خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ یکم اپریل2022ء

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

٭…مسلمانوں کی اپنے نبیؐ کی وفات، اپنی قلت اور دشمنوں کی کثرت کے باعث بارش والی رات میں بھیڑ بکریوں کی سی حالت ہوگئی تھی

٭…عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اگر اللہ ابوبکر ؓکے ذریعہ احسان نہ فرماتا تو ہم ہلاک ہو جاتے

٭…قرآنی آیات ، تاریخی حوالہ جات اور ارشادات خلفائے احمدیت کی روشنی میں نہ صرف یہ ثابت ہے بلکہ واضح نفی ہے کہ مرتد کی سزا قتل نہیں ہے

٭…جوملک میں فساد قتل و غارت ڈاکہ زنی لوٹ مار مسلح بغاوت کرتے ہیں ا ُن کی سزا ہے کہ انہیں سختی سے قتل کیا جائے یا صلیب پر مار دیا جائے

٭…مکرم محمد بشیر شاد صاحب ریٹائرڈ مربی سلسلہ امریکہ ، مکرم رانا محمد صدیق صاحب سیالکوٹ اور مکرم ڈاکٹر محمود احمد خواجہ صاحب اسلام آبادکا ذکر ِخیر اور نمازِ جنازہ غائب

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ یکم اپریل2022ء بمطابق یکم شہادت 1401ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے مورخہ یکم اپریل 2022ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔جمعہ کی اذان دینےکی سعادت صہیب احمدصاحب کے حصے میں آئی۔

تشہد،تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا:

حضرت ابوبکر ؓکے زمانے کے فتنوں کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی تصنیف سر الخلافہ میں بیان فرماتے ہیں کہ ابن خلدون اور ابن اثیر نےلکھا کہ بنو طَے، بنو اسد طلیحہ ،بنو غطفان ، بنو ہوازن اور بنو سلیم قبائل سمیت عرب کے عوام اور خواص مرتد ہوگئے اور انہوں نے زکوٰۃ دینی روک دی۔مسلمانوں کی اپنے نبیؐ کی وفات اور اپنی قلت اور دشمنوں کی کثرت کے باعث ایسی حالت ہو گئی تھی جیسی بارش والی رات میں بھیڑ بکریوں کی ہوتی ہے یعنی خوف سے ایک جگہ اکٹھی ہو جاتی ہیں۔لوگوں نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا کہ اس وقت اسامہؓ کے لشکر کو اپنے سے الگ نہ کریں لیکن حضرت ابوبکر ؓنے فرمایاکہ جو فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے میں اسے منسوخ نہیں کر سکتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اگر اللہ ہم پر ابوبکر ؓکے ذریعہ احسان نہ فرماتا تو قریب تھا کہ ہم ہلاک ہو جاتے۔ آپؓ نے ہمیں اس بات پر اکٹھا کیا کہ ہم زکوٰة کی وصولی کے لیے جنگ لڑیں اور اللہ کی عبادت کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ موت ہمیں آ لے۔

سارے عرب کے ارتداد اور زکوٰۃ کی ادائیگی سے انکار کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے ان سب کے خلاف قتال کیا۔کتب تاریخ اور سیرت میں ایسے تمام افراد کے لیے مرتدین کا لفظ استعمال ہوا جس کی وجہ سے سیرت نگار اور علماء کو غلطی لگی کہ گویا مرتد کی سزا قتل ہے۔حالانکہ نہ تو قرآن کریم نے اور نہ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےمرتد کی سزا قتل بیان کی یا کوئی اور سزا مقرر کی۔اس ضمن میں چند آیات پیش ہیں۔

وَمَنۡ یَّرۡتَدِدۡ مِنۡکُمۡ عَنۡ دِیۡنِہٖ فَیَمُتۡ وَہُوَ کَافِرٌ فَاُولٰٓئِکَ حَبِطَتۡ اَعۡمَالُہُمۡ فِی الدُّنۡیَا وَالۡاٰخِرَۃِ ۚ وَاُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ (البقرۃ:218)ترجمہ: اور تم میں سے جو بھی اپنے دین سے برگشتہ ہو جائے پھر اس حال میں مرے کہ وہ کافر ہو تو یہی وہ لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا میں بھی ضائع ہو گئے اور آخرت میں بھی۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جو آگ والے ہیں۔ اُس میں وہ بہت لمبا عرصہ رہنے والے ہیں۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ثُمَّ کَفَرُوۡا ثُمَّ اٰمَنُوۡا ثُمَّ کَفَرُوۡا ثُمَّ ازۡدَادُوۡا کُفۡرًا لَّمۡ یَکُنِ اللّٰہُ لِیَغۡفِرَ لَہُمۡ وَلَا لِیَہۡدِیَہُمۡ سَبِیۡلًا (النساء:138)ترجمہ: یقیناً وہ لوگ جو ایمان لائے پھر انکار کر دیا پھر ایمان لائے پھر انکار کر دیا پھر کفر میں بڑھتے چلے گئے، اللہ ایسا نہیں کہ انہیں معاف کردے اور انہیں راستہ کی ہدایت دے۔

پس بڑی واضح نفی ہے اس میں کہ مرتد کی سزا قتل نہیں ہے اور یہی ہمارے لٹریچر میں تشریح بھی کی جاتی ہے۔

حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒاپنے ترجمۃ القرآن میں بیان فرماتے ہیں کہ اگر کوئی مرتد ہو جائے پھر ایمان لے آئے پھر مرتد ہو جائے پھر ایمان لے آئے تو اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے اور اگر کفر کی حالت میں مرے گا تو لازمی طور پر جہنمی ہو گا ۔اگر مرتد کی سزا قتل ہوتی تو اس کے بار بار ایمان لانے اور کفر کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔

حضور انور نے فرمایا کہ دین نے تو کسی قسم کے جبر کی نفی کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ ۟ۙ قَدۡ تَّبَیَّنَ الرُّشۡدُ مِنَ الۡغَیِّ ۚ فَمَنۡ یَّکۡفُرۡ بِالطَّاغُوۡتِ وَیُؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ فَقَدِ اسۡتَمۡسَکَ بِالۡعُرۡوَۃِ الۡوُثۡقٰی لَا انۡفِصَامَ لَہَا ؕ وَاللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ(البقرۃ:257)ترجمہ: دین میں کوئی جبر نہیں۔ یقیناًہدایت گمراہی سے کھل کر نمایاں ہوچکی۔ پس جو کوئی شیطان کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لائے تو یقیناً اس نے ایک ایسے مضبوط کڑے کو پکڑ لیا جس کا ٹوٹنا ممکن نہیں۔ اور اللہ بہت سننے والا (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔

پھر قرآن کریم میں جگہ جگہ منافقین کا ذکر بھی موجود ہے اور کسی بھی منافق کے لیے کسی قسم کی سزا کا ذکر نہیں کیا گیا جبکہ تاریخ اسلام گواہ ہے کہ نہ ہی کسی منافق کو نفاق کی بنا پر کوئی سزا دی گئی۔ چنانچہ منافقین کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کہتا ہےکہ

قُلۡ اَنۡفِقُوۡا طَوۡعًا اَوۡ کَرۡہًا لَّنۡ یُّتَقَبَّلَ مِنۡکُمۡ ؕ اِنَّکُمۡ کُنۡتُمۡ قَوۡمًا فٰسِقِیۡنَ۔ وَمَا مَنَعَہُمۡ اَنۡ تُقۡبَلَ مِنۡہُمۡ نَفَقٰتُہُمۡ اِلَّاۤ اَنَّہُمۡ کَفَرُوۡا بِاللّٰہِ وَبِرَسُوۡلِہٖ وَلَا یَاۡتُوۡنَ الصَّلٰوۃَ اِلَّا وَہُمۡ کُسَالٰی وَلَا یُنۡفِقُوۡنَ اِلَّا وَہُمۡ کٰرِہُوۡنَ(التوبہ:53تا54)ترجمہ: تو کہہ دے کہ خواہ تم خوشی سے خرچ کرو خواہ کراہت کے ساتھ، ہرگز تم سے قبول نہیں کیا جائے گا۔ یقیناً تم ایک بدکردار قوم ہو۔اور انہیں کسی چیز نے اس بات سے محروم نہیں کیا کہ ان سے ان کے اموال قبول کئے جائیں سوائے اس کے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کا انکار کر بیٹھے تھے نیز یہ کہ وہ نماز کے قریب نہیں آتے تھے مگر سخت سستی کی حالت میں۔ اور خرچ بھی نہیں کرتے تھے مگر ایسی حالت میں کہ وہ سخت کراہت محسوس کرتے تھے۔

حضور انور نے فرمایا کہ جس مبارک وجود پر قرآن کریم اتارا گیا جو کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآنَ کا مصداق وجود تھا اُس مبارک ہستی نے مرتد کے حوالے سے کیا فرمایا۔

صحیح بخاری میں درج ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ ؓبیان کرتے ہیں کہ ایک اعرابی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اسلام قبول کرتے ہوئے آپؐ سے بیعت کی۔ بعد ازاں وہ اعرابی تین مرتبہ آپؐ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میری بیعت مجھے واپس دے دیں۔آپؐ نے تینوں مرتبہ انکار فرمایا۔ پھر وہ اعرابی مدینہ سے چلا گیا۔ اگر یہ بات سچ ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس شخص کو جو بار بارآپؐ کے پاس آیا کیوں نہ کہہ دیا کہ اسلام میں ارتداد کی سزا قتل ہے اگر تم ارتداد اختیار کرو گے تو تمہیں قتل کیا جائے گا۔

دوسرا ثبوت اس اَمر کا صلح حدیبیہ کی دوسری شرط ہے جس کے مطابق اگر مسلمانوں میں سے کوئی شخص مرتد ہو کر مشرکین کی طرف چلا جائے تو مشرکین اس کو واپس نہیں کریں گے۔ اس شرط سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اگر ارتداد کے لیے شریعت اسلام میں قتل کی سزا مقرر ہوتی تو شرعی حد کے معاملے میں آپؐ کبھی بھی مشرکین کی بات قبول نہ فرماتے۔

ان آیات قرآنیہ اور ارشادات کی روشنی میں یہ تو ثابت ہو گیا کہ مرتد کی سزا قتل نہیں ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مرتد کی سزا قتل نہیں تو حضرت ابوبکرؓ نے مرتدین کو کیوں قتل کرنے کا حکم دیا؟

حقیقت یہ ہے کہ آپؓ کے عہد میں مرتد ہونے والے صرف مرتد ہی نہیں تھے بلکہ وہ خونخوار ارادوں کے حامل باغی تھے جنہوں نے نہ صرف ریاست مدینہ پر حملہ کر کے مسلمانوں کو قتل کرنے کے بھیانک منصوبے بنائے بلکہ مختلف علاقوں میں مسلمانوں کو پکڑ پکڑ کر بڑی بے رحمی سے قتل کیاجس کی وجہ سے دفاعی اور انتقامی کارروائی کے طور پر ان محارب لوگوں سے جنگ کی گئی اور وَجَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثۡلُہَا(الشوریٰ:41)اور بدی کا بدلہ، کی جانے والی بدی کے برابر ہوتا ہے کے تحت ان کو بھی ویسی ہی سزائیں دے کر قتل کرنے کے احکامات صادر کیے گئے جیسے جرائم کے وہ مرتکب ہوئے تھے۔

علامہ طبری لکھتے ہیں کہ جب حضرت ابوبکر ؓنے مختلف حملہ آور قبائل کو شکست دی تو بنو ذُبیان اور عبس ان مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے جو اُن میں رہتے تھے اور اُن کو ہر ایک طریق سے قتل کیا اور اُن کے بعد دیگر اقوا م نے بھی ایسے لوگوں کو قتل کر دیا جو اسلام پر قائم رہے۔

علامہ عینی جو صحیح بخاری کےشارح ہیں لکھتے ہیں کہ حضرت ابوبکر ؓنے زکوٰة دینے سے انکار کرنے والوں سے صرف اس لیے قتال کیا کیونکہ انہوں نے تلوار کے ذریعہ سے زکوٰة روکی اور امّت مسلمہ کے خلاف جنگ برپا کی۔ امام خطابی نے لکھا ہے کہ ان کو مرتد صرف اس وجہ سے کہا گیا ہے کہ یہ لوگ مرتدین کی جماعتوں میں داخل ہو گئے تھے۔

تاریخی حوالوں کا خلاصہ یہی ہے کہ ایسے مرتدین حکومت کے خلاف مسلح بغاوت، اموالِ حکومت کو لُوٹنے،مسلمانوں کو قتل کرنے اور انہیں زندہ جلا دینے کی بنا پر قتل کی سزا کے مستحق ہو چکے تھے۔ جیسا کہ قرآن پاک فرماتا ہےکہ اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیۡنَ یُحَارِبُوۡنَ اللّٰہَ وَرَسُوۡلَہٗ وَیَسۡعَوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ فَسَادًا اَنۡ یُّقَتَّلُوۡۤا اَوۡ یُصَلَّبُوۡۤا اَوۡ تُقَطَّعَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَاَرۡجُلُہُمۡ مِّنۡ خِلَافٍ اَوۡ یُنۡفَوۡا مِنَ الۡاَرۡضِ(المائدہ:34)ترجمہ: یقیناً اُن لوگوں کی جزا جو اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں یہ ہے کہ انہیں سختی سے قتل کیا جائے یا دار پرچڑھایا جائے یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ دیئے جائیں یا انہیں دیس نکالا دے دیا جائے۔

حضور انور نے فرمایا کہ باقی ان شاءاللہ آئندہ بیان کیا جائے گا۔

حضور انور نے آخر میں مکرم محمد بشیر شاد صاحب ریٹائرڈ مربی سلسلہ حال مقیم امریکہ، مکرم رانا محمد صدیق صاحب سیالکوٹ اور مکرم ڈاکٹر محمود احمد خواجہ صاحب اسلام آباد کا ذکر ِخیر اور جماعتی خدمات کا بھی تفصیلی تذکرہ فرمایا اور بعد نماز جمعہ ان سب کا نماز جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان بھی فرمایا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button