حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

تمہارے اعمال تمہارے احمدی ہونے کاثبوت دیں

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 09؍ اپریل 2004ء)

تشہد و تعوذ اور سورت فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:

وَ مَنۡ اَحۡسَنُ دِیۡنًا مِّمَّنۡ اَسۡلَمَ وَجۡہَہٗ لِلّٰہِ وَ ہُوَ مُحۡسِنٌ وَّ اتَّبَعَ مِلَّۃَ اِبۡرٰہِیۡمَ حَنِیۡفًا ؕ وَ اتَّخَذَ اللّٰہُ اِبۡرٰہِیۡمَ خَلِیۡلًا۔(النساء:126)

اس آیت کا ترجمہ یہ ہے اور دین میں اس سے بہتر کون ہو سکتا ہے جو اپنی تمام تر توجہ اللہ کی خاطر وقف کر دے اور جو احسان کرنے والا ہو اور اس نے ابراہیم حنیف کی ملت کی پیروی کی ہو اور اللہ نے ابراہیم کو دوست بنا لیا تھا۔

یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر فضل اور احسان ہے کہ اس نے ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ جس کی وجہ سے آج ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق اور غلام کی جماعت میں شامل ہیں۔ آج ہمیں اسلام کی صحیح تعلیم کی وضاحت ہو سکتی ہے، صحیح تعلیم مل سکتی ہے تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ سے ہی مل سکتی ہے۔ آج اگر ہم دنیا میں رائج بہت سی برائیوں اور بدعتوں سے اپنے آپ کو پاک کر سکتے ہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں شامل ہو کر ہی کر سکتے ہیں۔ اور یہی خدا کی منشاء ہے اور یہی اس کی مرضی ہے۔ اور اس کی خبر آج سے 14سو سال پہلے ہمیں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دے دی تھی۔ اور ہمیں بتا دیا گیا تھا کہ اسلام کی تعلیم میں بعض بدعات اور بگاڑ داخل ہو جائیں گے جنہیں مسیح محمدی ہی آکر درست کرے گا اور صحیح راستے پر چلائے گا۔ چنانچہ آپ دیکھ لیں دنیا کے ہر ملک میں مسلمانوں میں بعض ایسی روایات یا بدعات داخل ہو چکی ہیں جن کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ اور یہ سب کچھ صرف اس وجہ سے ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل نہ کرتے ہوئے اس زمانہ کے امام کی جماعت میں شامل نہیں ہو رہے۔

جیسا کہ میں نے کہا کہ آپ پر اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ اس نے آپ کو مسیح اور مہدی کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق دی۔ اس لئے آپ کا فرض بنتا ہے کہ اس احسان کا جتنا بھی شکر ادا کر سکیں کریں۔ اور شکر ادا کرنے کا بہترین طریق یہ ہے کہ اپنے اندر احمدیت قبول کرنے کے بعد نمایاں تبدیلیاں پیدا کریں۔ اپنے عمل، کردار، بات چیت اور چال ڈھال سے یہ ثابت کریں اور دنیا کو بتائیں کہ ہم ہی ہیں جو اسلام کا صحیح اور حقیقی نمونہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے ایسا زندہ تعلق پیدا کریں کہ نظر آئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے خاص بندے ہیں۔ یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے ابراہیم کو خلیل بنا لیا تھا۔ اور خلیل ایسے دوست کو کہتے ہیں جس کا پیار روح کی گہرائیوں تک میں اترتا ہو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عمل، شرک سے نفرت اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بھی ان سے پیار کیا۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو مکمل طور پر میرے آگے جھکتے ہیں اپنی تمام تر استعدادوں اور مکمل سپردگی کے ساتھ میرے احکامات پر عمل کرتے ہیں میں ان کو اپنا دوست بنا لیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میری عبادت کرنے والے اور خالص ہو کر میری عبادت کرنے والے اور میری دی ہوئی تعلیم پر عمل کرنے والے وہ کامل تعلیم اور کامل شریعت جو میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اتاری ہے، اس پر عمل کرنے والے ہیں وہ بھی میرے دوست بن سکتے ہیں۔ یہ باتیں قصے کہانیوں کے لئے نہیں لکھی گئیں، تمہیں یہ بتانے کے لئے نہیں لکھی گئیں کہ ابراہیم میرا دوست تھا بلکہ یہ اس لئے تمہیں بتائی جا رہی ہیں کہ تم بھی یہ نمونے قائم کرو، اور یہ نمونے تم تب قائم کر سکتے ہو جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری اتباع کرو، پوری اطاعت کرو۔ اگر تم چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرو تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے یہ اعلان کروا دیا ہے کہ پھر تم میری پیروی کرو۔ جیسا کہ فرمایا فَاتَّبِعُوْنِی یُحْبِبْکُمُ اللّٰہ(آل عمران :32)

اللہ تعالیٰ کا محبوب بننا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اطاعت ضروری ہے اور آپؐ کی اطاعت میں یہ بھی ضروری ہے کہ آپؐ کے غلام کامل کی جماعت میں شامل ہوا جائے۔ اور پھر جس طرح وہ حَکم اور عدل کے طور پر ہمیں اسلام کی صحیح تعلیم بتائیں اس پر عمل کیا جائے۔ تو اس لحاظ سے شکر کے ساتھ ساتھ ہم پر ایک بہت بڑی ذمہ داری بھی عائد ہو جاتی ہے کہ ہم اپنے اندر نیک تبدیلیاں پیدا کریں اور اسلام کی صحیح تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کریں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہم سے کس قسم کی پاک تبدیلی کی توقع رکھتے ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں :’’پس تمہاری بیعت کا اقرار کرنا زبان تک محدود رہا تو یہ بیعت کچھ فائدہ نہ پہنچائے گی۔ چاہئے کہ تمہارے اعمال تمہارے احمدی ہونے پر گواہی دیں۔ میں ہرگز یہ بات نہیں مان سکتا کہ خداتعالیٰ کا عذاب اس شخص پر وارد ہو جس کا معاملہ خداتعالیٰ کے ساتھ ہو۔ خداتعالیٰ اسے ذلیل نہیں کرتا جو اس کی راہ میں ذلت اور عاجزی اختیار کرے۔ یہ سچی اور صحیح بات ہے۔ پس راتوں کو اٹھ اٹھ کر دعائیں مانگو۔ کوٹھڑی کے دروازے بند کرکے تنہائی میں دعا کرو کہ تم پر رحم کیاجائے۔ اپنا معاملہ صاف رکھو کہ اللہ تعالیٰ کا فضل تمہارے شامل حال ہو۔ جو کام کرو نفسانی غرض سے الگ ہو کر کرو تا خداتعالیٰ کے حضور اجر پاؤ‘‘۔(ملفوظات جلد 5 صفحہ 272 الحکم 10؍ستمبر 1907ء)

پھر آپؑ فرماتے ہیں :’’یاد رکھو! نری بیعت سے کچھ نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ اس رسم سے راضی نہیں ہوتا جب تک کہ حقیقی بیعت کے مفہوم کو ادا نہ کرے۔ (اگر بیعت کے مفہوم کو ادا نہیں کرتے)اس وقت تک یہ بیعت، بیعت نہیں نری رسم ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ بیعت کے حقیقی منشاء کو پورا کرنے کی کوشش کرو۔ یعنی تقویٰ اختیار کرو۔ قرآن شریف کو خوب غور سے پڑھو اور اس پر تدبر کرو اور پھر(اس پر) عمل کرو کیونکہ سنت اللہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نرے اقوال اور باتوں سے خوش نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حاصل کرنے کے واسطے ضروری ہے کہ اس کے احکام کی پیروی کی جاوے۔ اور اس کے نواہی سے بچتے رہو۔ اور یہ ایک ایسی صاف بات ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان بھی نری باتوں سے خوش نہیں ہوتا بلکہ وہ بھی خدمت ہی سے خوش ہوتا ہے۔ سچے مسلمان اور جھوٹے مسلمان میں یہی فرق ہوتا ہے کہ جھوٹا مسلمان باتیں بناتا ہے کرتا کچھ نہیں۔ اور اس کے مقابلے میں حقیقی مسلمان عمل کرکے دکھاتا ہے، باتیں نہیں بناتا۔ پس جب اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے کہ میرا بندہ میرے لئے عبادت کر رہا ہے اور میرے لئے میری مخلوق پر شفقت کر رہا ہے تو اس وقت(وہ) اپنے فرشتے اس پر نازل کرتا ہے۔ اور سچے اور جھوٹے مسلمان میں جیسا کہ اس کا وعدہ ہے فرقان رکھ دیتا ہے۔ ‘‘(ملفوظات جلد نمبر 3 صفحہ 215۔ الحکم 17؍اپریل 1904ء)

تو جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ عبادات بجا لاؤ، نمازیں پڑھو، دعائیں کرو، اللہ سے اس کا فضل مانگو پھر اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی تعلیم کو سمجھو اور یہ تعلیم ہمیں قرآن کریم سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ اس لئے قرآن کریم کو بھی غور سے پڑھو، اس پر تدبر کرو، سوچو اور اس میں دئیے گئے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرو۔ کیونکہ اگر ہمیشہ کی ہدایت پانی ہے، ہمیشہ سیدھے راستے پر چلنا ہے، اللہ تعالیٰ کی عبادت کا لطف اٹھانا ہے تو پھر اس تعلیم پر عمل کرنا بھی ضروری ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم میں دی ہے۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے اِنَّ ھٰذَاالْقُرْآنَ یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ وَیُبَشِّرُالْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ۔ اَنَّ لَھُمْ اَجْرًا کَبِیْرًا۔(بنی اسرائیل:10) یقیناً یہ قرآن اس(راہ) کی طرف ہدایت دیتا ہے جو سب سے زیادہ قائم رہنے والی ہے اور ان مومنوں کو جو نیک کام کرتے ہیں بشارت دیتا ہے کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر(مقدر) ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button