نکاح وطلاق

چونکہ مغربی ممالک میں قانوناًمرددوسری شادی کا حق نہیں رکھتا تو کیا پہلی بیوی کوطلاق دیئے بغیر دوسرا نکاح کرلینا زنا میں شمار ہوتا ہے؟

جواب: یہ بات ٹھیک ہے کہ اکثر مغربی ممالک میں ایک بیوی کے ہوتے ہوئے قانونی اعتبار سے دوسری شادی منع ہے لیکن اسلام نے مرد کو چار شادیوں کی اجازت دی ہے۔ اگر کوئی شخص کسی ایسی جگہ جا کر جہاں دوسری شادی کی ممانعت نہیں باقاعدہ نکاح کے ذریعہ دوسری شادی کر بھی لیتا ہے تو ان مغربی ممالک میں اس کی اس دوسری بیوی کوکسی قسم کے قانونی حقوق نہیں ملتے لیکن شرعاً وہ اس کی بیوی ہی مانی جائے گی اور اس کے ساتھ اس کے جسمانی تعلقات زنا شمار نہیں ہوتے۔

آپ کے خاوند اگر اس عورت سے بغیر نکاح کے تعلقات رکھتے، جو کہ شرعاً حرام ہے لیکن ان مغربی ممالک کے قوانین میں اس کی گنجائش نکل آتی ہے تو کیا یہ بات آپ کو خوش کرتی؟

اسلام نے جس طرح مرد کےلیے اس کی ضرورت کے مطابق حقوق بیان کیے ہیں اسی طرح عورت کےلیے بھی اس نےمختلف حقوق قائم فرمائے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسلامی تعلیم کا یہ پہلو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’یہ مسئلہ اسلام میں شائع متعارف ہے کہ چار تک بیویاں کرنا جائز ہے۔ مگر جبر کسی پر نہیں اورہر ایک مرد اور عورت کو اس مسئلہ کی بخوبی خبر ہے تویہ ان عورتوں کا حق ہے کہ جب کسی مسلمان سے نکاح کرنا چاہیں تو اول شرط کرالیں کہ ان کا خاوند کسی حالت میں دوسری بیوی نہیں کرے گا اوراگر نکاح سے پہلے ایسی شرط لکھی جائے تو بیشک ایسی بیوی کا خاوند اگر دوسری بیوی کرے تو جرم نقض عہد کا مرتکب ہوگا۔ لیکن اگر کوئی عورت ایسی شرط نہ لکھاوے اورحکم شرع پر راضی ہووے تواس حالت میں دوسرے کا دخل دینا بیجا ہوگااوراس جگہ یہ مثل صادق آئے گی کہ میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی۔ ہرایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ خدا نے تو تعدّد ازواج فرض واجب نہیں کیا ہے خدا کے حکم کی رو سے صرف جائز ہے پس اگر کوئی مرد اپنی کسی ضرورت کی وجہ سے اس جائز حکم سے فائدہ اُٹھانا چاہے جو خدا کے جاری کردہ قانون کی رُو سے ہے اوراس کی پہلی بیوی اس پر راضی نہ ہو تواس بیوی کے لئے یہ راہ کشادہ ہے کہ وہ طلاق لے لے اور اس غم سے نجات پاوے اوراگر دوسری عورت جس سے نکاح کرنے کا ارادہ ہے اس نکاح پر راضی نہ ہو اس کے لیے بھی یہ سہل طریق ہے کہ ایسی درخواست کرنے والے کو انکاری جواب دےدے۔ کسی پر جبر تو نہیں لیکن اگر وہ دونوں عورتیں اس نکاح پر راضی ہو جاویں تو اس صورت میں کسی آریہ کو خواہ نخواہ دخل دینے اور اعتراض کرنے کا کیا حق ہے؟ ‘‘(چشمۂ معرفت، روحانی خزائن جلد 23صفحہ 246)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button