کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

آپؑ کی ولادت باسعادت 13؍فروری 1835ء کوہوئی اوریہی ہمارے لٹریچر میں رائج بھی ہے۔ لیکن تحقیق کی گنجائش چونکہ موجود ہے اس لیے مزید پہلو بھی اگر سامنے آ جائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں

باب2: 1835ءتا1853ء

ولادت باسعادت

بانی سلسلہ احمدیہ سیدنا حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰة والسلام 14؍شوال 1250ھ بمطابق 13؍فروری 1835ء ( آپ کی پیدائش کا سن 1833ءبھی ہو سکتا ہے، جیساکہ آگے ذکر آئے گا ) بروز جمعہ طلوع فجر کے بعدقادیان ضلع گورداسپور (بھارت ) میں پیدا ہوئے۔ آپؑ کے والد ماجد کا نام نامی حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحبؒ اور والدہ ماجدہ کا نام حضرت چراغ بی بی صاحبہؒ تھا۔

آپؑ کا نام نامی مرزا غلام احمد قادیانیؑ اورکنیت ابومحموداحمد تھی۔ (ماخوذ از لجۃ النور، روحانی خزائن جلد 16صفحہ337)

حضرت اقدسؑ کی ابتدائی سیرت وسوانح کی کتب میں آپؑ کی تاریخ پیدائش 1840ء سے 1831ء بھی لکھی ہوئی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس زمانے میں ہندوستان میں عام طور پر تاریخ پیدائش کا کوئی ریکارڈ نہ رکھاجاتاتھا۔ نہ سرکاری طور پر اورنہ مقامی طور پر۔ بس بہت ہوا تو اس سال یا قریب قریب کوئی اہم واقعہ ہوگیا تو اس کو یاد رکھا گیا مثال کے طور پر کوئی جنگ، کوئی اہم تہوار، یا کوئی اَور قابل ذکر واقعہ توکہہ دیاجاتاکہ فلاں جنگ کے زمانے میں، یا عید یا بیساکھی یا کوئی اَور واقعہ کی مناسبت سے کہ اس وقت پیدائش ہوئی، اور اس سے بھی زیادہ سے زیادہ سن پیدائش کی راہ نمائی ملتی، اور اگر معین تہوار یا مہینہ یاد رہ گیا تو سن پیدائش کے لیے کچھ مزید راہ نمائی مل سکتی تھی وگرنہ نہیں۔ اوریوں عمروں کاحساب ایک تخمینہ اور موٹے اندازے کے طورپررکھاجاتا۔ تین چار سال کم یاچارپانچ سال زیادہ۔

حضرت اقدسؑ نے اپنی کسی تحریریا خط یا کتاب یا اشتہار میں اپنی معین تاریخ پیدائش کا ذکر نہیں فرمایا۔ ہاں مختلف جگہ اپنی عمرکا تخمینہ لگایا ہے۔ البتہ اپنی مختلف تحریرات میں پیدائش کے حوالے سے ایسے اشارے آپؑ نے دیے ہیں کہ تاریخ پیدائش کی تعیین میں ایسی سہولت ہوسکتی ہے کہ جس میں غلطی کا امکان کم سے کم ہوجاتاہے۔ مثلاً:

الف: (آپؑ فرماتے ہیں ) کہ میری پیدائش جمعہ کے دن چاند کی چودھویں تاریخ کو ہوئی تھی۔ (ماخوذ از تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد 17صفحہ 281حاشیہ)

ب: ایک روایت جوحضرت مفتی محمدصادق صاحبؓ نے اپنے پاس لکھ کر محفوظ کی ہوئی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ نے ایک دفعہ بیان فرمایا تھا کہ ہندی مہینوں کے لحاظ سے میری پیدائش پھاگن کے مہینہ میں ہوئی تھی۔ (ماخوذ از ذکر حبیب از مفتی محمد صادق صاحبؓ، صفحہ 189)

ج: آپ کا یہ فرمانا کہ آپ ٹھیک 1290ھ میں شرف مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ سے مشرف ہوئے تھے۔ (ماخوذ از حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 208) اور یہ کہ اس وقت آپ کی عمر چالیس سال کی تھی (ماخوذ از تریاق القلوب، روحانی خزائن15صفحہ283) وغیرہ وغیرہ۔

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدصاحب رضی اللہ عنہ نے ان مذکورہ بالا تحریرات کو سامنے رکھتے ہوئے مروجہ جنتریوں اور دیگر قرائن کی موجودگی میںزبردست اور تفصیلی تحقیقات فرمائی ہیں اور اس کی روشنی میں آپؓ نے یہ ثابت فرمایا ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی تاریخ پیدائش 14؍شوال 1250ھ/یکم پھاگن 13؍فروری 1835ء کو جمعہ کے روز ہوئی۔ (یہ تفصیلی بحث ملاحظہ ہوسیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 613 اور اخبار الفضل مورخہ 11؍اگست 1936ء صفحہ3 جلد24نمبر36)

بائبل کے اعدادوشمار کے مطابق آدمؑ کی پیدائش کے چھٹے ہزارسال میں آپ کی پیدائش ہوئی۔ ہندوستان میں رائج سن عیسوی کے ساتھ ساتھ پنجاب میں جاری سن بکرمی یکم پھاگن 1891تھا۔ یہودی سن 5594، ایرانی سن 1203 اور کل یگ کا 4936تھا۔

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی تاریخ پیدائش(17؍فروری1832ء)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی تاریخ پیدائش مختلف کتب میں بیان ہوئی ہے۔ مثلاً:

محترم معراج الدین عمرصاحبؓ نے 1906ء میں براہین احمدیہ کے ساتھ حضوراقدسؑ کی سوانح عمری بھی شائع فرمائی اوراس میں آپ کی تاریخ پیدائش27؍جون1839ء کےلگ بھگ بیان فرمائی۔ (ماخوذ از ’’براہین احمدیہ‘‘(حضرت مسیح موعودکے مختصرحالات) شائع کردہ معراج دین عمرؓ صاحب صفحہ 61)

حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ کے نزدیک آپؑ کی تاریخ پیدائش 1839ء ہے جیساکہ حیات احمدجلداول صفحہ64، 65 پرانہوں نے بیان فرمایاہے۔

حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت اقدسؑ کی سیرت پرایک کتابچہ تحریرفرمایاتواس میں لکھا ’’آپ قریباً1836ء یا 1837ء میں اسی گاؤں میں مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کے ہاں جمعہ کے دن پیدا ہوئے۔‘‘ (ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ازحضرت مرزا بشیرالدین محمود احمدؓ صفحہ 1)

جبکہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی تاریخ پیدائش ایک مسلّمہ تحقیق کی رُو سے 13؍فروری 1835ء، 14؍شوال 1250ھ یکم پھاگن 1891بکرمی ثابت ہوتی ہے۔ اوریہ تحقیق حضرت قمرالانبیاء صاحبزادہ مرزابشیراحمدصاحبؓ نے مختلف جنتریوں اور حضورعلیہ السلام کی تحریرات کی روشنی میں فرمائی۔ جو الفضل قادیان جلد24نمبر36، 11؍اگست 1936ء کے صفحہ 3 پرشائع شدہ ہے۔ اوریہی تاریخ ہمارے سلسلے میں اب رائج ہے۔

اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی علمائے سلسلہ نے اس موضوع پرکچھ نہ کچھ لکھاہے۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے ایک سوانح نگار حضرت مولاناعبدالرحیم دردصاحبؓ کاایک تحقیقی مضمون الفضل 3؍ستمبر1933ء میں شائع ہواہے۔ جس میں وہ ذکرکرتے ہیں کہ ’’غرض 1836ء انتہائی حدہے۔ اس کے بعد کاکوئی سن ولادت تجویزنہیں کیاجاسکتا۔ بحیثیت مجموعی زیادہ ترمیلان 1833ء اور 1834ء کی طرف معلوم ہوتاہے …خلاصہ میرے نزدیک یہ نکلا کہ 34-1833ء صحیح سن ولادت قراردیاجاسکتاہے۔‘‘(الفضل 3؍ستمبر1933ء جلد21 نمبر28صفحہ 2)

اس کے علاوہ الفضل11؍جون اور 18؍جون 1933ء میں بھی اسی سلسلے میں مضامین شائع ہوئے ہیں۔ دراصل حضورعلیہ السلام کی تاریخ پیدائش کی تعیین کوئی آسان مرحلہ نہیںہے اور نہ ہی حتمیّت سے کچھ کہاجاسکتاہے۔ اندازہ اور تخمینہ ہے اور اس میں سے جوقریب ترین اندازوں میں سے ایک ہوسکتاتھا وہ اوپربیان ہوچکاہے کہ آپؑ کی ولادت باسعادت 13؍فروری 1835ء کوہوئی اوریہی ہمارے لٹریچر میں رائج بھی ہے۔ لیکن تحقیق کی گنجائش چونکہ موجود ہے اس لیے مزید پہلو بھی اگر سامنے آ جائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

تاریخ پیدائش کی تعیین میں مشکل کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام جس زمانے میں پیداہوئے ہندوستان کے اس علاقے میں تاریخ پیدائش لکھنے یادرج کرنے کروانے کاکوئی باقاعدہ نظام تھا نہ کوئی عام رواج تھا۔ زیادہ سے زیادہ اتنایاد رہ جاتا کہ دن فلاں تھا یاچاند کی کو ن سی تاریخ تھی۔ وہ بھی اگرچودھویں وغیرہ کا چاند ہوتوزیادہ قابل ذکرہوتا۔ یا پیدائش کے موقع پرکوئی تہوارکا دن ہوجیسے عید، شب برات، دسہرہ، ہولی وغیرہ جواس ملک کے اہم تہوارتھے۔ مہینوں میں سے اگرکوئی مہینے قابل ذکرتھے تو رمضان، محرم وغیرہ یااس سال سے متعلق کوئی اہم واقعہ یاحادثہ ہواہوتووہ ذہنوں میں محفوظ رہ جاتا۔ جیسے کوئی سیلاب، جنگ، وباوغیرہ کے فلاں موقع پرپیدائش ہوئی عیدکادن تھا، اس وقت سیلاب آیاہواتھاوغیرہ وغیرہ۔

اورپھران تخمینوں کی کشتی ڈانواں ڈول ہونے لگتی جب کچھ سال بیت جاتے یا وہ واقعہ سال سے زائد پرمحیط ہوتاتو یہ اندازے دنوں مہینوں سے گزرکرسالوں پرمحیط ہوجایاکرتے مثلاً یہ تویادرہ گیا کہ مہینہ رمضان کاتھا۔ اب سن یادنہیں، یہ تو یادرہاکہ چاند کی چودھویں تھی لیکن سن محو ہوگیا۔ جنگ کاتویادرہا کہ جب بڑی جنگ یعنی عالمی جنگ چھڑی، اب یہ جنگ توکئی سالوں پرمحیط رہی، یہ یادرہا کہ طاعون کے زمانے میں یہ واقعہ ہوایاپیدائش یاوفات ہوئی، (بڑی بوڑھیاں کہتی ہیں کہ جدوں مری پئی سی، یعنی جب طاعون آئی تھی) لیکن ہندوستان میں یہ وباچندسالوں کے وقفہ سے ایک سے زائدمرتبہ پڑی تو یوں کئی سالوں کافرق پڑ جانا ایک معمولی سی بات تھی۔

بہرحال حضرت مسیح موعودؑ کی تاریخ پیدائش کامعین سن اورمہینہ تلاش کرناایک تحقیق طلب کام تو ہے۔ احتیاط طلب بھی ہے۔ اورقبل اس کے کہ اس کے متعلق مختلف آراء کابیان کیا جائے خاکساریہ عرض کرناچاہتاہے کہ شایدایک معین دن اور مہینہ کامعلوم نہ ہونا بھی اپنے اندرکوئی الٰہی حکمت لیے ہوئے ہوکہ بعد کی نسلیں اس ایک دن کولے کرصرف اسی دن کی عظمت کونمایاں نہ کرلیں اور وہ خدائے واحدپس پردہ چلاجائے کہ جو ان وجودوں کے ذریعہ اپنا چہرہ دکھایا کرتا ہے۔ خیریہ توایک ذوقی سی بات کہی جاسکتی ہے۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button