متفرق مضامین

یاجوج وماجوج کی زمینی تدبیریں اور خداتعالیٰ کی آسمانی تقدیریں (قسط دوم۔ آخری)

(حضرت مولانا ظفر محمد ظفر)

قرآنی آیات اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ چودھویں صدی ہجری زلزلۃ الساعۃ کی صدی ہے اور پندرھویں صدی رُبع اوّل کے بعد اسلامی فتوحات کی صدی ہے۔ اِس صدی میں انسانیت پر بارانِ رحمت برسنا شروع ہوجائے گا اور جو قومیں روحانی طور پر مُردہ ہوچکی ہیں وہ زندہ کی جائیں گی حتیٰ کہ مغرب میں بھی آفتابِ اسلام چمک اُٹھے گا اور تثلیث پر توحید غالب آجائے گی اور زمین اپنے رب کے نور سے جگمگا اُٹھے گی

اِن حوالہ جات کے بعد اب حدیث شریف اور قرآن کریم کے چند حوالہ جات ملاحظہ ہوں۔ حدیث کی کتاب ترمذی شریف باب ’’فتنہ دجال‘‘ میں لکھا ہے:

وَيَبْعَثُ اللّٰهُ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ وَهُمْ كَمَا قَالَ اللّٰهُ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُوْنَ قَالَ فَيَمُرُّ أَوَّلُهُمْ بِبُحَيْرَةِ الطَّبَرِيَّةِ فَيَشْرَبُ مَا فِيْهَا ثُمَّ يَمُرُّ بِهَا آخِرُهُمْ فَيَقُوْلُ لَقَدْ كَانَ بِهٰذِهِ مَرَّةً مَاءٌ ثُمَّ يَسِيْرُوْنَ حَتَّى يَنْتَهُوْا إِلَى جَبَلِ بَيْتِ المَقْدِسٍ فَيَقُوْلُوْنَ لَقَدْ قَتَلْنَا مَنْ فِي الْأَرْضِ هَلُمَّ فَلْنَقْتُلْ مَنْ فِي السَّمَاءِ۔ فَيَرْمُوْنَ بِنُشَّابِهِمْ إِلَى السَّمَاءِ فَيَرُدُّ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ نُشَّابَهُمْ مُحْمَرًّا دَمًا وَيُحَاصَرُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَأَصْحَابُهُ حَتَّى يَكُوْنَ رَأْسُ الثَّوْرِ يَوْمَئِذٍ خَيْرًا لِأَحَدِهِمْ مِنْ مِائَةِ دِينَارٍ لِأَحَدِكُمْ الْيَوْمَ۔ قَالَ فَيَرْغَبُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ إِلَى اللّٰهِ وَأَصْحَابُهُ قَالَ فَيُرْسِلُ اللّٰهُ إِلَيْهِمْ النَّغَفَ فِي رِقَابِهِمْ فَيُصْبِحُوْنَ فَرْسَى مَوْتَى كَمَوْتِ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ قَالَ وَيَهْبِطُ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ فَلَا يَجِدُ مَوْضِعَ شِبْرٍ إِلَّا وَقَدْ مَلَأَتْهُ زَهَمَتُهُمْ وَنَتَنُهُمْ وَدِمَاؤُهُمْ قَالَ فَيَرْغَبُ عِيسَى إِلَى اللّٰهِ وَأَصْحَابُهُ قَالَ فَيُرْسِلُ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ طَيْرًا كَأَعْنَاقِ الْبُخْتِ قَالَ فَتَحْمِلُهُمْ فَتَطْرَحُهُمْ بِالْمَهْبِلِ وَ يَسْتَوْقِدُ الْمُسْلِمُونَ مِنْ قِسِيِّهِمْ وَ نُشَّابِهِمْ وَجِعَابِهِمْ سَبْعَ سِنِينَ۔ (سنن الترمذي كتاب الفتن عن رسول اللّٰه باب ما جاء في فتنة الدجال)یعنی پھر اللہ تعالیٰ یاجوج ماجوج کو کھڑا کرے گا اور وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ’’ مِنْ کُلِّ حَدَبٍ یَنْسِلُوْنَ‘‘کے مصداق ہوں گے اور وہ اتنے زیادہ ہوں گے کہ اُن کا اگلا حصہ بحیرہ طبریہ کے پاس سے گزرے گا تو اُس کا سارا پانی پی جائے گا۔ پھر اُن کا آخری حصہ جب اُسی جگہ سے گزرے گا تو وہ کہے گا کہ یہاں تو کبھی پانی ہوا کرتا تھا۔ پھر وہ آگے بڑھیں گے اور بیت المقدس کے پہاڑ پر جا پہنچیں گے اور کہیں گے کہ ہم نےزمین کے لوگوں کو تو قتل کردیا ہے آؤ اب اُن کو قتل کریں جو آسمان میں ہیں۔ پھر وہ آسمان کی طرف تیر چھوڑیں گے اور اللہ تعالیٰ ان کے تیروں کو خون آلودہ کرکے واپس بھیجے گا۔ نیز عیسیٰ بن مریم اور ان کے ساتھیوں کا محاصرہ کیاجائے گا یہاں تک کہ ایک راس بیل ان کےلیے اس سے کہیں بہترہوگا جتنے کہ آج تم میں سے کسی کو سو دینارپیارے ہوں۔ پھر عیسیٰ علیہ السلام اور اُن کے ساتھی اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے اور اللہ تعالیٰ یاجوج ماجوج کی گردنوں میں ایک کیڑا پیدا کردےگا سو وہ سب صبح کو اِس طرح مرے پڑے ہوں گے جیسے کہ کوئی ایک شخص مر جاتا ہے۔ پھر عیسیٰ علیہ السلام اُتریں گے (یعنی اُن پہاڑیوں سے جہاں انہوں نے پناہ پائی تھی) وہ کوئی جگہ ایسی نہ پائیں گے جو یاجوج ماجوج کی گندگی، بدبو اور خون سے خالی ہو۔ اس پر (حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃوالسلام) اور اُن کے ساتھی اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے۔ تب اللہ تعالیٰ لمبی گردن والے اونٹ جیسے پرندے بھیجے گا اور وہ انہیں اٹھاکر غاروں میں پھینک دیں گے اور مسلمان ان کی کمانوں، تیروں اور ترکشوں سے سات سال تک آگ جلاتے رہیں گے۔

اِس روایت میں آسمان سے تیروں کے خون آلودہ ہوکر واپس آنے کا جو ذکر ہے اس میں ایک لطیف اشارہ ہے اور وہ یہ کہ یاجوج اپنے راکٹ آسمان پر چھوڑ کر اپنے اِس دعویٰ میں اور بھی مضبوط ہوجائیں گے کہ کوئی خدا موجود نہیں ہے۔ اور وہ پھر اعلان کریں گے کہ اے خدا کو ماننے والو ہم نے اپنے راکٹ چھوڑ کر آسمان کو دیکھ لیا ہے وہاں کوئی خدا موجود نہیں۔ لہٰذا آج تمہارا موہوم خدا ہمارے ہاتھوں مقتول ہوچکا ہے۔

اور پھر دوسری جہت سے تیروں کے خون آلودہ ہوکر واپس ہونے میں یہ اشارہ ہے کہ گویا اللہ تعالیٰ انہی تیروں کو جو یاجوج اسے قتل کرنے کے ارادے سے چھوڑے گا خون آلودہ کرکے واپس کردے گا اور یہ اس بات کی علامت ہوگی کہ اے یاجوج تو جن تیروں سے مجھے قتل کرنا چاہتاہے میں انہی تیروں کوتیرے خون سے رنگین کروں گا۔ اور بڑے بڑے پرندوں سے مراد علاوہ پرندوں کے ہوائی جہاز بھی ہوسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یاجوج ماجوج کے عبرتناک انجام پر روشنی ڈالنے کےلیے اصحابِ فیل کے واقعہ کو بیان فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ جس طرح اصحابِ فیل کو طیرابابیل نے تباہ کیا تھا اسی طرح آئندہ البیت الحرام کے دشمنوں کو اللہ تعالیٰ طیاروں یعنی ہوائی جہازوں کے حملوں سے تباہ کرے گا اور پھر جس طرح اصحاب فیل وبا سے تباہ ہوگئے تھے اسی طرح یہ لوگ بھی وباؤں وغیرہ سے تباہ کیے جائیں گے۔

اب قرآن کریم کی پیشگوئیاں بھی ملاحظہ ہوں۔ سورۃ الانبیاءمیں ارشادہے وَحَرٰمٌ عَلٰى قَرْيَةٍ اَهْلَكْنٰهَآ اَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُوْنَ۔ حَتّٰٓى اِذَا فُتِحَتْ يَاْجُوْجُ وَمَاْجُوْجُ وَهُمْ مِّنْ كُلِّ حَدَبٍ يَّنْسِلُوْنَ۔ وَاقْتَرَبَ الْوَعْدُ الْحَقُّ فَاِذَا هِيَ شَاخِصَةٌ اَبْصَارُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا يٰوَيْلَنَا قَدْ كُنَّا فِيْ غَفْلَةٍ مِّنْ هٰذَا بَلْ كُنَّا ظٰلِمِيْنَ۔ (الانبیاء: 96تا98)یعنی یہ ناممکن ہے کہ کوئی بستی جسے ہم ہلاک کرچکے ہیں (پھر اس جہان میں ) رجوع کرے حتیٰ کہ جب یاجوج و ماجوج کو کھول دیا جائے گا اور وہ ہر نشیب و فراز سے دوڑ پڑیں گے اور وہ وعدہ جو اٹل ہے قریب آجائے گا تو اس وقت ناشکرے انسانوں کی آنکھیں کُھل جائیں گی اور وہ بے اختیار کہہ اُٹھیں گے کہ وائے مصیبت !ہم تو اِس حقیقت سے بالکل غافل تھےاور صرف یہی نہیں بلکہ ہم ظالم بھی تھے۔

اِس آیت میں ’’لَا یَرْجِعُوْنَ‘‘کے یہ معنے نہیں ہیں کہ یاجوج و ماجوج کے کُھل جانے پر تمام ہلاک شدہ قومیں اپنے اجسام کے ساتھ دنیا میں دوبارہ زندہ ہوجائیں گی بلکہ مراد یہ ہے کہ جب یاجوج و ماجوج کا ظہور ہوگا۔ تو وہ زمانہ رجعت بروزی کا زمانہ ہوگا یعنی ایک طرف تو تمام ہلاک شدہ قوموں کے گناہ دوبارہ اِس دنیا میں اپنے انتہائی نقطہ تک پہنچ کر دوبارہ عود کر آئیں گے اور دوسری طرف ان ہلاک شدہ قوموں کے ناصح انبیاء کی روحانی طاقتیں انتہائی جوش میں آجائیں گی اور اس صورت ِ حالات کا نتیجہ یہ ہوگا کہ پہلے اہلِ کفر پر ہمہ گیر تباہی آئے گی اور پھر اہلِ ایمان کو ہمہ گیر غلبہ نصیب ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ اِسی سورہ انبیاء کے شروع میں فرمایا: اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَ۔ (الانبیاء: 2)یعنی لوگوں کے حساب کتاب کا وقت سر پر آپہنچا ہے مگر وہ غفلت اور ناعاقبت اندیشی کے باعث بے رُخی کا شکار ہیں۔ پھر فرمایا: مَآ اٰمَنَتْ قَبْلَهُمْ مِّنْ قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَاهَا أَفَهُمْ يُؤْمِنُوْنَ۔ (الانبیاء: 7) یعنی ان سے پہلے ہم نے جن بستیوں کو ہلاک کیا تھا وہ کفر پر اصرار کرنے اور انبیاء کی بات نہ ماننے کے باعث ہلاک کی گئی تھیں۔ سو اب یہ کیونکر ممکن ہے کہ یہ لوگ فوراً ایمان لے آئیں لہٰذا یہ غافل بھی جب تک عذاب میں مبتلا نہ کیے جائیں گے اس وقت تک متوجہ نہ ہوں گے اور اگر عذاب بھی اُنہیں متوجہ نہ کرسکا تو پھر سابقہ اقوام کی طرح ہلاک کر دیے جائیں گے۔ لہٰذا اِس آیت کی روشنی میں أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُوْنَ کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُوْنَ یعنی دنیا کےلوگ اس وقت تک اسلام کی طرف رجوع نہیں کریں گے۔ جب تک کہ یاجوج و ماجوج کی ہلاکت اُن کی آنکھیں نہ کھول دے۔ اِس موقع پر یہ امر قابل ذکر ہے کہ قرآن کریم کی تمام سورتیں زمانے کو اپنے کلمات کے مطابق چلارہی ہیں اور وہ باوجود ہمہ گیر ہونے کے اپنے اندر کسی خاص زمانے کی خصوصیات کو بھی لیے ہوئے ہیں۔ سورۃ الانبیاء کا تعلق چودھویں صدی ہجری اور اس کے بعد کے زمانہ سے ہے۔

آخری انجام

اب اِس حقیقت کے واضح ہوجانے کے بعد کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیریں یاجوج و ماجوج کی تدبیروں کو خاک میں ملاکر اُن کو مٹانےپر تلی کھڑی ہیں۔ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اِس قیامت نما زلزلے کے بعد دنیا کا مستقبل کیا ہوگا۔ آیا دنیا خدا تعالیٰ کی منکر ہو جائے گی یا تین خدا مانے گی یا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کی قائل ہو جائے گی؟ سو اِس بارے میں قرآن کریم اور احادیث میں بہت سی پیشگوئیاں موجود ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ اور تو اور مغربی اقوام بھی جو تثلیث پرست ہیں لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کی قائل ہو جائیں گی اور تثلیث پر توحید غالب آجائے گی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرق و مغرب میں مقام محمود حاصل ہو جائے گا اور یہ وہ حقیقت ہے جس کے ظاہر ہوکر رہنے کے نہ صرف قرآن و حدیث مدعی ہیں بلکہ بائبل میں بھی اس کی تصدیق میں متعدد حوالے پائے جاتے ہیں۔ مکاشفہ یوحنا عارف کا بیشتر حصہ اسی حقیقت کے اظہار کےلیے وقف ہے لیکن اس وقت طوالت سے بچنے کےلیے صحفِ سماوی کے صرف چند حوالہ جات پیش کیے جاتے ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دین اِسلام تمام ادیان پر غالب آجائے گا۔ نیز یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ جس مبارک وجود کے ذریعے یہ انقلاب آئے گا وہ مبارک وجود اس زمانے میں پیدا ہوگا اور کہاں پیدا ہوگا۔ چنانچہ دانیال نبی کی کتاب میں لکھا ہے کہ’’پھر مَیں دانی ایل نے نظر کی اور کیا دیکھتا ہوں کہ دو شخص اور کھڑے تھے۔ ایک دریا کے اِس کنارہ پر اور دوسرا دریا کے اُس کنارہ پر اور ایک نے اُس شخص سے جو کتانی لباس پہنے تھا اور دریا کے پانی پر کھڑا تھا پوچھا کہ ان عجائب کے انجام تک کتنی مدّت ہے؟ اور میں نے سنا کہ اس شخص نے جو کتانی لباس پہنے تھا جو دریا کے پانی کے اُوپر کھڑا تھا دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کرحیّ القیومکی قسم کھائی اور کہا کہ ایک دَور اور دَور اور نیم دَور۔ اور جب وہ مقدس لوگوں کے اقتدار کو نیست کرچکیں گے تو یہ سب کچھ پورا ہوجائے گا۔ اور میں نے سُنا پر سمجھ نہ سکا۔ تب میں نے کہا اے میرے خداوندان کا انجام کیا ہوگا؟ اس نے کہا اے دانی ایل تو اپنی راہ لے کیونکہ یہ باتیں آخری وقت تک بندوسر بمہر رہیں گی اور بہت لوگ پاک کیے جائیں گے اور صاف و براق ہوں گے لیکن شریر شرارت کرتے رہیں گے اور شریروں میں سے کوئی نہ سمجھے گا پر دانشور سمجھیں گے اور جس وقت سے دائمی قربانی موقوف کی جائے گی اور وہ اُجاڑنے والی مکروہ چیز نصب کی جائے گی ایک ہزار دو سو نوے دن ہوں گے۔ مبارک ہے وہ جو ایک ہزار تین سو پینتیس روز تک انتظار کرتاہے۔ پر تُو اپنی راہ لے جب تک کہ مدّت پوری نہ ہو کیونکہ تو آرام کرے گا اور ایام کے اختتام پر اپنی میراث میں اُٹھ کھڑا ہوگا ‘‘ (دانیال باب 12آیات5تا13)

اس حوالے میں اُس مبارک وجود کے زمانہ کی نشاندہی کی گئی ہے کہ جس کی آمدسے پہلے مقدس لوگوں یعنی مسلمانوں کے اقتدار کو یاجوج و ماجوج یا دابۃ الارضاور دجال نے نیست و نابود کردینا تھا اور جس کے وصال کے بعد خود یاجوج ماجوج، دابۃ الارضاور دجال کا نیست ونابود ہونا مقدر تھا۔ اس حوالے میں ایک دور، دور اور نیم دور سے مراد ایک ہزار سال اور دو سو سال اور پچاس سال کازمانہ ہے جس کی طرف قرآن شریف میں ’’ لَیَالٍ عَشْرٍ‘‘ یعنی دس صدیاں اور ’’وَالشَّفْعِ‘‘ یعنی دو صدیاں اور پھر ’’وَالْوَتْرِ‘‘ اور ایک صدی کے الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے اور حدیث شریف میں اَلْاٰ یَاتُ بَعْدَ الْمِائَتَیْنِ یعنی’’ عجائب‘‘آیات کا زمانہ بارہ سو سال کے بعد شروع ہوگا۔ گویا دانیال کے ان الفاظ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیدائش کے سال کی تعیین کی گئی یعنی وہ 1250ہجری میں پیدا ہوں گے اور اسی حقیقت کو مکاشفہ یوحنا عارف میں ظہور نبوی کے زمانہ سے1260 سال کی تعیین کی گئی ہے۔ اور پھر اسی حوالہ میں 1290 سال کا حوالہ دے کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی چالیس سال کی عمر اور بعثت کا وقت دکھایا گیا ہے اور پھر1335 سال تک انتظار کرنے کی ہدایت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وصال کا سن دکھایاگیا ہے کیونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے پورے 1335 سال بعد مرفوع الی اللہ ہوئے کیونکہ حضور کا وصال 1326 ہجری میں ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ظہور ہجرت سے نو دس سال پہلے ہوا کیونکہ مکی زندگی کی نبوت کاکل عرصہ بارہ تیرہ سال کے مابین ہے اور نبوت کے ابتدائی تین چار سال اخفا کے ہیں۔

نیز دانیال نبی کے الفاظ میں اِس حقیقت کو بھی ظاہر کردیا گیا ہے کہ جب وہ مبارک وجود آئے گا تو تمام انبیاء اپنی میراث میں اُٹھ کھڑے ہوں گے گویا اس کا زمانہ رجعت بروزی کا زمانہ ہوگا اور اس کی آمد’’زندہ شدہر نبی بہ آمد نم‘‘ (روحانی خزائن جلد 18 نزول المسیح صفحہ478)کی مصداق ہوگی۔

حضرت دانیال کی اِس پیشگوئی کے بعد اب حضرت یسعیاہ کی پیشگوئی بھی ملاحظہ ہو۔ اس پیشگوئی میں اُس ملک کی نشاندہی کی گئی ہے جس ملک میں موعود اقوامِ عالم نے پیدا ہونا تھا۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں: ’’آہ! بہت سے لوگوں کا ہنگامہ ہے جو سمندر کے شور کی مانند شور مچاتے ہیں اور امتوں کا دھاوا بڑے سیلاب کے ریلے کی مانند ہے اُمتیں سیلاب عظیم کی طرح آ پڑیں گی پروہ ان کو ڈانٹے گا اور وہ دُور بھاگ جائیں گی اور اس بھوسے کی طرح جو ٹیلوں کے اُوپر آندھی سے اُڑتاپھرے اور اس گرد کی مانند جو بگولے میں چکر کھائے رگیدی جائیں گی شام کے وقت تو ہیبت ہے صبح ہونے سے پیشتر وہ نابود ہیں۔ یہ ہمارے غارت گروں کا حصہ اورہم کو لوٹنے والوں کا بخرہ ہے۔ آہ ! ’’پرندوں کے ‘‘ پروں کے پھڑپھڑانے کی سرزمین جو کوش کی ندیوں کے پار ہےجو دریا کی راہ سے بردی کی کشتیوں میں سطحِ آب پر ایلچی بھیجتی ہے۔ اے تیز رفتار ایلچیو !اس قوم کے پاس جاؤ جو زور آور اور خوبصورت ہے۔ اس قوم کے پاس جو ابتدا سے اب تک مہیب ہے۔ ایسی قوم جو زبردست اور فتح یاب ہے۔ جس کی زمین ندیوں ں سے منقسم ہے۔ اے جہان کے تمام باشندو! اور اے زمین کے رہنے والو ! جب پہاڑوں پر جھنڈا کھڑا کیا جائے تو دیکھو اور جب نرسنگا پھونکا جائے تو سُنو…اُس وقت ایک ہدیہ ربّ الافواج کے نام کے مکان پر جو کوہ صیُون ہےپہنچایاجائے گا۔‘‘ (یسعیاہ باب17آیت: 12تا14۔ باب18 آیت 2,3,7)

[نوٹ:۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلافتِ ثانیہ میں جبل الکرمل پر مسجد محمود کی تعمیر ہوئی۔ وہاں سے رسالہ البشریٰ کے ذریعہ قوموں کو اسلام کی دعوت دی جارہی ہے۔ پیشگوئیاں ذوالوجوہ اور اخفاء پر مشتمل ہوتی ہیں۔ (ابو العطاء)]

اس حوالے میں کوش کے پار جو ملک بتایا گیا ہے اس سے مراد ہندوستان ہے کسی زمانہ میں یہ کوش جس سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اسلاف بھی تشریف لائے ہندوستان کا ایک صوبہ تھا۔ بائبل کی کتاب آستر کی پہلی اور دوسری آیت میں اسی کوش کو ہندوستان کا صوبہ دکھایا گیا ہے اور اسی کوش اور ہندوستان کے درمیان کوہ ’’ہند۔ و۔ کوش‘‘ حدِ فاصل بنا ہوا ہے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ اِس حوالے میں جس وجود کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے اس نے ہندوستان میں پیدا ہونا تھا۔ اور پھر آگے اسی حوالے میں اُس صوبے کی بھی تعیین کردی گئی ہے کہ جس صوبے میں اس نے پیدا ہونا تھا اور بتایا گیا ہے کہ جس کی زمین ندیوں میں منقسم ہے۔ گویا مراد پنجاب ہے اور پہاڑوں پر جھنڈا کھڑا کیے جانے کی علامت بھی نہایت عجیب ہے۔ اب قادیان ثانی یعنی ربوہ جہاں آباد ہوا ہے وہ پہاڑیوں کی سرزمین ہے اور فلسطین میں جماعت احمدیہ کا مرکز جبل الکرمل یعنی کوہِ کرمل پرہے اور کرملؔ سے مراد کرم اللہ یا کرم ایل یعنی اللہ کا کرم ہے۔ اوریہ وہ علاقہ ہے جہاں صیہونیت کا تسلط ہے۔

اِس کے بعد اب حضرت زکریا نبی کی پیشگوئی بھی ملاحظہ ہو۔ آپ فرماتے ہیں: ’’ایک دن ایسا آئے گا جو خداوند ہی کو معلوم ہے۔ وہ نہ دن ہوگا نہ رات لیکن شام کے وقت روشنی ہوگی اور اُس روز یروشلم سے آبِ حیات جاری ہوگا جس کا آدھا بحر مشرق کی طرف بہے گا اور آدھا بحرِ مغرب کی طرف۔ گرمی سردی میں جاری رہےگا۔ اور خداوند ساری دنیا کا بادشاہ ہوگا اور اس کانام واحد ہوگا۔‘‘(زکریا باب 14آیت7تا9)

اِس پیشگوئی میں جس یروشلم کا ذکر ہے اس سے مراد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا شہر قادیان ہے جیسے کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے اپنی کتاب نزول المسیح میں اس کے متعلق صراحتاً فرمایا ہے کہ اس سے مراد قادیان ہے اور یہ تاویل ایک ایسی تاویل ہے کہ جس کی صحت کا ثبوت اسی کتاب زکریا کے ایک دوسرے حوالے سے ملتا ہے اور وہ حوالہ یہ ہے: ’’ربّ الافواج فرماتا ہے اے تلوار تو میرے چرواہے یعنی اس انسان پر جو میرا رفیق ہے بیدارہو چرواہے کو مارکہ گلّہ پراگندہ ہو جائے اور میں چھوٹوں پرہاتھ چلاؤں گا۔ اور خداوند فرماتا ہے سارے ملک میں دو تہائی قتل کئے جائیں گے اور مریں گے لیکن ایک تہائی بچ رہیں گے اور میں اس تہائی کو آگ میں ڈال کر چاندی کی طرح صاف کروں گا اور سونے کی طرح تاؤں گا وہ مجھ سے دعا کریں گے اور میں ان کی سنوں گامیں کہوں گا یہ میرے لوگ ہیں اور وہ کہیں گے خداوند ہی ہمارا خدا ہے۔‘‘(زکریا باب 13آ یت 7تا9)

اِس حوالے میں اُن تمام فتنوں کی طرف اشارہ ہے جو آج تک مسلمانوں کی خون ریزی کےلئے اٹھائے گئے ہیں جن میں وہ فسادات خاص طور پر شامل ہیں۔ جو 1947ء میں رونما ہوئے اور جو مسلمانوں کے خلاف انگریزوں ہندوؤں اور سکھوں کی باہمی سازش کا نتیجہ تھے، ان فسادات کی طرف اشارہ کرنے والے اسی نبی زکریا کے ذیل کے الفاظ بھی ملاحظہ ہوں: ’’ دیکھو خداوند کا دن آتا ہے جب تیرا مال لُوٹ کر تیرے اندر بانٹا جائے گا کیونکہ میں سب قوموں کو فراہم کروں گا کہ یروشلم (یعنی مسیح موعود کے شہر) سے جنگ کریں اور شہر لے لیا جائے گا۔ اور گھر لوٹے جائیں گے او ر عورتیں بے حرمت کی جائیں گی اور آدھا شہر اسیری میں جائے گا لیکن باقی لوگ شہر ہی میں رہیں گے۔ تب خداوند خروج کرے گا او ران قوموں سے لڑے گا جیسے جنگ کے دن لڑا کرتاتھا…اور خداوند یروشلم سے جنگ کرنے والی سب قوموں پر یہ عذاب نازل کرے گا کہ کھڑے کھڑے ان کا گوشت سُوکھ جائے گا اور اُن کی آنکھیں چشم خانوں میں گل جائیں گی اور اُن کی زبان اُن کے منہ میں سڑ جائے گی اور اس روز خداوند کی طرف سے اُن کے درمیان بڑی ہل چل ہوگی اور یروشلم سے لڑنے والی قوموں میں سے جو بچ رہیں گے سال بہ سال بادشاہ ربّ الافواج کو سجدہ کرنے اور عید خیام منانے کو آئیں گے۔‘‘(زکریا باب 14آیت 1تا16)

اس حوالے میں تمام باتیں واضح ہیں پیشگوئیوں میں اخفا بھی ہوتا ہے او ر ان کے الفاظ بہت وسیع معانی پر مشتمل ہوتے ہیں اس جگہ ’’سال بہ سال‘‘آنے سے مراد ایک توحج کےلیے خانہ کعبہ کی طرف جانا ہے اور دوسرے جلسہ سالانہ مسیح موعود کی بستی میں حاضر ہونا ہے۔

پھر مکاشفہ باب 21 میں لکھا ہے: ’’پھر میں نے ایک نئے آسمان او رنئی زمین کو دیکھا کیونکہ پہلا آسمان اور پہلی زمین جاتی رہی تھی اور سمندر بھی نہ رہا ۔(یعنی یاجوج و ماجوج جو خشکی اور تری پر چھائے ہوئے تھے ختم ہوچکے تھے) پھر میں نے شہر مقدس نئے یروشلم کو آسمان پر سے خدا کے پاس سے اُترتے دیکھا اور وہ اس دلہن کی مانند آراستہ تھا جس نے اپنے شوہر کے لیے سنگھار کیا ہو۔ پھر میں نے تخت میں سے کسی کو بلند آواز سے یہ کہتے سنا کہ دیکھ خدا کا خیمہ آدمیوں کے درمیان ہے اور وہ اُن کے ساتھ سکونت کرے گا اوروہ اس کے لوگ ہوں گے اور خدا آپ اُن کے ساتھ رہے گا اور اُن کا خدا ہوگا اور وہ اُن کی آنکھوں کے سب آنسوپونچھ دے گا۔ اس کے بعد نہ موت رہے گی اور نہ ماتم رہے گا۔ نہ آہ و نالہ نہ درد۔ پہلی چیزیں جاتی رہیں۔ اور جو تخت پر بیٹھا ہوا تھا اُس نے کہا دیکھ میں سب چیزوں کو نیا بنادیتا ہوں۔ … میں پیا سے کو آبِ حیات کے چشمے سے مفت پلاؤں گا‘‘۔ (مکاشفہ باب 21آیت1تا6)

اِس حوالے میں بھی نئے یروشلم سے مراد عالم ِ اسلام کی نشاَۃِ ثانیہ کا مرکز قادیان ہے۔

قرآنی آیات اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ چودھویں صدی ہجری زلزلۃ الساعۃ کی صدی ہے اور پندرھویں صدی رُبع اوّل کے بعد اسلامی فتوحات کی صدی ہے۔ اِس صدی میں انسانیت پر بارانِ رحمت برسنا شروع ہوجائے گا اورجو قومیں روحانی طور پر مُردہ ہوچکی ہیں وہ زندہ کی جائیں گی حتیٰ کہ مغرب میں بھی آفتابِ اسلام چمک اُٹھے گا اور تثلیث پر توحید غالب آجائے گی اور زمین اپنے رب کے نور سے جگمگا اُٹھے گی اور یہ سارا انقلاب اس مبارک وجود کی پرسوز دُعاؤں اور مخلصانہ مساعی کے نتیجہ میں ظاہر ہوگا جو ملک ہندوستان کے صوبہ پنجاب میں تیرھویں صدی کے وسط میں پیدا ہوا اور چودھویں صدی کے ربع اوّل تک وفات پاگیا۔ ہاں اس کی آواز صورِاسرافیل ہے جس سے مُردےزندہ ہو جائیں گے اور جو صدیوں سے قبروں میں پڑے تھے وہ قبروں سے باہر نکل آئیں گے اور خدائے رحمٰن و رحیم کی رحمت سے شیطان رجیم یعنی دابۃ الارض، یا ثعبان مبین مرحوم ہوکر ختم ہو جائے گا۔ تب ایک مذہب اسلام ہوگا اور ایک ہی پیشوا (حضرت محمد مصطفیٰﷺ ) ہوگا۔

واٰخر دعوانا ان الحمدللّٰہ ربّ العالمین۔

(مطبوعہ ماہنامہ الفرقان جون1963ء صفحہ 41تا48)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button