متفرق مضامین

سیرت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام

(’ابو لطفی‘)

حضور ؑبٹالہ تک سورت فاتحہ پر ہی غور کرنے میں مشغول رہے۔ گیارہ میل کے لمبے سفر میں آپ صرف سات آیات کی مختصر سی سورت پر غور و فکر کرتے رہے

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی سیرت کا مضمون بہت وسیع ہے جس کا احاطہ کرنا آسان نہیں۔خاکسار حضورؑ کی سیرت کے چند پہلوؤں پر نہایت اختصار کے ساتھ کچھ روشنی ڈالنے کی سعی کرے گا۔و باللّٰہ التوفیق۔

عشق الٰہی

حضور ؑکی سیرت کا اہم ترین پہلو آپؑ کا عشق الٰہی ہے۔ اوائل عمر سے ہی حضور ؑکو دنیا سے بے رغبتی تھی۔ آپؑ کا زیادہ وقت مسجد میں گزرتا تھا۔ آپؑ کے والد صاحب کو بڑی فکر رہتی تھی کہ آپ کوئی ملازمت اختیار کر لیں۔ ایک دفعہ آپ کے والد صاحب نے ایک سکھ زمیندار کے ذریعہ آپ کو پیغام بھیجا کہ آج کل ایک بڑا افسر صاحبِ اقتدار ہے جس کے ساتھ میرے خاص تعلقات ہیں اس لیے میں تمہیں اچھی ملازمت دلا سکتاہوں۔ وہ سکھ زمیندار آپ کے پاس آیا اور آپ کے والد صاحب کا پیغام پہنچایا اور ساتھ تحریک کی کہ اِ س عمدہ موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دینا چاہیے۔ حضرت مسیح موعود ؑنے فرمایا میں اُن کی شفقت کا ممنون ہوں مگر ’’میری نوکری کی فکر نہ کریں۔ میں نے جہاں نوکر ہونا تھا ہو چکا ہوں۔‘‘

وہ سکھ حیران ہو کر واپس آیا اور کہا کہ آپ کے بیٹے نے تو جواباً کہا ہے کہ’’میں نے جہاں نوکر ہونا تھا ہو چکا ہوں‘‘۔ یہ سن کر آپ کے والد صاحب نے فرمایا: اچھاغلام احمد نے یہ کہا ہے۔تو پھر اللہ تعالیٰ اسے ضائع نہیں کرے گا۔

ایک موقع پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے الہاماً فرمایا: اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ۔ کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں؟حضور ؑفرماتے ہیں کہ اس کے بعد خدا نے اس رنگ میں میری کفالت فرمائی کہ کوئی باپ یا کوئی رشتہ دار یا کوئی دوست نہیں کر سکتا۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضورؑ فرماتے ہیں:

لُفَاظَاتُ الْمَوَائِدِ کَانَ اُکْلِیْ

وَصِرْتُ الْیَوْمَ مِطْعَامَ الْاَھَالِیْ

(اُکْلِیْ اور اُکُلِیْ دونوں عربی میں درست ہیں۔ مگر شعر میں یہاں اُکْلِیْ سے وزن درست رہتا ہے۔ یہ نظم بحر وافر پہ ہے)

یعنی ایک زمانہ تھا کہ دوسروں کے دستر خوان کے ٹکڑے میری خوراک تھے۔ مگر آج میرے دستر خوان پر خدا کے فضل سے خاندانوں کے خاندان پل رہے ہیں۔

ضمنا ً عرض ہے کہ جامعہ میں طالب علمی کے زمانے میں اس شعر پر نحوی لحاظ سے ہم بحث کیا کرتے تھے کہ لفاظات جمع غیر عاقل ہے لہٰذا کَانَ کی بجائے کَانَتْ کیوں نہیں، یا پھر لفاظات کو کَانَ کی خبر مقدم قرار دے کر اس کو لفاظاتِ الموائدِپڑھنا چاہیے۔ اُس وقت تو ہم طالبعلم تھے۔ اب خاکسار نے اس امر پر غور کیا تو مسئلہ بالکل واضح ہو گیا کہ لفظاتُ (الموائدِ) مبتدأ ہے لہٰذا مرفوع ہے اور کانت کی بجائے کَانَ اس لیے درست ہے کہ اس کی ضمیر ’ھو‘ لفاظات کی طرف بتاویل ’’ماذُکِرَ ‘‘راجع ہے اس لیے مذکر ہے۔ نیز کانت ہونے کی وجہ سے شعر کا وزن ٹوٹ جاتا تھا۔ اس قاعدے کی مثال قرآن کریم میں بھی کئی جگہ ہے۔ مثلاً: نُسْقِيْكُمْ مِّمَّا فِيْ بُطُوْنِهٖ مِنْۢ بَيْنِ فَرْثٍ وَّ دَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَآىِٕغًا لِّلشّٰرِبِيْنَ۔(النحل:67)یہاں بُطُوْنِھَاکی بجائے بُطُوْنِہٖ فرمایا۔ ہٖ مذکر ہے حالانکہ دودھ تو مادہ دیتی ہے نہ کہ نر۔ یہاں ہٖ ہے جو کہ علٰی تأویل ما ذُکِرَ ہے اس لیے مذکر ہے۔ اسے مربی صاحبان آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔

حضور ؑکو اپنی شدید محبت اور تعلق الٰہی کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی نصرت پر کامل یقین تھا۔ 1904ء،1905ءمیں مولوی کرم دین والے مقدمے کے تعلق میں حضور ؑکو اطلاع ملی کہ ہندو مجسٹریٹ آپؑ کو قید کی سزا دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ حضورؑ اس وقت طبیعت علیل ہونے کی وجہ سے لیٹے ہوئے تھے۔ یہ الفاظ سنتے ہی اٹھ کر بیٹھ گئے اور جوش سے فرمایا: ’’وہ خدا کے شیر پر ہاتھ ڈال کر تو دیکھے۔‘‘

اس پر یاد آیاکہ جامعہ کے زمانہ طالب علمی میں خاکسار نے خواب میں دیکھا کہ ایک چھوٹی عمر کا لڑکا میرے پاس آیا ہے اور کہتا ہے کہ کیا میں آپ کو ایک ایسا طریق بتاؤں کہ جس سے آپ قرآن کو خوب سمجھ سکیں گےیا اس مفہوم کے الفاظ تھے۔ خواب میں مَیں نے سوچا کہ اس لڑکے کا امتحان تو لوں۔ میں نے کئی قرآنی الفاظ کا ترجمہ پوچھا اس نے ٹھیک ٹھیک بتایا۔ اس پر میں نے سوچا کہ کوئی مشکل لفظ پوچھنا چاہیے۔ تب میں نے کہا قَسْوَرَۃکا ترجمہ بتاؤ تو اس نے بڑے آرام سے کہا قَسْوَرَۃعربی میں شیر کو کہتے ہیں مگر قرآن کریم میں اس سے مراد حضرت مسیح موعود ؑہیں۔ اس پر میری آنکھ کھل گئی۔ صبح میں نے قرآن کریم کھول کر دیکھا تو وہ آیت یہ تھی كَاَنَّهُمْ حُمُرٌ مُّسْتَنْفِرَةٌ۔فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍ یعنی وہ (مخالفین) گویا بِدکے ہوئے گدھے ہیں جو شیر سے ڈر کر بھاگے ہیں۔ حضورؑ نے بھی فرمایا: ’’وہ خدا کے شیر پر ہاتھ ڈال کر تو دیکھے‘‘۔

عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم

عاشقِ الٰہی لازماً عاشقِ رسول اللہﷺ بھی ہوتا ہے۔ ایک دفعہ آپؑ علیحدگی میں ٹہلتے ہوئے حضرت حسان بن ثابتؓ کا یہ شعر جو انہوں نے آنحضرتﷺ کی وفات پر کہا تھا پڑھتے جا رہے تھے اور آپ کے آنسو ٹپ ٹپ گِر رہے تھے۔

کُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِیْ فَعَمِیْ عَلَیْکَ النَّاظِرُ

مَنْ شَا ءَ بَعْدَکَ فَلْیَمُتْ فَعَلَیْکَ کُنْتُ اُحَاذِرُ

(یہاں عَمِیَ کو عَمِیْضرورت شعری کی وجہ سے پڑھا گیا ہے)

یعنی اے پیارے رسول تو تو میری آنکھ کی پتلی تھا جو آج تیری وفات کی وجہ سے اندھی ہو گئی ہے۔ اب تیرے بعد جو چاہے مرے میں تو تیری موت سے ڈرتا تھا۔

راوی کہتے ہیں کہ میں نے حضور ؑکو اس طرح روتے دیکھا، تو گھبرا کر پوچھا حضور کیا معاملہ ہے۔ فرمایا: میں اِس وقت حسان بن ثابت ؓ کا یہ شعر پڑھ رہا تھا اور میرے دل میں آرزو پیدا ہو رہی تھی کہ کاش یہ شعر میری زبان سے نکلتا۔

حضور نے نثرو نظم میں کثرت سے اپنے عشقِ رسولﷺ کا اظہار فرمایا ہے۔ مثلاً فرمایا :

وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا

نام اس کا ہے محمدؐ دلبر میرا یہی ہے

پہلے تو راہ میں ہارے پار اس نے ہیں اتارے

میں جاؤں اس کے وارے بس ناخدا یہی ہے

اُس نور پر فدا ہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں

وہ ہے، میں چیز کیا ہوں۔بس فیصلہ یہی ہے

خاکسار نے ان اشعار کا سواحیلی اشعار میں ترجمہ کیا تھا جو خاکسار کے دیوان میں شامل ہے۔ کچھ عرصہ ہوا ہمارے مبلغ تنزانیہ (اب لندن میں ہیں) نے بتایا کہ تنزانیہ میں سیرت النبیﷺ کے جلسہ میں مَیں نے یہ سواحیلی نظم پڑھی۔ جلسے میں غیر از جماعت احباب بھی آئے ہوئے تھے۔ وہ یہ نظم سن کر کہنے لگے کہ آنحضورﷺ کی تعریف میں بڑے اچھے اچھے قصیدے سنے ہیں مگر اس نظم میں جس رنگ میں حضورﷺ کی نعت بیان کی گئی ہے ویسی کبھی سننے میں نہیں آئی۔

آپؑ کے عشق رسولؐ کے بارے میں ایک بار آپ کو الہام ہوا جس کا مفہوم یہ تھا کہ مَلَاِ اعلیٰ میں لوگ خصومت میں ہیں، یعنی ارادہ الٰہی احیائے دین کے لیے جوش میں ہے لیکن ہنوز مَلَاِ اعلیٰ پر شخص مُحْیٖکی تعیین ظاہر نہیں ہوئی۔ اس لیے وہ اختلاف میں ہیں۔ اِس اثنا میں خواب میں دیکھا کہ لوگ ایک مُحْیٖ کو تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ اَور ایک شخص عاجز کے سامنے آیا اور اشارہ سے اس نے کہا:

ھٰذَا رَجُلٌ یُّحِبُّ رَسُوْلَ اللّٰہِ

یعنی یہ وہ آدمی ہے جو رسول اللہ سے محبت رکھتا ہے۔ اور اس قول سے یہ مطلب تھا کہ شرطِ اعظم اس عہدہ کی محبت رسول ہے جو اس شخص میں متحقق ہے۔(ماخوذ از براہین احمدیہ،روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 598،حاشیہ در حاشیہ نمبر3)

ایک دفعہ آپؑ نماز ادا کر رہے تھے، التحیات میں تھے۔ ایک حدیث شریف میں آتا ہے کہ آنحضرتﷺ التحیات میں جب بیٹھتے تو بایا ں ہاتھ کھلا رکھتے جیسا کہ عام طریق ہے مگر دائیں ہاتھ کی تین انگلیوں کو ہتھیلی سے ملا لیتے اور درمیانی انگلی اور انگوٹھے سے حلقہ باندھ لیتے اور ان دونوں کے درمیان کی انگلی کو سیدھا رکھتے پھر التحیات پڑھتے۔حضو رؑ کے ایک رفیق نے حضور ؑکو التحیات میں دیکھ کر سوچا کہ دیکھوں تو سہی کہ کیا حضورؑ حدیث شریف کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی عمل کرتے ہیں۔ آگے ہو کر دیکھا تو حضور ؑ نے التحیات میں دایاں ہاتھ بالکل اسی طرح رکھا ہوا تھا جیسا کہ حدیث میں بیان ہوا ہے۔ یہ امر بھی حضور ؑکی آنحضرتﷺ سے شدید محبت پر دلالت کرتا ہے۔

حضور ؑتحریر فرماتے ہیں:’’ایک رات اس عاجز نے اس کثرت سے درود شریف پڑھا کہ دل و جان اس سے معطر ہو گیا۔ اسی رات خواب میں دیکھا کہ [خدا کے فرشتے] آبِ زلال کی شکل پر نُور کی مشکیں اس عاجز کے مکان میں لئے آتے ہیں۔ اور ایک نے ان میں سے کہا کہ یہ وہی برکات ہیں جو تُو نے محمد کی طرف بھیجی تھیں۔ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم۔‘‘(براہین احمدیہ،روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 598،حاشیہ در حاشیہ نمبر3)

عشق قرآن کریم

جوانی میں جب حضور ؑسیالکوٹ میں ملازمت کے سلسلے میں مقیم تھے تو کا م سے واپس آکر کمرہ بند کر لیتے۔ اندر رہتے۔لوگوں میں جستجو پیدا ہوئی کہ یہ اندر کیا کرتے ہیں۔ ایک دن انہوں نے موقع پا لیا۔ دیکھا کہ آپؑ قرآن مجید ہاتھ میں لے کر یہ دعا کر رہے تھے کہ ’’یا اللہ تیرا کلام ہے۔ مجھے تو ہی سمجھائے گا تو میں سمجھ سکتا ہوں‘‘۔

آپؑ کا عشقِ قرآن محض لفظی نہیں تھا بلکہ اس میں گہرائی تھی۔ عشق کلامِ الٰہی کی وجہ سے آپ اسے پور ی طرح سمجھنے کے لیے بے قراری سے دعا کر رہے تھے۔

ایک سفر میں حضور ؑپالکی میں سوار تھے اور قرآن کریم کھول کر سورت فاتحہ کی تلاوت فرما رہے تھے۔ دیکھنے والے بیان کرتے ہیں کہ حضور ؑ بٹالہ تک سورت فاتحہ پر ہی غور کرنے میں مشغول رہے۔ گیارہ میل کے لمبے سفر میں آپ صرف سات آیات کی مختصر سی سورت پر غور و فکر کرتے رہے۔

ایک شعر میں حضور ؑ قرآن کریم کی محبت میں اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے عرض کرتے ہیں:

دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں

قرآں کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے

لفظ ’تلاوت ‘ میں خود گرد گھومنے کا مضمون موجود ہے عربی میں تَلاکا ایک معنی اِسْتَدَارَہے۔ یعنی گھومنا۔ چنانچہ تَلاالشَّمْسَ الضیاءُ والنّورُ (لسان العرب زیر لفظ تَلَا) کا مطلب ہے روشنی اور نور نے سورج کے گرد دائرہ بنایا۔ پس تلاوتِ قرآن کا ایک مطلب قرآن کریم کےگرد دائرہ بنانا یعنی اس کے گرد گھومنا ہے۔ یعنی اس سے ظاہری اور باطنی محبت کرنا۔اور محبت کا تقاضا ہے کہ قرآن کے معانی اور مخفی اسرار کی جستجو کی جائے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود ؑنے جو قرآنی معارف اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیان فرمائے ہیں وہ عجیب شان رکھتے ہیں۔

خاکسار جب نیروبی میں تھا تو ایک دن تلاوت میں یہ آیت آئی: لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ ۔(الشوریٰ:12)اس کا عام ترجمہ یہ کیا جاتا ہے کہ اُس (خدا) کی مانند کوئی چیز نہیں۔ خاکسار کے ذہن میں آیا کہ کَمِثْلِہٖ کا ترجمہ اُس کی مِثل کی مانند کوئی چیز نہیں۔ کَ مانند، مِثلمثل۔ لیکن ساتھ ہی خیال گزرا کہ خدا کی مثل تو کوئی چیز ہے ہی نہیں۔ پھر کیوں آیت میں کہا گیا ہے کہ خدا کی مِثل کی مانند کوئی چیز نہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ نے جو اپنی کتب و تحریرات میں آنحضرتﷺ کے بارے میں لکھا ہے کہ آپﷺ فنا فی اللہ کے مرتبہ پر تھے اور ظلی طور پر آپﷺ میں اللہ تعالیٰ کی صفات پیدا ہو گئی تھیں۔چنانچہ حضورؑ نے یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ اور مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی کی امثلہ بھی اسی سلسلے میں دی ہیں۔تو میرے ذہن میں آیا کہ مذکورہ آیت میں مثل سے ظلّی طور پر آنحضرتﷺ لے لیے جائیں تو آیت میں کمثلہ کا مفہوم درست ہو سکتا ہے۔ اور مطلب یہ ہوگا کہ خدا تعالیٰ تو الگ رہا۔ خدا کے ظلی مِثل یعنی محمد رسول اللہﷺ کی مانند بھی کوئی نہیں۔ یعنی ان کے مرتبے تک کوئی نہیں پہنچے گا۔

اِس کے کافی عرصہ بعد جب میں نیروبی ہی میں حضورؑ کی کتاب سرمہ چشمِ آریہ پڑھ رہا تھا تو اس میں یہ عبارت سامنے آئی:’’…انسانِ کامل خدائے تعالیٰ کی ذات کا نمونہ ہے۔ خدائے تعالیٰ دوسرا خدا ہرگز نہیں پیدا کرتا کہ یہ بات اُس کی صفتِ احدیت کے مخالف ہے ہاں اپنی صفات کمالیہ کا نمونہ پیدا کرتا ہے اور جس طرح ایک مصفّا اور وسیع شیشہ میں صاحبِ رؤیت کی تمام و کمال شکل منعکس ہو جاتی ہےایسا ہی انسانِ کامل کے نمونہ میں الٰہی صفات عکسی طور پر آ جاتے ہیں سو خدائے تعالیٰ کا اِس طرح پر اپنی مثل قائم کرنا معترض کی تسلی کے لئے کافی ہے۔‘‘(سرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد 2صفحہ246تا247،حاشیہ)

حضورؑ کی یہ عبارت عین لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ کی تفسیر ہے۔ اگرچہ ساری لمبی عبارت کے سیاق وسباق میں لفظی طور پر آیت لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ کا ذکر نہیں۔ مجھے یہ عبارت پڑھ کر بہت لطف آیا اور میں نے فوراً اپنی نوٹ بک میں لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ لکھ کر آگے یہ تشریح درج کر دی۔ فالحمد للہ علیٰ ذٰلک۔

پاکستان آ جانے کے بعد عاجز کو کثیر کتب تک رسائی حاصل ہوئی۔ خاکسار نے چاہا کہ معلوم کرے کہ بڑے بڑے نحاۃ نے لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ کے بارے میں کیا لکھا ہے۔ اس تحقیق کا ماحصل یہ ہے کہ نحویوں نے لکھا ہے کہ کَمِثْلِہٖ میں کاف زائدہ ہے۔ کاف اور مثل دونوں کا ایک ہی مفہوم ہے۔ بعض نے کہا ہے کاف نہیں بلکہ مثل زائد ہے۔ اس طرح مثل کو ہٹا کر آیت کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ لیس کَھُوَ شیءٌ یعنی اس کی مانند کوئی چیز نہیں۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ کاف حرف جار ہے اس لیے اس کے بعد ضمیر ھُوَ جو محّلًا مرفوع ہے کیسے آ سکتی ہے؟ ککے بعد تو مجرور آنا چاہیے تھا۔

حضرت مسیح موعود ؑنے لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ کی کیا عظیم الشان تشریح فرمائی جس کے مطابق نہ کاف زائد نہ مِثل زائد یعنی دونوں اپنی اپنی جگہ پر درست موجود ہیں۔کیا بلحاظ الفاظ و کیا بلحاظ معانی کیا ایمان افروز ترجمہ کیا کہ ثابت ہوا گیا کہ اس آیت کریمہ میں نہ کوئی لفظ زائد ہے اور نہ کم۔ الحمد للہ

اِس عنوان کے تحت خاکسار نے اسی قدر تحریر کیا تھا۔ بعد میں اچانک ذہن میں پنجابی زبان کا ایک قطعہ اُبھرا جو لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ کا خوبصورت ترجمہ ہے۔ یہ قطعہ خاکسار نے جماعتی لٹریچر میں اُن دنوں پڑھا تھا اور زبانی یاد بھی ہو گیا تھا جب خاکسار آٹھویں نویں جماعت کا طالبعلم تھا۔ وہ قطعہ یہ تھا:

عشق الٰہی منہ پر وَسّے ولیاں ایہہ نشانی

لاثانی دا جو ہے عاشق اُس کا کوئی نہ ثانی

بکری بھیڈ خدا دی راہ وچہ کُہنا ہے کی مشکل

جو ہن کُہندے نفس دَنی نوں سچی ایہہ قربانی

میرے خیال میں یہ قطعہ حضرت مسیح موعودؑ کا تھا۔ اس پر تحقیق کی تو درّ ثمین میں صرف یہ مصرع ’’عشق الٰہی وسّے منہ پر ولیاں ایہہ نشانی‘‘ بطور الہام الٰہی درج تھا۔ مگر پورا قطعہ ساری درثمین میں نہ ملا۔ میرے ذہن میں یہ مصرع یوں تھا ’’عشق الٰہی منہ پر وسّے‘‘ جبکہ اصل مصرع یوں نکلا’’عشقِ الٰہی وسّے منہ پر…‘‘

اب خیال آیا کہ یہ قطعہ کسی احمدی شاعر نے حضورؑ کا الہامی مصرع شامل کر کے لکھا ہوگا۔ مزید تحقیق پر یہ چیز سامنے آئی جو میری درخواست پر خاکسار کے ایک دوست کی تحقیق کا نتیجہ ہے کہ یہ سارا قطعہ حضورؑ کا ہی ہے جو محمد فخرالدین صاحب ملتانی نے اپنی کتاب در مکنون جس کا حصہ اول 1916ء میں اور دوسرا حصہ 1917ء میں شائع کیا اس میں درج کیا ہے۔ درمکنون میں انہوں نے حضورؑ کے وہ اشعار اور مصرعے درج کیے ہیں جو اِس سے قبل کسی کتاب میں شائع نہیں ہوئے تھے۔ خاکسار نے ضرور درمکنون ہی سے یہ قطعہ پڑھ کر یاد کر لیا ہوگا۔ سوائے معمولی لفظ کے آگے پیچھے ہونے کے باقی سارا قطعہ بالکل وہی ہے۔ فالحمد للہ علی ذالک

خلقِ خدا پر شفقت

حضرت مسیح موعود ؑکی مخالفت پر اصرار کی وجہ سے جن دنوں پنجاب میں طاعون پھیلی ہوئی تھی لا تعداد لوگ لقمہ اجل بن رہے تھے، ان دنوں ایک بار حضرت مولوی عبدا لکریم صاحبؓ جو حضورؑ ہی کے مکان کے ایک حصہ میں رہتے تھے، حضور ؑکو علیحدگی میں بڑی رقت سے یہ دعا کرتے سن کر حیرت زدہ ہو گئے۔ حضرت مولوی صاحبؓ فرماتے ہیں:’’اس دعا میں آپ کی آواز میںاس قدر درداور سوزش تھی کہ سننے والے کا پتّہ پانی ہوتا تھااور اسی طرح آستانہ الٰہی پر گریہ و زاری کر رہے تھے کہ جیسے کوئی عورت دردِ زہ سے بے قرار ہو۔ میں نے غور سے سنا تو آپ ؑ مخلوقِ خدا کے واسطے طاعون سے نجات کے لئے دعا فرما رہے تھے۔ اور کہہ رہے تھے کہ’’الٰہی! اگر یہ لوگ طاعون کے عذاب سے ہلاک ہو گئے تو پھر تیری عبادت کون کرے گا۔‘‘(سیرت مسیح موعود ؑ شمائل و اخلاق حصہ سوم صفحہ395 از شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ)

محمد اکبر خان صاحب سنوری بیان کرتے ہیں کہ جب وہ اپنے علاقے سے ہجرت کر کے قادیان آئے تو حضور ؑنے ہمیں اپنے مکان میں ٹھہرایا۔ حضور ؑرات کو موم بتی جلایا کرتے تھے اور بہت سی موم بتیاں اکٹھی روشن کر دیا کرتے تھے۔ میری لڑکی بہت چھوٹی تھی۔ وہ ایک بار حضور ؑکے کمرے میں موم بتی جلا کر رکھ آئی۔ اتفاق سے موم بتی گر پڑی اور تمام مسودات جل گئے۔ اور بھی چند چیزوں کا نقصان ہوا۔ اس پر تمام گھر میں گھبراہٹ طاری ہو گئی۔ میری بیوی اور لڑکی بھی سخت پریشان۔ حضور ؑ ایک کتاب لکھ رہے تھے۔ اور رات دن کی محنت سے مسودہ لکھا تھا۔ اور آن کی آن میں وہ مسودہ جل کر راکھ ہو گیا۔ حضورؑ نے کمال شفقت سے درگزر فرمایا اور فرمایا خدا کا بہت شکر ادا کرنا چاہیے کہ اِس سے زیادہ نقصان نہیں ہو گیا۔(سیرت مسیح موعود ؑ از حضرت یعقوب علی عرفانیؓ صفحہ 103-104)

اکرامِ ضیف

اکرامِ ضیف کی بہت مثالیں حضو رؑکی سوانح میں ملتی ہیں۔ حضورؑ ہر مہمان کا اکرام فرماتے، چاہے وہ کیسا ہی ہو۔ ایک دفعہ ایک مہمان نے آکر کہا میرا بستر نہیں ہے۔ حضور ؑنے حضرت حافظ حامد علی صاحب سے فرمایا کہ ا نہیں لحاف دے دیں۔ حافظ صاحب نے عرض کی کہ یہ شخص لحاف لے جائے گا۔ حضور ؑنے فرمایا اگر لے جائے گا تو اِس کا گناہ ہوگا۔ اور اگر بغیر لحاف کے سردی سے مر گیا تو ہمارا گناہ ہو گا۔ اور اُس کی آسائش کو اپنے آرام پر مقدم رکھا۔(سیرت مسیح موعودؑ از حضرت یعقوب علی عرفانیؓ صفحہ130)

آپؑ کسی سائل کو ردّ نہ کرتے تھے

ایک دفعہ ایک سائل آیا اور عرض کی کہ ایک عزیز فوت ہو گیا ہے۔ کفن دفن کے لیے میرے پاس کچھ نہیں۔ کچھ سِکّے پاس رکھے ہوئے تھے کہ اس قدر جمع ہوا ہے۔ ابھی اور ضرورت ہے۔ حضور ؑنے حضرت قاضی خواجہ علی صاحب کو فرمایا کہ قاضی صاحب ان کے ساتھ جا کر کفن کا سامان کر دو۔ حضور ؑکی یہ عادت نہ تھی، بلکہ سائل کو جو مناسب سمجھتے دے دیتے۔ اس ارشاد پر خدام کو تعجب ہوا۔ قاضی صاحب ساتھ ہو لیے کہ بھائی میں چل کے انتظام کر دیتا ہوں۔ تھوڑی دیر بعد قاضی صاحب ہنستے ہوئے واپس آئے اور کہا :حضور وہ تو بڑا دھوکا باز تھا۔ رستے میں کہنے لگا کہ کوئی مرا نہیں۔ یہ میرا پیشہ ہے اور منت کی کہ میری پردہ دری نہ کرو اور واپس جاؤ اب میں یہ کام نہیں کروں گا۔(سیرت مسیح موعود ؑ از حضرت یعقوب علی عرفانیؓ صفحہ 298)

نہال چند برہمن (نہالا) جوانی میں مشہور مقدمہ باز تھا۔ وہ حضور ؑکے خاندان کے ساتھ عموماً مقابلہ اور شرارتیں کرتا رہتا تھا۔آخری عمر میں اس کی مالی حالت خراب ہو گئی۔وہ حضورؑ کے دروازے پر آیا اور اپنی حالت بیان کرنے لگا۔ حضورؑ نے اسے 250 روپے دیے اور فرمایا : اس سے کام چلاؤ۔ پھر جب ضرورت ہو تو مجھے اطلاع دینا۔ وہ ہر مہینے دو مہینے بعد آتا اور ایک معقول رقم لے جاتا۔(سیرت مسیح موعود ؑاز حضرت یعقوب علی عرفانی ؓصفحہ 299)

حضور ؑکی سیرت کا ایک اہم پہلو

حضورؑکو1888ء کی پہلی سہ ماہی میں بیعت لینے کے بارے میں الہام ہوا تھا جس کے الفاظ یہ تھے: اِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ۔وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَا وَ وَحْیِنَا۔اَلَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ۔ یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ۔ یعنی جب تو عزم کر لے تو اللہ پر بھروسہ کر۔ اور ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہماری وحی کے تحت کشتی تیار کر۔جو لوگ تیری بیعت کریں گے وہ اللہ کی بیعت کریں گے۔ اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھ پر ہوگا۔

یہ الہام 1888ء کے پہلے تین ماہ میں کسی وقت ہوا۔ اس سے بہت پہلے لوگ آپ سے بیعت لینے کی درخواست کر رہے تھے مگر آپ لَسْتُ بِمَاْمُوْرٍ (کہ میں مامور نہیں) کہہ کر انکار فرما دیتے۔ براہین احمدیہ کی اشاعت کے بعد بہت لوگوں نے بیعت کرنے کی خواہش کی تھی۔ لیکن آپ بیعت نہ لیتے کہ اللہ تعالیٰ نے بیعت لینے کا حکم نہیں دیا۔ بظاہر عجیب بات ہے کہ اب جبکہ بیعت لینے کا الٰہی اشارہ آ گیا۔ تب بھی آپؑ نے فوراً بیعت لینے کا آغاز نہیں فرمایا۔

اس الہام کے قریباً 9ماہ بعد دسمبر 1888ءمیں آپ نے بیعت لینے کا اعلان اپنے ایک اشتہار میں فرمایا۔ اس تاخیر کی کیا وجہ تھی؟ الٰہی ارشاد کے بعد کئی مہینے کیوں تاخیر فرمائی؟

قبل اس کے کہ تاخیر کی اصل وجہ بیان کی جائے، یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ حضورؑ کی تاخیر اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے منافی نہیں تھی۔ الہام کے الفاظ ہیں: اِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ۔ یعنی جب تو بیعت لینے کا عزم کر لے تو اللہ پر توکل کرنا۔ اِذَا جب ماضی پر آئے تو اس کے معنیٰ مضارع کے ہو جاتے ہیں۔ پس ارشاد الٰہی میں فور ی بیعت لینے کا حکم تھا ہی نہیں۔

اب اصل وجہ تاخیر کی لیتے ہیں۔ حضور ؑکو علم تھا کہ بہت سے لوگ بیعت کرنے کے لیے تیار ہیں۔مگر حضور ؑاس بات کو نا پسند فرماتے تھے کہ ہر قسم کے لوگ جماعت میں جمع کر لیے جائیں۔ حضور ؑ اس انتظار میں تھے کہ کوئی ابتلاکی صورت پیدا ہو جو غیر مخلصین کو الگ کر دے۔ چنانچہ یہی ہوا۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ

حضور ؑنے 20؍فروری 1886ء کو پسرِ موعود کی پیشگوئی کی تھی کہ وہ 9سال کے اندر پیدا ہو گا، لمبی عمر پائے گا، زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا۔ اس پیشگوئی کے بعد 7؍اگست 1887ء کوبشیر اول کی پیدائش ہوئی، مگر وہ بقضائے الٰہی 4؍نومبر1888ءکو فوت ہو گیا۔

اس پر مخالفت کا شور اٹھا کہ پیشگوئی غلط نکلی۔ لمبی عمر پانے کی بجائے بیٹا بچپن میں فوت ہو گیا۔ اس پر خام خیال لوگ بد ظن ہو گئے۔ حالانکہ پیشگوئی میں 9 سال کے اندر پیدا ہونے والی اولاد میں سے کسی ایک کے بارے میں پسرِ موعودِ کی پیشگوئی تھی۔

اس ابتلاکو دیکھ کر اب بیعت کے لیے باقاعدہ شروعات ہوئیں۔ اب بھی حضورؑ نے ہدایت دی کہ بیعت کرنے والے سنت کے مطابق استخارہ کے بعد لدھیانہ میں حاضر ہوں۔

اس میں حضور ؑکی سیرت کا یہ پہلو نمایاں طور پر ابھر کر سامنے آتا ہے کہ آپ الٰہی الہامات کے منشا کو خوب سمجھتے تھے اور یہ کہ محض جماعت میں بڑی تعداد کی شمولیت کی خواہش نہیں تھی بلکہ پسند فرماتے تھے کہ داخل ہونے والے اخلاص کے ساتھ آئیں۔ حضور ؑکی ساری عمر اسی مقصد کے لیے تھی۔ اور اسی مقصد کے لیے دعائیں بھی خدا کے حضور کیں۔

خاکسار جب نیروبی میں تھا تو ایک دن حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒنے خاکسار کو فون پر فرمایا کہ آپ تنزانیہ میں رہے ہیں کیا ایک کام کے لیے وہاں جا سکتے ہیں۔ خاکسار نے عرض کی،حضور ارشاد فرمائیں، عاجز حاضر ہے۔ حضورؒ نے ایک کام مجھے بتایا۔خاکسار ایک ماہ کے لیے تنزانیہ گیا۔ وہ کام کر کے حضور ؒکی خدمت میں تفصیلی رپورٹ ارسال کی۔ اس ایک ماہ میں ایک دفعہ خاکسار نے خواب میں دیکھا کہ دارالسلام تنزانیہ کے مشن ہاؤس کے ایک کمرے میں صرف ایک ٹائپ رائٹر پڑا ہے۔ اور کوئی چیز نہیں۔ وہاں حضرت مسیح موعود ؑاور خاکسار موجود ہیں۔ حضور ؑنے ٹائپ رائٹر دیکھ کر فرمایا’’صرف ایک ہی اور وہ بھی…‘‘ یعنی وہ بھی مینوئل،یعنی بجلی کا نہیں۔ پھر دونوں مبارک ہاتھ دائیں سے بائیں لہرا کر فرمایا:’’یہاں تو…‘‘ یعنی مشینوں کی قطار ہونی چاہیے۔ اس سے خاکسار نے سمجھا کہ جس قدر کام تراجم کی اشاعت کا ہو رہا ہے وہ بالکل ناکافی ہے۔اس سے بہت زیادہ ہونا چاہیے۔ بعد میں جب مرکز نے تنزانیہ جماعت کا اپنا پریس لگانے کا فیصلہ کیا تو اسی مشن ہاؤس میں پریس لگایا گیا۔ اور حضور ؑکے ارشاد کے مطابق کہ مشینوں کی قطار ہونی چاہیے، مشینوں کی قطار لگ گئی۔ پرنٹنگ مشین، کٹنگ مشین، فولڈنگ مشین، سٹچنگ مشین (Stitching Machine) وغیر ہ وغیرہ۔ کئی سال یہ پریس مشن ہاؤس میں رہا۔ اب باہر الگ جگہ قائم و دائم ہے۔ اور حضرت مسیح موعود ؑاور آپ کی پیاری جماعت کا لٹریچر تسلسل سے شائع ہو رہا ہے۔

اللّٰھم صلِّ علٰی محمد و آل محمد و عبدک المسیح الموعود و بارک وسلم۔ انک حمید مجید۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button