متفرق مضامین

نظامِ شوریٰ از افاضات حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ (قسط نمبر 13)

(’م م محمود‘)

نمائندگانِ شوریٰ جماعت کے تمام دوستوں کو مجلس مشاورت کی کارروائی سنائیں

’’مَیں دوستوں کو یہ نصیحت کرنا چاہتاہوں کہ جیسا کہ مَیں پہلے بھی ایک دفعہ بیان کر چکا ہوں احباب کو چاہئے کہ یہاں سے واپس جا کر جماعت کے تمام دوستوں کو مجلس مشاورت کی کارروائی سنائیں۔ جن لوگوں نے نوٹ لکھے ہوئے ہوں وہ اُن نوٹوں سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں اور جنہوں نے کارروائی کو نوٹ نہیں کیا وہ اپنے ذہن میں جس قدر باتیں محفوظ رکھ سکے ہوں وہ دوستوں کو سُنا دیں اور آئندہ کے لئے یہ نوٹ کر لیں کہ چونکہ انہوں نے ہمیشہ یہاں کی کارروائی جماعتوں کو سُنانی ہوتی ہے اِس لئے وہ اپنی نوٹ بکوں میں ضروری باتیں لکھتے رہا کریں تا کہ اُنہیں سُنانے میں آسانی ہو، یہ ایک نہایت ہی ضروری امر ہے جس کی طرف جماعت کے تمام دوستوں کو توجہ کرنی چاہئے۔ یاد رکھو لوہا جتنا زیادہ گرم ہو اُتنا ہی اچھا کُوٹا جا سکتا ہے اور جتنا ٹھنڈا ہو اسی قدر اس کے کوٹنے میں دشواری ہوتی ہے۔ جب یہاں سے دوست واپس جاتے ہیں تو چونکہ کارروائی تازہ بتازہ ہوتی ہے اس لئے اُن کے دلوں میں جوش ہوتا ہے اور جو لوگ یہاں نہیں آتے اُن کے دلوں میں بھی یہ خواہش ہوتی ہے کہ قادیان سے ہمارے نمائندے واپس آئیں تو ہم اُن سےسنیں کہ وہاں کیا کارروائی ہوئی ہے مگر جب کچھ عرصہ گزر جاتا ہے تو جوش سرد پڑ جاتا ہے۔ نہ نمائندوں کے دلوں میں سنانے کی خواہش رہتی ہے اور نہ جماعت کے دل میں سننے کی خواہش رہتی ہے۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے میاں بیوی اکٹھے جا رہے ہوں تو کوئی توجہ بھی نہیں کرتا لیکن ڈولا گزر رہا ہو تو سب لوگ اسے دیکھنے لگ جاتے ہیں۔ تو نئی چیز کی طرف لوگوں کی ہمیشہ زیادہ توجہ ہوتی ہے اور پرانی چیز کی طرف کم توجہ ہوتی ہے۔ اگر یہاں سے واپس جا کر پندرہ بیس دن تک کارروائی نہ سنائی جائے تو لوگوں کا جوش آہستہ آہستہ سرد ہو جاتا ہے لیکن اگر جاتے ہی اُنہیں کارروائی سنائی جائے اور بتایا جائے کہ یہاں کِن کِن باتوں پر بحث ہوئی ہے اور کون کون سے امور کے متعلق جماعت نے متفقہ طور پر اپنے اوپر ذمہ داری لی ہے تو اُن میں بھی عمل کرنے کی تحریک پیدا ہو اور وہ مرکزی کاموں میں پہلے سے زیادہ دلچسپی لینے لگ جائیں۔ پس دوستوں کو چاہئے کہ یہاں سے اپنی اپنی جماعتوں میں واپس جاتے ہی جلسہ کریں اور دوستوں کو تمام کارروائی سنائیں۔ اگر آپ لوگ جاتے ہی اپنی جماعت کے دوستوں سے کہیں کہ جلدی جلسہ کرو ہم نہایت ضروری باتیں سنانا چاہتے ہیں تو آپ لوگ یہ سمجھ لیں کہ آدھی فتح آپ کی اُسی وقت ہو جائے گی، اور لوگ یہ سمجھنے لگ جائیں گے کہ کوئی بڑا اہم معاملہ ہے جس کے لئے اتنی جلدی جلسہ کا انتظام کرنے کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے اور اُن کی فطرت باتوں کو قبول کرنے کے لئے تیار ہو جائے گی۔ مَیں نے خود اس کا نظارہ دیکھا ہوا ہے کہ کس طرح لوگوں کی فطرت پر اِن باتوں کا گہرا اثر ہوتا ہے۔‘‘(خطاب فرموودہ 25؍اپریل1943ء مطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلددوم صفحہ724تا725)

نمائندہ شوریٰ ایک سال تک جماعت کا نمائندہ رہتا ہے

’’میں جماعت کے نمائندوں کو اس امر کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں کہ اُن کا کام اپنی جماعت کے لوگوں کو صرف کارروائی سنا دینا نہیں بلکہ متواتر اور مسلسل اُن تک ان باتوں کو پہنچاتے رہنا ہے۔ ہر نمائندہ جو مجلس شوریٰ میں شامل ہوتا ہے اس کی نمائندگی یہاں کی کارروائی کے اختتام کے ساتھ ختم نہیں ہو جاتی بلکہ وہ ایک سال تک جماعت کا نمائندہ رہتا ہے اور اس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ سارا سال لوگوں کو تحریک کرتا رہے اور وہ باتیں اُنہیں بار بار بتائے جو یہاں پاس ہوئی ہیں۔ پس یہ مت سمجھو کہ آپ لوگوں کی نمائندگی صرف تین روز کی نمائندگی ہے۔ جس دن کوئی شخص بطور نمائندہ منتخب ہوتا ہے اس دن سے لے کر اگلی مجلس شوریٰ کے نئے انتخاب کے موقع تک وہ جماعت کا نمائندہ رہتا ہے اور جس طرح ایک نمائندہ کا فرض ہے کہ وہ اپنی جماعت کے خیالات ہم تک پہنچائے، اسی طرح اس کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ ہماری باتیں جماعت کے لوگوں تک پہنچائے۔ گویا پہلے وہ جماعت کی طرف سے نمائندہ بن کر ہمارے پاس آتا ہے اور پھر ہمارا نمائندہ بن کر جماعت کے پاس جاتا ہے اور اس کا فرض ہوتا ہے کہ جب تک نئی مجلس شوریٰ کے لئے نیا انتخاب نہیں ہوتا اُس وقت تک وہ اپنے آپ کو نمائندہ سمجھے اور یہاں کی پاس شُدہ تجاویز بار بار جماعت کے سامنے دُہراتا رہے۔ پس یہ مت سمجھیں کہ آپ لوگوں کی شوریٰ کی نمائندگی آج ختم ہو گئی ہے، آپ کی نمائندگی ختم نہیں ہوئی بلکہ سال کے آخر تک جاری رہے گی اس لئے جب تک نیا انتخاب نہ ہو آپ کا فرض ہے کہ آپ جماعت میں بیداری پیدا کریں اور اس کی سستی کو دُور کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔‘‘(خطاب فرمودہ 25؍ اپریل1943ء مطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلددوم صفحہ726تا727)

مجلسِ مشاورت میں بجٹ پرتفصیلی غور کرنے کی بابت اور شوریٰ کےدورانیہ میں اضافہ کی ضرورت سے متعلق ارشاد

’’بعض لوگ ایسی باتیں پیش کر دیتے ہیں جو غلط ہوتی ہیں اور بعض خواہ مخواہ اپنی بات کو طول دیتے چلے جاتے ہیں حالانکہ وہ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو یا تو غیر ضروری ہوتی ہیں اور یا پھر اور دوست اُن سے پہلے اُن باتوں کے متعلق اظہارِ خیالات کر چکے ہوتے ہیں۔ مگر وہ اس طرح بات میں سے بات اور پہلو میں سے پہلو نکالتے چلے جاتے ہیں کہ گویا یہاں ایک مناظرہ شروع ہے اور اُن کا فرض ہے کہ وہ دوسروں کی پیش کردہ باتوں کا ردّ کریں اور ایک ایک بات کے خلاف دلائل پیش کریں۔ لیکن جہاں یہ ایک نقص ہے جو دیکھنے میں آیا ہے وہاں اکثر باتیں ایسی بھی کہی گئی ہیں جو یقیناً قابلِ توجہ ہیں۔ اگر کام کو اس طرح ادھورا چھوڑ دیا جائے توبجٹ پر پورا غور نہیں ہو سکتا حالانکہ ہمارا منشاء یہ ہوتا ہے کہ بجٹ پر پورا غور ہو اور اس کے کسی حصّہ پر کوئی اعتراض نہ ہو سکتا ہو۔ اِن وجوہ کی بناء پر مَیں سمجھتا ہوں کہ آئندہ مجلس شوریٰ کا اجلاس منعقد ہو تو سب سے پہلے بجٹ پر ہی بحث کی جائے۔ اور اگرشوریٰ میں تینوں دن بجٹ پر ہی بحث ہوتی رہے تو بے شک تینوں دن یہ بحث جاری رہے اور دوسرے مسائل ترک کر دیئے جائیں۔ اُن معاملات پر غور کرنے کے لئے جون، جولائی یا اگست میں دوبارہ مجلس شوریٰ کا اجلاس منعقد ہوا کرے۔اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ بار بار قادیان آنا اور اِس گرانی کے زمانہ میں اخراجات برداشت کرنا بعض طبائع پر گراں گزرتا ہے مگرجوں جوں جماعت بڑھتی چلی جائے گی اِن امور کو برداشت کرنا پڑے گا۔بلکہ ممکن ہے کہ آئندہ کسی وقت وہ زمانہ بھی آ جائے جب بعض لوگوں کو شوریٰ کے لئے اپنے اکثر اوقات فارغ کر کے مستقل طور پر قادیان میں ہی رہنا پڑے۔ جیسے پارلیمنٹوں کے ممبروں کو اپنے اوقات خرچ کرنے پڑتے ہیں کیونکہ اِس کے بغیر سلسلہ کے اہم امور پر غور نہیں ہوسکے گا۔بہرحال وہ وقت تو جب آئے گا دیکھا جائے گا۔اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم ایسٹر کی تعطیلات کے دنوں میں جو مجلسِ شوریٰ منعقد کرتے ہیں وہ بعض دفعہ تمسخر بن کر رہ جاتی ہے کیونکہ سلسلہ کے جتنے معاملات ہوتے ہیں اُن پر سنجیدگی اور عمدگی سے غور نہیں کیا جا سکتا۔ میں مانتا ہوں کہ کچھ وقت ضائع بھی ہو جاتا ہے اور جہاں ایسی خرابی ہو وہاں دوستوں کو روکنا ضروری ہوتا ہے لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض ضروری بحثوں کو تنگیٔ وقت کی وجہ سے ترک کر نا پڑتا ہے اور بجٹ پر عمدگی کے ساتھ غور نہیں ہو سکتا۔

اِن حالات میں مَیں فیصلہ کرتا ہوں کہ آئندہ سال میں دو دفعہ مجلسِ شوریٰ منعقد ہوا کرے۔ ایک دفعہ تو انہی ایسٹر کی تعطیلات میں اور اس میں مقدم بجٹ کو رکھا جائے اور سب سے پہلے اسی پر غور ہو۔ اگر بجٹ پر غور کرنے کے بعد کوئی وقت بچے تو دوسرے امور کو بھی لے لیا جائے ورنہ نہیں۔ اور جب دوسرے معاملات ادھورے رہ جائیں یا بالکل ہی رہ جائیں تو جون، جولائی میں کسی وقت دوسری مجلس مشاورت منعقد کی جائے۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ ایسے ایام ہوں جب سرکاری طور پر تعطیلات ہوا کرتی ہیں کیونکہ اس میں ہر جماعت کی طرف سے ایک ایک یا دو دو نمائندہ بھی آسکتے ہیں۔ اب تو بعض دفعہ ایک ایک جماعت کی طرف سے تین تین چار چار نمائندے آجاتے ہیں او راگر کوئی بڑا شہر ہوتو وہاں کے نمائندے اِس سے بھی زیادہ ہوتے ہیں لیکن جون، جولائی یا اگست کے ایّام میں اگر سرکاری طور چھٹیاں نہ ہوں تو ہر جماعت کی طرف سے ایک ایک نمائندہ کا آنا بھی کافی ہو سکتا ہے، گورنمنٹ کے ملازم بھی ایسے موقع پر آسکتے ہیں۔ آخر ہر شخص کو حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ سال میں دس بیس روز کی چھٹی لے سکے اِس حق سے فائدہ اُٹھا کر مجلس مشاورت میں شامل ہونا اُن کے لئے کوئی بڑی بات نہیں پس آئندہ کے لئے تو مَیں یہ فیصلہ کرتا ہوں۔ اور موجودہ بجٹ کے متعلق یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ دوستوں کی طرف سے جس قدر ترمیمات پیش ہوئی ہیں وہ سب کمیٹی بجٹ کے سپرد کر دی جائیں۔ کمیٹی کسی آئندہ اجلاس میں اِن ترمیمات پر غور کر کے مناسب فیصلہ کر دے گی۔‘‘(خطاب فرمودہ 9؍اپریل1944ء مطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلدسوم صفحہ 66تا 68)

ردّ شُدہ تجاویز کی وجوہات بھی بتانی چاہئیں

’’جن تجاویز کو صدرانجمن احمدیہ نے مجلس مشاورت میں پیش کرنے سےروکا ہے اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ اُن کا روک دینا ہی مناسب تھا۔ لیکن محض یہ کہہ دینا کہ صدرانجمن احمدیہ کی رائے میں اُن کا تعلق مجلس شوریٰ سے نہیں، کافی نہیں تھا، صدرانجمن احمدیہ کو بتانا چاہیے تھا کہ اُس نے کن وجوہ کی بناء پر ان تجاویز کو ردّ کیاہے مثلاًاگر یہ کہا جاتا کہ چونکہ ایجنڈا بہت لمبا ہے اور وقت کم۔اس لئے اُن کو اگلی مجلس مشاورت میں پیش کیاجائے گا تو ایک معقول بات تھی۔ صرف یہ کہہ دینا کہ ان کا صدرانجمن احمدیہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، دلوں کو تسلی نہیں دے سکتا سوال یہ ہے کہ وہ ضرورت جو پیش کی گئی تھی۔ ضرورتِ حقّہ تھی یا نہیں۔ پھراگر تو اس کا تعلق صدرانجمن احمدیہ کے ساتھ تھا تو اُس کا اعلان کردیناچاہیے تھا کہ معاملہ محکمہ متعلقہ کے سپرد کردیا گیا ہے اور وہ اس کے علاج کے لئے تیار ہو اور اگر اُس کا مشاورت کے ساتھ تعلق تھا تو اُسے کہنا چاہیے تھاکہ اُس نے ان امور کو شوریٰ کے سامنے رکھ دیاہے اور اگر بے تعلق تھا تو اُس کی بے تعلقی کے وجوہ کو بیان کرناچاہیے تھا۔‘‘

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button