متفرق مضامین

روزے کے روحانی اور جسمانی فوائد

(’ایم-ایم-طاہر‘)

روزہ اسلام کا ایک بنیادی رکن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر روزے فرض کیے ہیں اور اس کی فرضیت کے احکامات سورة البقرة کی آیت 184تا185 میں دیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو تم پر روزے اسی طرح فرض کردیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو، تاتم برائیوں سے بچ سکو۔

روزے کے مقاصد حصول تقویٰ اور برائیوں سے بچ کر لقائے باری تعالیٰ حاصل کرنا ہے۔ روزوں کی عبادات سے انسان عظیم الشان روحانی فوائد اور ترقیات حاصل کرتا ہے۔ روزہ دراصل مختلف عبادات کا مجموعہ ہے اور انسانی تخلیق کے مقصد کو پورا کرنے والا، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا سبق دینے والا ہے۔ یہ لقائے باری تعالیٰ کے حصول کا ذریعہ ہے اور کشفی قوتوں کو بڑھانے والا عمل ہے۔ اس عبادت میں ایک طرف تو عبادت الٰہی اپنے معراج کو پہنچتی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور دوسری طرف کتاب اللہ یعنی قرآن کریم کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرواتا ہے کہ رمضان وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا اور جس کے بارے میں قرآن نازل ہوا۔ حضرت جبرائیل رمضان میں آنحضرت ؐکو قرآن کریم کا دَور بھی کروایا کرتے تھے۔ روزےکی ایک فضیلت یہ ہے کہ ا س سے حقوق العباد کی ادائیگی کا سبق بھی دیا گیا۔ انسان کو صبر، حوصلہ، برداشت، نرم اور پاک زبان کے استعمال، جھوٹ سے اجتناب اور دیگر برائیوں سے رکنے کا سبق دیا جاتا ہے۔ یہ سب روزے کے روحانی فوائد ہیں۔

روزے کے روحانی فوائد

روزہ عظیم الشان روحانی فوائد کے حصول کا ذریعہ ہے اور اس سے انسان غیر معمولی روحانی انقلاب پیدا کرکے روحانی ترقیات کے زینے طے کرسکتا ہے۔ روزوں کے چند روحانی فوائد کا ذیل میں تذکرہ کیا جارہا ہے۔

٭…لقائے باری تعالیٰ کا حصول

بخاری کتاب الصوم میں حضرت ابوھریرہؓ کی روایت ہے کہ رسول کریمؐ نے حدیث قدسی بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان کے سب کام اس کے اپنے لیے ہیں مگر روزہ میرے لیے ہیں اور میں خود اس کی جزا بنوں گا۔ یعنی اس کی اس نیکی کے بدلے میں میں اسے اپنا دیدار نصیب کروں گا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’انسانی فطرت میں ہے کہ جس قدر کم کھاتا ہے اسی قدر تزکیہ نفس ہوتا ہے اور کشفی قوتیں بڑھتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا منشا اس سے یہ ہے کہ ایک غذا کو کم کرو اور دوسری کو بڑھاؤ۔ ہمیشہ روزہ دار کو یہ مدّ نظر رکھنا چاہئے کہ اس سے اتنا ہی مطلب نہیں کہ بھوکا رہے بلکہ اسے چاہئے کہ خداتعالیٰ کے ذکر میں مصروف رہے تاکہ تبتل اور انقطاع حاصل ہو۔ پس روزے سے یہی مطلب ہے کہ انسان ایک روٹی کو چھوڑ کر جو صرف جسم کی پرورش کرتی ہے دوسری روٹی کو حاصل کرے جو روح کی تسلی اور سیری کا باعث ہے۔ اور جو لوگ محض خدا کے لئے روزے رکھتے ہیں اور نرے رسم کے طور پر نہیں رکھتے انہیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد اور تسبیح اور تہلیل میں لگے رہیں جس سے دوسری غذا انہیں مل جاوے۔‘‘

(ملفوظات جلد5صفحہ102)

٭…برائیوں کے خلاف ڈھال

روزہ انسان کو برائیوں سے بچاتا ہے اور شیطانی حملوں سے محفوظ رکھتا ہے چنانچہ آنحضرتؐ نے فرمایا ’’الصوم جُنّةٌ‘‘ کہ روزہ ڈھال ہے۔ڈھال انسان کو دشمن کے حملہ سے بچاتی ہے۔ روزہ انسان کو برائیوں اور شیطانی حملوں سے محفوظ رکھتا ہے۔

٭…قبولیت دعا کا ذریعہ

روزے دار کو قبولیت دعا کا اعجاز ملتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سورة بقرہ میں جہاں روزے کے احکامات دیے ان احکامات کے درمیان یہ بات بھی بیان فرمائی کہ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ (البقرۃ:187) کہ میں پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں۔ یوں قبولیت دعا کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے احکاماتِ رمضان کے درمیان میں دیا ہے۔ رمضان میں خصوصی عبادات اور دعاؤں کا موقع پیدا ہوتا ہے۔ سحر و افطار خاص طور پر قبولیت کی گھڑیاں ہیں۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ’’رمضان کا مہینہ دعاؤں کی قبولیت کے ساتھ نہایت گہرا تعلق رکھتا ہے۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں دعا کرنے والوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قَرِیْبٌکے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ اگر وہ قریب ہونے پر بھی نہ مل سکے تو اور کب مل سکے گا۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ409)

٭…تلاوت قرآن کریم کے مواقع

رمضان اور قرآن کا گہراتعلق ہے۔ اس بابرکت مہینہ میں قرآن نازل ہوا۔ حضرت جبرائیل آنحضورؐ کو ہر سال قرآن کریم کا دَور کرواتے تھے۔ اور آپؐ کے آخری رمضان میں دو مرتبہ دور کروایا۔ رمضان میں کثرت تلاوت کا موقع میسّر آتا ہے۔ آنحضورؐ کی سنت کے مطابق قرآن کا ایک دَورکم ازکم سب کو کرنا چاہیے۔خلفائے کرام نے بھی اس حوالے سے بار بار ہمیں توجہ دلائی ہے۔ کلام پاک کی محبت بڑھانے، اس کے احکامات پر عمل کرنے، ترجمہ و تفسیر قرآن کے مواقع بکثرت رمضان میں حاصل ہوتے ہیں۔

رمضان اور قرآن کے باہمی تعلق کو آنحضورؐ نے اس انداز میں بھی بیان فرمایا کہ روزے اور قرآن قیامت کے دن بندے کی سفارش کریں گے۔ روزے کہیں گے اے میرے ربّ! میں نے اس بندے کو دن کے وقت کھانے پینے اور خواہشات سے روکا پس اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔ اور قرآن کہے گا کہ مَیں نے اسے رات کو نیند سے روکے رکھا پس اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔ آنحضورؐ نے فرمایا ان دونوں یعنی روزے اور قرآن کی سفارش قبول کی جائے گی۔

(مسند احمد حدیث نمبر6337)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’رمضان اور قرآن کی ایک خاص نسبت ہے جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ جبریلؑ ہر رمضان میں جتنا قرآن نازل ہوچکا ہوتا آنحضرتﷺ کے ساتھ مل کر دہراتے تھے۔ اس لئے بھی ان دنوں میں قرآن پڑھنے سمجھنے اور درسوں میں شامل ہونے کی طرف توجہ دینی چاہئے تاکہ اس کا ادراک پیدا ہو۔‘‘

(خطبات مسرور جلد اول صفحہ441)

٭…صبروتحمل کا پیدا ہونا

روزے کا ایک روحانی فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان کے اندر صبر، حوصلہ، تحمل اور برداشت پیدا ہوتی ہے۔ آنحضرتؐ فرماتے ہیں کہ روزہ ڈھال ہے پس تم میں سے جب کسی کا روزہ ہوتو وہ نہ بےہودہ باتیں کرے اور نہ شوروشر کرے۔ اگر اس سے کوئی گالی گلوچ کرے یا لڑائی جھگڑا کرے تو وہ جواب میں صرف یہ کہے کہ مَیں نے تو روزہ رکھا ہوا ہے۔

یہ حدیث بتاتی ہے کہ روزے دار کو خود بھی لڑائی جھگڑے سے بچنا ہے اور اگر کوئی اس سے لڑائی جھگڑا کرے تو بھی صرف یہ کہے کہ میں نہیں جھگڑوں گا کیونکہ میں نے روزہ رکھا ہوا ہے۔ اس سے تحمل اور صبر کا سبق ملتا ہے۔اس لیے آنحضورؐ نے رمضان کے مہینہ کو شھر الصبر یعنی صبر کا مہینہ قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ صبر کا ثواب جنت ہے۔

حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ فرماتے ہیں: ’’نبی کریم ﷺ نے ماہِ رمضان کو صبر کا مہینہ کہا ہے…پس یہ مہینہ صبر کے ساتھ اور ثابت قدمی کے ساتھ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے احکام کے ساتھ باندھنے کا ہے تاکہ حقوق اللہ اور حقوق العباد اس رنگ میں ادا ہوجائیں جس رنگ میں کہ ہمارا ربّ چاہتا ہے کہ ہم ادا کریں۔‘‘

(الفضل30؍اپریل 1970ء)

٭…محاسبہ نفس کا ذریعہ

رمضان کا ایک روحانی فائدہ یہ ہے کہ روزہ محاسبہ نفس کا ذریعہ بنتا ہے۔ آنحضورؐ نے فرمایا کہ جس نے رمضان کے روزے ایمان کی حالت میں اور احتساب کی حالت میں رکھے اس کے پچھلے گناہ معاف ہوگئے۔ تو اگر احتساب کی حالت میں رمضان گزاریں تو اس کا فائدہ یہ ہے کہ گذشتہ گناہوں کی معافی ہوگی اور آئندہ نیکیوں کی طرف رغبت بڑھے گی۔

حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ بیان فرماتے ہیں: ’’جب اپنے نفس کا احتساب کرو گے کہ تم کس حالت میں ہو، روزانہ کیا تمہارا مشغلہ ہے،کیا کیا کام جو برے کام تھے تم نے اب رمضان میں چھوڑنے شروع کردئیے ہیں کیا کیا کام جو اچھے تھے ان کو پہلے سے زیادہ حسین کرکے تم نے ان پر عمل شروع کیا ہے اس کو احتساب کہتے ہیں۔‘‘

(روزنامہ الفضل 29؍دسمبر1999ء)

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’اپنے روزوں کے معیار کو دیکھنا اور تقویٰ کی طرف قدم بڑھنے کا تبھی پتا چلے گا جب اپنا محاسبہ کررہے ہوں گے۔ دوسرے کے عیب نہیں تلاش کررہے ہوں گےبلکہ اپنے عیب اور کمزوریاں تلاش کررہے ہوں گے۔ یہ دیکھ رہے ہوں گے کہ آج میں نے کتنی نیکیاں کی ہیں یا کرنے کی کوشش کی ہے اور کتنی برائیاں ترک کی ہیں، کتنی برائیاں چھوڑی ہیں۔‘‘

(خطباتِ مسرور جلد3صفحہ601)

٭…انفاق فی سبیل اللہ کی عادت

رمضان کا مہینہ ہمیں انفاق فی سبیل اللہ کی عادت ڈالتا ہے۔ چنانچہ رسول کریمؐ نے ہمارے سامنے یہ نمونہ رکھا ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ رسول کریمؐ تو سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور رمضان میں بہت ہی سخاوت کرتے تھے۔ تیز چلنے والی ہوا سے بھی زیادہ سخی ہوجاتے تھے(بخاری کتاب الصوم) اور ایک روایت میں ہے کہ رمضان میں آپؐ رمضان میں سب قیدیوں کو رہا کردیتے اور ہر سائل کو بخشش سے نوازتے تھے (مشکوٰة المصابیح)

حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں: ’’ہمارے امام فرمایا کرتے ہیں کہ بڑا ہی بدقسمت ہے وہ انسان جس نے رمضان تو پایا مگر اپنے اندر کوئی تغیر نہ پایا۔ بہت کوشش کرو اور بڑی دعائیں مانگو۔ بہت توجہ الیٰ اللہ کرو اور استغفار اور لاحول کثرت سے پڑھو۔ قرآن مجید سن لو،سمجھ لو، سمجھالو۔ جتنا ہوسکے صدقہ اور خیرات دے لو اور اپنے بچوں کو بھی تحریک کرتے رہو۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم نومبر1907ء)

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’رمضان کی برکات سے فیض یاب ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا بھی ایک ذریعہ ہے۔ آنحضرتؐ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اس طرف بھی توجہ دینی چاہئے۔ اموال کی قربانی بھی تزکیہ نفس کے لئے ضروری ہے۔‘‘

(خطباتِ مسرور جلد3 صفحہ603)

انفاق کی عادت حقوق العباد کی ادائیگی کی بھی ضامن ہے۔ یوں انفاق کے ذریعہ حقوق العباد کا سبق ہمیں رمضان میں ملتا ہے۔

روزے کے جسمانی فوائد

روزے جہاں انسان کی روحانی ترقی کا باعث ہیں وہاں جسمانی صحت کے لیے بھی انتہائی مفید ہیں۔بظاہر کم کھانا اور پینا جسمانی کمزوری پیدا کرتا ہے لیکن ایک معین وقت اور ایام معدودات میں کھانے پر کنٹرول انسانی صحت پر غیر معمولی مثبت اثرات پیدا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے روزے کی فرضیت کے ساتھ اس کا فائدہ بتا یا کہ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن تاکہ تم بچو۔یہ بچنا روحانی بیماریوں سے بھی ہے اور کئی جسمانی بیماریوں سے بھی انسان روزے کے نتیجہ میں بچ سکتا ہے۔

حافظ طبرانی نے اپنی کتاب المعجم الاوسط میں حضرت ابوھریرة سے یہ حدیث روایت کی ہے کہ اغزوا تغنموا وَصُوْمُوا تَصِحُّوْا وَسَافِرُوا تَسْتَغْنُوا (المعجم الاوسط مکتبہ المعارف ریاض حدیث نمبر8308) یعنی آنحضرتؐ نے فرمایا: ’’جہاد کرو مال غنیمت پاؤ گے، روزہ رکھو صحت مند رہو گے اور سفر کرو تو دولت حاصل ہوگی۔‘‘

آنحضورؐ نے روزہ کے عظیم الشان روحانی فوائد بیان کرنے کے ساتھ اس کے جسمانی فوائد پر بھی روشنی ڈال دی ہے۔ چنانچہ ایک دوسرے مقام پر روزے کے جسمانی فوائد یوں بیان فرمائے ہیں۔ یہ حضرت انس بن مالکؓ کی روایت ہے کہ رسول کریمؐ نے فرمایا ’’الصوم یُذْبِلُ اللَّحْم‘‘ (المعجم الاوسط للطبرانی باب الیاء ناشر پروگریسوبکس لاہور حدیث نمبر 9443) روزہ گوشت کو کم کرتا ہے۔ یعنی روزہ رکھنے کے نتیجے میں چربی اور موٹاپا کم ہوتا ہے۔

پُر خوری کے نتیجے میں زائد چربی اور موٹاپا جو کہ انسانی صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہے اوراس کے نتیجے میں ذیابیطس اور بلند فشار خون جیسی بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں جن کی وجہ سے انسانی صحت پر منفی اثرات پڑنے شروع ہوجاتے ہیں۔ جبکہ روزہ رکھنے کے نتیجے میں جسم سے زائد چربی اورفاضل مادے خارج ہوتے ہیں اور انسانی جسم چاک و چوبند ہونے لگتا ہے۔

روزے کے جسمانی صحت پر مثبت اثرات کے ضمن میں حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں: ’’روزہ ایک دینی مسئلہ ہے یا بلحاظ صحتِ انسانی دُنیوی امور سے بھی معمولی تعلق رکھتا ہے۔ پس لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن کے معنی ہوئے تاتم دینی شرور سے محفوظ رہو، دینی خیر و برکت تمہارے ہاتھ سے نہ جاتی رہے یا تمہاری صحت کو نقصان نہ پہنچ جائے۔ بہت سے روزے امراض سے نجات دلانے کا موجب ہوجاتے ہیں۔ آج کل کی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ بڑھاپا یا کمزوری آتے ہی اس وجہ سے ہیں کہ انسان کے جسم میں زائد مواد جمع ہوجاتے ہیں اور ان سے بیماری یا موت پیدا ہوتی ہے۔ بعض نادان تو اس خیال میں اس قدر ترقی کرگئے ہیں کہ کہتے ہیں جس دن ہم زائد مواد کو فنا کرنے میں کامیاب ہوگئے اُس دن موت دنیا سے اُٹھ جائے گی۔ اگرچہ یہ خیال غلط ہے تاہم اس میں شک نہیں کہ تھکان اور کمزوری وغیرہ جسم میں زائد مواد جمع ہونے سے ہی پیدا ہوتی ہے اور روزہ اس کے لئے بہت مفیدہے۔ شریعت نے بیمار اور مسافر کو روزہ رکھنے سے منع کیا ہے اور تندرست کے لئے ضروری ہے اور میں نے دیکھا ہے صحت کی حالت میں جب روزے رکھے جائیں تو دورانِ رمضان میں بے شک کچھ کوفت محسوس ہوتی ہے مگر رمضان کے بعد جسم میں ایک نئی قوت اور تروتازگی کا احساس ہونے لگتا ہے یہ فائدی تو صحتِ جسمانی کے لحاظ سے ہے۔‘‘

(خطبات محمود جلد12صفحہ57تا58)

روزہ کے طبی فوائد کی تفصیلات اطباء حضرات اور آج کل کی جدید میڈیکل سائنس دنیا بھر میں بیان کررہی ہے جبکہ آج سے چودہ سو برس قبل حضرت رسول عربی محمد مصطفیٰ ﷺ نے یہ حقیقت ہمارے سامنےکھول کر بیان کردی تھی کہ روزے رکھو تو صحت مند ہوجاؤ گے کیونکہ روزہ زائد گوشت/چربی کو کم کرتا ہے۔
آج کل لوگ ڈائٹ پلان کے لیےماہرین سے رجوع کرتے ہیں اور اپنے موٹاپے اور چربی کو کم کرنے کے لیے اورنظام انہضام کی درستی کے لیے کئی نسخے اور طریق اختیار کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے عبادات کے نظام کے اندر ہی روحانی فوائد کے ساتھ ساتھ جسمانی فوائد بھی رکھ دیے ہیں جیسا کہ روزوں کے فوائد کے ضمن میں بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن تاکہ تم محفوظ رہ سکو، بچ سکو۔

اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان کی برکات سے مستفیض ہونے اس کے روحانی و جسمانی فوائد حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button