دنیا کے موجودہ حالات کے پیشِ نظرحضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی بصیرت افروز راہنمائی

(سید عامر سفیر(ایڈیٹر رسالہ ریویو آف ریلیجنز))

عامر سفیر: پیارے حضور، ہم IAAAE میں حضور کا خطاب سن کر بہت ڈر گئے۔

حضور ِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز: کس لحاظ سے؟

عامر سفیر: حضور، اگرچہ آپ بڑے عرصے سے ایٹمی جنگ کے نتائج پر بات کرتے آ رہے ہیں، لیکن یہ پہلا موقع تھا جب ہم نے حضور انور کو اس جنگ کے بعد دنیا کی تعمیرِ نو کے طریقہ کار کے بارے میں بات کرتے ہوئے سنا۔ میں جس میز پر بیٹھا تھا اس پر لوگ سنجیدگی سے افریقہ میں زمین خریدنے کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ کچھ کہہ رہے تھے کہ اب صورتِ حال بگڑ رہی ہے اور اگر خدانخواستہ ایسا ہی ہوتا رہا اور یہ حالات ایٹمی جنگ کی صورت اختیار کر گئے تو ایسی عالمی تباہی کی صورت میں ہمیں راشن اکٹھا کرنے سے بھی کیا فائدہ ہوگا؟

حضور ِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز: عام طور پر مشکل حالات میں کوئی شخص کم از کم دو سے تین ماہ کے راشن سے استفادہ کر سکتا ہے تاکہ خوراک اور پانی کی ضرورت کو پورا کر سکے۔تاہم بدترین حالات یعنی ایٹمی جنگ کی صورت حال پیدا ہونے کے نتیجے میں انتہائی خوفناک نتیجہ نکلے گا

کیا باقی رہے گا؟ سوائے اس پر جس پر اللہ تعالیٰ اپنا فضل و رحم فرمائےکوئی چیز باقی نہیں رہ سکتی۔

تو پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ ایٹمی جنگ کی صورت میں کیا باقی رہ جائے گا، کیا کوئی نباتاتی یا حیوانی زندگی بھی زندہ رہتی ہے۔ ایک نئی زندگی کا آغاز اسی طرح کرنا پڑے گا کیونکہ ایٹمی جنگ کے نتیجے میں تابکاری اثرات کافی گہرے اور نقصان دہ ہوں گے۔ تابکاری زمین کے اوپر اور نیچے ہر جگہ پھیل جائے گی۔ عام طور پر جہاں انسان مرتے ہیں وہاں نباتات بھی مر جاتی ہیں۔ سائنسدانوں نے کہا ہے کہ تابکاری سے زمین کے اوپر کی مٹی کئی سال تک آلودہ رہ سکتی ہے۔ تابکار عناصر مٹی میں جذب ہو جاتے ہیں، یہاں تک کہ زیرِ زمین مٹی بھی ناقابل استعمال ہو سکتی ہے۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی زمین پر کاشت کاری کئی سالوں کے بعد ہی ممکن ہو سکی ہے۔ مٹی کو کچھ فٹ کھود کر بھی پودے لگانے کی کوشش کی جا سکتی ہے تاہم، اس وقت یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا پودے اگانے کے لیے بیج بھی دستیاب ہیں کہ نہیں۔

مختصر یہ کہ حالات ایک ایسا خوفناک اور ہولناک منظر کاامکان پیش کر رہے ہیں جس کا انسان تصور بھی نہیں کر سکتا۔ کون جانتا ہے کہ ایسے حالات میں کون زندہ رہے گا اور کون ہلاک ہوجائےگا۔ جیسا کہ میں کچھ عرصے سے خبردار کر رہا ہوں دنیا کو ہوش میں آنے کی ضرورت ہے۔

کہا جاتا ہے کہ امریکہ میں ایٹم بم کے اثرات کو برداشت کرنے کے لیے بنکرز بنائے گئے ہیں جن میں سے کچھ کی قیمت ڈیڑھ سے ساڑھے چار ملین ڈالرز تک بھی ہے۔ دولت مند لوگ یہ بنکر خرید رہے ہیں۔ لیکن مٹھی بھر دولت مند لوگوں کو جبکہ معاشرے کا عام طبقہ ہی باقی ہی نہ رہے گا زندہ رہ جانے کا بھلا کیا فائدہ ہوگا؟

جہاں تک خوراک کی رسائی کا تعلق ہے تو فی الحال بظاہر تو اس وقت افریقہ کو خوراک پہنچائی جا رہی ہے لیکن

عین ممکن ہے کہ ہمیں مستقبل میں افریقہ سے خوراک حاصل کرنی پڑ ے۔

ہم افریقہ میں زراعت میں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں کیونکہ امکان ہے کہ افریقہ یا دنیا کا کوئی ایسا خطہ جو براہِ راست جنگ سے متاثر نہ ہو مستقبل میں دنیا کو خوراک مہیا کرنے کے کام آئے۔

جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ’’اے یورپ تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں۔ اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا۔ میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں۔‘‘تو دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں افریقہ کا ذکر نہیں فرمایا۔ تو میرا ذہن اس امکان کی طرف جاتا ہے کہ شاید افریقی براعظم کو بچایا جائے۔ یہ ایک سوچ ہے جو پیدا ہوتی ہےیا ایسا ہو سکتا ہے کہ شاید افریقہ کا ایک بڑا حصہ بچ جائے گا۔ اس لیے مستقبل میں افریقہ میں سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے اور افریقہ دنیا کو خوراک مہیا کرنے میں کردار ادا کر سکتا ہے۔

عامر سفیر: حضور، کیا آپ ازراہِ شفقت اس امر پر روشنی ڈال سکتے ہیں کہ افریقہ دنیا کو کیسے سنبھال پائے گا جبکہ اس وقت افریقہ کے بعض ممالک کے حالات ایسے ہیں جن سے لگتا ہے کہ یہ کام کرنا ان کے بس میں نہیں ہو گا؟

حضور ِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز: افریقہ میں بہت امکانات ہیں۔ یہ کمی ناقص منصوبہ بندی اور سرمایہ کاری اور دیانتداری کے فقدان کی وجہ سے ہے۔

اگر درست منصوبہ بندی کرتے ہوئے ایمانداری کے ساتھ ذاتی مفادات کو بیچ میں لائے بغیر کام کیا جائے تو افریقہ میں بہت سے امکانات اور وسائل موجود ہیں جن کو جانچ کر ان سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔

عامر سفیر: حضور، بہت سے انجینئرز، آرکیٹیکٹس، ڈاکٹرز اور بعض دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنےوالے لوگ بھی ہیں جو اُسی تعمیر نَو میں جس کا حضورانور نے IAAAE کے خطاب میں ذکر فرمایا ہے عملی طور پر کردار ادا کر سکتے ہیں۔مزید یہ کہ ایسے احمدی جو ان شعبہ جات سے براہِ راست تعلق نہیں رکھتے و ہ اپنا کردار ادا کرنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟

حضور ِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز:

ایک احمدی کو یہ دعا کرنی چاہیے کہ دنیا اس آفت کے آنے سے پہلے ہی اس سے بچ جائے اور بالفرض اگر یہ آفت آتی ہے تو اس کے بد اثرات سے محفوظ رہنے کے لئے بھی دعا کرنی چاہیے۔

ہم اَور کیا کر سکتے ہیں؟ جب ہم اپنے سامنے اندھیرا دیکھتے ہیں تو دوسروں کو بھی اس کے بد اثرات کے بارے میں متنبہ کر سکتے ہیں۔ اب صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی دنیا کو بچا سکتی ہے اور ان لوگوں میں کچھ احساس پیدا کر سکتی ہے یا ہماری انہیں سمجھانےکی کوششوں کو بارآور کر سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے تقریباً ایک یا دو سال پہلے عالمی راہ نماؤں کو خطوط لکھ کر ان سے کہا تھا کہ دنیا کو تباہی سے بچانے کےلیے فعال ہوںاور اپنے خالق کو نظرانداز نہ کریں۔ لیکن نہ تو وہ اس طرف توجہ دیتے ہیں اور نہ ہی سمجھتے ہیں۔ وہ مادیت میں ڈوبے ہوئے ہیں، صرف اللہ کی رحمت ہی انہیں بچا سکتی ہے۔

لیکن یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ کوئی بھی سو فیصد یقین کے ساتھ یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ آئندہ کیا ہو گا۔ ہم صرف یہی دعا کر سکتے ہیں کہ اگر اللہ کی رضا ہو تو وہ ہمیں تباہی سے بچا لے۔ اور اگر اللہ کی منشا کچھ اور ہے تو اللہ کرے کہ ایسی وسیع تباہی سے بچا جا سکے جس کے نتیجے میں دنیا میں انسانوں کی اکثریت کے ہلاک ہو جانے کا امکان ہو۔

عامر سفیر: ہم نے کووِڈ کے ذریعے مشاہدہ کیا کہ کچھ لوگوں نے یا تو خدا کے قریب ہونے کے لیے اپنی زندگیوں میں تبدیلی پیدا کی یا کم از کم اپنے گھرانوں کو اور دیگر اہم پہلوؤں کو جو پہلے وہ نظر انداز کیا کرتے تھے زیادہ وقت دینا شروع کر دیا ہے۔ کیا عالمی جنگ بھی اس لحاظ سے ایک اہم سنگ میل یا انتباہ کا ذریعہ بن سکتی ہے؟

حضور ِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز: بیشک یہ ایک تنبیہ ہے۔ ایسے حالات میں لوگ اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اور یہی بات میں کئی مواقع پر کہتا رہا ہوں کہ نیک دل اور مخلص افراد خدا اور دین کی طرف رجوع کریں گے۔ لیکن

جب حق کے متلاشی ایسا کریں گے تو ان کے لیے کوئی راہ نما بھی ہونا چاہیے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم لوگوں سے پہلے ہی رابطہ رکھیں

کیونکہ جب ایسی صورت حال پیدا ہو جائے اور لوگ پوچھنے لگیں کہ’اب ہم کیا کریں؟‘تو ہم ان کی خدا تعالیٰ کی طرف راہ نمائی کرنے کے لیے موجود ہوں۔ اور یہ صرف اس صورت میں ممکن ہے جب ہم لوگوں کے ساتھ پہلے سے رابطہ میں ہوں۔ اگر ہم وقت آنے سے پہلے مناسب طور پر ان سے رابطہ استوار نہیں کریں گے تو معاملہ ان کے لیے مزید مشکل ہو جائے گا کیونکہ انہیں ہمارا علم ہی نہ ہو گا۔ اس لیے ہمیں اسلام احمدیت کے پیغام کو دورونزدیک ہرطرف پھیلانا چاہیے۔ ہمیں لوگوں کو اس بات سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا مقصد انسانیت کو اپنے خالق، اپنے خدا کی طرف لانا ہے۔ ہمیں انہیں سمجھانا ہوگا کہ دنیا کو تباہی سے بچانے کے لیے انسانیت کی بنیادی اقدار کی پاسداری کی ضرورت ہے۔

عامر سفیر: حضور، اتنی وسیع تباہی کی صورت میں، جب مواصلات کی بہت سی شکلیں تباہ ہو سکتی ہیں تو ہم اپنے پیغام کو مؤثر طریقے سے کیسے پہنچا سکیں گے؟

حضور ِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز: اگرچہ ایسے حالات میں زمین پر موجود ذرائع ابلاغ کی سہولتیں ختم ہو سکتی ہیں، تب بھی ممکن ہے کہ خلا میں موجود سیٹلائٹ بچ جائیں اور سیٹلائٹ فون وغیرہ کے ذریعہ رابطہ ممکن ہو اور لوگ معمول کے کام جاری رکھ سکیں۔ مواصلاتی رابطے یا مواصلاتی نظام کی اَور شکلیں بھی ہو سکتی ہیں۔ اگر افریقہ اور دیگر بعض خطے تباہی سے بچ جاتے ہیں تو وہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کر سکتے ہیں۔ لیکن ہمیں یہ دیکھنے کے لیے انتظار کرنا پڑے گا کہ حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ علاقوں میں کسی حد تک تباہی ہو لیکن دوسرے علاقے بچ جائیں۔ اللہ تعالیٰ کبھی چھوٹے علاقے کو عبرت کا نشان بنا کر سبق دے دیتا ہے اور مکمل طور پر تباہی نہیں ہوتی۔

اللہ تعالیٰ انسانوں کو تنبیہ کرنے کے لیے کسی مخصوص علاقے کو نمونہ بنا سکتا ہے تاکہ انسان کو احساس ہو کہ چھوٹی سی تباہی کے نتائج بھی برداشت سے باہر ہیں، اگر بڑی تباہی آگئی تو کیا ہو گا۔

عامر سفیر: حضور،جب آپ ہیروشیما تشریف لےگئے اور وہاں کے عجائب گھر کا دورہ کیا۔ حضور نے ایٹم بم کے حوالے سے جو کچھ دیکھا وہ بتا سکتے ہیں؟

حضور ِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز: ہیروشیما میں بے شمار عبرتناک نظارے اور تصویریں تھیں۔ ان میں یہ دکھایا گیا تھا کہ ایک شخص کہیں بیٹھا ہوا تھا اور ایٹم بم کے گرنے کے کے بعد وہیں جم کر رہ گیا۔ کچھ ششدرحالت میں فوت ہو گئے اور ان کے جسم سے گوشت پگھل کر نکل گیا۔ کچھ عمارتیں دھماکے سے بچ گئیں، جیسے وہ عمارت جس کا گنبد اور سلاخیں بچ گئی تھیں۔ بعض لوگوں پر دھماکے کے بعد سکتہ طاری ہو گیا لیکن فوری طور پر فوت نہیں ہوئے۔

قرآن کریم کی آیات میں اللہ تعالیٰ ہمیں ایسی آگ یا تباہی کا بتاتا ہے جو جسم سے پہلے انسان کے دل تک پہنچ جاتی ہے۔اس سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ ایسی تباہیاں انسان کو اچانک لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔

عامر سفیر: حضور، دیگر حالیہ جنگوں اور تنازعات میں، ہم کسی حد تک اپنے بچوں کو خبروں سے بچانے میں کامیاب رہے ہیں۔ لیکن موجودہ صورت حال میں بچے خبروں سے کافی حد تک آگاہ ہیں۔ میری بھانجی نے اپنے اسکول کا بتایا کہ کلاس کو بتایا گیا کہ جنگ کی صورت میں کیا کرنا ہے اور یہاں برطانیہ میں کیسے تیاری کرنی ہے، مثال کے طور پر زیر زمین پناہ گاہیں تلاش کرنا اور ٹارچ جیسی دیگر ضروری اشیاء ہاتھ میں رکھنا۔ میری بیٹی نے مجھ سے کہا کہ وہ بہت ڈری ہوئی ہے اور بہت سے دوسرے بچے بھی ایسا ہی محسوس کر رہے ہوں گے۔ اس صورت حال میں ہم اپنے بچوں کو کیسے حوصلہ دلائیں گےجو بہت خوفزدہ ہیں؟

حضور ِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز: ان کو ان کے ذہنی معیار اور عقل سمجھ کے مطابق سمجھا سکتے ہیں۔ ان کو سمجھائیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جب حقوق غصب کیے جائیں، جب حقوق اللہ کو نظرانداز کیا جائے، جب مادیت، حرص اور دنیا پرستی لوگوں کو پوری طرح لپیٹ میں لے لے تو یہی نتیجہ ہوتاہے۔ ہمارے سامنے ہے کہ اس راستے کو اختیار کرنے کے نتیجے میں دنیا جس حد تک پہنچ چکی ہے اس کا منطقی نتیجہ جنگ کی صورت میں ہی ظاہر ہوتا ہے۔ اگر دنیا نے جنگ کو نہ ٹالا تو نتیجہ پھر تباہی ہی ہو گا نتیجۃً کچھ ایسے ہوں گے جو بچ جائیں گے اور کچھ ایسے ہوں گے جو جاںبحق ہوجائیں گے۔

البتہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران ہونے والی تباہی کے باوجودہیروشیما اور ناگاساکی میں پورے کے پورے شہر دوبارہ تعمیر کیے گئے۔ ہمیں اب بھی پوری کوشش کرنی چاہیے کیونکہ زندگی اور موت صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ دعا کرنی چاہیے کہ جو لوگ زندہ بچ جائیں وہ جنگ کے بد اثرات، مصائب اور پریشانیوں سے محفوظ رہیں۔ لیکن سب سے پہلے ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس آفت کو دور کر دے اور ہمیں بچا لے۔

بچوں کی دعائیں خاص طور پر قبول ہوتی ہیں۔ اس طرح بچے اپنی دعاؤں کو بڑھائیں اور ان کی توجہ دعا کی طرف مبذول ہو۔

عامر سفیر: کچھ لوگ موجودہ روسی/یوکرین تنازعہ میں کسی ایک کے فریق بنتے ہیں۔

حضور ِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز: کون صحیح ہے یا غلط ہر ایک کا اپنا موقف ہو سکتا ہے۔ کوئی بھی سو فیصد صحیح اور سو فیصد غلط نہیں ہے۔ حقائق کو دیکھیں اور پھر رائے قائم کریں۔

عامر سفیر: حضور، سب کے ذہن میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا اب بھی جنگ کو ٹالنے اور دنیا کو ایٹمی جنگ یا عالمی تنازع سے بچانے کا کوئی موقع ہے؟

حضور ِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز: اب بھی ایک موقع ہے کہ ہم اللہ اور اس کی مخلوق کے حقوق ادا کریں۔ تاہم یہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے اور

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وضاحت فرمائی ہے کہ جب لوگ دوسرے لوگوں سے ناانصافی، ظلم اور زیادتی کریں گے تو انہیں اس دنیا میں عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اللہ کا غضب اس زندگی میں دوسروں کے ساتھ ناانصافی اور ظلم پر نازل ہوتا ہے۔

دین کے معاملات میں اللہ تعالیٰ مکمل تباہی نہیں لاتا، بلکہ یہ تباہی لوگوں کے حقوق ادا نہ کرنے کی وجہ سے ہوتی ہے۔

دین کے معاملات میں اللہ آخرت میں عذاب دے گا۔ مثال کے طور پر جو لوگ شرک کرتے ہیں ان پر آخرت میں اللہ کا غضب نازل ہوگا۔

عامر سفیر:حضور، کچھ اورکوشش جوہم کرسکتےہوں؟

حضور ِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز: ہمیں یہ دعا کرتے رہنا چاہیے کہ لوگ اللہ اور اس کی مخلوق کے حقوق ادا کریں اور فساد اور جھگڑا ختم ہو جائے۔پیوٹن کو لکھیں، بائیڈن کو لکھیں، نیٹو کے راہ نماؤں کو لکھیں کہ وہ جنگ میں شامل ہونے کی مزاحمت کریں اور ایسے اقدامات نہ کریں جو جنگ کا باعث بنیں اور اس سے دنیا تباہ ہو جائے۔ جس ملک میں بھی کوئی مقیم ہو، جہاں تک ہو سکے اپنے اپنے لیڈروں کو خط لکھنا چاہیے۔

(اس آرٹیکل کا اصل انگریزی متن پڑھنے کے لیے درج ذیل لنک سے استفادہ کیجیے:

(ترجمہ: ٹیم الفضل انٹرنیشنل)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button