اختلافی مسائل

دِل ہمارے ساتھ ہیں …علماء کی نظر میں خلافت کی اہمیت

غیراحمدی علماء دل سے اُن عقائد اور اس مشن کے قائل ہیں جسے لے کر جماعت احمدیہ مسلمہ مسلسل ترقی کی راہوں پر بفضلہ تعالیٰ و بعونہٖ گامزن ہے۔ خلافتِ احمدیہ کا معاملہ بھی انہی میں سے ایک ہے۔ خلافت کی اہمیت پرچند قدیم و جدید علماء کے بعض حوالہ جات پیش کیے جارہے ہیں تاکہ قارئین کو اس بات کا علم ہوسکے کہ قیام خلافت کی خواہش آج بھی غیراحمدی علماء کے دلوں میں تڑپ رہی ہے۔ تاہم یاد رہے کہ وہ اس بارے میں دو غلط فہمیوں کا شکار ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ سمجھتے ہیں کہ خلافت کا قیام انسانی کاوشوں سے ہوسکتا ہے جبکہ قرآن و سنت سے ثابت ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے۔ اور دوسرے یہ کہ جسے نبی اکرمﷺ نے ملوکیت یعنی مسلمانوں کی سیاسی حکومت قرار دیا ہے اسے وہ خلافت کا نام دیتے ہیں اور اس کے قیام کی جدوجہد کرتے رہتے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے علماء کے اقتباسات:

٭…ابن تیمیہؒ

’’و في مسند الإمام أحمد ’’عن عبداللّٰہ بن عمر‘‘ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال ’’لا یحل لثلاثۃ یکونون بفلاۃ من الأرض إلا أمّروا ّحدھم‘‘ فإذا کان قد اوجب فی اقل الجماعات و اقصر الاجتماعات ان یولی احدھم کان ھذا تنبیھًا علی وجوب ذٰلک فیما ھو اکثر من ذٰلک‘‘(الحسبہ فی الاسلام صفحہ9)مسند امام احمد میں عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: تین افراد کے لیے جائز نہیں کہ وہ سفر کے لیے نکلیں سوائے اس کے کہ اپنے میں سے ایک کو امیر مقرر کرلیں۔ جب رسول اللہﷺ نے قلیل ترین جماعت اور سب سے چھوٹے گروہ کے لیے بھی ضروری قرار دیا کہ ان میں سے ایک کو امیر بنایا جائے تو اس سے زیادہ تعداد میں تو یہ بالاولیٰ ضروری قرار پائے گا۔

٭…ابن حجر الہیثمی المکی

’’اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اس بات پر اجماع ہے کہ زمانہ نبوت گذرنے کے بعد امام کا نصب کرنا واجب ہے بلکہ انہوں نے تو اسے اہم واجبات میں سے قراردیاہے کیونکہ انہوں نے اس وقت تک رسول اللہﷺ کو دفن نہیں کیا جب تک امام کو مقرر نہیں کرلیا۔‘‘(الصواعق المحرقہ صفحہ 57)

٭…علامہ ابن خلدون

’’کیا تقرر امام ضروری ہے؟ ہاں ضروری ہے اور اس کا وجوب شرع سے اور صحابہؓ اور تابعین کے اجتماع سے ثابت ہے کیونکہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات حسرت آیات کے بعد صحابہ کرامؓ نے آپؐ کو دفن کرنے سے پہلے یہی کام کیا تھا اور صدیق اکبر کو خلیفہ چن لیا تھا اور تمام ملکی انتظامات ان کے حوالے کر دیئے تھے۔ پھر آپ کے بعد ہر زمانہ میں ایسا ہی ہوتا رہا اور لوگوں کو کسی زمانہ میں بھی مطلق العنان اور خلیفہ کے بغیر آزاد نہیں چھوڑا گیا۔ اس اعتبار سے تقرر خلیفہ پر امت کا بھی اجتماع ثابت ہوا۔‘‘( مقدمہ تاریخ ابن خلدون حصہ اول صفحہ317تا318)

٭…ابن حزمؒ

’’تمام اہل سنت مرجئہ، معتزلہ شیعہ اور خوارج کا اس بات پر اجماع ہے کہ امامت واجب ہے اور ان پر فرض واجب ہے کہ وہ امام عادل کی اطاعت کرے جو ان میں اللہ کے احکام کو قائم کرے اور رسول اللہﷺ کی طرف سے آئی ہوئی شریعت کے مطابق ان میں سیاست کرے‘‘(الفصل فی الملل والاھواء و النحل جلد چہارم باب الکلام فی الإمامۃ والمفاضلۃ صفحہ 149)

٭…حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒ

’’اگرچہ کوئی شخص معرفت الٰہی اور تہذیب نفس میں ہزار جدوجہد اور سعی بلیغ کرے لیکن اگر ایمان بالانبیاء نہ رکھتا ہو تو ہرگز نجات اُخروی نہ پاسکے گا۔ اَور غضب جبّار و طبقاتِ نار سے ہرگز خلاصی نہ پائے گا۔ اسی طرح اگر چند عبادات اور طاعاتِ دینیہ بجا لائے اور احکامِ اسلام میں پوری کوشش کرتا رہے لیکن جب تک امامِ وقت کی اطاعت کے آگے سر تسلیم خم نہ کرے اور اس کی اطاعت کا اقرار نہ کرے،عبادت مذکورہ آخرت میں اس کے کام نہ آئے گی اور ربِّ قدیر کی داروگیر سے خلاصی نہ ہوسکے گی۔‘‘(منصب امامت صفحہ122)

٭…مولانا ابوالکلام آزاد صاحب

’’اسی بنا پر شارع نے اسلام اور اسلامی زندگی کا دوسرا نام ’’جماعت‘‘رکھا ہے اور جماعت سے علیحدگی کو ’’جاہلیۃ‘‘ اور ’’حیاتِ جاہلی‘‘سے تعبیر کیا ہے۔ جیسا کہ آگے بالتفصیل آئے گا۔ ’’من فارق الجماعۃ فمات میتۃ الجاہلیۃ‘‘۔ اور اسی بنا پر بکثرت وہ احادیث و آثار موجود ہیں جن میں نہایت شدت کے ساتھ ہر مسلمان کو ہر حال میں التزامِ جماعت اور اطاعتِ امیر کا حکم دیا گیا۔ اگرچہ امیر غیر مستحق ہو، نا اہل ہو، فاسق ہو، ظالم ہو، بشرطیکہ مسلمان ہو اور نماز قائم رکھے یعنی وما اقاموا الصلوٰۃاور ساتھ ہی بتلادیا گیا کہ جس شخص نے جماعت سے علیحدگی کی راہ اختیار کی تو اس نے اپنے تئیں شیطان کے حوالے کردیا۔ یعنی گمراہی اور ٹھوکر اس کے لیے ضروری ہے۔ زنجیر کا توڑنا مشکل ہوتا ہے۔ لیکن کوئی کڑی زنجیر سے الگ ہوگئی ہوتو ایک چھوٹے سے حلقہ کا حکم رکھتی ہے جس کو انگوٹھے سے مسل دیا جاسکتا ہے۔ حضرت عمرؓ اپنے خطبوں میں بار بار آنحضرتﷺ سے روایت کرتے ہیں ’’علیکم بالجماعۃ فان الشیطٰن مع الفذہ و ھو من الاثنین ابعد‘‘ دوسری روایت میں ہے ’’فان الشیطٰن مع الواحد‘‘یعنی جماعت سے الگ نہ ہو، ہمیشہ جماعت بن کر رہو،کیونکہ جب کوئی تنہا اور الگ ہوا تو شیطان اس کا ساتھی ہوگیا۔ دو انسان بھی مل کر رہیں تو شیطان ان سے دور رہےگا۔ یعنی اتحادی و جماعتی قوت ان میں پیدا ہوگئی۔ اب وہ راہِ حق سے نہیں بھٹک سکتے …خلاصہ ان سب کا یہ ہے کہ ہمیشہ جماعت کے ساتھ ہو کر رہو۔ جو جماعت سے الگ ہوا اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔ افراد تباہ ہوسکتے ہیں مگر ایک صالح جماعت کبھی تباہ نہیں ہوسکتی، اس پر اللہ کا ہاتھ ہے۔‘‘(مسئلہ خلافت صفحہ29تا30)

٭…اشرف علی تھانوی صاحب

’’اس وقت سب سے بڑی وجہ ناکامی کی یہی ہوئی کہ مسلمانوں کے سر پر کوئی بڑا نہیں، نہ مسلمانوں کی قوت کسی مرکز پر جمع ہے اور نہ ہوسکتی ہے جب تک کہ بالاتفاق ایک کو بڑا نہ بنا لیں۔ اگر امام ہو تو سب کام ٹھیک ہوسکتے ہیں۔‘‘(اسلام اور سیاست۔ مجموعہ ٔافادات مولانا اشرف علی تھانوی صاحب۔ حکیم الامت کے سیاسی افکار از مفتی محمد تقی عثمانی صاحب صفحہ۔ 54)

٭…ڈاکٹر محمود عبدالمجید الخالدی صاحب

’’آج مسلمانوں پر جو ذلت مسلط ہے جس کی وجہ سے وہ دنیا کے کنارے پر بسنے پر مجبور ہیں، دوسری قوموں کے دم چھلے بن چکے ہیں اور محض ایک قصۂ پارینہ کی حیثیت اختیار کرگئے ہیں، اس کا سبب سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ مسلمانوں نے اقامتِ خلافت کے باب میں سستی سے کام لیا ہے اور شرعی حکم کے التزام میں اپنے لئے خلیفہ کے تقرر میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے جو کہ ازروئے شریعت نماز روزے اور حج کی طرح فرض ہوچکا ہے۔ اسلامی تشخص کو ازسرنو زندہ کرنے کے لئے جدوجہد کرنے سے سستی کرنا آج سب سے بڑا گنا ہ ہے۔ اس لئے امت پر خلیفہ کا تقرر فرض اور لازم ہے تاکہ مسلمانوں پر اسلامی احکام کا نفاذ ہوسکے اور دعوتِ اسلامی کو تمام اطراف و اکنافِ عالم میں پہنچایا جاسکے۔‘‘(قواعد نظام الحکم فی الاسلام صفحہ248)

٭…عبدالرحمٰن کیلانی صاحب

’’ملّی وحدت تین عناصر سے عبارت ہے، جماعت۔ امیر اور فرد۔ حضور اکرمﷺ کا ارشاد ہے: لا اسلام الّا بالجماعۃ، ولا جماعۃ الّا بالامیر، ولا امیر الّا بالسمع والطاعۃ۔ ترجمہ: جماعت کے بغیر اسلام کی سربلندی ناممکن ہے اور امیر کے بغیر جماعت متحد نہیں رہ سکتی اور امیر کی امارت اس وقت تک بارآور نہیں ہوسکتی جب تک کہ ہر شخص اس کا حکم سن کر اس کی بات نہ مانے۔‘‘(خلافت و جمہوریت صفحہ19)

٭…قاری یحیٰ اشرف عبدالغفار صاحب

’’…جماعت ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو ایک امام (خلیفہ) پر شریعت کے تقاضوں کے مطابق مجتمع ہوتے ہیں۔ چنانچہ اس ’’جماعت‘‘کا لزوم واجب ہے اور اس سے خروج حرام ہے، جیسا کہ احادیث میں موجود ہے۔ …اقامتِ دین کی جدوجہد کے لئے جماعت کا قیام و التزام لازم ہی نہیں بلکہ واجب اور فرض ہے۔‘‘(ماہنامہ حکمت قرآن دسمبر 2007ء صفحہ49تا50)

٭…علامہ زاہد الراشدی صاحب

’’جہاں تک خلافت کی ضرورت اور اس کی شرعی حیثیت کا تعلق ہے، فقہائے کرام نے اسے امت کی اجتماعی ذمہ داری اور فرض کفایہ قرار دیا ہے کہ دنیا کے کسی حصے میں خلافت شرعیہ موجود ہو، جس سے امت کے افراد متعلقہ امورو معاملات میں رجوع کرسکتے ہوں تو گزارہ ہوجائے گا لیکن اگر کہیں بھی خلافتِ اسلامیہ کا وجود نہیں ہے تو امت مسلمہ بحیثیت امت مجموعی طور پر دینی فریضہ کی تارک اور گنا ہگار ہوگی۔ میرے خیال میں آج کی صورتحال یہی ہے کہ ہم سب دینی فریضہ کے تارک اور گنا ہگار ہیں۔ فقہائے کرام نے خلافت کے وجوب پر ایک دلیل یہ دی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے جناب نبی اکرمﷺ کے وصال کے بعد سب سے پہلے یہی کام کیا تھا، حتیٰ کہ جناب نبی اکرمﷺ کی تجہیز و تدفین سے بھی اس کو مقدم کیا۔ اس لیے یہ صرف واجب نہیں بلکہ اہّم الواجبات ہے۔‘‘(رسالہ میثاق اپریل 2012ءصفحہ 51)

اس دور میں خلافت احمدیہ حقّہ اسلامیہ کی مخالفت اور آئے روز اس کے خلاف برپا کیے جانے والے اندرونی و بیرونی فتنوں کی بنیاد محض حسد ہے کہ جس نعمت عظمیٰ کو پانے کے لیے یعنی مسلمانوں میں ایک بین الاقوامی اتحاد اور ایک واجب الاطاعت امام کے وجود کے لیے ان کی دن رات کی کوششیں اور ہر چند سال بعد ایک نئی تحریک بار بار ناکامی کا شکار ہوتی ہے جبکہ احمدیہ مسلم جماعت کے پاس یہ نعمت نہ صرف114 برس سے قائم ہے بلکہ پھلتی پھولتی جارہی ہے اور دشمنوں کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود اس میں بحمدللہ ایک رخنہ تک نہیں پیدا ہوا۔ ذٰلک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشاء واللّٰہ ذوالفضل العظیم!

(مرسلہ: انصر رضا۔ واقف زندگی۔ کینیڈا)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button