نمازاورروزےکاربط

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’جس طرح قانونِ قدرت میں ایک ترتیب اور ربط موجود ہے اسی طرح عبادتوں میں بھی ربطِ ہے مگر یہ بات صرف شریعت اسلامیہ میں ہی پائی جاتی ہے باقی شرائع میں نہیں۔ ان میں نماز۔ زکوٰۃ اور روزہ کی قسم کی عبادتیں ہیں۔ مگر ان کا آپس میں کوئی ربط نہیں۔ وہ ایسی ہی ہیں جیسے بکھری ہوئی اینٹیں۔ لیکن شریعت اسلامیہ کو اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس کا ہر حکم اپنے اندر ایک اور حکمت رکھتے ہیں۔ اس کی ایک مثال نماز اور روزہ ہے۔ نماز اپنی ذات میں ایک سبق رکھتی ہے اور روزہ بھی اپنی ذات میں ایک سبق رکھتا ہے۔ مگر پھر نماز اور روزہ مل کر ایک اور سبق رکھتے ہیں۔ اگر نماز نہ ہوتی صرف روزے ہوتے تو یہ سبق رہ جاتا ۔ اگر اگر روزے نہ ہوہتے صرف نماز ہی ہوتی تب بھی یہ سبق رہ جاتا۔ بیشک روزے اپنی ذات میں مفید ہیں اور نماز اپنی ذات میں مفید ہے جس طرح اسلام کی ساری عبادتیں اپنی اپنی ذات میں مفید ہیں لیکن نماز اور روزہ مل کر ایک نیا سبق دیتے ہیں جس کا میں اس موقعہ پر ذکر کر رہا ہوں۔

نماز کا اصل مقام طہارت ہے جسے وضو کی حالت کہتے ہیں۔ اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص وضو کر کے نماز کے لئے بیٹھ جات اہے وہ نماز ہی کی حالت میں ہوتا ہے ۔ نماز اس حالت کا انتہائی مقام ہے ۔ ورنہ اصل نماز مومن کی وہ قلبی کیفیت ہے جو وضو سے تعلق رکھتی ہے۔ اب یہ دیکھنا چاہیے کہ وضوکی کیا حقیقت ہے؟ وضو کے ذریعہ جو فعل ہم کرتے ہیں وہ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کہ کوئی چیز جسم سے خارج نہ ہو خواہ وہ پیشاب پاخانہ کے رنگ میں خارج ہو خواہ مرد عورت کے تعلقات کے ذریعہ سے خارج ہو یا اور ایسے رنگوں سے خارج ہو جن سے طہارت کو نقصان پہنچتا ہے۔ غرض وضو کا مدار کسی چیز کے جسم سے نہ نکلنے پر ہے۔ اس لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ نماز کی طہارت کا مدار اس امر پر ہے کہ کوئی چیز جسم سے خارج نہ ہو۔ لیکن روزہ کی طہارت کا مدار اس امر پر ہے کہ کوئی چیز جسم کے اندر داخل نہ ہو۔ بیشک روزہ میں مرد و عورت کے تعلقات سے بھی روکا گیا ہے۔ مگر یہ اس لئے ہے کہ روزہ کی حالت میں انسان کی کلی توجہ اور طرف نہ ہو۔ ورنہ روزہ کا اصل مدار کسی چیز کے جسم میں داخل نہ ہونے پر ہے۔ اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ روزہ کا مدار اس امر پر ہے کہ کوئی چیز جسم میں داخل نہ ہو۔ اگر صرف نماز ہی ہوتی اور وضو صرف ظاہری صفائی ہوتا تو کہا جاتا کہ اس سے مراد صرف ہاتھ منہ اور پاؤں کا دھونا ہے۔ اسی طرح اگر روزہ ہوتا اور کوئی چھوٹی چھوٹی چیز کھالی جاتی تو کہا جاسکتا تھا کہ روزہ سے مراد فاقہ کرانا ہے۔ لیکن جسم سے کچھ خارج ہونے سے وضو کا باطل ہو جانا اور کسی چیز کے جسم میں داخل ہونے سے روزہ کا ٹوٹ جانا بتاتا ہے کہ کسی چیز کے خارج ہونے کا نماز سے اور کسی چیزکے اندر داخل ہونے کا روزہ سے تعلق ہے۔ اور ان دونوں کو ملا کر یہ لطیف بات نکلتی ہے کہ انسان طہارت میں اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتا جبتک وہ دو احتیاطیں نہ کرے۔ یعنی بعض چیزیں اپنے جسم سے نکلنے نہ دے اور بعض چیزیں داخل نہ ہونے دے۔ اگر ہم ان دو باتوں کا لحاظ رکھ لیں کہ بعض چیزوں کو جسم سے نکلنے نہ دیں اور بعض کو داخل نہ ہونے دیں تو طہارت کامل ہو جاتی ہے۔ نماز اور روزہ سے مجموعی طور پر انسان کو یہ گُر سکھایاگیا ہے کہ ہر انسان کو یہ امر مدنظر رکھنا چاہیے کہ بعض چیزوں کے جسم سے نکلنے کی وجہ سے وہ ناپاک ہو جاتا ہے ان کو نکلنے نہ دے اور بعض چیزوں کے جسم میں داخل ہونے کی وجہ سے وہ ناپاک ہو جاتا ہے انہیں داخل نہ ہونے دے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد 2 صفحہ 381)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button