الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

محترم چودھری نذیر احمد صاحب

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ21؍اگست2013ء میں مکرم چودھری نذیر احمد صاحب سابق امیر ضلع بہاولپور کا ذکرخیر مکرم محمود مجیب اصغر صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔

محترم چودھری نذیر احمد صاحب ریٹائرڈ سپرنٹنڈنٹ انجینئرمحکمہ انہار پنجاب لمبا عرصہ بطور امیر ضلع بہاولپور خدمات بجالانے کے بعد وفات سے چند سال قبل ربوہ منتقل ہوگئے تھے جہاں قاضی دارالقضاء اور دفتر صدرعمومی کے زیرانتظام ممبر مضافاتی کمیٹی کے طور پر خدمت کی توفیق پارہے تھے۔ نیز IAAAE کی مرکزی عاملہ کے بھی رُکن تھے۔ میرا آپ سے تعارف قریباً چالیس سال قبل ہوا اور جب بھی مجھے بہاولپور جانے کا موقع ملا تو دیکھا کہ آپ کا بنگلہ دارالضیافت بنا ہوا ہے۔ کئی دوست جو ذاتی کام سے بھی آتے تو آپ کے پاس ہی قیام کرتے۔ اس طرح مہمان نوازی کا وصف آپ میں نمایاں دیکھا۔ ایک ذاتی کام کے سلسلے میں جب مجھے آپ کو نصف شب کے وقت فون کرنا پڑا تو آپ سوچکے تھے۔ میرے کہنے پر آپ کو سوتے سے اٹھایا گیا تو آپ نے کمال شفقت سے غصہ کیے بغیر میری درخواست سُنی اور اگلے روز خاص کوشش کرکے میرا کام بھی کروادیا۔ بلاشبہ آپ ایک درویش صفت افسر اور نافع الناس وجود تھے۔

قاضی کے طور پر آپ کا کردار اس لیے بھی قابل ستائش ہے کہ محکمہ انہار میں ملازمت کی وجہ سے زمینوں اور زمینداروں کی اصطلاحوں اور پیمانوں سے پوری طرح واقف تھے اور کیس کو سمجھنے اور فیصلہ کرنے میں آسانی پیدا کردیتے تھے۔ آپ نے اُس زمانے میں بی ایس سی انجینئرنگ کی تھی جب غیرمعمولی ذہین اور لائق طلباء کو ہی داخلہ ملتا تھا۔ پھر اریگیشن کا محکمہ ہمیشہ ممتاز رہا ہے جس میں ایس ڈی او، پھر ایکسین اور S.E بننا کوئی آسان کام نہ تھا۔ اور ساتھ میں دینی خدمات کے لیے بھی خود کو ہمیشہ وقف رکھا۔

………٭………٭………٭………

محترمہ صفیہ حبیب صاحبہ

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 3؍اگست 2013ء میں محترمہ صفیہ حبیب صاحبہ اہلیہ مکرم چودھری حبیب اللہ صاحب کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے جو 27؍دسمبر 2012ء کو ٹورانٹو (کینیڈا) میں انتقال کرگئیں۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے لندن میں نماز جنازہ غائب پڑھائی۔ مرحومہ نے خاوند کے علاوہ چار بیٹے اور پانچ بیٹیاں پسماندگان میں چھوڑیں۔

محترمہ صفیہ حبیب صاحبہ کے والد محترم چودھری خدابخش صاحب غوث گڑھ (ریاست پٹیالہ) کے رہنے والے تھے اور اہل حدیث مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔ خلافت ثانیہ میں بیعت کی تو شدید مخالفت ہوئی۔ برادری نے گاؤں کے کنویں سے پانی لینے پر بھی پابندی لگادی اور گاؤں والوں کو آپ کے کام کرنے سے روک دیا۔ مشکلات کے باوجود آپ نے ایمان میں ثابت قدمی دکھائی اور اپنی بیٹی یعنی ہماری والدہ کی شادی بھی احمدی خاندان میں کی۔

محترمہ صفیہ حبیب صاحبہ کے رگ و ریشہ میں اللہ تعالیٰ کی محبت رچی بسی تھی۔ عبادت کا خاص ذوق تھا۔ نماز تہجد بھی باقاعدگی سے ادا کرتیں۔ قرآن کریم کی تلاوت اور اس کا ترجمہ پڑھنا معمولِ زندگی تھا۔ ہر رمضان میں کم از کم تین مرتبہ قرآن مجید کا دَور مکمل کرتیں۔ تجرید بخاری مترجم اور حضرت مسیح موعودؑ کی کتب خصوصاً ’’حقیقۃالوحی‘‘ بہت عقیدت سے پڑھا کرتی تھیں۔ دعاؤں اور درودشریف پر زور دیتیں۔ خلافت کی ہر تحریک پر لبّیک کہتیں۔ خلافتِ رابعہ میں ایک تحریک پر اپنا سارا زیور پیش کردیا۔ چندہ جات بروقت ادا کرتیں۔ ایک مرتبہ جب سال ختم ہونے کو آیا اور چندہ ابھی بقایا تھا تو آپ نے وہ بھوسہ جو جانوروں کے لیے پورے سال کے لیے ذخیرہ کیا ہوا تھا، اُسے فروخت کردیا۔

بھابھڑہ ضلع سرگودھا میں آپ جب تک مقیم رہیں، وہاں آنے والے مربیان اور مرکزی مہمانوں کا خاص خیال رکھتیں۔ اُن کے کھانے، کپڑوں کی دھلائی اور استری وغیرہ کا انتظام خود کرتیں۔ بھابھڑہ میں لجنہ آپ نے قائم کروائی اور سالہاسال تک وہاں کی صدر اور پھر نگران حلقہ کے طور پر خدمت کی توفیق پائی۔ ربوہ میں قیام کے دوران بھی اپنے محلّوں میں خدمت کرتی رہیں۔ دعوت الی اللہ کا بہت شوق تھا اور مضافات میں بھی اکثر جایا کرتی تھیں۔ آپ کی ایک بیٹی جب اپنے حلقے کی صدر لجنہ بنی تو آپ نے دو باتوں کی نصیحت کی۔ اوّل یہ کہ تکبّر نہ کرنا اور دوسرے اگر کوئی ممبر لجنہ ملنا چاہے تو وقت دینا اور اُس کی بات ہمدردی سے سننا۔

اللہ تعالیٰ کا آپ کے ساتھ غیرمعمولی سلوک تھا۔ ایک بار کسی جماعتی دورے سے واپس آرہی تھیں تو گھر کے پاس پہنچ کر علم ہوا کہ قیمتی چادر کہیں گر گئی ہے۔ غروب آفتاب کا وقت تھا اور واپس جاکر تلاش کرنا بھی مشکل تھا اس لیے انّاللہ پڑھ کر گھر آگئیں۔ کچھ ہی دیر بعد کوئی آدمی وہ چادر لیے آیا کہ مَیں فلاں راستے سے آرہا تھا تو آپ کی یہ چادر ملی۔

ایک بار کسی معاملے میں بہت پریشانی سے دعا کررہی تھیں تو عالمِ رؤیا میں ایک بزرگ تشریف لائے اور بڑی شفقت سے کہا کہ آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، جب بھی پریشانی ہو تو مجھے بتادیں، وہ پریشانی دُور ہوجائے گی۔ کچھ باتیں کرنے کے بعد جب وہ بزرگ جانے لگے تو آپ نے اُن کا پتا پوچھا تاکہ بعد میں بھی رابطہ کرسکیں۔ انہوں نے کاغذ مانگا اور اُس پر ’’ا‘‘ یعنی الف لکھ کر آپ کو دے دیا۔ چنانچہ بعد میں اللہ تعالیٰ کا خاص سلوک آپ کے ساتھ رہا اور اکثر دعائیں شرفِ قبولیت پاتی رہیں۔

خوابوں کی تعبیر بھی کرتیں۔ بتایا کرتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے سے چار بیٹوں اور پانچ بیٹیوں کی بشارت دی تھی۔ اسی طرح میرے (مضمون نگار کے) ہاں بھی چار بیٹوں کی پیدائش کی خبر آپ نے کئی سال پہلے ایک خواب کی بِنا پر دے دی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی وفات کے بارے میں بھی پہلے سے بتادیا تھا۔ چنانچہ جب ہسپتال میں داخل تھیں تو والد صاحب کو دل کے مریض ہونے کی وجہ سے ہسپتال نہیں لے جایا جاتا تھا۔ لیکن ایک روز آپ نے اصرار کرکےاُنہیں بُلایا۔ اُن کے آنے پر خلافِ معمول اپنا ہاتھ باہر نکالا اور اُن کے ساتھ مصافحہ کرکے کہا کہ کل مَیں نہیں ہوں گی، مَیں نے آپ کو بخش دیا، آپ مجھے بخش دیں۔ مَیں ایک وصیت کرنا چاہتی ہوں کہ صبر کرنا اور آپ اور بچے رو کر مجھے تکلیف نہ دینا۔ اگلے روز آپ کی وفات ہوگئی۔ آپ نظامِ وصیت میں شامل تھیں۔ غریب پرور تھیں اور حسب مراتب ہر ایک کا خیال رکھنے والی تھیں۔ بلاتفریق مذہب ضرورت مندوں کی مدد کرتی رہیں۔ اسی حسنِ سلوک کا نتیجہ تھا کہ بہت سے غیرازجماعت آپ کی نماز جنازہ میں بھی شریک ہوئے۔

………٭………٭………٭………

مکرم ماسٹر محمد حسین صاحب

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 28؍اگست 2013ء میں محترم ماسٹر محمد حسین صاحب کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔

محترم ماسٹر صاحب کا خاندان اہل حدیث تھا اور چوڑابہلپور ضلع گورداسپور میں آباد تھا۔ 1936ء میں آپ کے والد محترم چودھری فتح دین صاحب نے بیعت کی۔ 1937ء میں اُن کے والد (ماسٹر صاحب کے دادا) محترم چودھری گوہر علی صاحب بھی احمدی ہوگئے۔ اسی سال محترم ماسٹر صاحب کی پیدائش ہوئی۔ قیامِ پاکستان کے بعد محترم ماسٹر صاحب کا گھرانہ گھسیٹ پورہ ضلع فیصل آباد میں آبسا۔ یہاں محترم ماسٹر صاحب کو مختلف حیثیتوں سے خدمت دین کی سعادت حاصل ہوتی رہی۔ آپ اپنی زمینوں پر کھیتی باڑی بھی کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ ایک قریبی گاؤں میں واقع پرائمری سکول میں 38 سال تک تدریس کے فرائض سرانجام دے کر ریٹائرڈ ہوئے۔

آپ بلاناغہ نماز تہجد ادا کرتے، تمام نمازیں باجماعت ادا کرتے اور فجر کے بعد گھر آکر اونچی آواز میں تلاوت کرتے۔ کھیتوں میں کام کرتے وقت نماز کا وقت ہوجاتا تو ہمیں ساتھ لے کر نماز باجماعت ادا کرتے۔ آپ کو قرآن کریم سے بےپناہ محبت تھی۔ اپنے دو بیٹوں کو حافظِ قرآن بنایا جبکہ خاکسار (مضمون نگار) کو جامعہ احمدیہ میں تعلیم کے لیے ربوہ بھجوایا۔ جب بھی وقت ملتا تو حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کا مطالعہ کرتے۔ خلفائے کرام سے بہت عقیدت تھی۔ عہدیداروں کی مثالی اطاعت کرتے۔ کوئی مہمان گاؤں میں آتا تو کوشش کرتے کہ اُنہیں گھر سے کھانا کھلائیں۔ اگر کوئی ہمسایہ کسی چیز کو لینے کے لیے آتا تو اُسے خالی ہاتھ نہ جانے دیتے۔ دودھ وغیرہ کوئی مانگتاتو اپنے حصے کا بھی اُسے دے دیتے۔ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر کرتے۔

آخری پانچ سال ربوہ میں گزارے۔ لمبی بیماری کو بڑے صبر سے برداشت کیا اور 21؍جون 2010ء کو وفات پاکر بہشتی مقبرہ میں مدفون ہوئے۔ آپ نے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں چھوڑیں۔

………٭………٭………٭………

الحمرا شاہی محل (سپین)

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 3؍اگست 2013ء میں الحمرا محل کا تعارف شامل اشاعت ہے۔ سپین کے شہر غرناطہ کے سامنے ایک پہاڑی پر ہسپانوی اسلامی تعمیرات کا نمونہ شاہی محل اور شرفا کی قیام گاہوں کو الحمرا کہا جاتا ہے۔ ان کی تعمیر 1238ء سے 1354ء کے درمیان ہوئی۔ 1492ء میں مسلمانوں کی حکومت کے خاتمے کے بعد ان کو بڑی حد تک تباہ کردیا گیا۔ 1828ء کے بعد اس کی وسیع پیمانے پر مرمّت کرکے اسے پہلی حالت میں بحال کرنے کی کوشش کی گئی۔

آٹھویں صدی عیسوی سے گیارھویں صدی عیسوی تک سپین میں عرب سلطنت کا دارالحکومت قرطبہ تھا۔ تیرھویں صدی کے اوائل میں صرف ریاست غرناطہ میں عربوں کا تسلّط قائم رہ گیا۔ الحمرا یورپ میں مسلمانوں کے عروج کی آخری نشانی ہے۔ باہر سے اس کے ستون سادہ مگر باوقار ہیں۔ فن تعمیر کا تمام حُسن اندرونی حصوں میں نظر آتا ہے۔ اس کے تین حصوں میں سے درمیانی الحمرا محل ہے۔ محل کے دروازے، شہتیر اور چھتیں آبنوس کی لکڑی کی ہیں جنہیں کھود کر حسین نقش و نگار بنائے گئے ہیں۔ فرش اور دیواروں کے نچلے حصے سبز، اودے اور نارنگی رنگوں کے ڈیزائنوں میں بنائے گئے ہیں۔ دیواروں کا بقیہ حصہ سرخ، نیلے اور پیلے رنگ میں پینٹ کیا گیا ہے۔ محل کا ایک کمرہ رازوں کا ہال کہلاتا ہے۔ اس کمرے کے ایک کونے میں سرگوشی کی جائے تو دوسرے سرے پر اُسے آسانی سے سنا جاسکتا ہے۔ امریکی مصنف واشنگٹن ارونگ نے الحمرا کے ماحول کو ’’جادو کی دنیا‘‘ قرار دیا ہے۔

………٭………٭………٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button