متفرق مضامین

نظامِ شوریٰ از افاضات حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ (قسط نمبر 14)

(’م م محمود‘)

ردّ شُدہ تجاویز کی وجوہات بھی بتانی چاہئیں

(گذشتہ سےپیوستہ)’’درحقیقت وہ تمام امور جو ہماری جماعت کے ساتھ تعلق رکھنے والے سمجھے جاتے ہیں چار قسم کے ہیں:

اوّل: وہ جن کاہماری جماعت کے ساتھ حقیقتاً کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس صورت میں بے تعلقی کی وجہ بیان ہونی چاہیے۔

دوم: وہ جن کاتعلق مجلس شوریٰ کے ساتھ ہوتاہے۔ ایسے معاملات شوریٰ کے سامنے پیش کرنے چاہیے۔

سوم: ایسے معاملات جن کا تعلق صدرانجمن احمدیہ کے ساتھ ہو۔ ایسے معاملات کا صدرانجمن احمدیہ کو فیصلہ کرنا چاہیے۔

چہارم: ایسے معاملات جو نہ تو صدرانجمن احمدیہ سے تعلق رکھتے ہیں، نہ شوریٰ سے، بلکہ صرف خلافت کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ ایسی صورت میں صدرانجمن احمدیہ کو بتانا چاہیے کہ وہ معاملہ خلیفۃ المسیح کے سامنے رکھا گیا ہے۔ غرض ہررنگ میں صدرانجمن احمدیہ کو اپنا رویہ الگ الگ ظاہر کرناچاہیے۔ اگرجماعت کے ساتھ کسی معاملہ کا تعلق نہیں۔ مثلاً کوئی سیاسی مسئلہ ہو تو اُسے بیان کرنا چاہیے کہ اس کا جماعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ اور اگر کسی چیز کا تعلق کُلّی طور پر خلافت کے ساتھ ہے تو پھر صدرانجمن احمدیہ کوبیان کرنا چاہیے کہ اس کا تعلق براہ راست خلیفہ سے ہے اس لئے ہم نے وہ سوال خلیفۂ وقت کو بھجوا دیا ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ وہ امر صدرانجمن احمدیہ کے ساتھ تعلق رکھتا ہو۔ ایسی صورت میں یہ نہیں کہنا چاہیے کہ ہم اِس کو پیش کرنے کی اجازت نہیں دیتے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ ہم نے معاملہ متعلقہ محکمہ کے سپر دکردیاہے اور وہ خود اس کافیصلہ کرے گا۔ چوتھی صورت یہ ہے کہ اُ س کاتعلق شوریٰ کے ساتھ تو ہو مگر ایجنڈا لمبا ہو اوروقت کم اِس لئے فیصلہ کیا جائے کہ آئندہ سال اس کو پیش کیاجائے۔ ان چار صورتوں میں سے کوئی نہ کوئی صورت چونکہ ضرور ہوتی ہے اس لئے یہ نہیں کہنا چاہیے کہ ان تجاویز کو ہم نے پیش کرنے کی اجازت نہیں دی بلکہ تصریح کے ساتھ بتانا چاہیے کہ ان چار صورتوں میں سے کون سی صورت تھی اور کیا رویہ اختیار کیا گیا۔ اس طرح سے تجویز پیش کرنے والا شخص یا ادارہ تسلی پاجائے گا اور وہ سمجھے گا کہ میری تجویز کو بِلاوجہ ردّ نہیں کیا گیا بلکہ جو مناسب طریق تھا وہ اختیار کیا گیا ہے۔‘‘ (خطاب فرمودہ 26؍ مارچ1948ء مطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلدسوم صفحہ 308تا 309)

مجلس شوریٰ کی نمائندگی کے لیے موصی ہونا ضروری نہیں

’’کثرتِ رائے کا مشورہ یہ ہے کہ شوریٰ کی ممبری کے لئے وصیت کی شرط ہونی چاہئے لیکن مَیں آج اپنی عادت کے خلاف فیصلہ کرنا چاہتا ہوں۔ میرے نزدیک شوریٰ کی ممبری کے لئے قیود ضرور زیادہ ہونی چاہئیں موجودہ قیود کافی نہیں مگر اِس کی ممبری کے لئے موصی ہونے کی شرط میرے نزدیک بلا ضرورت اور بلا فائدہ ہوگی اِس لئے کہ شوریٰ کے ممبر بہت ہی کم ہوتے ہیں اور اُن کی قربانی ہمارے بجٹ کے معیار کو اُونچا نہیں کر سکتی۔ دوسرے وہ لوگ جو مختلف جماعتوں کی طرف سے شوریٰ میں شامل ہونے کے لئے آتے ہیں اُن میں سے کافی تعداد پہلے ہی موصی ہوتی ہے اِس لئے اس شرط کو عائد کر دینے سے چندوں پر کوئی خاص اثر نہیں پڑ سکتا…منتخب شُدہ نمائندے 260 تھے جن میں سے 163 موصی ہیں اور صرف 97کے قریب ایسے ہیں جو غیر موصی ہیں درحقیقت وہ اِس بات کے محتاج ہیں کہ اُنہیں کسی قدر تحریک کی جائے۔ اگر اُنہیں ذرا بھی تحریک کی جائے تو مَیں سمجھتا ہوں کہ وہ فوراً موصی بن جائیں گے لیکن اِس سے ہمارے بجٹ پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا۔ پس باوجود اِس کے کہ ایک بھاری اکثریت اِس تجویز کے حق میں ہے۔ مَیں اقلّیت کے حق میں فیصلہ کرتا ہوں کہ مجلس شوریٰ کی ممبری کے لئے وصیت کا ہونا ضروری نہیں۔‘‘ (خطاب فرمودہ 15؍ اپریل1949ء مطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلدسوم صفحہ 373 تا 374)

نمائندگان اور زائرین کے بیٹھنے کےلیے کرسیوں کا انتظام کیا جائے

’’ایک ہدایت مَیں کارکنوں کو یہ دینا چاہتا ہوں کہ وہ مجلس شوریٰ کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے آئندہ اِس کے لئے سامان جمع کریں۔ ہماری جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ رہے گی اورمجلس شوریٰ بھی ہمیشہ ہوتی رہے گی بلکہ یہ زیادہ سے زیادہ منظم ہوتی چلی جائے گی اِس لئے ضروری ہے کہ نمائندگان اور زائرین کے بیٹھنے کے لئے مناسب انتظام کیا جائے۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارا پرانا طریق یہی تھا کہ سب لوگ زمین پر بیٹھ کر کام کیا کرتے تھے لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ زمین سے اُٹھ کر بات کرنا مشکل ہوتا ہے اور بولنے والے پر یہ اثر پڑتا ہے کہ میں اپنی بات دوسروں سے منوا نہیں رہا اور بولنے والے کے دل میں یہ یقین پیدا کرنے کے لئے کہ اُس کی بات سنی جا رہی ہے یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ ایسی طرز پر خطاب کرے کہ لوگ اُس کو نظر آتے ہوں اور وہ اُن کو نظر آتا ہو اور یہ اُس وقت ہو سکتا ہے جب سب لوگ کُرسیوں پر بیٹھے ہوئے ہوں، زمین پر بیٹھے ہوئے آدمی کے لئے بار بار کھڑے ہونا اور جواب دینا مشکل ہوتا ہے۔ پس آئندہ کے لئے اِس امر کو مدنظر رکھا جائے اور مجلس شوریٰ کے لئے سَستی قسم کی کُرسیاں لے لی جائیں۔ اوّل تو یہ کوئی بڑا خرچ نہیں۔ فسادات سے قبل قادیان میں ہمارے ساڑھے چار سَو تک نمائندے ہوا کرتے تھے۔ آج مجھے بتایا گیا ہے کہ نمائندگان کی تعداد 317ہے۔ اگر ساڑھے تین سَو نمائندے بھی سمجھ لئے جائیں تو تین ہزار روپیہ میں سارا سامان خریدا جاسکتا ہے۔ لوگ آرام سے بھی بیٹھ سکتے ہیں اور بولتے وقت بھی انہیں سہولت میسر آسکتی ہے۔ کرسی سے اُٹھ کر کھڑے ہونے میں بہت آسانی ہوتی ہے لیکن زمین سے کھڑا ہونا مشکل ہوتا ہے۔ یہاں سکول بن جائے تو کچھ کرسیاں سکول سے بھی لی جا سکتی ہیں اور کچھ گھروں سے لی جا سکتی ہیں ہم نے یہاں آتے وقت ایک سَو کرسی خریدی تھی جو اِس وقت مختلف دفاتر میں ہے۔ اگر مجلس شوریٰ کی ضرورت کو اپنے سامنے رکھا جائے اور کچھ سامان اس سال لے لیا جائے اور کچھ اگلے سال تو دو سال کے اندر اندر بہت قلیل رقم میں تمام سامان جمع ہو سکتا ہے۔ اس طرح مجلس شوریٰ کی کارروائی سننے کے لئے بیرونجات سے جو دوست آتے ہیں اُن کے بٹھانے کے لئے بھی مناسب انتظام ہونا چاہئے۔ اگر لکڑی کے کھمبے ہی اِس طرح لگا دئیے جاتے کہ زائرین ایک ترتیب سے الگ بیٹھ سکتے تو یہ بہت زیادہ بہتر ہوتا۔ اس طرح ناپسندیدہ لوگوں کو بھی اندر آنے کا موقع نہیں مل سکتا اور شامل ہونے والوں کو بھی سہولت میسر آسکتی ہے۔‘‘ (خطاب فرمودہ 7؍اپریل1950ء مطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلدسوم صفحہ 379تا 380)

مجلسِ مشاورت میں کارکنان کو بیج لگانے کی ہدایت

’’دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اٹھائیس سال سے ہماری مجلس شوریٰ ہو رہی ہے اور بار بار ہمیں اِس کا تجربہ ہوتا ہے مگر ہمارے کارکنوں نے گزشتہ تجربات سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ترقی کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ اِس وقت شوریٰ کے ممبر بھی بیٹھے ہوئے ہیں اور کارکن بھی بیٹھے ہوئے ہیں مگر یہ امتیاز کرنا مشکل ہے کہ کارکن کون سے ہیں اور ممبر کون سے ہیں۔ اگر ہر دفعہ مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے اُن کی اصلاح کی کوشش کی جاتی تو اِس قسم کی باتوں کا حل دیر سے دریافت ہو چکا ہوتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ممبران کے لئے تو بیج (badge)لگا کر آنا مناسب نہیں لیکن کارکنوں کے لئے اگر کوئی بیج مقرر کر دیا جائے جو دورانِ مشاورت میں وہ لگائے رکھیں تو یہ زیادہ بہتر ہو گا۔ اگر مجلس مشاورت کا کوئی بیج ہو جو تمام کارکنوں نے لگایا ہوا ہو تو ہر شخص کو نظر آسکتا ہے کہ یہ لوگ کارکن ہیں، شوریٰ کے ممبر نہیں۔ جس طرح خدام الاحمدیہ والوں نے اپنے لئے ایک بیج بنایا ہوا ہے اِسی طرح شوریٰ جو جماعت کا سب سے اہم محکمہ ہے اُس کے کارکنوں کے لئے بھی بیج ہونا چاہئے۔ اگر کارکنوں کوبیج لگ جائے تو وہ جہاں ہوں گے سب لوگوں کو نظر آرہا ہو گا کہ یہ صرف کارکن ہیں، ووٹ دینے کا حق نہیں رکھتے۔ ابھی تو خداتعالیٰ کے فضل سے وہ زمانہ نہیں کہ لوگ دھوکا سے ووٹ دینے کے لئے کھڑے ہو جائیں لیکن ہو سکتا ہے کہ کبھی کسی کمزور انسان کے دل میں ایسا خیال پیدا ہو جائے اور وہ اِس قسم کی حرکت کر بیٹھے اس لئے ضروری ہے کہ کارکنوں کے لئے بیج بنایا جائے جو اُنہوں نے ایامِ مشاورت میں لگایا ہوا ہو۔ جن کے بیج لگے ہوئے ہوں گے وہ ممبر نہیں سمجھے جائیں گے ا ور نہ اُنہیں ووٹ دینے کا اختیار ہو گا، ووٹ صرف نمائندگان دے سکیں گے۔ اگر یہ احتیاط کر لی جائے تو کوئی غیر آدمی دھوکا دینے کی کوشش نہیں کر سکتا۔‘‘ (خطاب فرمودہ 7؍ اپریل1950 مطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلدسوم صفحہ 380 تا 381)

شوریٰ کے موقع پر اجتماعی دعا کا طریق وضع فرمانا

’’ہماری مجالس کی ابتداء میں ہمیشہ دعا ہوتی ہے، آئندہ اس کے لئے میں ایک طریق مقرر کر دیتا ہوں۔ ایک دعا افتتاح کے موقع پر تینوں دنوں میں ہوا کرے گی اور ایک دعا آخر میں شوریٰ کے اختتام پر ہو گی۔ گویا شوریٰ کے تین دنوں میں چار دفعہ دعا ہو گی۔ ایک دفعہ پہلے دن، پھر دوسرے دن، پھر تیسرے دن ابتداء میں اور پھر شوریٰ کے اختتام پر۔‘‘ (خطاب فرمودہ 11؍ اپریل1952ء مطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلدسوم صفحہ 464)

افتتاحی خطاب کے طریق میں تبدیلی فرمانا

1952ء میں مجلسِ مشاورت کے پہلے روز افتتاح کے بعددُعا سے فارغ ہونے کے بعد حضور نے تشہد وتعوذ کے بعد فرمایا: ’’جیسا کہ پروگرام میں لکھا ہوا ہے اور جیسا کہ دستور چلا آتا ہے شوریٰ کی کارروائی شروع کرنے سے پہلے تھوڑی دیر کے لئے میں تقریر کیاکرتا ہوں لیکن آج میں اس طریق کو بدلنا چاہتا ہوں اور بجائے اِس وقت تقریر کرنے کے جب سب کمیٹیوں کا انتخاب ہو جائے گا تو میں ان سب کمیٹیوں کے سامنے بعض باتیں بیان کروں گا جن پر میرے نزدیک سب کمیٹیوں کے غور کے وقت میں بھی اور آئندہ شوریٰ کے اجلاس میں بھی ان پر غور کرنا ضروری ہے۔ یہ طریق ایک مجبوری کی وجہ سے مجھے اختیار کرنا پڑا ہے کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اپنے طریقِ عمل کے متعلق بعض تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ پس پہلے میں کمیٹیوں کے انتخاب کے لئے احباب سے مشورہ چاہتا ہوں۔‘‘ (خطاب فرمودہ 11؍اپریل1952ءمطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلدسوم صفحہ 464تا465)

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button