسلمانوں کی جانوں اور عزتوں کے محافظ ہیں کیا ان کو سکھوں کا زمانہ یاد نہیں کہ بانگ بھی نہ دے سکتے تھے۔

اس گورنمنٹ نے پنجاب میں داخل ہوتے ہی مسلمانوں کو اپنے مذہب میں پوری آزادی دی۔ یوں انگریزی عملداری میں مسلمانوں کی جان، مال اور عزت تینوں محفوظ ہوئے۔ سکھوں کے زمانے میں بزرگوار مسلمانوں کی قبریں بھی اکھیڑی جاتی تھیں۔ سر ہند کا واقعہ بھی اب تک لوگوں کو یاد ہوگا۔ غرض مخلوق کے حقوق کی نسبت ہماری قوم اسلام میں سخت ظلم ہو رہا ہے۔ پس خدا نے آسمان پر یہ ظلم دیکھا اور اس کی اصلاح کے لیے حضرت عیسیٰ مسیح کی خو اور طبیعت پر ایک شخص کو بھیجا کیونکہ یہ تعلیم جس پر اب ہم زور دیتے ہیں یعنی یہ کہ اپنے دشمن سے پیار کرو اور خدا کی مخلوق کو عموماً بھلائی پہنچاؤ، اس تعلیم پر زور دینے والا وہی بزرگ نبی گزرا ہے جس کا نام عیسیٰ مسیح ہے۔ جس حالت میں اسلامی قوموں میں کروڑ ہا انسان ایسے پائے جاتے ہیں جو جہاد کا بہانہ رکھ کر غیر قوموں کو قتل کرنا، ان کا شیوہ ہے۔ سو میں وہی اوتار ہوں جو حضرت مسیح کی روحانی شکل اور خو اور طبیعت پر بھیجا گیا ہوں۔

پھر دوسراظلم جو خالق کی نسبت ہے فرمایا کہ خدا کے پیاروں کو خدا سے ایک تعلق ہوتا ہے۔ اس تعلق کے لحاظ سے اگر وہ اپنے تئیں خدا کا بیٹا کہہ دیں یا یہ کہہ دیں کہ خدا ہی ہے جو ان میں بولتا ہےتو ایسی باتیں تاویل طلب ہوتی ہیں اور جب یہ روحانی اور آسمانی باتیں عوام کے ہاتھ میں آجاتی ہیں تو وہ ان کی جڑ تک نہیں پہنچ سکتے تو یہ حق تلفی کہ حضرت مسیح کو خدا بنا دیا جائے مسیحی علماء سے ظہور میں آرہی ہے۔

اس حق کے قائم کرنے کے لیے اور توحید کی عظمت دلوں میں بٹھانے کے لیے ایک بزرگ نبی ملک عرب میں گزرا ہے جس کا نام محمد اور احمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تھا، خدا کا اس پر بے شمار سلام ہوں۔

شریعت دو حصوں پر منقسم تھی، بڑا حصہ یہ تھا کہ لا الہ الا اللّٰہ یعنی توحید اور دوسرا حصہ یہ کہ ہمدردی نوع انسان کرو۔ حضرت مسیح نے ہمدردی انسان پر زور دیا اور لا الہ الا اللّٰہ جو خدا کی عظمت اور توحید کا سرچشمہ ہے۔ اس پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے زور دیا۔ پھر بعد اس کے ہمارا زمانہ آیاجس میں یہ دونوں قسم کی خرابیاں کمال درجہ تک پہنچ گئی تھیں یوں اس وقت خدا نے جیسا کہ حقوق عباد کے تلف کے لحاظ سے میرا نام مسیح رکھا، حقوق خالق کے تلف کے لحاظ سےمیرا نام محمد اور احمد رکھا۔ سو میں ان معنوں کی روسے عیسیٰ مسیح بھی ہوں اور محمد مہدی بھی۔ سو مجھے دو بروز عطا ہوئے ہیں بروز عیسیٰ اور بروز محمد۔

فرمایا: ہر ایک شخص جو میری بیعت کرتا ہے اور مجھ کو مسیح موعود مانتا ہے اسی روز سے اس کو یہ عقیدہ رکھنا پڑتا ہے کہ اس زمانے میں جہاد قطعاً حرام ہے۔ خاص کر میری تعلیم کے لحاظ سے اس گورنمنٹ انگریزی کا سچا خیر خواہ اس کو بننا پڑتا ہے نہ محض نفاق سے۔ محمد مہدی ہونے کی حیثیت سے میرا کام یہ ہے کہ آسمانی نشانوں کے ساتھ خدائی توحید کو دنیا میں دوبارہ قائم کروں۔ وہ خدا جو تمام نبیوں پر ظاہر ہوتا رہا وہی قادر خدا میرے پر تجلی فرما ہوا ہے اس نے مجھ سے باتیں کیں اور مجھے فرمایا کہ وہ اعلیٰ وجود جس کی پرستش کے لیے تمام نبی بھیجے گئے، میں ہوں اور مجھے اس نے کہا کہ اگر تیرے لیے یہ مشکل پیش آوے کہ لوگ کہیں کہ ہم کیونکر سمجھیں کہ تو خدا کی طرف سے ہے تو انہیں کہہ دے کہ اس پر یہ دلیل کافی ہے کہ اس کےآسمانی نشان میرے گواہ ہیں۔ دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ پیش از وقت غیب کی باتیں بتائی جاتی ہیں۔ دوسرا نشان یہ ہے کہ اگر کوئی ان باتوں میں مقابلہ کرنا چاہے تو اس مقابلہ میں وہ مغلوب رہے گا۔ یہ سچ ہے کہ وہ مذہب کچھ چیز نہیں جس میں الٰہی طاقت نہیں۔

مسلمانوں کے وحشیانہ جذبات زندہ ہونے میں ممد تحریکات

بعض پادریوں کی تحریرات ہیں جن میں پادری عمادالدین کی کتابیں، پادری ٹھاکر داس کی کتابیں، صفدر علی کی کتابیں، کتاب امہات المومنین اور پادری ریواڑی کا رسالہ شامل ہے۔ ایک معزز پادری صاحب نے اپنے ایک پرچہ میں لکھا ہے کہ اگر 1857ءکا دوبارہ آنا ممکن ہے تو پادری عمادالدین کی کتابوں سے اس کی تحریک ہوگی۔

یہ نہایت خوفناک کارروائی ہے کہ ایک طرف تو پادری صاحبان یہ جھوٹا الزام مسلمانوں کو دیتے ہیں کہ ان کو قرآن میں ہمیشہ اور ہر ایک زمانہ میں جہاد کا حکم ہے اور پھر تیز تحریریں نکال کر ان میں اشتعال پیدا کرتے رہتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ پادری صاحبان اس بات پر زور دیتے کہ اسلام میں جہاد نہیں ہے جیسا کہ آیت لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْن میں ہے۔

اسی درد دل کی وجہ سے میں نے جناب وائسرائے صاحب کی خدمت میں یہ درخواست کی تھی کہ کچھ مدت تک اس طریقِ بحث کو بند کر دیا جائے کہ ایک فریق دوسرے فریق کے مذہب کی نقطہ چینیاں کرے۔ سو ہماری دانشمند گورنمنٹ پانچ برس تک یہ قانون جاری کرے کہ تمام فرقے دوسرے مذاہب پر ہرگز حملہ نہ کریں اور محبت اور خلق سے ملاقاتیں کریں اور ہر ایک اپنے مذہب کی خوبیاں ظاہر کرے۔

اگر یہ نہیں تو خدا کے لیے اسی قدر کارروائی کر لیں کہ خود بدولت امتحان آزما لیں کہ اس ملک کے مذاہب موجودہ میں سے الٰہی طاقت کس مذہب میں ہے اور چونکہ مجھے آسمان سے اس کام کے لیے روح ملی ہےاس لیے میں اپنی جماعت کی طرف سے سب سے پہلے یہ درخواست کرنے والا ہوں کہ اس امتحان کے لیے دوسرے فرقوں کے مقابل پر میں تیار ہوں اور ساتھ ہی یہ دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہماری اس گورنمنٹ کو ہمیشہ اقبال نصیب کرے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button