یادِ رفتگاں

حضرت قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری

(ڈاکٹر سر افتخار احمد ایاز)

دُنیائے احمدیت کا ایک درخشندہ و تابندہ ستارہ

دائیں سے بائیں جانب: حضرت قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری اور حضرت مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری

اللہ تعالیٰ کے فضل سے میرا بچپن قادیان میں گزرا۔ اس زمانےکے نامور معروف و مشہور علماء میں سے ایک حضرت قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری تھے۔ وہ محلہ دارالعلوم میں ہمارے گھر کے قریب رہتےتھے۔ میری والدہ مرحومہ کا ان کے گھر آنا جانا تھا اور میں بھی والدہ کے ساتھ کبھی کبھی چلا جاتا تھا۔ بہت شفقت سے پیش آتے تھے۔ دفتر سے آتے جاتے جب بھی ان پر نظر پڑتی، شوق ہوتا تھا کہ بھاگ کر ان کو سلام کریں۔ گزشتہ دنوں وہ یاد آئے اور ان کے درجات کی بلندی کےلیے دعا کی توفیق ملی اور خیال آیا کہ دعا ہی کی غرض سے ان کے کچھ حالات لکھوں۔ اور جو لکھ سکا ہوں وہ پیش خدمت ہیں۔

حضرت قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری جماعت احمدیہ کے شگفتہ بیان مقرر، نامور محقق اور مصنف تھے۔ آپ نے جماعت احمدیہ کے لٹریچر میں متعدد قیمتی کتب کا اضافہ کیا۔ آپ 3؍ستمبر 1898ء کو پیدا ہوئے۔ آپ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جلیل القدر صحابی محترم حضرت قاضی محمد حسین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ساکن کو رووال تحصیل و ضلع سیالکوٹ کے فرزند تھے۔

مروجہ دینی و دنیوی تعلیم کے اعتبار سے آپ بفضلہ تعالیٰ مولوی فاضل، منشی فاضل اور ایف اے انگلش میں سند یافتہ تھے۔ 1938ء میں خدمتِ دین کےلیے اپنی زندگی وقف کرنے سے پہلے آپ لائلپور میں ایک اسکول میں بطور مدرس متعین رہے۔ بعد ازاں زندگی کے آخری سانس تک کا 42سالہ طویل عرصہ آپ نے سلسلہ کی مختلف اہم اور جلیل القدر خدمات پر مامور رہ کر گزارا۔

یکم مئی 1938ء کو صدر انجمن احمدیہ میں بطور معلم علومِ شرقیہ آپ کی تقرری ہوئی۔ 1940ء میں جامعہ احمدیہ میں عربی ادب کے لیکچرار مقرر ہوئے۔ 1942ء میں نظارت دعوت و تبلیغ کے تحت بحیثیت مبلغ آپ کا تقرر عمل میں آیا۔ 1944ء میں مدرسہ احمدیہ میں تعیناتی ہوئی۔ اور چند ہی روز بعد تعلیم الاسلام کالج قادیان میں دینیات، فارسی اور اُردو کے لیکچرار مقرر ہوئے۔ 1945ء سے 1955ء تک کے طویل عرصے میں آپ کو جامعہ احمدیہ ربوہ میں بحیثیت معلم اور اس کے بعد بحیثیت پرنسپل خدمات بجا لانے کا موقع ملا۔

1957ء میں آپ کی خدمات نظارت اصلاح و ارشاد کے سپرد ہوئیں۔ 1965ء میں آپ ناظر اصلاح و ارشاد اور بعدہ ناظر اشاعت و تصنیف مقرر ہوئے اور تادمِ واپسیں اسی عہدۂ جلیلہ پر مامور رہے۔ بوقتِ وفات آپ کی عمر 82سال تھی۔

سلسلہ عالیہ احمدیہ کےیہ انتہائی مخلص و دیرینہ خادم ممتاز عالم دین و مفسرِ قرآن، فاضل محقق و مصنف اور نامور مقرر و مناظر مورخہ16؍ستمبر1980ء کی شام کودارالہجرت ربوہ میں اِس دارِ فانی سے رحلت فرماکر دارِ قرار میں اپنے مولائے حقیقی سے جاملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

محترم صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب امیر مقامی کی اقتدا میں نمازِ جنازہ کی ادائیگی کے بعد مرحوم کا جسدِ خاکی بہشتی مقبرہ ربوہ کے قطعہ خاص میں سپرد خاک کردیا گیا۔ جنازہ میں ربوہ، فیصل آباد، سرگودھا، لاہور، جھنگ، سیالکوٹ اورقرب و جوار کے کم و بیش پانچ ہزار احمدی احباب نے شرکت کی۔ نمازجنازہ کی ادائیگی کے بعد صدر انجمن احمدیہ ربوہ کے خصوصی فیصلہ کی روشنی میں محترم حضرت مولانا مرحوم کے جسدِخاکی کو چہار دیواری کے عین سامنے واقع قطعۂ خاص میں اپنے قدیمی رفیق اور محترم حضرت مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری مرحوم کے پہلو میں سپردِ خاک کردیا گیا۔ قبر تیار ہونے پر محترم صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب امیر مقامی نے اجتماعی دُعاکروائی۔

اے خدا برتربت او ابرِ رحمت ہا ببار!

داخلش کُن از کمالِ فضل در بیت النعیم

آپ ایک متبحر عالم تھے۔ سالہاسال درس قرآن اور درس حدیث دیتے رہے۔ آپ ہر قسم کے علوم دینی کا گہرا مطالعہ اور ٹھوس علمی شعور رکھتے تھے۔ جماعت احمدیہ کے اختلافی عقائد کے بارے میں خصوصاً آپ کا مطالعہ اور علم بہت وسیع تھا۔ جلسہ سالانہ پر کئی سال تقریر کرتے رہے۔ آپ ایسے شگفتہ بیان مقرر تھے کہ آپ کی تقاریر احباب جماعت میں بے حد ذوق و شوق سے سنی جاتیں۔ آپ کی تحقیق اور مطالعہ کا نچوڑ ان کی نصف صد کتب ہیں۔ ان کی بعض کتب کا ترجمہ بنگالی اور انگریزی زبان میں ہو چکا ہے۔

حضرت مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل مرحوم سلسلہ کے ایک صاحبِ رؤیا و کشوف بزرگ تھے۔ اور اپنی اہم دینی و علمی خدمات کے لحاظ سے جماعت میں ایک نمایاں اور ممتاز مقام رکھتے تھے۔ دینی علوم میں گہرا مطالعہ اور عبور آپ کی نمایاں خصوصیت تھی۔ سامعین پر آپ کی مدلل اور برجستہ تقاریر خاص اثر رکھتی تھیں۔ اپنے پیچھے محترم حضرت مولانا مرحوم نے جو بیش قیمت علمی و دینی سرمایہ چھوڑا ہے وہ سلسلہ عالیہ احمدیہ کے لٹریچر میں ہمیشہ قدر و وقعت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔

آپ موضع کورووال ضلع سیالکوٹ کے رہنے والے تھے۔ آپ کے خاندان میں احمدیت آپ کے دادا مولوی نجم الدین مرحوم و مغفور کے ذریعہ آئی تھی۔ مولوی نجم الدین صاحب عربی اور فارسی کے عالم تھے اور شہر سیالکوٹ میں کتابت کرتے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سیالکوٹ رہنے کے زمانہ میں آپ کے ملنے والوں میں سے تھے۔ حضور علیہ السلام کے دعویٰ پر سلسلہ میں بلا تامل داخل ہوگئے۔

آپ نے ابتدائی تعلیم پرائمری تک کورووال میں حاصل کی اور بعد میں فارسی کی تعلیم گھر پر اپنے والدحضرت حکیم قاضی محمد حسین صاحبؓ سے حاصل کی۔ پھر لاہور میں انجمن حمایت اسلام کے مدرسہ حمیدیہ میں اور اس کے بعد مدرسہ رحیمیہ مسجد نیلا گنبد میں داخل ہوگئے۔ ان دونوں مدرسوں میں عربی علوم کی ابتدائی تعلیم حاصل کرکے اورئینٹل کالج لاہور میں داخلہ لے لیا۔

شروع میں اپنے چچا قاضی عطاء اللہ صاحب کے پاس رہتے تھے۔ اورینٹل کالج میں د اخلہ کے بعد کالج کے ہاسٹل، جو شاہی مسجد لاہور کے متصل تھا، میں رہائش اختیار کی۔ مولوی عالم پاس کرنے کے بعد 1914ء میں منشی فاضل اور 1918ء میں مولوی فاضل پاس کیا۔ کچھ عرصہ اسلامیہ ہائی سکول سیالکوٹ اور کچھ عرصہ چک نمبر 333 اسلامیہ ہائی سکول میں بطور معلم عربی کام کیا۔ پھر کچھ عرصہ سردار حاکم سنگھ ہائی سکول ڈنگا میں بطور معلم فارسی کام کیا۔ اس کے بعد گائوں چلےگئے۔ چونکہ آپ نے علم طب میں نامی گرامی حکیم محمد سعید صاحب سے تعلیم حاصل کی ہوئی تھی اس لیے وہاں مطب جاری کیا۔ ساتھ ہی اکبر اسلامیہ ہائی سکول میں بطور معلم عربی بھی کام کرتے رہے۔

1922ء میں لائل پور مسلم ہائی سکول میں بطور معلم عربی مقرر ہوگئے۔ اس اسکول میں 1935ء تک ملازمت کی۔ اس لیے احباب نے ان کے نام کے ساتھ لائل پوری لکھنا شروع کردیا۔ ورنہ اصل میں تو یہ سیالکوٹی ہیں۔

1935ء میں جماعت احمدیہ کے خلاف احرار کی تحریک زوروںپر تھی۔ لائل پور کی انجمن اسلامیہ میں اس وقت احراریوں کا زور تھا۔ اس لیے ان کا وجود بوجہ احمدیت مسلم ہائی اسکول میں احرار کے لیے ناقابل برداشت تھا مگر ان کو نکالنا آسان نہ تھا کیونکہ ان کا کام ہمیشہ تسلی بخش رہا تھا۔ انجمن نے پہلے یہ ریزولیوشن پاس کیا کہ کوئی احمدی اس انجمن کا ممبر نہیں ہوسکتا اور اس کے بعد ان کی علیحدگی کا ریزولیوشن پاس کیا۔

1936ء میں نظارت دعوت و تبلیغ میں بطور مبلغ خدمات سر انجام دیں۔ بعد ازاں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ نے جو ان دنوں ناظر تعلیم و تربیت تھے تعلیم الاسلام ہائی اسکول میں معلم فارسی و دینیات مقرر کردیا۔ کچھ عرصہ بعد جامعہ احمدیہ میں لیکچرار کی ضرورت تھی۔ ان دنوں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب (خلیفۃ المسیح الثالثؒ) جامعہ احمدیہ کے پرنسپل تھے، ان کو جامعہ احمدیہ میں تبدیل کردیا گیا۔ اس کے بعد حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب فلسطین سے واپس قادیان تشریف لائے تو قاضی صاحب کا تبادلہ نظارت دعوۃ و تبلیغ میں ہوگیا اور حضرت مولاناابوالعطاء صاحب جامعہ احمدیہ میں ان کی جگہ لیکچرار مقرر ہوگئے۔ آپ کومخالفین احمدیت کے جوابات میں کئی کتابیں اور مضامین لکھنے کا موقع ملا ہے۔ فالحمدللہ علیٰ ذالک۔

اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری تحریر فرماتے ہیں: ’’ایک دفعہ میرا مباحثہ ختم نبوت کے موضوع پر اپنے گائوں موضع کورووال ضلع سیالکوٹ میں پیرنادر شاہ صاحب سے ہوا جو سمبڑیال کے رہنے والے تھے۔ جب پیرصاحب بحث میں عاجز آگئے تو انہوں نے ایک مولوی کو کھڑا کردیا اور اسے کہا کہ تم یہ کہو کہ میں اسی طرح خدا کا نبی ہوں جس طرح مرزا صاحب نبی ہیں اور پیر صاحب نے کہا کہ اب اسے جھوٹا ثابت کرو۔ اس پر میں اٹھا اور مجمع کو مخاطب کرکے کہا دوستو! خدا کا شکر ہے کہ جو مسئلہ میرے اور پیر صاحب کے درمیان زیر بحث تھا وہ حل ہوگیا ہے۔ بحث یہ تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کی امت میں نبی آسکتا ہے یا نہیں۔ پیر صاحب نے تسلیم کرلیا ہے کہ آسکتا ہے جو یہ دیکھئے پیر صاحب کا نبی جو سامنے کھڑا ہے۔ آپ یہ مان گئے ہیں کہ نبی آسکتا ہے تبھی تو انہوں نے آپ سب لوگوں کے سامنے مولوی صاحب سے نبوت کا دعویٰ کرایا ہے۔ اب یہ چاہتے ہیں کہ میں اسے جھوٹا ثابت کروں مگر مجھے اسے جھوٹا ثابت کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اسے اللہ تعالیٰ نے نہیں بھیجا بلکہ پیر صاحب نے ان سے دعویٰ کرایا ہے اور خود پیر صاحب بھی اسے دعویٰ میں جھوٹا جانتے ہیں اور یہ شخص خود بھی اپنے آپ کو اس دعویٰ میں جھوٹا سمجھتا ہے اور آپ سب لوگوں کے نزدیک اور میرے نزدیک بھی یہ جھوٹا ہے لہٰذا اس کو جھوٹا ثابت کرنے کی ضرورت نہیں۔

اس پر پیر صاحب نے کہا کہ میرا مطلب یہ ہے کہ جس آیت قرآنیہ سے تم اسے جھوٹا ثابت کرو گے اسی آیت سے میں مرزا صاحب کو جھوٹا ثابت کردوں گا۔ اس پر میں نے کہا لیجئے پیر صاحب میں ایک آیت پیش کرتا ہوں جو آپ کے پیش کردہ جھوٹے نبی کو جھوٹا ثابت کردے گی اور حضرت مرزا صاحب بانیٔ سلسلہ احمدیہ اس آیت کی رو سے سچے ثابت ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ بنی اسرائیل میں فرماتا ہے وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا۔ (بنی اسرائیل: 16) کہ ہم اس وقت تک عذاب بھیجنے والے نہیں یہاں تک کہ ہم کوئی رسول مبعوث کرلیں۔ اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول پہلے مبعوث ہوتا ہے اور عذاب اس کے بعد آتا ہے۔ حضرت مرزا صاحب کے دعویٰ سے پہلے امن و امان تھا۔ آپ کے دعاوی کے بعد پے درپے عذابوں کا سلسلہ شروع ہوا کہیں طاعون کی صورت میں کہیں زلازل کی صورت میں مگر پیر صاحب کا یہ جھوٹا مدعی نبوت عذابوں کے اس سلسلہ کے بعد دعویٰ کررہا ہے لہٰذا یہ آیت پیرصاحب کے مدعی کو جھوٹا ثابت کرتی ہے اور حضرت مرزا صاحب کو اپنے دعویٰ میں سچا ثابت کررہی ہے۔

میرے اس آیت کو پیش کرنے پر پیر صاحب مبہوت رہ گئے اور انہیں کوئی جواب نہ سوجھا۔ اس مجلس میں انہوں نے ایک غیر از جماعت دوست کو اپنی طرف سے ثالث بھی بنایا ہوا تھا اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس پر اس گفتگو کا گہرا اثر ہوا اور وہ احمدیت میں داخل ہوگیا۔ فالحمدللّٰہ علٰی ذالک۔‘‘ (بحوالہ ’’واقفین زندگی کے ساتھ الٰہی تائیدات و نصرت کے ایمان افروز واقعات‘‘صفحہ 292)

آپ ایک دُعاگو بزرگ تھے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو پیش از وقت باتیں بتا دیتا تھا۔ الفضل میں آپ کا ایک واقعہ یوں درج ہے کہ آپ نے ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ جھنگ شہر میں جماعت کے افراد پریشان ہیں۔ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب تقسیم ملک سے قبل ہندوستان کے مختلف شہروں، بالخصوص پنجاب کے اندر تبلیغی مباحثات زوروں پر تھے۔ چنانچہ جھنگ سے تعلق رکھنے والے ایک دوست محترم عبدالشکور صاحب مرحوم بیان فرماتے ہیں کہ جن ایام میں میرے والد چودھری غلام حسین صاحب (ریٹائرڈ انسپکٹر آف سکولز) جماعت ا حمدیہ جھنگ کے پریذیڈنٹ تھے۔ غیر احمدی علماء قریباً ہر سال ہی جھنگ میں آکر تقریریں اور مناظرے کرتے تھے۔ مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری، مولوی محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی، مولوی عبد المجید صاحب سرہندوی اور مولوی احمد دین گکھڑوی کی تقریریں تو میں نے خود بھی سنی ہیں اور اس وقت کے احمدی علماء شیخ مبارک احمد صاحب، مولوی محمد سلیم صاحب اور مولوی غلام احمدبدوملہی کے ساتھ ان کے مناظرے بھی مجھے اچھی طرح یاد ہیں۔

ان علماء کا دستور تھا کہ اپنے جلسوں کے دوران بھی ہمیں مناظرے کا چیلنج دے دیتے اور ہمارے بزرگ ایسے مواقع پر مرکز (قادیان) سے اپنے علماء کے منگوانے کا پہلے ہی انتظام کر رکھتے تھے۔ مگر 1938ء کا واقعہ ہے کہ انجمن اہل حدیث جھنگ شہر نے جب اپنے جلسے کا اعلان کیا اور ہم نے حسب دستور مرکز میں لکھا کہ فلاں فلاں علماء بھجوائے جائیں۔ ان دنوں چونکہ ہر جگہ ہی جلسے اور مناظرے ہورہے تھے، وہاں سے جواب ملا کہ مطلوبہ علماء میں سے کوئی بھی موجود نہیںہے۔

ادھر یہ پہلی بار تھی کہ زعماء اہل حدیث نے مناظرے میں عدم دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے یہ تأثر دیا کہ وہ اس بار ہمارے ساتھ مناظرے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے، مگریہ محض ان کی ایک چال تھی۔ چنانچہ اپنے جلسے کے دوسرے ہی روز اور وہ بھی رات کے اجلاس میں انہوں نے ہمیں مناظرے کا چیلنج دے دیا۔

یہ چیلنج دینے والے مولوی احمد دین صاحب گگھڑوی تھے۔ یہ غیر متوقع چیلنج سن کر ہمارے بزرگوں کا پریشان ہونا قدرتی امر تھا۔ چنانچہ ہم نے انہیں بہت کہا کہ اگر آپ مناظرہ کرنے میں مخلص ہیں تو ہمیں صرف ایک دن کی مہلت دے دیں تاکہ ہم اپنے کسی عالم کو بلوا سکیں مگر وہ ہماری کسی بات پر کان دھرنے کو تیار نہ تھے۔ اس پر ہمارے سب بزرگان دعاؤں میں لگ گئے۔ حضرت میاں رمضان علی صاحب ریٹائرڈ سٹیشن ماسٹر جو اس وقت ہمارے سیکرٹری اصلاح و ارشاد تھے انہوں نے ہم چند نوجوانوں کو طلب کیا اور فرمایا کہ اب اتنا بھی وقت نہیں ہے کہ ہم اشتہار چھپوا سکیں، تم لوگ یہ قلمی اشتہار لکھنا شروع کردو اور صبح تک جتنی کاپیاں تیارہو سکیں تیار کردو تاکہ صبح ہم کچھ تو پبلک تک پہنچا سکیں۔ چنانچہ ہم چار پانچ نوجوان رات بھر اشتہار لکھتے رہے۔ ادھر میاں صاحب اور دیگر بزرگان یعنی میرے والد محترم چودھری غلام حسین صاحب صدر جماعت احمدیہ جھنگ، میرے چچا جان محترم چودھری محمد حسین صاحب (والد محترم عزیز م ڈاکٹر عبد السلام صاحب) وغیرہ، سب دعاؤں میں لگ گئے کہ الٰہی ! ہم تیرے مامور کے غلام اور تیرے در کے سوالی ہیں۔ ہمیں اپنی مصیبت کا غم نہیں تیرے سلسلے کی عزت کا سوال ہے تو غیب سے ہماری مدد فرما۔

اللہ تعالیٰ نے ہماری دعاؤں کو سن کر کس طرح سلسلہ کے ایک مبلغ کے دل میں تحریک کرکے انہیں ہمارے پاس بھجوا دیا۔ اس ایمان افروز واقعہ کی تفصیل اس طرح ہے۔ صبح کی اذانیں ہوگئیں اور ہم لوگ نماز وغیرہ پڑھ کر اپنے مشن میں مصروف ہوگئے کہ اچانک مگھیانے سے ایک آدمی نے آکر اطلاع دی کہ وہاں محترم قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری تشریف لائے ہوئے ہیں۔ محترم قاضی صاحب لائلپور میں ملازم تھے اور مرکز کی طرف سے انہیں انچارج تبلیغ مقرر کیا گیا تھا۔جھنگ ان کے حلقہ میں آتا تھا۔ یہ سننا تھا کہ ہم لوگ جا کر میاں ناصر علی صاحب کے دولت خانہ سے حضرت قاضی صاحب کو لے آئے۔

راوی بیان کرتے ہیں کہ اس سلسلہ میں جو بات قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری نے ہمیں بتائی وہ تعجب انگیز ہونے کے علاوہ اس بات پر بھی دلالت کر رہی تھی کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کی نصرت و تائید کے لیے کیا کیا کرشمے دکھاتا اور اپنے مامور کے ساتھ یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُوْحِیْ اِلَیْھِمْ مِنَ السَّمَاءِ کے الفاظ میں کہا ہوا وعدہ پورا فرماکر کس عجیب و غریب رنگ میں اپنی ہستی کا ثبوت ہمیں دیتا ہے۔ چنانچہ حضرت قاضی صاحب نے بتایا کہ میں لائلپور میں تھا، مجھے یہ تو معلوم تھا کہ آپ کے ہاں ان دنوں اہل حدیث کی کانفرنس ہونی ہے مگر آپ کی طرف سے اس بارے میں کوئی اطلاع نہیں تھی تاہم میں دعا کرتے کرتے سوگیا۔ اڑھائی تین بجے کے درمیان خواب میں آپ لوگوں کو دیکھا کہ بہت پریشان ہیں۔ گھبرا کر اٹھا، سامان تو تیار ہی رہتا تھا بس پر بیٹھا اور پہنچ گیا۔‘‘(ماخوز ازروزنامہ الفضل ربوہ، 9؍دسمبر 1980ءصفحہ 5بحوالہ الفضل انٹرنیشنل لندن9؍مارچ2007ءصفحہ16)

حضرت مولانا مرحوم نے اپنے پیچھے ایک بیوہ کے علاوہ تین بیٹے مکرم قاضی خلیل احمد صاحب، مکرم قاضی عزیز احمد صاحب اور مکرم قاضی منیر احمد صاحب اور دو بیٹیاں محترمہ سعیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم ماسٹر ہارون احمدصاحب اور محترمہ رشیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم قاسم خان صاحب، متعدد پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں سوگوار چھوڑی تھیں۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کے سارے بیٹوں کو ان کے نقش قدم پر جماعت کی خدمات کی توفیق ملتی رہی ہے۔ آپ کے بیٹے مکرم قاضی منیر احمد صاحب ضیاء الاسلام پریس ربوہ کے مینیجر اور روزنامہ الفضل اور دیگر ماہانہ رسالوں کے پرنٹر رہ چکے ہیں۔ ان پر راہ خدا میں سو کے قریب مقدمات بنے اور چار بار ان کو اسیر راہ مولیٰ بننے کی سعادت ملی۔

ہم بارگاہِ ربّ العزت میں دست بدُعا ہیں کہ مولا کریم سلسلہ عالیہ احمدیہ کے اِس مخلص و فدائی خادم کو محض اپنے فضل سے بلندیٔ درجات سے نوازتا رہے۔ اور حضرت مولانا مرحوم جیسے سلطان نصیر جماعت کو ہمیشہ حاصل ہوتے رہیں۔ آمین اللھمآمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button