متفرق مضامین

رمضان المبارک موجبِ تقویٰ و قرب الٰہی

(درِ ثمین احمد۔ جرمنی)

روزے کا حقیقی مقصد تقویٰ کا حصول ہے اور تقویٰ وپرہیزگاری عبادات کی رُوح ہے

اَیَّامًا مَّعۡدُوۡدٰتٍ ؕ فَمَنۡ کَانَ مِنۡکُمۡ مَّرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ وَعَلَی الَّذِیۡنَ یُطِیۡقُوۡنَہٗ فِدۡیَۃٌ طَعَامُ مِسۡکِیۡنٍ ؕ فَمَنۡ تَطَوَّعَ خَیۡرًا فَہُوَ خَیۡرٌ لَّہٗ ؕ وَاَنۡ تَصُوۡمُوۡا خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ۔(البقرۃ:185)گنتی کے چند دن ہیں۔پس جو بھی تم میں سے مر یض ہو یا سفر پر ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اتنی مدت کے روزے دوسرے ایّام میں پورے کرے۔اور جو لوگ اس کی طاقت رکھتے ہوں ان پر فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے۔پس جو کوئی بھی نفلی نیکی کرے تو یہ اس کے لیے بہت اچھا ہے۔اور تمہارا روزے رکھنا تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے رمضان المبارک اپنی پوری شان و شوکت او ر رحمتوں و برکتوں کے ساتھ جلوہ افروز ہوچکا ہے۔ یہ وہ مبارک مہینہ ہے جو انسان سے سرزد ہونے والی نہ صرف گذشتہ کوتاہیوں اور گناہوں سے بخشش کا موجب بنتا ہے بلکہ آئندہ آنےوا لے دنوںکے لیے روحانی مشقت کا ایک ایساکیمپ ہے جو اس کی روحا نی ترقی کا باعث بنتا ہے۔بشرطیکہ وہ اس بابرکت مہینے کو خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے احکامات کے مطابق گزارے۔

روزے کا حقیقی مقصد تقویٰ کا حصول ہے اور تقویٰ و پرہیزگاری عبادات کی رُوح ہے۔ قرآنِ کریم اور احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں کم و بیش ہر عبادت اور نیک عمل کا بنیادی مقصد تقویٰ ہی کو قرار دیا گیا ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ۔(البقرۃ: 184)اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر روزے اسی طرح فرض کر دیئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے رمضان کے اصل مقصد کی طرف توجہ دلاتے ہوئےفرمایا:’’پس رمضان میں جب ہم تقویٰ کے حصول کے لئے کوشش کرتے ہیں یا کوشش کرنے و الے ہوں گے تو اپنی عبادتوں کی طرف توجہ ہو گی۔ اگر ہم تقویٰ پر چلنے کی کوشش کرتے ہوئے روزے رکھیں گے تو برائیوں سے بچنے کی طرف توجہ پیدا ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات تلاش کر کے ان پر عمل کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو گی۔ اگر ہم برائیوں سے نہیں بچ رہے چاہے وہ برائیاں ہماری ذات پر اثر کرنے والی ہیں یا دوسروں کو تکلیف میں ڈالنے والی۔ ان کو چھوڑنے سے ہی روزے کا مقصد پورا ہوتا ہے۔ اگر ان کو نہیں چھوڑ رہے تو روزے کا مقصد پورا نہیں ہوتا اور یہی تقویٰ ہے۔ اگر روزے رکھ کر بھی ہم میں تکبر ہے، اپنے کاموں اور اپنی باتوں پر بے جا فخر ہے، خود پسندی کی عادت ہے، لوگوں سے تعریف کروانے کی خواہش ہے، اپنے ماتحتوں سے خوشامد کروانے کو ہم پسند کرتے ہیں جس نے تعریف کر دی اس پر بڑا خوش ہو گئے، یا اس کی خواہش رکھتے ہیں تو یہ تقویٰ نہیں ہے۔ روزوں میں لڑائی جھگڑا، جھوٹ فساد سے اگر ہم بچ نہیں رہے تو یہ تقویٰ نہیں ہے۔ روزوں میں عبادتوں اور دعاؤں اور نیک کاموں میں اگر وقت نہیں گزار رہے تو یہ تقویٰ نہیں ہے اور روزے کا مقصد پورا نہیں کر رہے۔ پس رمضان میں برائیوں کو چھوڑنا اور نیکیوں کو اختیار کرنا، یہی ہے جس سے روزے کا مقصد پورا ہوتا ہے۔ اور جب انسان اس میں ثابت قدم رہنے کی کوشش کرے تو پھر حقیقت میں روزے کے مقصد کو پانے والا ہو سکتا ہے۔ ورنہ اگر یہ مقصد حاصل نہیں کر رہے تو پھر بھوکا رہنا ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو تمہارے بھوکا رہنے سے کوئی غرض نہیں ہے۔ ‘‘(صحیح البخاری کتاب الصوم باب من لم یدع قول الزور … الخ حدیث 1903 بحوالہ خطبہ جمعہ فرمودہ18؍ مئی 2018ء )

یوں سمجھ لیں کہ رمضان وہ سالانہ تربیتی ورکشاپ ہے، جس میں نفس کو لگام دینے اور دوسرے کی بھوک و پیاس کا کرب محسوس کرنے کے علاوہ انسانوں کی حاجت روائی اور قلب اور رُوح کی صفائی بھی کی جاتی ہے اور یہی روزے کی حقیقی رُوح ہے۔

پھر روزے کی فرضیت کے بیان کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ یہ بھی یقین دلاتا ہے کہ وہ اپنے بندوں کے قریب ہے اور ان کی دعائوں کو سننے والا ہے اور اس مہینے میں وہ پہلے سے بڑھ کر اپنی قربت اور محبت کا احساس دلاتا ہے۔چنانچہ فرماتا ہے: وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَلۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ لَعَلَّہُمۡ یَرۡشُدُوۡنَ ۔(البقرہ:187)اورجب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو یقیناً میں قریب ہوں۔میں دعا کرنے والے کی دعا کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔پس چاہیے کہ وہ بھی میری بات پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں۔

پس رمضان المبارک قرب الٰہی اور تعلق باللہ کا بہترین ذریعہ ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اس مضمون کو واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں’’…سب سے بڑی بات یہ ہے کہ خدا کی خاطر خدا کی عبادتوں کی توفیق مانگنے کے لئے سب سے عظیم مہینہ رمضان کا مہینہ ہے۔ کیونکہ اس مہینے کے تعلق میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہےکہ (وَاِذَا سَاَ لَکَ عِبَا دِیْ عَنِّیْ فَاِ نِّیْ قَرِیْب) اگر تجھ سے میرے بندے میرے متعلق پوچھیں تو کہہ میں قریب ہوں…رمضان کی بات ہو رہی تھی تو کہو میں دور کہاں ہوں،اب تو میں بہت قریب اتر آیا ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے بہت سی احادیث میں بالکل یہی مضمون بیان فرمایا ہے کہ جیسا قریب رمضان میں خدا آتا ہے ویسا قریب نہیں آتا…اب دیکھیں کتنے لوگوں کے واقعۃًخدا قریب آگیا ہے۔بہت سے ایسے لوگ ہیں جو سارا سال سوائے جمعہ کے کوئی نماز نہیں پڑھتے یا جمعہ بھی نہیں پڑھا کرتے تھے،رمضان میں یا جمعہ شروع کر دیتے ہیں یا باقی نمازیں بھی شروع کر دیتے ہیں۔تو خدا تعالیٰ کا یہ اعلان رمضان کے تعلق میں کتنا مناسب حال ہے کہ تم میں سے بہت سے تھے جن سے میں دو ر تھا یعنی تم نے مجھے دور رکھا ہوا تھا۔رمضان میں میں ان کے بھی قریب آجائوں گا۔پس رمضان میں مجھ سے دعائیں کرو۔مجھ سے مدد مانگو تو تمہاری مشکل آسانی میں تبدیل ہوجائے گی…‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ19؍جنوری 1996ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل یکم نومبر 2002ء صفحہ11)

رمضان المبارک میں خدا تعالیٰ کی محبت اور پیار کا اندازہ بخوبی ہمیں اس حدیث مبارکہ سے بھی ہو جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ انسان کے سب کام اس کے اپنے لیے ہیں مگر روزہ میرے لیے ہے اور میں خود اس کی جزا بنوں گا۔‘‘(بخاری کتاب الصوم )

پس خدا تعالیٰ نے یہ فرما کر انسان کو کتنا اعلیٰ مقام عطا کر دیا ہے یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے سچی نیت سے روزے رکھے گا اللہ تعالیٰ جزا کے طور پر اپنی محبت،اپنی قربت،اپنی رضا اسے عطا کرے گا۔ اور جس انسان کو اللہ تعالیٰ کی رضا اس دنیامیں حاصل ہو جائے اسے اور کیا چاہیے۔ اور بڑا ہی بد قسمت ہے وہ شخص جو اس مہینے کو پاکر بھی اس سے فائدہ نہ اٹھائے۔لیکن اس کے لیے مجاہدہ کی ضرورت ہے۔ محنت اور دعا کی ضرورت ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص جھوٹ بولنے اور جھوٹ پر عمل کرنے سے اجتناب نہیں کرتا اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں یعنی اس کا روزہ رکھنا بیکار ہے۔( صحیح بخاری کتاب الصوم باب من لم یدع قول الزور و العمل بہاز’’حدیقۃ الصالحین‘‘ صفحہ 312حدیث269 ایڈیشن 2006ء نظارت نشرو اشاعت قادیان )

حضرت مسیح مو عو د علیہ الصلوٰ ۃ وا لسلام فر ما تے ہیں کہ ’’ہمیشہ رو زہ دار کو یہ مد نظر ر کھنا چا ہئے کہ اس سے اتنا ہی مطلب نہیں ہے کہ بھو کا ر ہے بلکہ اسے چا ہئے کہ خدا تعالیٰ کے ذکر میں مصرو ف ر ہے تا کہ تبتّل اور انقطاع حاصل ہو۔ پس روزے سے یہی مطلب ہے کہ ا نسا ن ایک روٹی کو چھو ڑ کر جو صر ف جسم کی پرورش کر تی ہے دوسری رو ٹی کو حا صل کر ے جو روح کی تسلی اور سیری کا با عث ہے اورجو لو گ محض خدا کے لئے رو زے ر کھتے ہیں اور نِر ے ر سم کے طو ر پر نہیں ر کھتے ا نہیں چا ہئے کہ اللہ تعا لیٰ کی حمد اور تسبیح اور تہلیل میں لگے ر ہیں جس سے دوسری غذا ا نہیں مل جا وے ‘‘۔(ملفوظات جلد5 صفحہ 102،ایڈیشن2003ء)

رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ کا یہ خاص پیار کا سلوک اس لیے بھی ہے کیونکہ انسان اللہ تعالیٰ کی خاطر تکلیف اٹھاتا ہے گو یہ تکلیف اس رب العالمین کے احسانات کے آگے کوئی حیثیت نہیں رکھتی لیکن وہ اسے بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ تو اپنے بندے کی بار بار کی جانے والی غلطیوں کو در گزر کر کے اس کے ساتھ رحم اور پیار کا سلوک کرتا ہے تو جب اس کا بندہ اس کی خاطر روزہ کی بھوک پیاس کو برداشت کرتا ہے،اس کی راہ میں خرچ کرتا ہے،اس کی خاطر حلال چیزوں سے بھی منہ موڑ لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا پیار و محبت بہت بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے بندے کے ایک قدم بڑھانے پر اس کی طرف دوڑا چلا آتا ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الا وّلؓ اس با رے میں مزید فر ماتے ہیں: ’’روزہ جیسے تقویٰ سیکھنے کا ایک ذر یعہ ہے و یسے ہی قرب الٰہی حا صل کر نے کا بھی ذر یعہ ہے۔اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ماہ رمضا ن کا ذکر فر ماتے ہوئے سا تھ ہی یہ بھی بیا ن کیاہے وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَلۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ لَعَلَّہُمۡ یَرۡشُدُوۡنَ(البقرہ:187) یہ ما ہ ر مضا ن کی ہی شا ن میں فر ما یا گیا ہے اور اس سے اس ما ہ کی عظمت اور سرّا لٰہی کا پتہ لگتا ہے کہ ا گر وہ اس ما ہ میں د عا ئیں ما نگیں تو میں قبو ل کر وں گا ۔لیکن ان کو چاہئے کہ میری با تو ں کو قبول کر یں اور مجھے ما نیں۔ا نسا ن جس قدر خدا کی با تیں ما ننے میں قوی ہو تا ہے خدا بھی و یسے ہی اس کی باتیں مانتا ہے۔ لَعَلَّھُمْ یَرْ شُدُوْن سے معلوم ہو تا ہے کہ اس ما ہ کو رُشد سے بھی خا ص تعلق ہے اور اس کا ذ ر یعہ خدا پر ا یمان،اس کے ا حکا م کی اتباع اور د عا کو قرا ر د یا ہے۔اور بھی با تیں ہیں جن سے قر ب ا لٰہی حا صل ہو تا ہے۔‘‘(از’’ خطباتِ نور‘‘ صفحہ 146۔147،ایڈیشن 2003ء نظارت نشرو اشاعت قادیان)

پس رمضان المبارک میں نہ صرف ہم نے خود خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے بلکہ اپنے بچوں کو بھی اللہ تعالیٰ کے قریب لانے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ یہ بچوں کی تربیت کے حوالے سے بھی بہترین مہینہ ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’اپنی ا گلی نسلوںکی تر بیت کی کو شش کر یں۔ان کو با ر بار یہ بتا ئیں کہ عبا دت کے بغیر تمہا ری ز ند گی با لکل بے معنی اور بےحقیقت بلکہ با طل ہے۔ ایک ایسی چیز ہے جو خدا تعالیٰ کے ہاں کسی شما ر میں نہیں آئے گی اس لئے جانوروں کی طرح یہیں مر کر مٹی ہوجاؤگے۔مگر فرق صرف یہ ہے کہ جا نور تو مر کر نجا ت پا جا تے ہیں تم مرنے کے بعد جزا سزا کے میدا ن میںحا ضر کئے جائو گے۔پس یہ شعور ہے جسے ہمیں اگلی نسلوں میں پیدا کرنا ہے اور رمضان مبا رک میں ایک بہت اچھا مو قع ہے کیو نکہ فضا ساز گا ر ہو جا تی ہے…یہ وہ طر یق ہے جس سے آپ اپنے گھر میں اپنے بچوں کی بہت عمدہ تر بیت کر سکتے ہیں۔جب وہ صبح اٹھتے ہیں تو ان کو پیار اورمحبت کی نظر سے د یکھیں،ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ان کو بتا ئیں کہ تم جو اُٹھے ہو تو خدا کی خا طر اُٹھے ہو اور ان سے یہ گفتگو کیا کر یں کہ بتا ئو آ ج نما ز میں تم نے کیا کیا۔کیا اللہ سے باتیں کیں،کیا دعائیں کیںاور اس طر یق پر ان کے دل میںبچپن ہی سے خدا تعالیٰ کی محبت کے بیج مضبو طی سے گاڑے جائیں گے یعنی جڑیں ان کی مضبو ط ہو ں گی۔ ان میں وہ تما م صلا حیتیں جو خدا کی محبت کے بیج میں ہو ا کرتی ہیں وہ نشوو نما پا کر کو نپلیں نکا لیں گی۔پس رمضا ن اس پہلو سے کا شتکاری کا مہینہ ہے۔آپ نے بچوں کے دلو ں میں خدا کی محبت کے بیج بو نے ہیں۔ ‘‘ (الفضل انٹر نیشنل 7؍مارچ1997ء صفحہ 5تا6)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’…ہما را خدا بڑا پیا رکر نے وا لا خدا ہے۔ قربا ن جائیں ہم اس پر کہ وہ یہ کہتا ہے کہ میں ر مضا ن میںاپنے بندے کے بہت قر یب آگیا ہوں اس لئے فیض اُٹھا لو جتنااُٹھا سکتے ہواور تقویٰ کے حصو ل کے لئے میرے بتا ئے ہو ئے طر یق پر چلنے کی کو شش کروتا کہ تم اپنی د نیا وعا قبت سنوا رنے والے بن سکو۔یہ کیمپ جو ایک مہینہ کا قا ئم ہوا ہے اس سے بھر پور فا ئدہ اُٹھا لوکہ اس میں خا لصۃً اللہ تعا لیٰ کے لئے کی گئی نیکیاں تمہیں عام دنوں میں کی گئی نیکیوں کی نسبت کئی گنا ثوا ب کا مستحق بنانے وا لی ہو ں گی۔پس اُٹھو ا ور میر ے حکمو ں کے مطابق اپنی عبا د توں کو بھی سنوارو اور اس عہد کے ساتھ سنوارو کہ یہ سنوار اَب ہم نے ہمیشہ قا ئم ر کھنے کی کو شش کرنی ہے۔اٹھواور اپنے ا عما ل کو بھی خو بصو رت بنائواور اللہ تعا لیٰ کی ر ضا کے مطابق بنائواور اس ارادے سے بنا نے کی کو شش کرو کہ اب ہم نے ان کو اپنی ز ندگیوں کا حصہ بنا نا ہے۔اٹھو اور دین کو د نیا پر مقدم رکھنے کا جو عہد کیا ہے اس کا حقیقی ادراک اس مہینےمیں حا صل کر نے کی کوشش کرو اور اس سو چ کے سا تھ کر و کہ اب یہی ہما ری زندگی کا مقصد ہے۔‘‘ (الفضل انٹرنیشنل 25؍جولائی 2014ء صفحہ6)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’ لیلۃ القدر کی بڑی اہمیت ہے لیکن رمضان کے روزے بھی وہی اہمیت رکھتے ہیں۔ٹھیک ہے کہ ایک رات میں گناہ بخشے جاتے ہیں لیکن گزشتہ عمل بھی سامنے ہیں…اگر پہلے دنوں میں کوئی کمزوری رہ گئی تھی تو آخری دنوں میں اسے دور کرنے کی کوشش ہونی چاہئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ صرف لیلۃ القدر جس کو ملے گی اس کے گناہ بخش دیے جائیں گے۔بلکہ ہر شخص جو روزوں سے اور لیلۃ القدر سے ایمان کی حالت میں اور اپنے نفس کا محاسبہ کرتے ہوئے گزر رہا ہو۔اس کو اللہ تعالیٰ کی بخشش کی امید رکھنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ اسے بخش دیتا ہے…رمضان اور لیلۃ القدر کی برکتیں مشروط ہیں…پس یہ وہ لیلۃ القدر ہے جو اگر ہمیں میسر آجائے اورہم خالص اللہ تعالیٰ کے ہو جائیں…تو یہ ہمارا وہ مقصد ہے جس کو حاصل کرنے کااللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے…ہم یہ کرلیں تو ہر دن اور ہر رات ہمارے لئے قبولیتِ دعا کی گھڑی بن جاتی ہے۔اللہ کرے ہمارے میں سے بہت سے اس لیلۃ القدر کو بھی پانے والے ہوں جو قبولیتِ د عا کا خاص موقع ہے۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل 31؍جولائی2015ءصفحہ8)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم اس رمضان کی رحمتوں اور برکتوں کو سمیٹتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے قرب کو پانے والے بن جائیں۔ آپس کی رنجشوں کو مٹاتے ہوئے ایک دوسرے کا احساس کرنے والے بنیں۔آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button