حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

حضرت امیر المومنین ایّدہ اللہ فرماتے ہیں:

پس خوش قسمت ہیں ہم میں سے وہ جوحقیقی استغفار کرنے والے اور خالص توبہ کرنے والے ہیں اور رمضان کے بابرکت مہینے میں اس کے اثرات اپنے پر دیکھتے ہوئے خداتعالیٰ کی مغفرت اور رحمت کے نظارے دیکھنے والے ہیں۔ اگر سستیاں ہوتی ہیں تو بندوں کی طرف سے، اگر کوتاہیاں ہوتی ہیں تو بندوں کی طرف سے ورنہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بندے سے بہت زیادہ اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہی یہ ہے کہ بندہ اس کے پاس آئے اور وہ اس کی توبہ کرے جیسا کہ فرمایا وَاللّٰہُ یُرِیۡدُ اَنۡ یَّتُوۡبَ عَلَیۡکُمۡ(النساء: 28) اور اللہ چاہتا ہے کہ تم پر شفقت کرے اور توبہ قبول کرتے ہوئے جھک جائے۔ پس یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ جس کام کو اپنے لئے اللہ تعالیٰ نے خود چنا ہے اور اللہ تعالیٰ چاہتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے پورا نہ کرے۔ پس یہ بندے کا کام ہے کہ استغفار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکے پھر دیکھے اللہ تعالیٰ کس طرح اس کی طرف بڑھتا ہے۔

پس استغفار اور نیک اعمال جب ہمیں رمضان کے آخر ی عشرے میں داخل کریں گے تو پھر یہ اللہ تعالیٰ کے رسول کے مطابق آگ سے آزاد کرانے کا عشرہ ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے کہ وَ مَا کَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَہُمۡ وَ ہُمۡ یَسۡتَغۡفِرُوۡنَ (الانفال: 34) اللہ ایسا نہیں ہے کہ انہیں عذاب دے جبکہ وہ بخشش کے طالب ہوں۔ اللہ تعالیٰ تو مختلف ذریعوں سے ہمیں سمجھاتا رہتا ہے۔ پرانے لوگوں کے واقعات بیان کرکے، انبیاء کے واقعات بیان کرکے، انبیاء کے ذریعہ نصائح فرما کر کہ کس کس طرح تم میری بخشش طلب کر سکتے ہو اور کس طرح مَیں پہلی قوموں سے سلوک کرتا رہا ہوں اور اب بھی کروں گا۔ ظاہرہے جب انسان ایک خاص توجہ کے ساتھ حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہو، اپنی نمازوں کی بھی حفاظت کر رہا ہو، نوافل سے بھی انہیں سجا رہا ہو، استغفار بھی کر رہا ہو، اور دوسرے نیک اعمال بجا لانے کی بھی کوشش کر رہا ہو یہاں تک کہ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ اگر اس سے کوئی جھگڑے، اُسے برا بھلا کہے تو وہ بالکل جواب نہ دے اور یہ کہہ کے چپ ہو جائے کہ مَیں روزہ دار ہوں، مَیں تو اس ٹریننگ میں سے گزر رہا ہوں اور میری یہ کوشش ہے کہ خداتعالیٰ کے احکامات کو اپنی زندگی کا حصہ بناؤں۔ تو لازماً ایسا شخص پھر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر لے وہ آگ سے یقینا ًنجات پا جاتا ہے اور اس کی جنت میں داخل ہوتا ہے۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 19؍ ستمبر 2008ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 10؍ اکتوبر 2008ءصفحہ 7)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button