خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب 04؍ مارچ 2022ء
’’دیکھ لو محمد رسول اللہﷺکے بعد خلافت ہوئی اور پھر کیسی شاندار ہوئی۔ آپؐ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر خلیفہ ہوئے‘‘
سوال نمبر1: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے یہ خطبہ کہاں ارشاد فرمایا؟
جواب: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ خطبہ مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکےمیں ارشادفرمایا۔
سوال نمبر2:خلافت کے قیام کے لیے حضرت حُباب بن منذرؓ اور حضرت عمرفاروق ؓکے مابین کیا گفتگو ہوئی؟
جواب:فرمایا:حضرت ابوبکر صدیق ؓکے خلیفہ منتخب ہونے کےموقع پر حضرت حُبَاب بن مُنْذِرؓ کھڑے ہوئے اور کہا کہ اے گروہِ انصار!تم اس معاملہ کا اختیار اپنے ہاتھ میں رکھو کیونکہ یہ لوگ اس وقت تمہارے زیر سایہ ہیں یعنی مہاجرین۔ کسی کو تمہاری مخالفت کی جرأت نہ ہو گی اور لوگ تمہاری رائے کےخلاف نہیں جائیں گے۔ تم عزت والے، دولت والے،کثرتِ تعداد والے اور طاقت و شوکت والے،تجربہ کار،جنگجو، دلیر اور بہادر ہو۔لوگ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں کہ تم کیا کرتے ہو۔ اب اختلاف نہ کرو ورنہ تمہاری رائے تم میں فساد پیدا کر دے گی اور تمہارا معاملہ تم پر ہی الٹ جائے گا۔ پس اگر یہ لوگ اس بات کا انکار کریں یعنی مہاجرینِ قریش اس بات کا انکار کریں جو تم نے ابھی سنی ہے تو ایک امیر ہم میں سے ہو گا اور ایک امیر اِن میں سے۔ اس پر حضرت عمرؓنے فرمایا: یہ ناممکن ہے۔دو تلواریں ایک نیام میں جمع نہیں ہو سکتیں۔ اللہ کی قَسم! عرب ہرگز اس بات کو نہیں مانیں گے کہ وہ تمہیں امیر بنا دیں جبکہ ان کے نبی تمہارے علاوہ دوسرے قبیلے کے ہوں۔ ہاں البتہ عربوں کو یہ بات تسلیم کرنے میں کوئی روک نہیں ہو گی کہ ان کا معاملہ ان کے سپرد کر دیں جن میں نبوت تھی اور اسی میں سے ان کے امیر ہونے چاہئیں اور اس شکل میں اگر عربوں میں سے کوئی اس کی امارت ماننے سے انکار کرے گا تو اس کے مقابلے میں ہمارے پاس کھلی ہوئی دلیل اور کھلا ہوا حق ہو گا۔ محمدﷺ کی حکومت اور امارت کے بارے میں کون ہماری مخالفت کرے گا؟ ہم ہی آپﷺ کے دوست اور خاندان والے ہیں۔ سوائے احمق کے یا گناہ گار یا خود کو ہلاکت میں ڈالنے والے کے وہی اس تجویز کی مخالفت کرے گا اور کوئی نہیں کر سکتا۔ حُباب بن منذرؓ نے کہا اے گروہِ انصار! تم اس معاملہ کا خود تصفیہ کرو اور ہرگز اس شخص کی اور اس کے ہمراہیوں کی بات نہ ماننا۔ یہ تمہارا حصہ بھی ہضم کرنا چاہتے ہیں اور اگر یہ لوگ ہماری تجویز نہ مانیں تو ان سب کو اپنے علاقوں سے نکال دو اور تمام امور کی باگ اپنے ہاتھ میں لے لو کیونکہ بخدا تم اس امارت کے سب سے زیادہ مستحق اور اہل ہو۔ تمہاری تلواروں نے تمام لوگوں کو اس دین کا مطیع بنایا ہے جو کبھی مطیع ہونے والے نہ تھے۔ میں اس تمام کارروائی کے تصفیہ کی ذمہ داری اپنے سر لیتا ہوں کیونکہ میں اس کا پورا تجربہ رکھتا ہوں اور اس کا اہل ہوں۔ بخدا! اگر تم چاہو تو میں کانٹ چھانٹ کر اس کا فیصلہ کر لیتا ہوں۔ حضرت عمرؓنے کہا اگر ایسا کرو گے تو اللہ تم کو ہلاک کر دے گا۔
سوال نمبر3:حضرت عمرفاروقؓ نے حضرت ابوبکرصدیقؓ کی بیعت کرتے وقت کونسی خوبیاں بیان کیں؟
جواب: فرمایا:حضرت عمرؓنے حضرت ابوبکرؓ کا ہاتھ پکڑا اور عرض کیا: یہ تین خوبیاں کس کی ہیں۔ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا (التوبة:40)یعنی جب وہ یعنی رسول اللہﷺ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ غم نہ کر۔ یقیناًاللہ ہمارے ساتھ ہے۔ اس کا ساتھی کون تھا؟ پھر کہا کہ اِذْ هُمَا فِی الْغَارِ(التوبة: 40) یعنی جب وہ دونوں غار میں تھے۔ وہ دونوں کون تھے؟ پھر انہوں نے،حضرت عمرؓنے کہا کہ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا۔یعنی غم نہ کر۔ یقیناًاللہ ہمارے ساتھ ہے۔ رسول اللہﷺ حضرت ابوبکرؓکے علاوہ کس کے ساتھ تھے یا کس کا ساتھ ہے۔ یہ کہہ کر حضرت عمرؓنےحضرت ابوبکرؓ کی بیعت کر لی اور پھر لوگوں سے کہا تم بھی بیعت کر لو۔
سوال نمبر4: حضرت مصلح موعودؓنےآنحضرتﷺکے بعد خلافت کےقیام کا ذکرکرتے ہوئے کیا فرمایا؟
جواب: فرمایا:آنحضرتﷺکے بعد خلافت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود ؓفرماتے ہیں کہ’’دیکھ لو محمد رسول اللہﷺکے بعد خلافت ہوئی اور پھر کیسی شاندار ہوئی۔ آپؐ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر خلیفہ ہوئے۔ اس وقت انصار نے چاہا کہ ایک خلیفہ ہم میں سے ہو اور ایک خلیفہ مہاجرین میں سے ہو۔ یہ سنتے ہی حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور بعض اَور صحابہ فورا ًاس جگہ تشریف لے گئے جہاں انصار جمع تھے اور آپ نے انہیں بتایا کہ دیکھو! دو خلیفوں والی بات غلط ہے۔ تفرقہ سے اسلام ترقی نہیں کرے گا۔ خلیفہ بہرحال ایک ہی ہوگا۔ اگر تم تفرقہ کروگے تو تمہارا شیرازہ بکھر جائے گا، تمہاری عزتیں ختم ہوجائیں گی اور عرب تمہیں تکا بوٹی کر ڈالیں گے۔ تم یہ بات نہ کرو۔ بعض انصار نے آپؓ کے مقابل پر دلائل پیش کرنے شروع کئے۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں: میں نے خیال کیا کہ حضرت ابوبکرؓ کو تو بولنا نہیں آتا میں انصار کے سامنے تقریر کروں گا لیکن جب حضرت ابوبکرؓ نے تقریر کی تو آپ نے وہ سارے دلائل بیان کردئیے جو میرے ذہن میں تھے۔‘‘حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ جو میرے ذہن میں تھے۔’’اور پھر اس سے بھی زیادہ دلائل بیان کئے۔‘‘ کہتے ہیں’’میں نے یہ دیکھ کر اپنے دل میں کہا کہ آج یہ بڈھا مجھ سے بڑھ گیا ہے۔آخر اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا کہ خود انصار میں سے بعض لوگ کھڑے ہوگئے اور انہوں نے کہا حضرت ابوبکرؓ جو کچھ فرمارہے ہیں وہ ٹھیک ہے۔ مکہ والوں کے سوا عرب کسی اورکی اطاعت نہیں کریں گے۔ پھر ایک انصاری نے جذباتی طور پر کہا اے میری قوم! اللہ تعالیٰ نے اس ملک میں اپنا ایک رسول مبعوث فرمایا۔ اس کے اپنے رشتہ داروں نے اسے شہر سے نکال دیا تو ہم نے اسے اپنے گھروں میں جگہ دی اور خداتعالیٰ نے اس کے طفیل ہمیں عزت دی۔ ہم مدینہ والے گمنام تھے، ذلیل تھے مگر اس رسول کی وجہ سے ہم معزز اور مشہور ہو گئے۔ اب تم اس چیز کو جس نے ہمیں معزز بنایا کافی سمجھو اور زیادہ لالچ نہ کرو ایسا نہ ہو کہ ہمیں اس کی وجہ سے کوئی نقصان پہنچے۔ اس وقت حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ دیکھو! خلافت کو قائم کرنا ضروری ہے باقی تم جس کو چاہو خلیفہ بنالو۔ مجھے خلیفہ بننے کی کوئی خواہش نہیں۔ آپ نے فرمایا یہ ابوعُبَیدہؓ بن جَرَّاح ہیں۔ ان کو رسول کریمﷺ نے امین الامت کا خطاب عطا فرمایا ہے تم ان کی بیعت کر لو۔ پھر عمرؓ ہیں یہ اسلام کے لئے ایک ننگی تلوار ہیں تم ان کی بیعت کر لو۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: ابوبکرؓ! اب باتیں ختم کیجئے۔ ہاتھ بڑھائیے اور ہماری بیعت لیجئے۔ حضرت ابوبکرؓ کے دل میں بھی اللہ تعالیٰ نے جرأت پیدا کردی اور آپ نے بیعت لے لی۔‘‘
سوال نمبر5: حضرت ابوبکرؓ نے پہلا خطبہ کیاارشادفرمایا؟
جواب: فرمایا:آپؓ نے اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا: اے لوگو! یقیناً میں تم پر والی مقرر کیا گیا ہوں لیکن میں تم میں سے سب سے بہتر نہیں ہوں۔ اگر میں اچھا کام کروں تو میرے ساتھ تعاون کرو اور کج رَوی اختیار کروں تو مجھے سیدھا کر دو۔ سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت ہے۔ تمہارا ضعیف فرد بھی میرے نزدیک قَوِی ہے جب تک میں دوسروں سے اس کا حق نہ دلا دوں۔ اور تمہارا قَوِی شخص میرے نزدیک ضعیف ہے یہاں تک کہ میں اس سے دوسروں کا حق نہ حاصل کر لوں۔ ان شاء اللہ۔ جو قوم اللہ تعالیٰ کے رستے میں جہاد کو چھوڑ دیتی ہے اللہ اس کو ذلیل و خوار کر دیتا ہے اورجس قوم میں بدکاری پھیل جاتی ہے اللہ اس کو مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اگر میں اللہ اور رسول اللہﷺ کی اطاعت کروں تو میری اطاعت کرو اور اگر میں اللہ اور رسول اللہﷺ کی نافرمانی کروں تو تم پر میری اطاعت لازم نہیں۔ نماز کے لیے کھڑے ہو جاؤ اللہ تم سب پر رحم فرمائے۔
سوال نمبر6: حضرت علیؓ کے حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کرنے کی بابت حضرت مسیح موعودؑنے کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام بیان فرماتے ہیں کہ ’’حضرت علی ؓنے اوّل اوّل حضرت ابوبکرؓ کی بیعت سے بھی تخلّف کیا تھا۔ مگر پھر گھر میں جا کر خدا جانے یک دفعہ کیا خیال آیا کہ پگڑی بھی نہ باندھی اور فوراً ٹوپی سے ہی بیعت کرنے کو آ گئے اور پگڑی پیچھے منگائی۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دل میں خیال آ گیا ہو گا کہ یہ تو بڑی معصیت ہے۔ اسی واسطے اتنی جلدی کی کہ پگڑی بھی نہ باندھی۔‘‘
سوال نمبر7:حضرت مصلح موعودؓنےحضرت ابوبکرؓ کے خلیفہ منتخب ہونے پر ان کے والد ابو قحافہ کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:حضرت مصلح موعود ؓبیان فرماتے ہیں کہ’’جب رسول کریمﷺ وفات پا گئے اور حضرت ابوبکرؓ کو مسلمانوں نے اپنا خلیفہ اور بادشاہ بنا لیا تو مکہ میں بھی یہ خبر جا پہنچی ۔ایک مجلس میں بہت سے لوگ بیٹھے تھے جن میں حضرت ابوبکرؓکے والد ابو قحافہ بھی موجود تھے۔ جب انہوں نے سنا کہ ابوبکرؓکے ہاتھ پر لوگوں نے بیعت کر لی ہے تو ان کے لئے اس امر کو تسلیم کرنا ناممکن ہو گیا اور انہوں نے خبر دینے والے سے پوچھا کہ تم کس ابوبکرؓ کا ذکر کر رہے ہو؟ اس نے کہا وہی ابوبکرؓ جو تمہارا بیٹا ہے۔ انہوں نے عرب کے ایک ایک قبیلے کا نام لے کر کہنا شروع کر دیا کہ اس نے بھی ابوبکرؓ کی بیعت کر لی ہے اور جب اس نے کہا کہ سب نے متفقہ طور پر ابوبکرؓ کو خلیفہ اور بادشاہ چن لیا ہے تو ابوقحافہ بے اختیار کہنے لگے کہ اَشْھَدُ اَنْ لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدرسول اللہؐ اس کے سچے رسول ہیں۔‘‘حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ’’حالانکہ وہ دیر سے مسلمان تھے‘‘ حضرت ابو قحافہ نے پہلے ہی آنحضرتﷺ کی بیعت کر لی تھی۔’’انہوں نے جو یہ کلمہ پڑھا اور دوبارہ محمد رسول اللہﷺ کی رسالت کا اقرار کیا تو اسی لئے کہ جب حضرت ابوبکرؓ خلیفہ ہوئے تو ان کی آنکھیں کھل گئیں اور انہوں نے سمجھا کہ یہ اسلام کی سچائی کا ایک زبردست ثبوت ہے ورنہ میرے بیٹے کی کیا حیثیت تھی کہ اس کے ہاتھ پر سارا عرب متحد ہو جاتا۔‘‘
سوال نمبر8:حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے حضرت ابوبکرؓ کی مالی قربانی کا ذکر کن الفاظ میں فرمایا؟
جواب: فرمایا:حضرت خلیفة المسیح الاولؓ بیان فرماتے ہیں کہ’’یقینا ًسمجھو کہ اللہ تعالیٰ کسی کا احسان اپنے ذمہ نہیں رکھتا۔ وہ اس سے ہزاروں لاکھوں گنا زیادہ دے دیتا ہے جس قدر کوئی خدا کے لئے دیتا ہے۔ دیکھو ابوبکر ؓنے مکہ میں ایک معمولی کوٹھا چھوڑا تھا لیکن خدا تعالیٰ نے اس کی کس قدر، قدر کی۔ اس کے بدلہ میں اسے ایک سلطنت کا مالک بنا دیا۔‘‘
سوال نمبر9: حضرت ابوبکرؓ کے ذاتی مصارف کے لیے بیت المال سے سالانہ کتنا وظیفہ مقررہوا؟
جواب: فرمایا: آپؓ کے ذاتی مصارف کے لیے سالانہ چھ ہزار درہم کی رقم منظور کی گئی۔
سوال نمبر10:حضرت ابوبکرؓ نے وفات کے وقت اپنے اہل وعیال کو کیا حکم دیا؟
جواب: فرمایا:حضرت ابوبکرؓ کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے اپنے رشتہ داروں کو حکم دیا کہ جو وظیفہ میں نے بیت المال سے لیا ہے وہ سارے کا سارا واپس کر دیا جائےاور اس کی ادائیگی کے لیے میری فلاں فلاں زمین بیچ دی جائے اور آج تک مسلمانوں کا جو مال مَیں نے اپنے اوپر خرچ کیا ہے اس زمین کو فروخت کر کے وہ پوری کی پوری رقم ادا کر دی جائے۔
سوال نمبر11:حضرت ابوبکرؓ کے بیت المال سے وظیفہ مقررہونے کی بابت حضرت مصلح موعودؓ نے کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:حضرت مصلح موعود ؓبیان فرماتے ہیں کہ’’حضرت ابوبکر ؓتمام عالمِ اسلامی کے بادشاہ تھے مگر ان کو کیا ملتا تھا۔ پبلک کے روپیہ کے وہ محافظ تو تھے مگر خود اس روپیہ پر کوئی تصرف نہیں رکھتے تھے۔ بےشک حضرت ابوبکرؓ بڑے تاجر تھے مگر چونکہ ان کو کثرت سے یہ عادت تھی کہ جونہی روپیہ آیا خدا تعالیٰ کی راہ میں دے دیا اس لئے ایسا اتفاق ہوا کہ جب رسول کریمﷺ کی وفات ہوئی اور آپؓ خلیفہ ہوئے تو اس وقت آپؓ کے پاس نقد روپیہ نہیں تھا۔ خلافت کے دوسرے ہی دن آپ نے کپڑوں کی گٹھڑی اٹھائی اور اسے بیچنے کے لئے چل پڑے۔ حضرت عمرؓ رستہ میں ملے تو پوچھا کیا کرنے لگے ہیں؟ انہوں نے کہا آخر میں نے کچھ کھانا تو ہوا۔ اگر میں کپڑے نہیں بیچوں گا تو کھاؤں گا کہاں سے؟ حضرت عمرؓ نے کہا یہ تو نہیں ہو سکتا۔ اگر آپ کپڑے بیچتے رہے تو خلافت کا کام کون کرے گا؟ حضرت ابوبکر ؓ نے جواب دیا کہ اگر میں یہ کام نہیں کروں گا تو پھر گزارہ کس طرح ہوگا؟ حضرت عمر ؓنے کہا کہ آپ بیت المال سے وظیفہ لے لیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا کہ میں یہ تو برداشت نہیں کر سکتا۔ بیت المال پر میرا کیا حق ہے؟ حضرت عمرؓ نے کہا کہ جب قرآن کریم نے اجازت دی ہے کہ دینی کام کرنے والوں پر بیت المال کا روپیہ صرف ہو سکتا ہے تو آپ کیوں نہیں لے سکتے۔ چنانچہ اس کے بعد بیت المال سے ان کا وظیفہ مقرر ہو گیا مگر اس وقت کے لحاظ سے وہ وظیفہ صرف اتنا تھا کہ جس سے روٹی کپڑے کی ضرورت پوری ہو سکے۔‘‘
سوال نمبر12:حضرت ابوبکرؓ کو خلافت پر متمکن ہونے کے بعد کن مسائل کا سامناکرناپڑا؟
جواب: فرمایا:حضرت ابوبکرؓ کو ابتدا میں ہی درج ذیل پانچ قسم کے ہم و غم اور مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔1۔آنحضرتﷺ کی وفات اور جدائی کا غم،2۔انتخاب خلافت اور امت میں فتنے اور اختلاف کا خوف وخطرہ،3۔لشکر اسامہ کی روانگی کا مسئلہ،4۔مسلمان کہلاتے ہوئے زکوٰة دینے سے انکار اور مدینہ پر حملہ کرنے والے جس کو تاریخ میں فتنہ مانعین زکوٰة کہا جاتا ہے،5۔فتنہ ارتداد یعنی ایسے سرکش اور باغی جنہوں نے کھلم کھلا بغاوت اور جنگ کا اعلان کر دیا۔
سوال نمبر13: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے دنیا کےموجودہ حالات کی بابت کیا بیان فرمایا ؟
جواب: فرمایا:دنیا کے، جنگوں کے جو آج کل کے حالات ہیں اس کے لیے دعا کریں۔ یہ خوفناک سے خوفناک ترہوتے جا رہے ہیں۔ اب تو ایٹمی جنگ کی بھی دھمکیاں دی جانے لگی ہیں۔ جیسا کہ پہلے بھی میں نے کہا ہےاور کئی دفعہ کہہ چکا ہوں کہ جس کے خوفناک نتائج ہوں گے اور اس کے نتائج اگلی نسلوں کو بھی بھگتنے پڑیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو ان لوگوں کو عقل دے۔ان دنوں میں درود بھی بہت پڑھیں۔ استغفار بھی بہت کریں۔اللہ تعالیٰ ہمارے گناہوں کو بھی معاف فرمائے اور دنیا کے لیڈروں کو بھی عقل اور سمجھ عطا فرمائے۔حضرت مسيح موعودؑ نے ايک وقت ميں جماعت کو خاص طور پر تلقين فرمائی تھی کہ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ(البقرة: 202) کی دعا بہت پڑھا کرو اور فرمايا تھا کہ رکوع کے بعد کھڑے ہو کے يہ دعا کيا کريں۔تو اس کو بھي آج کل بہت زيادہ پڑھنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ حسنات سے بھی نوازے اور ہر قسم کے آگ کے عذاب سے سب کو بچائے۔آمین
سوال نمبر14: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے کس مرحوم کا ذکرخیرفرمایا؟
جواب: حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےمکرم ابوالفرج الحصنی صاحب آف شام کا ذکرخیرفرمایا۔
٭…٭…٭