متفرق مضامین

بنیادی مسائل کے جوابات (نمبر32)

(ظہیر احمد خان۔ مربی سلسلہ، انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)

(امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے پوچھےجانے والے بنیادی مسائل پر مبنی سوالات کے بصیرت افروز جوابات)

٭…قرآن کریم کے نصف میں جو وَلْيَتَلَطَّفْ کا لفظ آیا ہے، اس لفظ کے قرآن کریم کے درمیان میں آنے میں کچھ خاص حکمت ہے؟

٭… جمعہ کی نماز میں قنوت کے متعلق حضور انور کی راہنمائی

٭… لونڈیوں سے جسمانی فائدہ اٹھانے نیز سود کے متعلق حضور انور کی راہنمائی

٭…کیا کسی ایسے عیسائی، ہندو یا بدھ مت سے تعلق رکھنے والے دوست کی وفات پر اس کےلیے دعا کی جاسکتی ہےجو جماعت احمدیہ کےلیے اچھے اور پیار کے جذبات رکھتا تھا؟

٭…ہم جب مذہبی اور روحانی لحاظ سے ’’دل‘‘ کی بات کرتے ہیں تو کیا اس سے مراد وہی عضو ہوتا ہےجو خون کی گردش کا کام کرتا ہےیا پھر اس سے مراد روح اور دماغ ہوتا ہے؟

سوال: ایک دوست نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ قرآن کریم کے نصف میں جو وَلْيَتَلَطَّفْ کا لفظ آیا ہے، اس لفظ کے قرآن کریم کے درمیان میں آنے میں کچھ خاص حکمت ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 12؍فروری 2021ءمیں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا:

جواب: اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو آیات اور سورتوں کی شکل میں نازل فرمایا اور آنحضورﷺ نے خدا تعالیٰ سے راہنمائی پا کر اس کی موجودہ ترتیب کو قائم فرمایاہے۔ آنحضورﷺ کے بعد مختلف وقتوں میں کئی طرح سے جو قرآن کریم کی تقسیم کی گئی ہے، یہ سب ذوقی باتیں ہیں۔ اس سے قرآن کریم میں پائی جانے والی دائمی تعلیمات اور اس کے عمیق در عمیق روحانی معارف پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔

قرآنی تعلیمات کا بنیادی مقصد خدا تعالیٰ کی توحید کا پرچار ہے۔ اس اعتبار سے جب ہم قرآن کریم پرغور کرتے ہیں تو ہمیں یہ بات واضح طور پر نظر آتی ہے کہ قرآن کریم کی ابتدا میں بھی اللہ تعالیٰ کی توحید کے مضمون کو بیان کیا گیا اور قرآن کریم کا اختتام بھی اسی توحید باری تعالیٰ کے مضمون پر ہو رہا ہے اور قرآن کریم کے درمیان میں جو سورت آئی ہے یعنی سورۃ الکہف وہ بھی خاص طور پر توحید کے ہی مضمون پر مشتمل ہے اور پھر خود اس سورت کا آغاز اور اختتام بھی توحید ہی کے مضمون پر ہوتا ہے۔

پس قرآن کریم کی اس ترتیب میں یہ حکمت نظر آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جگہ جگہ توحید کی تعلیم کو بیان فرما کر انسان کو یہ پیغام دیا ہےکہ اس کی کامیابی کا راز اسی میں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی توحید کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا کر اس عارضی زندگی کو گزارے تا کہ اخروی اور دائمی زندگی میں وہ خداتعالیٰ کے لا متناہی فضلوں کا وارث بن سکے۔

سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا ہے کہ میں اپنی جماعت میں امام الصلوٰۃ ہوں۔ جمعہ کی نماز میں قنوت پڑھنا چاہتا ہوں کیونکہ آج کل وبا کے دن ہیں اور احمدیوں پر بعض ممالک میں ظلم بھی ہو رہا ہے۔ لیکن بعض دوستوں کو اس پر اعتراض ہے۔ اس بارے میں اجازت اور راہنمائی کی درخواست ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 12؍فروری 2021ء میں اس بارے میں درج ذیل ہدایات فرمائیں:

جواب: آنحضورﷺ نے امام الصلوٰۃ کےلیے ایک نہایت ضروری نصیحت یہ فرمائی ہےکہ إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ لِلنَّاسِ فَلْيُخَفِّفْ فَإِنَّ مِنْهُمُ الضَّعِيْفَ وَالسَّقِيْمَ وَالْكَبِيْرَ وَإِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ لِنَفْسِهِ فَلْيُطَوِّلْ مَا شَاءَ۔ (صحیح بخاری کتاب الاذان) یعنی جب کوئی شخص لوگوں کو نماز پڑھائے تو اسے ہلکی نماز پڑھانی چاہیے کیونکہ مقتدیوں میں کمزور اور بیمار اور بوڑھے سب ہی ہوتے ہیں۔ اور جب تم میں سے کوئی اکیلا اپنی نماز پڑھے تووہ جس قدر چاہے اسے لمبا کرے۔

جہاں تک نمازوں میں قنوت کرنے کا معاملہ ہے تو احادیث سے پتا چلتا ہے کہ آنحضورﷺ نے مسلمانوں پر کسی مصیبت کے وارد ہونے پر بھی کچھ وقت کےلیے قنوت کے طریق کو اختیار فرمایا۔ چنانچہ رجیع اور بئر معونہ کے موقع پر دشمنان اسلام کی طرف سے بد عہدی اور دھوکا دہی کے ساتھ صحابہ کی ایک بڑی جمعیت کی شہادت پر حضورﷺ نے ان مخالف قبائل کے خلاف تیس روز تک قنوت فرمایا اور ان قبائل کے خلاف بد دعا کی۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی)

نیز اس کے علاوہ حضورﷺ نے صحابہ کو وتر کی نماز میں قنوت کرنے کا بھی طریق سکھایا اور اس کےلیے مختلف دعائیں بھی صحابہ کو سکھائیں۔ (سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ بَاب الْقُنُوتِ فِي الْوِتْرِ)

پس قنوت کا ایک طریق وہ ہے جو نماز وتر میں اختیار کیا جاتا ہے اور ایک قنوت خاص حالات میں مثلاً دشمن کی طرف سے کسی تکلیف کے پہنچنے پر یا کسی وبا وغیرہ کے پھیلنے پر اختیار کیا جاتا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی جانے والی پیش خبری کے مطابق جب پنجاب میں طاعون پھیلی تو حضور علیہ السلام نے آنحضورﷺ کی اسی سنت کی اتباع میں فرمایا کہ ’’آج کل چونکہ وبا ء کا زور ہے اس لئے نمازوں میں قنوت پڑھنا چاہیے۔‘‘(البدرنمبر 15، جلد 2، مورخہ یکم مئی 1903ء صفحہ 115)

نیز فرمایا کہ ’’چاہیے کہ ہر ایک شخص تہجد میں اٹھنے کی کوشش کرے اور پانچ وقت کی نمازوں میں بھی قنوت ملاویں۔‘‘(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 192، مطبوعہ 2016ء)

علاوہ ازیں حضور علیہ السلام نے قنوت میں پڑھی جانے والی دعاؤں کے متعلق بھی راہنمائی فرماتے ہوئے ہدایت دی کہ اس میں ادعیۂ ماثورہ جو قرآن و حدیث میں آئی ہیں وہ ہی پڑھی جائیں۔ (اخبار بدر نمبر 31، جلد 6، مورخہ یکم اگست 1907ء صفحہ12)

قنوت کے بارے میں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ایک تو اسے مختلف نمازوں میں پڑھنا مسنون ہے، فرض نہیں۔ اس لیے اسے پڑھنا لازمی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ نیز احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں قنوت کے نمازوں میں پڑھنے کی روایات تو ملتی ہیں لیکن نماز جمعہ میں پڑھنے کی کوئی روایت کہیں نہیں ملتی۔ اس لیے ایسی نیکیوں کو جن میں دوسرے لوگ بھی شامل ہو رہے ہوں اسی حد تک بجا لانا چاہیے جس حد تک شریعت نے اس کی اجازت دی ہے۔ تاکہ کسی کو بھی تکلیف مالا یطاق کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

سوال: ایک دوست نے لونڈیوں سے جسمانی فائدہ اٹھانے نیز سود کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اور حضرت ملک سیف الرحمٰن صاحب کے موقف کا ذکر کر کے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے اس بارے میں راہنمائی چاہی۔ جس پر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 15؍فروری 2021ء میں اس بارے میں درج ذیل ارشاد فرمایا:

جواب: اسلام کے ابتدائی دَور میں دشمنان اسلام کی ظالمانہ کارروائیوں کے جواب میں اسلامی جنگوں کی اجازت کے نتیجے میں جب دشمنوں کے دیگر اموال غنیمت کے ساتھ ان کی عورتیں بھی لونڈیوں کی صورت میں مسلمانوں کے قبضہ میں آئیں تو سورۃ النساء کی بعض آیات کی روشنی میں میرا موقف یہی ہے کہ ان لونڈیوں کے ساتھ نکاح کے ذریعہ ہی تعلقات زوجیت استوار ہو سکتے تھے، اگرچہ اس نکاح کےلیے ان لونڈیوں کی رضامندی ضروری نہیں تھی اور نہ ہی لونڈی سے نکاح کے نتیجے میں مرد کےلیے چار شادیوں تک کی اجازت پر کوئی فرق پڑتا تھا۔

ایسی لونڈیوں کے مسئلے پر آپ نے جو اپنے موقف کا ذکر کیا ہے تو جیسا کہ میں نے اپنے پہلے جواب میں [جو بنیادی مسائل کے جوابات کی قسط نمبر4 اور 5 میں شائع ہو چکا ہے] لکھا ہے کہ اس مسئلہ پر مختلف آراء موجود ہیں اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا بھی یہی موقف تھا کہ ان لونڈیوں سے تعلقات کےلیے نکاح کی ضرورت نہیں جبکہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ سے دونوں قسم کے موقف ثابت ہیں۔

بہرحال نکاح ہوتا تھا یا نہیں ہوتا تھا، طریق جو بھی تھا لیکن اس بات پر سب متفق ہیں کہ اگر اس لونڈی کے ہاں اولاد ہو جاتی تھی تو مالک کی زندگی میں اسے ام الولد کا درجہ مل جاتا تھا، یعنی مالک نہ تو اس لونڈی کو فروخت کر سکتا تھا، نہ کسی اور کو ہبہ کر سکتا تھا اور مالک کی وفات کے بعد ایسی عورت کو آزادی کے پورے حقوق مل جاتے تھے اور وہ مکمل طور پر آزاد ہو جاتی تھی۔

باقی جہاں تک سود کا مسئلہ ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ قرآن وحدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں ہر زمانے میں خلیفۂ وقت کی نگرانی میں علمائے جماعت احمدیہ کے ذریعہ اس مسئلے کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں غور کے بعد اپنا موقف بیان کرتی رہی ہے۔ اور اس وقت بھی سود سے تعلق رکھنے والے کئی امور پر جماعت غور کر رہی ہے۔

سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ کیا میں اپنے کسی ایسے عیسائی، ہندو یا بدھ مت سے تعلق رکھنے والے دوست کی وفات پر اس کےلیے دعا کر سکتا ہوں جو جماعت احمدیہ کےلیے اچھے اور پیار کے جذبات رکھتا تھا؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 15؍فروری 2021ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا:

جواب: جیسا کہ میں نے پہلے بھی آپ کو لکھا تھا کہ اسلام ہمیں کسی انسان سے نفرت نہیں سکھاتابلکہ صرف اس کے بُرے فعل سے بیزاری کی تعلیم دیتا ہے۔ اور جہاں تک کسی کے جنت یا جہنم میں جانے کا معاملہ ہے تو اسے اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے اور کسی دوسرے انسان کو یہ اختیار نہیں دیا کہ وہ اس دنیا میں بیٹھ کر کسی انسان کی جنت یا جہنم کا فیصلہ کرے۔ ہاں یہ بات درست ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض اوقات اپنے انبیاء اور فرستادوں کو کسی شخص کے جنتی یا جہنمی ہونے کا علم دےدیتا ہے۔ لیکن اس شخص کے جنتی یا جہنمی ہونے کا فیصلہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ ’’یقیناً جو لوگ (محمد رسول اللہﷺ پر) ایمان لائے اور وہ لوگ جو یہودی بن گئے اور صابی اور نصرانی اور مجوسی اور وہ لوگ بھی جنہوں نے شرک کیا۔ اللہ یقیناً ان کے درمیان قیامت کے دن فیصلہ کر دے گا۔ اللہ یقیناً ہر ایک چیز کا نگران ہے۔‘‘(الحج: 18)

پھر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس مضمون کو بھی بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کسی بھی انسان کے نیک عمل ضائع نہیں کرتا خواہ وہ انسان کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ’’جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جو یہودی ہیں نیز نصاریٰ اور صابی (ان میں سے) جو (فریق) بھی اللہ پر اور آخرت کے دن پر (کامل) ایمان لایا ہے اور اس نے نیک عمل کئے ہیں یقیناً ان کےلئے ان کے رب کے پاس ان کا (مناسب) اجر ہے۔‘‘(البقرہ: 63)

پس کسی کی وفات پر افسوس کا اظہار کرنے، اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ کی دعا پڑھنے اور اللہ تعالیٰ کا رحم مانگنے میں کوئی حرج نہیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ پڑھنے سے توخود پڑھنے والے کےلیے بھی دعا ہوجاتی ہے۔ کیونکہ کسی تکلیف یا نقصان کے پہنچنے پر اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ دعا پڑھنے کی تلقین فرمائی ہے۔ اوراس دعا سے غرض یہ ہوتی ہے کہ اے اللہ تو اس تکلیف کو دور فرما دے یا اس نقصان کو پورا فرما دے۔ اورجب کسی کی وفات پر ہم یہ دعا کرتے ہیں تو اس سے ایک مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اے اللہ اس انسان کے ساتھ جو میری توقعات وابستہ تھیں، اس کے مرنے کے بعد تو ان توقعات کو پورا فرما دے۔

اللہ تعالیٰ کا رحم بھی انسان کسی کےلیے بھی مانگ سکتا ہے، کیونکہ رحم کرنا بھی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور وہی بہتر جانتا ہے کہ اس نے کس انسان پر کس وقت رحم کرنا ہے۔ چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ اللہ تعالیٰ کے رحم کے نتیجے میں جہنم بالکل خالی ہو جائے گی۔ (تفسیر الطبری، تفسیر سورۃ ھود آیت نمبر 108)

سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ ہم جب مذہبی اور روحانی لحاظ سے ’’دل‘‘ کی بات کرتے ہیں تو کیا اس سے مراد وہی عضو ہوتا ہےجو خون کی گردش کا کام کرتا ہےیا پھر اس سے مراد روح اور دماغ ہوتا ہے؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 19؍فروری 2021ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب ارشاد فرمایا:

جواب: عربی زبان میں عام طور پر دل کےلیے قلب اور فؤادکے الفاظ آتے ہیں اور یہ دونوں الفاظ قرآن کریم میں ظاہری معنوں میں بھی استعمال ہوئے ہیں اور استعارہ کے رنگ میں بھی آئے ہیں۔ مثلاً دل پر پردہ پڑ جانا، دل میں ٹیڑھا پن ہونا، دل کا سخت ہو جانا، دل کا ایمان نہ لانا، دل میں مرض پیدا ہو جانا، دل پر مہر لگ جانا، دل پر زنگ لگ جانا، دل کا انکار کرنا، دل میں غیظ کا ہونا، دل کا شک کرنا، دل کا اندھا ہونا، دل کا گلے تک آ جانا، دل کا پھر جانا، دل کا نہ سمجھنا، دل کا نیکی اور برائی کمانا، دل کا اللہ کے ذکر سے غافل ہونا، دل کا پاک ہونا، دل کا اطمینان پانا، دل میں تقویٰ ہونا، دل کا مضبوط ہونا، دل کا ارادہ کرنا، دل میں ایمان کا داخل ہونا، دل پر اللہ تعالیٰ کا کلام نازل ہونا، دل کا فکر سے فارغ ہونا اور دل کا دیکھنا وغیرہ۔ اسی طرح احادیث میں بھی دل کو ظاہری معنوں کے علاوہ استعارہ کے طور پر بھی استعمال کیا گیا ہے۔

پس قرآن و حدیث میں اس لفظ کے مختلف معانی کا استعمال بتاتا ہے کہ مذہبی اور روحانی زبان میں دل سے مراد صرف ایک جسمانی عضو نہیں ہے جو خون کی گردش کا کام کرتا ہے بلکہ مذہبی اور روحانی زبان میں اس لفظ کو استعارہ کے طور پر بھی کئی معنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔ اور اس سے مرادروح، علم، فہم، عقل، نیت، طبیعت، شجاعت اور فطرت وغیرہ کئی مطالب ہوتے ہیں۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ قلب اور فؤاد کی لغوی تحقیق کے ضمن میں فرماتے ہیں:’’قلب…کے معنے ہیں الفُؤَادُ۔ دل…اور کبھی قلبکا لفظ عقل پر بھی بولا جاتا ہے…ا ور لفظ قلب کے ذریعہ ان کیفیات کو بیان کیا جاتا ہے جو روح۔ علم اور شجاعت وغیرہ اقسام کی اس کے ساتھ مخصوص ہیں …قلب کے معنے سوچنے اور تدبر کے ہیں۔ (تفسیر کبیر جلد اوّل صفحہ 153)

حضرت مسیح موعو د علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’دل میں ایمان کے لکھنے سے یہ مطلب ہے کہ ایمان فطرتی اور طبعی ارادوں میں داخل ہو گیا اور جُزوِ طبیعت بن گیا اور کوئی تکلف اور تصنع درمیان نہ رہا۔ اور یہ مرتبہ کہ ایمان دل کے رگ و ریشہ میں داخل ہو جائے اُس وقت انسان کو ملتا ہے کہ جب انسان روح القدس سے مؤید ہو کر ایک نئی زندگی پاوے اور جس طرح جان ہر وقت جسم کی محافظت کےلئے جسم کے اندر رہتی ہے اور اپنی روشنی اُس پر ڈالتی رہتی ہے اِسی طرح اِس نئی زندگی کی روح القدس بھی اندر آباد ہو جائے اور دل پر ہر وقت اور ہر لحظہ اپنی روشنی ڈالتی رہے اور جیسے جسم جان کے ساتھ ہر وقت زندہ ہے دل اور تمام روحانی قویٰ روح القدس کے ساتھ زندہ ہوں اِسی وجہ سے خداتعالیٰ نے بعد بیان کرنے اِس بات کے کہ ہم نے اُن کے دلوں میں ایمان کو لکھ دیا یہ بھی بیان فرمایا کہ روح القدس سے ہم نے اِن کو تائید دی کیونکہ جبکہ ایمان دلوں میں لکھا گیا اور فطرتی حروف میں داخل ہو گیا تو ایک نئی پیدائش انسان کو حاصل ہو گئی اور یہ نئی پیدائش بجُز تائید روح القدس کے ہرگز نہیں مل سکتی۔ رُوح القدس کا نام اِسی لئے روح القدس ہے کہ اُس کے داخل ہونے سے ایک پاک روح انسان کو مل جاتی ہے۔ قرآ ن کریم روحانی حیات کے ذکر سے بھرا پڑا ہے اور جابجا کامل مومنوں کا نام احیاء یعنی زندے اور کُفار کا نام اموات یعنی مردے رکھتا ہے۔ یہ اِسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ کامل مومنوں کو روح القدس کے دخول سے ایک جان مل جاتی ہے اور کُفار گو جسمانی طور پر حیات رکھتے ہیں مگر اُس حیات سے بے نصیب ہیں جو دل اور دماغ کو ایمانی زندگی بخشتی ہے۔‘‘(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 100تا 102)

حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’قرآن شریف میں جو خَتَمَ اللّٰهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ آیا ہے اس میں خدا کے مہر لگانے کے یہی معنی ہیں کہ جب انسان بدی کرتا ہے تو بدی کا نتیجہ اثر کے طور پر اس کے دل پر اور منہ پر خداتعالیٰ ظاہر کر دیتا ہے اور یہی معنے اس آیت کے ہیں کہ فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللّٰهُ قُلُوبَهُمْ یعنی جب کہ وہ حق سے پھر گئے تو خداتعالیٰ نے ان کے دل کو حق کی مناسبت سے دور ڈال دیا اور آخر کو معاندانہ جوش کے اثروں سے ایک عجیب کایا پلٹ ان میں ظہور میں آئی اور ایسے بگڑے کہ گویا وہ وہ نہ رہے اور رفتہ رفتہ نفسانی مخالفت کے زہر نے ان کے انوار فطرت کو دبا لیا۔‘‘(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 47، 48)

اَلَا بِذِکۡرِ اللّٰہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ کےمتعلق حضورعلیہ السلام فرماتے ہیں: ’’اس کے عام معنی تو یہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے قلوب اطمینان پاتے ہیں لیکن اس کی حقیقت اور فلسفہ یہ ہے کہ جب انسان سچے اخلاص اور پوری وفاداری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے اورہر وقت اپنے آپ کو اس کے سامنے یقین کرتا ہے اس سے اس کے دل پر ایک خوف عظمت الٰہی کا پیدا ہو تا ہے وہ خوف اس کو مکروہات اور منہیات سے بچاتا ہےا ور انسان تقویٰ اور طہارت میں ترقی کرتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے ملائکہ اس پر نازل ہوتے ہیں اور وہ اس کو بشارتیں دیتے ہیں اور الہام کا دروازہ اس پر کھولا جاتا ہے اس وقت وہ اللہ تعالیٰ کو گویا دیکھ لیتا ہے اور اس کی وراء الورا طاقتوں کو مشاہدہ کرتا ہے۔ پھر اس کے دل پر کوئی ہم و غم نہیں آ سکتا اور طبیعت ہمیشہ ایک نشاط اور خوشی میں رہتی ہے۔‘‘(الحکم جلد 9 نمبر 32 مورخہ 10؍ستمبر 1905ء صفحہ 8)

فِي قُلُوبِهِمْ مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللّٰهُ مَرَضًا کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ ان کا فطرت صحیحہ کے مطابق کام نہ کرنا بتاتا ہے کہ ان کے دل مریض ہیں کیونکہ اگر دل میں مرض نہ ہوتا تو کم سے کم یہ ان باتوں کو تو محسوس کرتے جو فطرت صحیحہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ جس طرح صفراء کی زیادتی سے زبان کا مزہ خراب ہو جاتا ہے اور میٹھا بھی کڑوا معلوم دیتا ہے اسی طرح جن کے دل مریض ہوں وہ اپنی فطرت کی آواز کو صحیح طور پر نہیں سن سکتے۔‘‘(تفسیر کبیر جلد اوّل صفحہ 173)

پس قرآن و حدیث اور مذکورہ بالا ارشادات سے یہ ثابت ہوتا ہےکہ مذہبی اور روحانی طور پر دل سے مراد صرف ایک جسمانی عضو نہیں ہے بلکہ اس لفظ کو استعارہ کے طور پر بھی کئی معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button