متفرق مضامین

نماز با جماعت کی اہمیت

(آغا یحییٰ خان۔ مبلغ انچارج سویڈن)

’’پانچ نمازیں ہر بالغ عاقل مسلمان پر فرض ہیں اور مَردوں پر یہ مسجدوں میں باجماعت فرض ہیں ‘‘

ان دنوں جبکہ پوری دنیا میں وبا کے پھیل جانے اور مساجد کے وقتی طور پہ بند ہو جانے کے بعد ایک لمبا عرصہ گھروں میں نمازیں ادا کی گئی ہیں۔ یوں تو ایک بڑی تعداد نے گھروں میں بھی با جماعت نماز ادا کرنے کو مسلسل اپنی عادت بنائے رکھا۔ تاہم دنیا میں بہت سے مسلمان نماز باجماعت ادا کرنے سے کوتاہی اور سستی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ایسے میں قرآن، حدیث، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام اور خلفاء کے ارشادات کی روشنی میں مختصراً ثواب کی خاطر یاد دہانی کرانا مقصود ہے۔

کسی مسلمان کے لیے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ وہ نماز جیسے عظیم الشان اور اہم ترین فریضہ کی ادائیگی میں کوتاہی یا سستی کرے۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اس کی فرضیت کی طرف توجہ دلائی ہے اور اس فرض کے ادا نہ کرنے والوں سے متعلق انذار بھی فرمایا ہے۔

حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حدیث کی روشنی میں ہمیں فرماتے ہیں کہ’’پانچ نمازیں ہر بالغ عاقل مسلمان پر فرض ہیں اور مَردوں پر یہ مسجدوں میں باجماعت فرض ہیں‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 12؍فروری 2016ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل4؍مارچ2016ء)

نماز با جماعت ادا کرنے سے متعلق اللہ تعالیٰ کا واضح حکم موجود ہے کہ وَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَارۡکَعُوۡا مَعَ الرّٰکِعِیۡنَ (البقرۃ: 44)اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور جُھکنے والوں کے ساتھ جھک جاؤ۔

یعنی با جماعت نماز ادا کرو جہاں باقی مومنین رکوع کر رہے ہیں، انہی میں شامل ہو جاوٴ۔

دراصل باجماعت نماز جہاں واجب کے درجے اور انتہائی فضیلت کی حامل ہے، وہاں یہ شعائر اسلام میں سے ہے اور اِس سے اسلام کی شان و شوکت ظاہر ہوتی ہے۔ باجماعت نماز حقیقت میں دین کی ایک خاموش دعوت ہے جس کا اثر کفار پر اور بے نمازی مسلمانوں پر بھی پڑتا ہے اور عوام، خصوصاً بچے اس سے بہت متاثر ہوتے ہیں اور وہ بھی نماز کے عمل میں شریک ہوجاتے ہیں۔ باجماعت نمازاپنے اندر ایک بڑی کشش رکھتی ہے اور بڑی اعلیٰ و ارفع شان کا مظاہرہ ہوتا ہے جو اہل ایمان کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔

خصوصاً اس زمانے میں تجارت اور لہو و لعب انسان کو مصروف رکھے ہوئے ہیں اور نماز باجماعت سے غافل کر دیتے ہیں اور انسان سستی اور کمزوری کا مظاہرہ کر دیتا ہے۔ سورة الجمعہ کی درج ذیل آیات کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ نے بہت شاندار نکتہ بیان فرمایا ہے۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ۔ (الجمعۃ: 10)اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں کہ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب جمعہ کی نماز کے لئے بلایا جاوے تو اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف آ جاؤ یہ تمہارے لئے اچھا ہے۔ اور بیع چھوڑدو۔ میں نے اس کے لفظ پر غور کی ہے یہ کیوں کہا۔ انسان مختلف مشاغل میں مصروف ہوتا ہے ملازمت، حرفت، زراعت وغیرہ۔ یہاں خصوصیت کے ساتھ بیعکا کیوں ذکر کیا ہے؟ حقیقت میں جو لوگ قرآن شریف پر غور کرتے ہیں اور اس کے نکات اور معارف سے بہرہ حاصل کرنا چاہتے ہیں ان کو ضروری ہے کہ وہ اس کی ترتیب اور الفاظ پر بڑی گہری نگاہ سے غور کیا کریں۔ مَیں نے جب اس لفظ پر غور کی تو میرے ایمان نے یہ شہادت دی کہ چونکہ یہ سلسلہ وَآخَرِیْنَ مِنْھُمْ کے نیچے ہے اور یہ مہدی اور مسیح کا زمانہ ہے۔ اس زمانے میں دجال کا فتنہ بہت بڑا ہوگا اور دجال کے معنے کتب لغت میں جولکھے ہیں۔ اس سے پایا جاتا ہے۔ وہ ایک فرقہ عظیمہ ہوگا جو تجارت کے لئے پھرے گا گویا یہ مشترکہ کمپنیاں تجارت کی طرف بلاتی ہو ں گی۔ اور ذکر اللہ اَور طرف۔ اس لئے بیعکے لفظ میں دجال کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔‘‘(حقائق الفرقان جلد4صفحہ 123)

اسی سورت میں آگے چل کے تجارت کے ساتھ لھو کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے کہ مسیح موعودؑ کے زمانے میں اس چیز کا خطرہ ہے کہ لہو و لعب اور تجارتوں میں مصروف رہنے کی وجہ سے لوگ با جماعت نمازوں سے غفلت برتیں گے۔ توجہ دلائے جانے کے باوجود نماز با جماعت کی طرف رخ نہ کرنے والوں کو انذار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے کہ

یَوۡمَ یُکۡشَفُ عَنۡ سَاقٍ وَّ یُدۡعَوۡنَ اِلَی السُّجُوۡدِ فَلَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ۔ خَاشِعَۃً اَبۡصَارُہُمۡ تَرۡہَقُہُمۡ ذِلَّۃٌ ؕ وَقَدۡ کَانُوۡا یُدۡعَوۡنَ اِلَی السُّجُوۡدِ وَہُمۡ سٰلِمُوۡنَ۔ فَذَرۡنِیۡ وَمَنۡ یُّکَذِّبُ بِہٰذَا الۡحَدِیۡثِ ؕ سَنَسۡتَدۡرِجُہُمۡ مِّنۡ حَیۡثُ لَا یَعۡلَمُوۡنَ۔ (القلم: 43تا45)جس دن سخت گھبراہٹ کا سامنا ہوگا اور وہ سجدہ کرنے کی طرف بلائے جائیں گے لیکن طاقت نہ رکھتے ہوں گے۔ اس حال میں کہ ان کی نظریں جُھکی ہوئی ہوں گی۔ ان پر ذلّت چھا رہی ہوگی۔ اور یقیناً انہیں سجدوں کی طرف بلایا جاتا تھا جبکہ وہ صحیح سالم تھے۔ پس تُو مجھے اور اُسے جو اُس بیان کو جھٹلاتا ہے چھوڑ دے۔ ہم انہیں رفتہ رفتہ اِس طرح پکڑ لیں گے کہ انہیں کچھ علم نہ ہوسکے گا۔

حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میدانِ قیامت میں اپنی ساق (پنڈلی)ظاہر فرمائے گا جس کو دیکھ کر مومنین سجدہ میں گر پڑیں گے مگر کچھ لوگ سجدہ کرنا چاہیں گے لیکن ان کی کمر نہ مڑے گی بلکہ تختہ (کی طرح سخت)ہوکر رہ جائےگی۔ (صحیح البخاري كتاب تفسير القرآن باب يوم يكشف عن ساق)

یہ کون لوگ ہیں؟ حضرت کعب الاحبار رضی اللہ عنہ قسم کھاکر کہتے ہیں کہواللّٰه ما نزلت هذهِ الآية إلَّا في الذين يتخلفون عن الجماعات۔یعنی یہ آیت صرف ان لوگوں کے لیے نازل ہوئی ہے جو جماعت کے ساتھ نماز ادا نہیں کرتے۔

اسی طرح حضرت سعید بن مسیبؒ (تابعی)فرماتے ہیں: حی علی الصلوٰۃ، حی علی الفلاح کو سنتے تھے مگر صحیح سالم، تندرست ہونے کے باوجود مسجد میں جاکر نماز ادا نہیں کرتے تھے۔

حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں: ’’ہم اپنے آپ کو دیکھتے تھے، اور نمازسے وہی شخص پیچھے رہتا تھا جس کا نفاق واضح ہوتا، یا پھر مریض، اور اگر مریض بھی پیدل چلنے کی طاقت رکھتا ہوتا تو ضرور نماز کے لیے آجاتا۔‘‘(مسلم كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ بَابُ صَلَاةِ الْجَمَاعَةِ مِنْ سُنَنِ الْهُدَى،الناشر: دار إحياء التراث العربي، بيروت)

ہمارے پیارے نبیﷺ نے ہمیں خوشخبری دیتے ہوئے ایک گُر سکھایا ہے کہ’’جو اﷲ کے لیے چالیس دن نماز باجماعت ادا کرے اور تکبیر اولیٰ پائے اس کے لیے دو آزادیاں لکھ دی جائیں گی ایک دوزخ سے دوسری نفاق سے۔‘‘(ترمذی، الجامع الصحيح، ابواب الصلوٰة، باب في فضل التکبيرة الاولٰی، 1: 281، رقم: 241)

نماز کی اہمیت بیان کرتے ہوئے وقت کے امام حضرت مسیح موعود علیہ لسلام فرماتے ہیں: ’’تم پنجوقتہ نماز اور اخلاقی حالت سے شناخت کیے جاؤ گے اور جس میں بدی کا بیج ہے وہ اس نصیحت پر قائم نہیں رہ سکے گا۔‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد3صفحہ48)

حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’اگر تم اس فکر سے نمازوں کی طرف توجہ دو گے کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے اور دنیاوی معاملات ایک طرف رکھ کر اس کے حضور حاضر ہو جاؤ گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری اس نیک نیت اور اس کی عبادت کرنے کی وجہ سے تمہارے دنیوی معاملات میں بھی برکت ڈالے گا۔‘‘(خطبات مسرور جلد 3صفحہ25)

ایک اور موقع پر فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پر ایمان کے بعد قیام نماز کا حکم دیا ہے۔ پس ہر احمدی مرد کو بھی، عورت کو بھی، اپنی نمازوں کی حفاظت اور مردوں کو خاص طور پر باجماعت نماز کی ادائیگی کی طرف بہت توجہ دینی چاہئے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ20؍ جنوری 2017ء)

اللہ تعالیٰ ہماری نمازوں میں لذت و سرور پیدا فرمائے۔ اپنی نمازوں کو خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ادا کرنے کی توفیق عطا فرماتا چلا جائے اور کبھی ہم اس میں سستی دکھانے والے نہ ہوں۔ ہمیں اپنی با جماعت نمازوں کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان میں باقاعدگی رکھنے کی توفیق عطا فرماتا چلا جائے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button