مامور کا زمانہ بھی لیلۃ القدر ہوتا ہے
اب اگرچہ مسلمانوں کے ظاہری عقیدہ کے موافق لیلۃ القدر ایک متبرک رات کا نام ہے مگر جس حقیقت پر خدا تعالیٰ نے مجھ کو مطلع کیا ہے وہ یہ ہے کہ علاوہ ان معنوں کے جو مسلّم قوم ہیں لیلۃ القدر وہ زمانہ بھی ہے جب دنیا میں ظلمت پھیل جاتی ہے اور ہر طرف تاریکی ہی تاریکی ہوتی ہے تب وہ تاریکی بالطبع تقاضا کرتی ہے کہ آسمان سے کوئی نور نازل ہو۔ سو خداتعالیٰ ا س وقت اپنے نورانی ملائکہ اورروح القدس کو زمین پر نازل کرتاہے۔اسی طور کے نزول کے ساتھ جو فرشتوں کی شان کے ساتھ مناسب حال ہے تب روح القدس تو اس مجدّد اور مصلح سے تعلّق پکڑتا ہے جو اجتبا اور اصطفا کی خلعت سے مشرف ہو کر دعوت حق کے لئے مامور ہوتا ہے اور فرشتے ان تمام لوگوں سے تعلق پکڑتے ہیں جو سعید اور رشید اور مستعد ہیں اور ان کو نیکی کی طرف کھینچتے ہیں اور نیک توفیقیں ان کے سامنے رکھتے ہیں تب دنیا میں سلامتی اور سعادت کی راہیں پھیلتی ہیں اور ایسا ہی ہوتا رہتا ہے جب تک دین اپنے اس کمال کو پہنچ جائے جو اس کے لئے مقدر کیا گیا ہے۔
(شہادة القرآن، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 313-314)
(قبولیت دعا کے واسطے چار شرطوں میں سے) تیسری شرط یہ ہے کہ وقت اصفیٰ میسر آوے۔ ایسا وقت کہ بندہ اور اس کے رب میں کچھ حائل نہ ہو۔ قرآن شریف میں جو لیلةالقدر کا ذکر آیا ہے کہ وہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔یہاں لیلة القدر کے تین معنی ہیں۔ اول تو یہ کہ رمضان میں ایک رات لیلة القدر کی ہوتی ہے۔ دوم یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ بھی ایک لیلة القدر تھا یعنی سخت جہالت اور بے ایمانی کی تاریکی کے وہ زمانہ میں آیا جبکہ ملائکہ کا نزول ہوا…سوم لیلة القدر انسان کے لئے اس کا وقت اصفیٰ ہے…جتنا جتنا انسان خدا کے قریب آتا ہے۔ یہ وقت اسے زیادہ میسر آتا ہے۔
(ملفوظات جلد 2صفحہ 336 ایڈیشن 1984ء)
حضرت میاں عبد اللہ صاحب سنوریؓ اپنی ایک روایت میں بیان کرتے ہیں:
’’غالباً یہ 1884ء کی بات ہے …رمضان کا مہینہ تھا اور ستائیس تاریخ تھی اور جمعہ کا دن تھا …اور گزشتہ شب شَب قدر تھی کیونکہ میں نے حضرت صاحبؑ سے سنا ہوا تھا کہ جب رمضان کی ستائیس تاریخ اور جمعہ مل جاویں تو وہ رات یقیناً شب قدر ہوتی ہے…‘‘
(سیرت المہدی حصہ اول روایت نمبر 100 صفحہ 72۔73)