یادِ رفتگاں

ناصر احمد ظفر مرحوم ابن مولانا ظفر محمد صاحب ظفر پروفیسر جامعہ احمدیہ

(محمد شریف خالد۔ جرمنی)

قادیان سے ہجرت کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے لاہور رتن باغ میں کچھ عرصہ قیام فرمایا۔ مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ بھی کچھ عرصہ حضور کے ارشاد کے مطابق لاہور ہی میں رہے اور پھر چنیوٹ آگئے۔چند ماہ چنیوٹ میں رہ کر دونوں تعلیمی ادارے احمد نگر میں آگئے اور اسی طرح اساتذہ بھی احمد نگر میں جمع ہونے شروع ہوگئے۔حضورؓ نے اُس وقت ان دونوں اداروں کے پرنسپل حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کو مقرر فرمایا۔ پڑھانے والے اساتذہ میں حضرت مولانا ظفر محمد ظفرصاحب کو عربی ادب کا استاد مقرر فرمایا۔آپ کے ہونہار بچوں میں ایک نام ناصر احمد ظفر بھی تھا جو اگرچہ مجھ سےعمر میں چھوٹا تھا لیکن اُس کی صلاحیتوں سے یہ اندازہ ہوتا تھا کہ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات۔

پھر ناصر احمد ظفر صاحب مدرسہ احمدیہ میں آگئے اور دینی تعلیم میں مشغول ہوگئے۔میری طرح انہیں بھی تعلیم سے زیادہ کھیل کود میں دلچسپی تھی۔ چنانچہ وہ جلد ہی جامعہ احمدیہ کی والی با ل ٹیم کے اچھے کھلاڑیوں میں شمار ہونے لگے۔خاکسار اُس وقت جامعہ احمدیہ کا سیکرٹری سپورٹس تھا اور والی بال کی ٹیم کا کپتان بھی تھا۔ چنانچہ برادرم ناصر احمد ظفر سے ہر پہلو سے میرے بہت ہی برادرانہ مراسم ہوگئے تھے اس لیے میں نےانہیں بہت قریب سے دیکھا۔

وہ بے پناہ خوبیوں کے مالک تھے مثلاً اُن کی خوبیوں میں سے ایک حُسن خلق بھی تھا ، ہر ایک سے خوش خلقی سے ملنا، کسی سے کوئی جھگڑا نہیں کرنا، کھیل کود میں بھی خوش وخرم رہنا۔ نہ کبھی شکوہ نہ شکایت ، نہ ہارنے پہ افسردہ ہونا نہ جیتنے پر ضرورت سے زیادہ خوش ہونا،سب سے اچھے تعلقات انہیں اپنے باعمل باپ سے حصہ وراثت میں ملے ہوئے تھے۔طبیعت میں توازن تھا۔غرض اُن کی کون کون سی صفات کا ذکر کیا جائے۔اللہ انہیں غریق رحمت کرے۔آمین

خاکسار نے جامعہ احمدیہ سے تعلیمی فراغت کے بعد ترقیٔ دیہات (Village Aid)کی تربیت کے سلسلے میں تربیت گاہ لالہ موسیٰ میں داخلہ لے لیا۔ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک سال کی تربیت کے بعد پوری کلاس میں اول پوزیشن حاصل کی۔ایک سال پہلے کی کلاس میں اول پوزیشن مکرم ملک شریف احمد صاحب مقیم ہمبرگ جرمنی نے حاصل کی تھی۔گویا کہ دو سال سے متواتر احمدی طلبہ کے حصہ میں اول پوزیشن رہی۔میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ کاش تیسرے سال میں بھی کوئی احمدی لڑکا ہی یہ پوزیشن حاصل کرے۔

چنانچہ میری نظرانتخاب برادرم ناصر احمد ظفر کی صلاحیتوں کے پیش نظر اُن پر پڑی۔لہٰذا خاکسار بطور خاص اس خواہش کی تکمیل کے سلسلہ میں احمد نگر گیا اور حضرت مولانا ظفر محمد صاحب ظفر سے اس کا تذکرہ کیا ۔ا نہوں نے ازراہ شفقت پورے انشراح سے اس کی اجازت مرحمت فرمائی اور ناصر احمد ظفر بھی ترقیٔ دیہات (ولیج ایڈ) کی تربیت گاہ فیصل آباد میں تربیت کے لیے منتخب ہوگئے۔بے شک انہوں نے یہ ایک سال کا کورس بہت اعلیٰ نمبروں سے پاس کیا لیکن اول پوزیشن کے حقدار نہ قرار دیے گئے۔ مگر بعد کی تمام زندگی انہوں نے اس تربیت کے نتیجے میں اور خدا تعالیٰ کی ودیعت کردہ صلاحیتوں کی بنا پر بڑی کامیابی سے گزاری اوراللہ تعالیٰ کے فضل نیز اپنی خوبیوں کے طفیل حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒاور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے قریب رہنے کی سعادت بھی حاصل کی۔

سارے علاقے میں اُن کی بہت اچھی شہرت تھی۔میں جب بھی جرمنی سے ربوہ جاتا تو ان کا مہمان ہونے کا شرف نصیب ہوتا۔ہر موضوع پر اُن سے گفتگو ہوتی۔علاقے کی سیاست سے انہیں نہ صرف بھر پور دلچسپی بلکہ علاقے کے تمام بڑے بڑے لوگوں کے ساتھ گہرے مراسم بھی تھے۔

میں جب پاکستان میں ابھی ترقی دیہات میں ملازم تھا تو ایک دفعہ میرے ساتھ میرے ضلعی افسر نے جلسہ سالانہ دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا ۔ جلسہ سالانہ پر میں نے انہیں حضرت مولانا ظفر محمد ظفر صاحب سے بھی ملایا۔ ملاقات کے دوران اُس نے ولیج ایڈ یعنی ترقیٔ دیہات کے پروگرام کی بہت تعریف کی اور ساتھ ہی میری بھی اُن کے سامنے بہت اچھے رنگ میں تعریف کی کہ یہ ہمارے محکمہ کا بہت اچھا کارکن ہے اور میں اسی لیے ربوہ آیا ہوں کہ دیکھوں کہ کون سا ماحول ہے جس میں اس کی تربیت ہوئی ہے۔

حضرت مولانا صاحب نے فرمایا کہ میں نے پہلے بھی بعض لوگوں سے اس کی تعریف سنی ہے اور میرے بیٹے ناصراحمد ظفر کی بھی اُس محکمہ کے لوگ میرے سامنے بہت تعریف کرتے ہیں۔حضرت مولانا صاحب نے اُس سے کہا کہ آپ نے اپنے محکمہ کی تربیت کی بھی بہت تعریف کی ہے ۔لیکن آپ کے محکمہ کی تربیت میں فرق کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ یہ دونوں بچے ناصر احمد اور شریف خالد ہمارے نالائق ترین طالب علم تھے لیکن آپ کے محکمہ میں بقول آپ کے سب سے بہترین کارکن ہیں۔اُس نے حضرت مولانا صاحب کے اس بے لاگ تبصرہ پر خوشی کا اظہار کیا۔

ناصر مرحوم نے جہاں محکمانہ کام میں بھی اچھا نام چھوڑا وہاں جماعتی خدمات میں بھی اُنہیں ہمیشہ اچھے نام سے یاد کیا جائےگا۔میں جب بھی ربوہ جاتا تو اُنہیں یہی مشورہ دیتا کہ اب آپ آرام کریں ساری زندگی آپ نے بھر پور کام کیا ہے۔ انسانی جسم بھی ایک وقت کے بعد آرام کا طالب ہوتا ہے لیکن وہ ہر دفعہ میرے اس مشورہ کو ہنس کر ٹال دیتے، نہ کبھی اس مشورہ کی تائیدکی نہ کبھی مخالفت کی اور یہی وہ خوبی تھی جو تمام زندگی اُن کو خوشی مہیا کرتی رہی۔آخری سانس تک جماعت نے جہاں بھی کہا اور جو بھی ذمہ داری سونپی اس کو کماحقہ اداکرنے کی کوشش کی۔اور یہ سب کچھ ان کو اپنے والدین سے ورثہ میں ملا تھا۔حضرت مولانا ظفر محمد صاحب ظفر تو خود میرے استاد تھے اُن کا یہ شعر اُن کی زندگی کا آئینہ دار تھا۔

کتنا ہے خوش نصیب ظفرؔ آج تک جسے

دُنیا کے حادثات پریشاں نہ کر سکے

کہتے ہیں کہ ایک اچھے کامیاب آدمی کے پیچھے اُس کی اچھی بیوی کا ہاتھ ہوتا ہے مگر کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ ایک کامیاب بیٹے کے پیچھے ایک اچھی ماں کا ہاتھ ہوتا ہے۔ میں جہلم میں ملازم تھا، مجھے ایک دفعہ شعبہ تعلیم کی ڈسٹرکٹ انسپکٹرس سکولز مسز کیلب سے کام پڑا۔ میں ان کو ملنے کے لیے گیا تو باتوں باتوں میں اس کو علم ہوا کہ میں احمدی ہوں۔یہی خاتون جہلم آنے سے پہلے ڈیرہ غازی خان میں DIیعنی ڈسٹرکٹ انسپکٹرس سکولز تھیں جہاں برادرم ناصر ظفر مرحوم کی والدہ مرحومہ بطور استانی سکول میں پڑھاتی تھیں اور مسز کیلب اُن کو نہ صرف اچھی طرح جانتی تھیں بلکہ اُن کے حسن خلق کی میرے سامنے اتنی تعریف کی کہ مجھے ایسے لگا کہ وہ صرف ناصر ظفر کی والدہ کی ہی تعریف نہیں کر رہی بلکہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی تعریف کر رہی ہوں۔کیونکہ ناصر ظفر کی امی کی یاد اسے احمدیت کے حوالے سے آئی تھی۔ جب کہ یہ خاتون خود عیسائیت سے تعلق رکھتی تھیں۔

خدا تعالیٰ سے دعا ہے کہ یہ خوبیاں ان کے بچوں میں بھی قائم ودائم رہیں اور انہیں یاد رہے کہ ایک جھکے ہوئے پھل دار درخت کے اندر پرندہ یہ سمجھ کر اپنا گھر بنا لیتا ہےکہ

کسی سرنگوں سی ڈالی پہ رکھیں گے چار تنکے

نہ بلند شاخ ہوگی نہ گرے گا آشیانہ

خدا رحمت کندایں بندگانِ پاک طینت را

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button