متفرق مضامین

ماہِ رمضان کا استقبال

(انیس رئیس۔ مبلغ انچارج جاپان)

جب رمضان کی مبارک گھڑیاں قریب آتیں اور طلوعِ ماہتاب سے یہ اطلاع مل جاتی کہ وہ مبارک مہینہ طلوع ہوچکا ہے جس کی نسبت اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ خوشخبری دی ہے کہ اس کی محض ایک رات ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے تو آپﷺ کی طرب ومسرت دیدنی ہوتی

رمضان المبارک کے انتظار میں ماہِ شعبان کے دوران آپﷺ کی تیاری اور ذوق وشوق

جوں جوں رمضان کے دن قریب آتے جاتے، لقائے الٰہی کے اشتیاق میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تڑپ بڑھتی چلی جاتی۔ رمضان سے دو ماہ پیشتر رجب کے مہینے میں ہی آپﷺ کے ہاں رمضان کا تذکرہ شروع ہوجاتا۔ ایک روایت کےمطابق آنحضورﷺ رجب کے مہینہ میں یہ دعا عرض کیا کرتے: اللّٰهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي رَجَب، وَشَعْبَانَ، وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ۔ (شعب الایمان للبیہقی جلد 3 صفحہ 345من طریق ابی عبد اللہ)یعنی اے اللہ ! ہمیں رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما اور رمضان نصیب فرما۔

جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے مہینے میں داخل ہوتے تویہ ذوق وشوق مزید بڑھ جاتا اور آپ کے شب و روز رمضان جیسا رنگ اختیار کر لیتے۔ گویا آپﷺ رمضان کی برکات سے بھر پور طریق سے فیضیاب ہونے کی خاطر مشق فرمارہے ہوں۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ماہِ شعبان کے شب و روز بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں: كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُوْمُ حَتَّى نَقُوْلَ لَا يُفْطِرُ، وَيُفْطِرُ حَتَّى نَقُوْلَ لَا يَصُوْمُ‏‏ فَمَا رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَكْمَلَ صِيَامَ شَهْرٍ إِلَّا رَمَضَانَ، وَمَا رَأَيْتُهُ أَكْثَرَ صِيَامًا مِنْهُ فِي شَعْبَانَ‏۔ (صحیح بخاری۔ کتاب الصوم۔ باب صوم شعبان)یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے مہینے میں اس قدر نفلی روزے رکھتے کہ ہمیں محسوس ہوتا گویا آپ مسلسل روزے رکھتے چلے جائیں گے۔ اور جب روزہ رکھنا چھوڑ دیتے تو ہمیں لگتا کہ آپ مزید روزے نہ رکھیں گے۔ نیز آپ بیان فرماتی ہیں کہ میں نے رمضان کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی پورے مہینے کےنفلی روزےرکھتے نہیں دیکھتا اور جتنے روزے آپؐ شعبان میں رکھتے میں نے کسی مہینے میں اس سے زیادہ روزے رکھتے آپؐ کو نہیں دیکھا۔

آپؐ شعبان میں اس کثرت سے روزے رکھتے کہ بعض احادیث میں كان يصوم شعبان كله کے الفاظ مرقوم ہیں۔ یہاں کلہ سے نفلی روزوں کی کثرت کی طرف اشارہ ہے۔ کیونکہ بعض احادیث سے پتا چلتا ہے کہ رمضان کی عظمت کے باعث بسا اوقات آپﷺ شعبان کے آخری دنوں میں روزہ رکھنا چھوڑ دیا کر تے تھے۔

حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ مَا رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُوْمُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ إِلَّا أَنَّهُ كَانَ يَصِلُ شَعْبَانَ بِرَمَضَانَ (سنن النسائی ، کتاب الصیام باب ذکر حدیژ امّ سلمۃ فی ذالک)یعنی میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی لگا تار دو مہینے روزے رکھتے نہیں دیکھا۔ یہاں تک کہ آپ شعبان کو رمضان سے ملا دیتے۔

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیا ن فرماتی ہیں کہ لَمْ يَكُنْ يَصُوْمُ مِنَ السَّنَةِ شَهْرًا تَامًّا إِلَّا شَعْبَانَ يَصِلُهُ بِرَمَضَانَ ۔ (سنن ابی داؤد۔ کتاب الصیام باب فِيْمَنْ يَصِلُ شَعْبَانَ بِرَمَضَانَ)یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سال میں کسی مہینے کے مکمل روزے نہ رکھتے سوائے شعبان کے اسے رمضان سے ملا دیتے تھے۔

پس یہ بھی استقبال رمضان کا ایک طریق تھا کہ آپﷺ اس مبارک مہینے میں داخل ہونے کی تیاری کے پیش نظر نفلی روزے رکھتے چلے جاتے اور روزے رکھتے رکھتے ہی رمضان کے مبارک ایام میں داخل ہوجاتے۔

صحیح مسلم کی روایت ہے کہ آپؐ صحابہ کو بھی شعبان کے مہینے میں روزہ رکھنے کی ترغیب دلاتے۔ حضرت عمران بن حصینؓ بیان کرتے ہیں: أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ أَوْ لآخَرَ ‏’’‏ أَصُمْتَ مِنْ سَرَرِ شَعْبَانَ ‏‘‘‏ ‏‏ قَالَ لَا‏‏ قَالَ ‏’’‏ فَإِذَا أَفْطَرْتَ فَصُمْ يَوْمَيْنِ ‘‘‏۔ (صحیح مسلم۔ کتاب الصیام۔ باب صوم سرر شعبان)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ’’تم نے شعبان کے اوّل میں کچھ روزے رکھے؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم افطار کے دن تمام کر لو تو دو دن روزے رکھو۔ ‘‘

استقبالِ رمضان کا ایک اورانداز

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کی آمد کے پیش نظر شعبان میں بکثرت روزے رکھتے تھے۔ لیکن اس بات کا بھی خاص خیال رکھتے کہ ماہ رمضان کی انفرادیت و عظمت قائم رہے۔ گوکہ آپﷺ کا اپنا اسوۂ مبارک یہی تھا کہ شعبان کے مہینے میں اس کثرت سے روزے رکھتے کہ گویا سارا مہینہ ہی روزہ دار رہتے مگر اپنے ماننے والوں کو آپﷺ نے یہ نصیحت بھی فرمائی کہ لَا يَتَقَدَّمَنَّ أَحَدُكُمْ رَمَضَانَ بِصَوْمِ يَوْمٍ أَوْ يَوْمَيْنِ(صحیح بخاری۔ کتاب الصوم۔ بَابُ لَا يَتَقَدَّمَنَّ رَمَضَانَ بِصَوْمِ يَوْمٍ وَلَا يَوْمَيْنِ)یعنی رمضان سے ایک دو دن قبل روزہ نہ رکھا جائے۔

بعض روایات کے مطابق شعبان کے نصف آخر میں روزہ نہ رکھنے کی تلقین فرماتے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب آدھا شعبان گزر جائے تو پھر روزے نہ رکھو۔ ‘‘(سنن دارمی۔ کتاب الصوم۔ باب النَّهْيِ عَنِ الصَّوْمِ بَعْدَ انْتِصَافِ شَعْبَانَ)

ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی منشائے مبارک یہ تھی کہ شعبان کے مہینےکو رمضان میں داخل ہونے کے لیے روحانی اور اخلاقی تربیت کرتے ہوئے گزارا جائے۔ لیکن رمضان کی آمد سے قبل روزے رکھنے چھوڑ دیے جائیں تاکہ فرحت و بشاشت اور صحت مندی کے ساتھ رمضان میں داخل ہوا جاسکے۔ لیکن عبادتِ الٰہی اور ریاضت میں آپﷺ کے ذاتی شغف کا یہ عالم تھا کہ آپﷺ ہر وقت ہی یادِ الٰہی میں غرق رہتے ہوئے اور رمضان کی مانند شعبان کی گھڑیوں کو بھی روزوں میں ہی گزارتے۔

صحابہؓ کے شب و روزبھی رمضان سا رنگ اختیار کر لیتے

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ترتیب اور فیض سے پروردہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم بھی اپنے آقاﷺ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے شعبان کو یوں بسر کرتے گویا رمضان ہی کے ایام ہوں۔ شعبان کے مہینے میں صحابہؓ کے شب و رو ز کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ کان المسلمون إِذَا دَخَلَ شَعْبَانُ أکبُّوا علی المصاحِفِ فقرؤوها، وأَخْرَجُوْا زَکَاةَ أموالهم تقوِيَةً للضَّعيفِ والمسکينِ علی صيامِ و رمضانَ۔ (علامہ ابن رجب حنبلی، لطائف المعارف: 258)یعنی شعبان کے شروع ہوتے ہی مسلمان قرآن کی طرف مائل ہوجاتے، اپنے اموال میں سے زکوٰۃ نکالتے تاکہ غریب، مسکین لوگ روزے اور ماہ رمضان بہتر طور پر گزار سکیں۔

شعبان کے مہینے میں مسلمانوں کے معمولاتِ زندگی کی ایک جھلک اس روایت میں نظر آتی ہے جس میں عمرو بن قیس الملائی کے بارے میں مذکور ہے کہ اِذَا دَخَلَ شَعْبَانُ، اَغْلَقَ حَانُوتَہ وَ تفَرَّغَ لِقراءَةِ الْقُرّآنِ فِی شَعْبَانَ وَ رَمَضَانَ۔ (لطائف المعارف لابن رجب الحنبلی صفحہ 259)جب شعبان کا مہینہ آتا تو وہ اپنی دکان بند کر دیتے اور قرآن کریم کی تلاوت میں منہمک ہو جاتے ۔ شعبان میں اور رمضان میں۔

یارسول اللہﷺ آپ شعبان میں اتنی تگ و دو کیوں فرماتے ہیں؟

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آزادکردہ غلام حضرت زیدبن حارثؓ فرزند حضرت اسامہ بیان کرتے ہیں کہ ایک موقع پر میں نے آنحضورؐسے پوچھ ہی لیا کہ یا رسول اللہﷺ! مَیں نے آپؐ کو جتنے روزے شعبان میں رکھتے دیکھا ہے ایسا معمول کسی اور مہینے میں نظر نہیں آتاتو آپؐ نے نہایت لطیف انداز میں اس نفسیاتی پہلو کی طرف توجہ دلائی کہ رمضان کی آمد اور اس مبارک مہینے میں بھر پور نیکیوں کی توفیق کے پیش نظر مبادا مسلمان ماہِ شعبان سے غافل ہوجاتے ہوں۔ لہٰذا آپ اپنے اسوۂ حسنہ سے یہ سبق عطا فرماتے کہ گو رمضان ایک ایسا مبارک مہینہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے مخصوص ہے مگر آپﷺ کا تولمحہ لمحہ یادِ الٰہی میں محو اور اللہ تعالیٰ کی عبودیت اور محبت میں بسر ہوتا۔

حضرت اُسامہؓ سے روایت ہے کہ قُلْتُ يَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، لَمْ أَرَکَ تَصُوْمُ شَهْرًا مِنَ الشُّهُوْرِ مَا تَصُوْمُ مِنْ شَعْبَانَ قَالَ ذَالِکَ شَهْرٌ يَغْفُلُ النَّاسُ عَنْهُ بَيْنَ رَجَبٍ وَرَمَضَانَ وَهُوَ شَهْرٌ تُرْفَعُ فِيْهِ الَأعْمَالُ إِلَی رَبِّ الْعَالَمِيْنَ فَأُحِبُّ أَنْ يُرْفَعَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ۔ (سنن نسائي، کتاب الصيام، باب صوم النبي صلی اللّٰه عليه وآله وسلم بأبي هو وأمّي وذکر اختلاف الناقلين للخبر في ذلک)یعنی میں نے عرض کیا: یا رسول اﷲؐ! جس قدر آپ شعبان میں روزے رکھتے ہیں اس قدر میں نے آپ کو کسی اور مہینے میں روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ ایک ایسا مہینہ ہے جو رجب اور رمضان کے درمیان میں (آتا) ہے اور لوگ اس سے غفلت برتتے ہیں حالانکہ اس مہینے میں (پورے سال کے) عمل اللہ تعالیٰ کی طرف اٹھائے جاتے ہیں لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ میرے عمل روزہ دار ہونے کی حالت میں اُٹھائے جائیں۔

رمضان کے انتظار میں شعبان کے دن گن گن کر گزارو

شعبان کے دنوں میں رمضان کو پالینے کی تڑپ کا اظہار اس حدیث سے بھی خوب ہوتا ہے جس میں آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے انتظار میں شعبان کے دن گن گن کر گزارنے کی تحریک فرمائی ہے۔ روایت کے مطابق: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ‏’’‏ أَحْصُوْا هِلَالَ شَعْبَانَ لِرَمَضَانَ ‏‘‘‏ ۔ (سنن ترمذی۔ کتاب الصوم عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ باب مَا جَاءَ فِي إِحْصَاءِ هِلاَلِ شَعْبَانَ لِرَمَضَانَ)یعنی شعبان کے چاند رمضان کے انتظار میں گن گن کر گزارو۔

رؤیت ہلال کے پہلو کو ذہن میں رکھیں تو اس حدیث سے یہ بھی مراد ہے کہ رمضان کی آمد کے پیش نظرشعبان کے چاند کے طلوع وغروب کا حساب رکھا جائے تاکہ رمضان کے چاند کا حساب رکھنے میں آسانی رہے۔

رمضان کی آمد کا اعلان اور ایک جامع خطاب

جب رمضان کی مبارک گھڑیاں قریب آتیں اور طلوعِ ماہتاب سے یہ اطلاع مل جاتی کہ وہ مبارک مہینہ طلوع ہوچکا ہے جس کی نسبت اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ خوشخبری دی ہے کہ اس کی محض ایک رات ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے تو آپﷺ کی طرب ومسرت دیدنی ہوتی۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ شعبان کے آخری دن آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو جمع فرمایا اور ان الفاظ میں خوشخبری عطا فرمائی کہ يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ أَظَلَّكُمْ شَهْرٌ عَظِيْمٌ مُبَارَكٌ شَهْرٌ فِيْهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مَنْ أَلْفِ شهْر جعل اللّٰه تَعَالَى صِيَامَهُ فَرِيضَةً وَقِيَامَ لَيْلِهِ تَطَوُّعًا مَنْ تَقَرَّبَ فِيْهِ بخصلة من الْخَيْرِ كَانَ كَمَنْ أَدَّى فَرِيضَةً فِيمَا سِوَاهُ وَمَنْ أَدَّى فَرِيضَةً فِيهِ كَانَ كَمَنْ أَدَّى سَبْعِينَ فَرِيضَةً فِيمَا سِوَاهُ وَهُوَ شَهْرُ الصَّبْرِ وَالصَّبْر ثَوَابه الْجنَّة وَشهر الْمُوَاسَاة وَشهر يزْدَاد فِيهِ رِزْقُ الْمُؤْمِنِ مَنْ فَطَّرَ فِيهِ صَائِمًا كَانَ لَهُ مَغْفِرَةً لِذُنُوبِهِ وَعِتْقَ رَقَبَتِهِ مِنَ النَّارِ وَكَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أَجْرِهِ شَيْءٌ۔ قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللّٰهِ لَيْسَ كلنا يجد مَا نُفَطِّرُ بِهِ الصَّائِمَ. فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ’’يُعْطِي اللّٰهُ هَذَا الثَّوَابَ مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا عَلَى مَذْقَةِ لَبَنٍ أَوْ تَمْرَةٍ أَوْ شَرْبَةٍ مِنْ مَاءٍ وَمَنْ أَشْبَعَ صَائِمًا سَقَاهُ اللّٰهُ مِنْ حَوْضِي شَرْبَةً لَا يَظْمَأُ حَتَّى يَدْخُلَ الْجَنَّةَ وَهُوَ شَهْرٌ أَوَّلُهُ رَحْمَةٌ وَأَوْسَطُهُ مَغْفِرَةٌ وَآخِرُهُ عِتْقٌ مِنَ النَّارِ وَمَنْ خَفَّفَ عَنْ مَمْلُوكِهِ فِيهِ غَفَرَ اللّٰه لَهُ وَأعْتقهُ من النَّار۔ (شعب الایمان للبیهقی جلد نمبر5صفحہ233حدیث نمبر3336 باب فضائل شھر رمضان)اے لوگو!غور سے سنو! تم پر ایک عظمت والا اور مبارک مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے۔ اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اس کے روزے رکھنافرض فرمایا اور اس کی رات کے قیام کو ثواب ٹھہرایاہے۔ جو شخص اس مہینہ میں کوئی نفلی نیکی بجا لائے گا تو وہ ایسے ہی ہے جیسا کہ عام دنوں میں فرض کا ثواب ہواور جو شخص اس مہینہ میں کسی فرض کو ادا کرے گا وہ ایسا ہے جیسے غیر رمضان میں ستر فرائض ادا کرے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے، اوریہ غم خواری کا مہینہ ہے۔ اور یہ ایسا مہینہ ہے جس میں مومن کارزق بڑھا یا جاتا ہے۔ جو شخص کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرائے اس کے لیے گناہوں کے معاف ہو نے اور آگ سےنجات کا سبب ہو گا اور اسے روزہ دار کے ثواب کے برابر ثواب ہو گا مگر روزہ دار کے ثواب سے کچھ بھی کمی نہیں ہوگی۔ اور یہ ثواب ہر اس شخص کو بھی نصیب ہوگا جو دودھ کے ایک گھونٹ، کھجور یا پانی کی ایک بوند سے روزہ افطار کرواتا ہے۔ لیکن جو کسی روزہ دار کو سیر کر دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو میرے حوض سے ایسا شربت پلائے گاکہ پھر اسے کبھی پیاس نہ لگے گی یہاں تک وہ جنت میں داخل ہوجائے۔ اوریہ ایسا مہینہ ہے جس کا اول حصہ رحمت ہے، درمیانی حصہ مغفرت اور آخری حصہ جہنم کی آگ سے آزادی ہے۔ جو شخص اس مہینے میں اپنے غلام اور نوکر کے بوجھ کو ہلکا کر دے تواللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمادے گا اور آگ سے آزادی عطا فرمائے گا۔

آسمان پر رمضان کے استقبال کی تیاریوں کا منظر

رمضان کی آمد کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کے فضل و رحم کے دروازے وا ہوجاتے ہیں اور خیر و برکت کے طالب ہر شخص کے لیے نیکیوں کا حصول آسان کر دیا جاتا ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ’’‏ إِذَا كَانَ أَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ صُفِّدَتِ الشَّيَاطِيْنُ وَمَرَدَةُ الْجِنِّ وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ النَّارِ فَلَمْ يُفْتَحْ مِنْهَا بَابٌ وَفُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ فَلَمْ يُغْلَقْ مِنْهَا بَابٌ وَيُنَادِي مُنَادٍ يَا بَاغِيَ الْخَيْرِ أَقْبِلْ وَيَا بَاغِيَ الشَّرِّ أَقْصِرْ وَلِلَّهِ عُتَقَاءُ مِنَ النَّارِ وَذَلِكَ كُلَّ لَيْلَةٍ‘‘۔ ( سنن ترمذی۔ کتاب الصوم عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ باب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ شَهْرِ رَمَضَانَ)یعنی جب ماہ رمضان کی پہلی رات آتی ہے، تو شیطان اور سرکش جن جکڑ دیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی دروازہ کھلا نہیں رکھاجاتا۔ اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی دروازہ بند نہیں کیا جاتا، پکارنے والا پکارتا ہے۔ اےخیر کے طلب گار! آگے بڑھ، اور شر کے طلب گار! رک جا اور اللہ کے بہت سے بندے آگ سے آزاد کیے جاتے ہیں اور ایسا (رمضان کی) ہر رات کو ہوتا ہے۔

اسی طرح ایک روایت کے مطابق رمضان کا چاند دیکھنے پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خیر وبرکت اورسلامتی کی دعا مانگی اور اس کے بعد لوگوں سے مخاطب ہوئے اور فرمایا: ایھا الناس، ان ھذا شہر رمضان، غلت فی الشیاطین و غلقت فیہ ابواب جہنم و فتحت فیہ ابواب الجنان ونادی مناد کل لیلة، ھل من سائل فیعطی، ھل من مستغفر فاغفر لہ۔ ( فضائل رمضان لابن ابی دنیا۔ صفحہ 46۔ حدیث نمبر 20)اے لوگو! یہ رمضان کا مہینہ ہے۔ اس میں شیاطین جکڑ دیے گئے ہیں اورجہنم کے دروازے بند کر دئی گئے ہیں اور اس میں جنتوں کے دروازے کھول دیے گئے ہیں۔ اور ہر رات کو منادی اعلان کرے گا کہ کیا کوئی مانگنے والا ہے تاکہ اسے عطا کیا جائے، کیا کوئی بخشش کا طلبگار ہے تاکہ میں اسے بخش دوں۔

رمضان کا چاند نظر آنے پرخصوصی دعائیں

حضرت ابو جعفر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک موقع پر جب آپ نے رمضان کا چاند دیکھا تو آپ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور پھر اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا عرض کی: أَللّٰهُمَّ أَهِلَّهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ وَالْإِيْمَانِ، وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ، وَالْعَافِيَةِ الْمُجَلَّلَةِ، وَرفَعِ الْأَسْقَامِ، وَالْعَوْنِ عَلَى الصَّلَاةِ وَالصِّيَامِ وَتِلَاوَةِ الْقُرْاٰنِ، أَللّٰهُمَّ سَلِّمْنَا لِرَمَضَانَ، وَسَلِّمْه لَنَا۔ (فضائل رمضان لابن ابی دنیا۔ صفحہ 46۔ حدیث نمبر 20)یعنی اے اللہ اسے(رمضان کے چاند کو) ہم پر امن، ایمان، سلامتی اسلام، عظیم عافیت کے ساتھ طلوع فرما۔ اور بیماریوں کودور کرنے، روزوں، نماز، تلاوت قرآن کے لیے مددگار کے طور پر (طلوع ہو)اے اللہ! ہمیں رمضان کے لیے سلامت رکھیو اور رمضان کو ہمارے لیےسلامتی کا موجب بنا۔ اور اسے ہم سے اس حالت میں واپس لیجیو کہ رمضان جائے اور تو ہمیں بخش چکا ہو، ہم پر رحم فرما چکا ہو اور ہم سے درگذر فرماچکا ہو۔

عبد العزیز بن رواد بیان کرتے ہیں کہ جب ماہِ رمضان طلوع ہوتا تو مسلمان ان الفاظ میں دعا کیا کرتے تھے کہ أَللّٰهُمَّ أَظَلَّ شَهْرَ رَمَضَانَ وَحَضَرَ فَسَلِّمْهُ لِیْ وَسَلِّمْنِیْ فِيْهِ وَتَسْلِمْهُ مِنِّیْ، أَللّٰهُمَّ ارْزُقْنِیْ صِيَامَه وقِيَامَه صَبْرًا وَّ إِحْتِسَابًا، وَارْزُقْنِیْ فِيْهِ الْجِدَّ وَالْإِجْتِهَادَ وَالْقُوَّةَ وَالنَّشَاطَ، وَأَعِذْنِیْ فِيْهِ مِنَ السَّآمَّةِ وَالْفَتْرَةِ، وَالْكَسْلِ وَالنُّعَاسِ، وَوَفِّقْنِیْ فِيْهِ للَيْلَةَ الْقَدْرِ، وَاجْعَلْهَا خَيْرًا لِّیْ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ۔ (کتاب الدعا لامام الحافظ ابی القاسم سلیمان بن احمد الطبرانی باب القول عند دخول رمضان)اے اللہ رمضان کا مہینہ شروع ہوگیا اورآگیا ہے پس اسے میرے لیے سلامتی والا بنا دے اور مجھے بھی اس میں سلامت رکھ اور اسے مجھ سے قبول فرما لے۔ اے اللہ مجھےصبر اورخالص نیت سے (یا اپنا محاسبہ کرتے ہوئے) اس (ماہ) کے روزوں اور رات کی عبادتوں کی توفیق عطا فرما دے۔ مجھے اس (مہینے )میں سنجیدگی، محنت، قوت اور تیزی عطا فرما اور مجھے اس میں تھکاوٹ، وقفے ڈالنے، سستی کرنے اور اونگھنے سے پناہ دے دے۔ اور مجھے لیلۃ القدر پانے کی توفیق سے نواز دے اور اس رات کو میرے لیے ہزار مہینے سے بہتر بنادے۔

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں يُعَلِّمُنَا هؤلاء الكلمات إذا جاء رمضان کہ جب رمضان کے مبارک ایام آتے تو آپؐ ہمیں یہ دعائیہ کلمات سکھایا کرتے تھے: أَللّٰهُمَّ سَلِّمْنِیْ لِرَمَضَانَ، وَسَلِّمْ رَمَضَانَ لِیْ، وَتَسْلِمْهُ مِنِّیْ مُتَقَبَّلًا۔ (کتاب الدعا لامام الحافظ ابی القاسم سلیمان بن احمد الطبرانی باب القول عند دخول رمضان)

ترجمہ: اے اللہ! مجھے سلامتی سےرمضان تک پہنچا دے۔ اور رمضان کو میرے لیے سلامتی کا ذریعہ بنادے۔ اور میری( دعاؤں و عبادات) کو قبول نصیب فرما۔

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰٓی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔

اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰٓی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْد ۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button