حضور انور کے ساتھ ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ممبران مجلس اطفال الاحمدیہ Dallas امریکہ کی (آن لائن) ملاقات

ایک احمدی مسلمان لڑکا اور لڑکی، مرد یا عورت کو حوصلہ دکھانا چاہیے اور ان کا صبر کا معیار بہت بلند ہونا چاہیے

امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 12؍مارچ 2022ء کو ممبران مجلس اطفال الاحمدیہ (Dallas) امریکہ سے آن لائن ملاقات فرمائی۔

حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹي اے سٹوڈيوز سے رونق بخشي جبکہ 106ممبران مجلس اطفال الاحمدیہ نے مسجدبیت الاکرام Dallas (امریکہ) سے آن لائن شرکت کی۔

اس ملاقات کا آغاز حسب روایت تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ جس کے بعد نئی تعمیرشدہ مسجد بیت الاکرام کے بارے میں ویڈیو پیش کی گئی جس میں بتایا گیا کہ اس مسجد میں 450 نمازیوں کے نماز ادا کرنے کی جگہ ہےجس کے ساتھ 250لوگوں کی مزید جگہ بھی ہے، ویڈیو میں حضور انور سے درخواست کی گئی کہ حضور Dallasمیں رونق افروز ہوں اور اس کا افتتاح فرمائیں۔ حضور انور نے فرمایا کہ جب کہ آپ ادھر بیٹھے ہوئے ہیں تو اس مسجد کا آپ کی ملاقات کے ساتھ باقاعدہ افتتاح ہو گیا ہے۔ بعدازاںممبران مجلس اطفال الاحمدیہ کو حضور انور سے سوالات پوچھنے کا موقع ملا۔

ایک طفل نے سوال کیا کہ جبکہ اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز کا علم رکھتا ہے اور ہمارے مستقبل سے بھی آگاہ ہے تو پھر اللہ تعالیٰ ہمیں امتحانوں میں کیوں ڈالتا ہے جبکہ اسے نتیجہ کا پہلے ہی علم ہوتا ہے؟

حضور انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو عقل دی ہے۔ آپ اللہ تعالیٰ کی واحد مخلوق ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نےعقل عطا فرمائی ہے۔ پس جبکہ اللہ مستقبل کو جانتا ہے لیکن پھر بھی وہ تمہیں آزادی دیتا ہے، وہ فرماتا ہے کہ بطور انسان مَیں نے تمہیں عقل بھی دی ہے اور علم بھی دیا ہے۔ تم مزید علم حاصل کر سکتے ہو اور اپنے آپ کو بہتر کر سکتے ہو۔ اور تم اچھے اور برے میں فرق کر سکتے ہو۔ پس اللہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ یہ اچھا ہے اور یہ برا اور اب اگر تم اچھے کام کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں انعام دے گا۔ اور اگر تم برے کام کروگے تو اللہ تعالیٰ تمہیں سزا بھی دے سکتا ہے۔ دیکھو یہ ضروری نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو سزا دے۔ وہ بخشتا بھی ہے اور بہت رحم کرنے والا بھی ہے۔ اس کی رحمت تمام چیزوں پر حاوی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح تم سکول میں پڑھتے ہو اور کچھ اچھے طلبہ ہوتے ہیں اور کچھ نہیں لیکن ایک استاد کو علم ہوتا ہے کہ فلاں طالب علم کو دوسرے طالب علم کی طرح اچھے نمبر نہیں ملیں گے۔ اسے پتا ہوتا ہے کہ کون ذہین طلبہ ہیں اور کون کمزور ہیں۔ اس کے باوجود تم سب امتحان میں بیٹھتے ہو اور تمہیں نمبر دیے جاتے ہیں۔ استاد اچھے طلباء کوکمزورطلباءسے مختلف یا آسان سوالات نہیں دیتے بلکہ سب کو ایک ہی سوالات دیے جاتے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ ہمیں پرچہ دیتا ہے۔ اور ہمیں اس پرچہ کے سوالات بھی دیے ہوئے ہیں کہ یہ چیزیں اچھی ہیں اور یہ چیزیں بری ہیں۔ اور اگر تم اچھے کام کرو گے تو تمہیں اجر ملے گا۔ اور یہ بات ضرور ی نہیں ہے کہ اگر کوئی برے کام کر رہا ہے تو اس کو ضرور سزا ملے گی۔ اس کے بارے میں کئی روایا ت بھی موجو دہیں کہ کبھی اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے جو کہ ساری زندگی گناہ کرتے ہیں لیکن اپنی موت کے قریب وہ کچھ نیکیاں بجا لاتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتا ہےاور وہ ان کو جنت میں داخل کر دیتا ہے۔ تو یہ دنیا دارالبلا ہے تم اس کو امتحان کے کمرے سے تشبیہ دے سکتے ہو۔ اور اگر تم محنت کرو گے تو آپ اچھے نمبر حاصل کر سکتے ہو۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ آپ کو grace marksدے کر بخش دیتا ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ اگر کوئی برے کام کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو کبھی نہیں بخشے گا۔ کبھی اللہ تعالیٰ برے کام کرنے والوں کوبھی بخش دیتا ہے۔ ٹھیک ہے۔

ایک اور طفل نے سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ میں نے انسانوں اور جنوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیاہے۔ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا ہے کہ اللہ کو ہماری عبادت کی ضرورت نہیں ۔ یہ دو متضاد باتیں لگتی ہیں۔ پیارے حضور سے اس حوالہ سے راہنمائی کی درخواست ہے۔

حضورا نور نے فرمایا اس میں کوئی تضاد نہیںہے۔وَمَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَالۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ۔ میں نے جنوں اور انسانوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ یہ ایک انسان کی ذمہ داری ہے۔یہاں جنوں سے مراد بڑےلوگ ہیں۔ ا یسے لوگ جن کو عام انسان نہیں دیکھ سکتا۔ ایسے لوگ جو اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر اور اوپر خیال کرتے ہیں ان سے یہاں جن مراد لی گئی ہے۔ اور انسان سے مراد عام انسان لیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں نے ان کو عبادت کے لیے پیدا کیا ہے کہ ان کو انعام ملے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مجھے اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا یعنی یہ عبادت اللہ تعالیٰ کو فائدہ نہیں پہنچائے گی۔ اور نہ ہی اس سے اللہ تعالیٰ کا رتبہ بڑھے گا بلکہ ہمیں عبادت کرنے سے فائدہ حاصل ہوگا۔ تو اس میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ ایک طرف اللہ تعالیٰ فرماتاہےکہ یہ تمہاری ذمہ داری ہے اور دوسری طرف فرمایا کہ یہ تمہاری ذمہ داری ہے کیونکہ میں تمہیں انعام دینا چاہتا ہوں۔ تم پر کثرت سے فضل نازل کرنا چاہتا ہوں۔ لیکن یہ مت سوچنا کہ مجھے تمہاری عبادت کی ضرورت ہے۔ میں نے یہ تمہیں اس لیے کہا ہے کہ تم اس بات کو سمجھ سکو کہ اس میں تمہارا فائدہ ہے۔ تمہاری عبادت سے میرا رتبہ نہیں بڑھے گا۔ میں خد اہوں جو سب طاقتوں کا مالک ہے۔ جس نے آسمانوں اور زمین اور تمام کائنات کو پیدا کیا ہے۔ مجھے تمہاری عبادت کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن تمہیں میری مدد کی ضرورت ہے۔ اور اگر تم میری مدد چاہتے ہو اور اپنے اعمال کا اچھا اجر چاہتے ہو تو پھر میری عبادت کرو۔ ایک طرف ہمیں ہماری ذمہ داری بتائی، دوسری طرف ہمیں بتایا کہ یہ مت سوچنا کہ تمہاری عبادت میرے رتبہ کو بڑھانے کے لیے ہے۔ نہیں۔ بلکہ میں نے تمہیں عبادت کا اس لیے کہا ہے کہ میں تمہیں انعام دوں اور اس کے ذریعہ تمہارا رتبہ بلند ہو۔ اب تمہیں سمجھ آگئی ہے، ان باتوں میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ دونوں حکم ہمارے لیے ہیں کہ ہم ان پر عمل کریں اور اس بات کو جانیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی مدد کی ضرورت ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کو ہماری ضرورت ہے۔

ایک اور طفل نے سوال کیاکہ بچوں کو اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟

حضور انور نے استفسار فرمایا کہ آپ کتنے سال کے ہو؟ (طفل نے بتایا کہ وہ نو سال کا ہے)۔ حضور انور نے فرمایا کہ اب آپ کو روزانہ پانچ نمازیں ادا کرنی چاہئیں اور اللہ سے دعا کریں۔ روزانہ پانچ نمازیں ہیں، آپ یہ جانتے ہیں؟ آپ کو پانچ وقت نماز ادا کرنی چاہیے۔ فجر، ظہر، عصر، مغرب اور عشاء۔ یہ پانچ نمازیں ہیں۔ روزانہ پانچ نمازیں ادا کریں اور اللہ تعالیٰ سے اپنی نمازوں میں دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو بہترین مسلمان بنائے تاکہ آپ اللہ کے زیادہ نزدیک ہو جائیں۔ دوسرا آپ روزانہ قرآن کریم پڑھیں۔ اور اگر ممکن ہو تو اس کا ترجمہ بھی پڑھیں۔ اس کا ترجمہ سیکھنے کی کوشش کریں تاکہ آپ کو علم ہو کہ قرآن میں کیا لکھا ہے اور پھر جب آپ کو معلوم ہو جائے کہ قرآن کریم میں کیا لکھا ہے پھر آپ اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ آپ اس پر عمل کریں جو اللہ تعالیٰ آپ سے چاہتا ہے۔ جب آپ یہ تمام کام کریں گے۔ جب آپ یہ دیکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ آپ سے کیا چاہتا ہے آپ ایسے شخص ہیں جو اللہ تعالیٰ کی عمدہ عبادت کرنے والا ہے، روزانہ پانچ دفعہ۔ آپ ایسے شخص ہیں جو قرآن کریم کی تلاوت کرنے والا ہے اور احکام الٰہی کو قرآن سے تلاش کرنے والا ہے۔ پھر آپ ایسے ہوں کہ والدین سے حسن سلوک کرنے والے ہوں۔ آپ ایسے ہوں کہ اپنے بہن بھائیوں سے عمدہ سلوک کرنے والے ہوں۔ آپ ایسے ہوں کہ سکول میں اساتذہ کی عزت کرنے والے ہوں۔ آپ ایسے ہوں جو اپنے ساتھی طلبہ سے اچھا برتاؤ رکھنے والے ہوں۔ آپ سکول میں اچھے طالب علم ہوں شرارتی طالب علم نہ ہوں۔ پھر آپ ایسے شخص بن جائیں گے جس سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے۔ پھر آپ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر لیں گے۔

پھر ایک طفل نے سوال کیا کہ یہاں امریکہ میں لوگ سمجھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں۔ جب کوئی مجھ سے سوال کرتاہے کہ تم کیوں سمجھتے ہو کہ حضرت عیسیٰ اللہ کے بیٹے نہیں ہیں تو میں ان کو کیا بتاؤں؟

حضور انور نے فرمایا: دیکھیں آپ انہیں کہہ سکتے ہیں کہ ہم تو صرف یہ جانتے ہیں کہ اللہ تمام طاقتوں کا مالک ہے اور قادر مطلق ہے اور اس کا کوئی ہمسر نہیں اور وہ ہر کام کر سکتا ہے۔ آپ ان سے سو ال کر سکتے ہیں کہ آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ کو کسی کی مدد کی ضرو رت ہے؟ اگر اسے کسی مدد کی ضرورت نہیں ہے تو پھر اس کا بیٹا کیوں ہو؟ اور اگر اللہ نے مرنا ہو تو اس کو فکر ہو کہ اس کا کوئی قائمقام ہو جو اس کے کام کو جاری رکھ سکے۔ جب ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ اللہ ہمیشہ رہے گا اور وہ کبھی نہیں مرے گا۔ ہر شے فانی ہے لیکن اللہ ہمیشہ رہے گا۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اس دنیاکی تخلیق اور آسمان و زمین کی تخلیق سے پہلے بھی موجود تھی چنانچہ جب اللہ تعالیٰ زندہ رہنے والا ہے تو اس کا بیٹا کیوں ہو؟ آپ ان کو بتا سکتے ہیں کہ ہمیں یہ منطق سمجھ نہیں آتی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کہا ہے اس کی کوئی بیوی نہیں تو اس کی اولاد کیسے ہو سکتی ہے؟ اگر وہ یہ کہیں کہ یہ بائبل میں لکھا ہے کہ عیسیٰ بیٹے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے بائبل میں تمام نیک لوگوں کو اپنی اولاد کہا ہے۔ بائبل میں بےشمار حوالے ہیں ۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ بہت سارے لوگوں کو بچوں کا لقب دیاہے۔چنانچہ یہ صرف عیسٰی نہیں ہیں جن کو یہ لقب دیا گیاہے۔ آپ دیکھیں اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ حقیقی بچے ہیں۔ بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے حقیقی پیروکار ہیں۔ اگر وہ یہ ایمان رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کبھی نہیں مرنا تو پھر اس کا بچہ کیوں ہو۔ اور پھر لاکھوں اور کروڑوں سال تک تو اس کا کوئی بچہ نہیں تھا۔ یعنی دو ہزار سال قبل تک۔ پھر اس کے ذہن میں یہ خیال ا ٓیا کہ اس کا بچہ ہو۔ بیٹا ہو۔ پھر اس نے عیسیٰ کو بنایا۔ نہیں یہ غلط ہے۔ چنانچہ اس میں کوئی منطق نہیں ہے۔ اس لیے ہم ایسا ایمان نہیں رکھتے۔ پھر حضور انور نے استفسار فرمایا کہ آپ کی کتنی عمر ہے؟ (طفل نے عرض کی بارہ سال)۔ حضور انور نے مزید فرمایا کہ ہاں آپ خود بھی قرآن کریم سے آیات تلاش کر سکتے ہیں جو آپ کو بتاتی ہیں کہ ہم کیوں (اللہ کا بیٹا ہونے پر)ایمان نہیں رکھتے، سورت اخلاص میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ ایک ہے۔ ہم یہ ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں یہ ہم ایمان رکھتے ہیں اور ہم منطق سے بات کرتے ہیں۔ وہ جو کہتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کا بیٹا ہے وہ آپ کو اس کا کوئی ثبوت مہیانہیں کر سکتے۔ اور وہ منطق کے ساتھ بات نہیں کر سکتے۔ یہ آپ کے لیے کافی ہے۔

ایک طفل نے سوال کیاکہ پیارے حضور انسانوں کو جو اشرف المخلوقات ہیں ، ایسے جانوروں وغیرہ سے پہلے کیوں نہیں پیدا کیا گیا جو بعد میں ناپید ہوگئے؟

حضور انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ ان ناپید جانوروں کے اجسام انسانوں کے لیے مفید ہوں گے۔ اس کی ایک مثال معدنی پیٹرولیم (کا ذخیرہ)ہے۔ …یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ اس نے چند جانور پیدا کیے یا اس زمین پر کچھ زندگی کے آثار پیدا کیے اور اب وہ زندگی ناپید ہے لیکن اب انسان ان سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ تو اب ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس نے گاڑیوں اور انجنوں کی ایجاد سے پہلے اس طرح پلان کیا کہ ہم اس مٹی سے آئل حاصل کر سکیں۔ …تو آپ کو اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ آپ بعد میں معرض وجود میں آئے اور آپ ان ناپید جانوروں کے residueسے تیل کی صورت میں فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

ایک اور طفل نے سوال کیا کہ وہ اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ محبت پیار کا ماحول کیسے قائم رکھ سکتاہے؟

حضور انور نے فرمایا کہ آپ کو حوصلہ دکھانا چاہیے۔ اپنے بہن بھائی کی عزت کریں، جو آپ سے بڑے ہیں اور جو چھوٹے ہیں ان سے شفقت سے پیش آئیں۔ اور جب بھی وہ کوئی غلط بات کریں تو آپ کو صبر اور حوصلہ دکھانا چاہیے۔ آپ کا صبر کا معیاربہت بلند ہونا چاہیے۔ جب آپ ان میں کوئی غلط بات دیکھیں یا وہ آپ کو تنگ کریں اور آپ پریشان ہوں تو اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّ اَتُوْبُ اِلَیْہ پڑھا کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ کو دعا کرنی چاہیے کہ آپ کو آپ کے بہن بھائیوں کی طرف سے بھلائی ہی پہنچے، اور نہ تو آپ ان کو ناخوش کرنے والی کوئی بات کریں اور نہ ہی ان سے کوئی ایسی بات سرزد ہو۔ آپ اور آپ کے بہن بھائی آپس میں محبت اور اخوت سے رہیں۔ ایک احمدی مسلمان لڑکا اور لڑکی، مرد یا عورت کو حوصلہ دکھانا چاہیے اور ان کا صبر کا معیار بہت بلند ہونا چاہیے۔ اگر آپ اس کی عادت ڈال لیں گے تو آپ کو پریشانی نہیں ہوگی یا آپ اپنے بہن یا بھائیوں سے بدلہ لینے کا نہیں سوچیں گے۔

ایک طفل نے سوال کیاکہ جب اللہ تعالیٰ نے جملہ مذاہب کا آغاز فرمایا ہے تو کیا یہ کہنا درست ہے کہ جملہ مذاہب اللہ تعالیٰ کی طرف لے جانے والے ہیں؟

حضور انور نے فرمایا ہاں، اگر وہ اپنی اصل تعلیمات سے دور نہ ہوئے ہوں۔ ہر نبی نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیے گئے پیغام کو ہی آگے پہنچایا۔ ان سب کا ایک ہی دعویٰ تھا کہ ایک خدا کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ۔ انہوں نے واضح اعلان کیا تھا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور یہ کہ ہم اپنی قوم کی ہدایت کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ متعدد انبیاء نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ آخری زمانے میں ایک نبی آئے گا مگر وہ صرف اپنی قوم یا اپنے قبیلے کے لیے نہیں ہوگا بلکہ جملہ انسانیت کے لیے مبعوث ہوگا۔ یہ پیشگوئی حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰؑ اور دیگر کئی انبیاء نے کی تھی۔ تو جب حضرت موسیٰ ایک ہی پیغام لائے، حضرت عیسیٰ ایک ہی پیغام لائے، کرشنا ایک ہی پیغام لائے، کنفیوشس ایک ہی پیغام لائے اسی طرح ان سب نے ایک نبی کے آنے کی پیشگوئی کی تھی جو ایک عالمگیر نبی ہوگا۔ ان سب انبیاء کے کسی الٰہی نوشتہ نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ ساری انسانیت کے لیے نبی ہیں۔ حتیٰ کہ بائبل میں ہے کہ حضرت عیسیٰ نے بڑی وضاحت سے فرمایا ہے کہ میں اپنی قوم کے لیے نبی ہوں صرف اپنے قبائل کا نبی ہوں۔

حضور انور نے اس کے مقابل پر اسلام کے عالمگیر مذہب ہونے کے بارے میں فرمایا کہ ایک بات تو یہ ہے کہ یہ دیگر مذاہب اپنی اصل تعلیمات سے دور ہٹ گئے ہیں۔ دوسرا انہوں نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جملہ انسانیت کےلیے بھجوایا گیا ہے۔ جبکہ آنحضرتﷺ کے بارے میں قرآن کریم کا یہ دعویٰ موجود ہے کہ آپﷺ کو جملہ انسانیت کے لیے بھیجا گیا ہے اور آپﷺ نے یہ دعویٰ خود فرمایا ہے۔ آپ ﷺ ساری انسانیت کے لیے بھجوائے گئے ہیں بطور بشیر اور نذیر کے۔ یہی وجہ ہے کہ اگرچہ ہم یہ کہتے ہیں کہ جملہ مذاہب سچے تھے مگر ان کے ماننے والوں نے اپنی تعلیمات میں تغیر و تبدل کردیا ہے۔

حضور انور نے اس امر پربھی روشنی ڈالی کہ اگرچہ مسلمانوں میں بھی چند بدعات راہ پا گئی ہیں تاہم خداتعالیٰ نے اسلام کی حفاظت فرمائی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھجوا کر ان غلط خیالات کی تصحیح فرمائی ہے۔

حضور انور نے فرمایا کہ بعض غلط روایات اور بدعات بھی اسلامی تعلیمات میں داخل ہو چکی ہیں۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ سے یہ وعدہ فرمایا تھا کہ آخری زمانے میں ایک ایسا وجود آئے گا جو آپ ﷺ کا عاشق صادق اور کامل پیرو ہوگا۔اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور مہدی اور مسیح موعود بھجوایا جائے گا۔ اور اگر اسلامی تعلیمات میں کچھ تغیر و تبدل ہوچکا ہوگا تو وہ اس کی اصلاح کرے گا اور دین کی تجدید کرے گا۔ اس لیے اب صرف اسلام ہی ایسا مذہب ہے جو اپنی حقیقی صورت میں برقرار ہے۔ سابقہ انبیاء کی کتب میں سے کوئی ایسی نہیں جو اپنی اصلی حالت میں موجود ہو، صرف قرآن کریم اصل صورت میں موجود ہے۔ ہمارے مخالف بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ قرآن کریم میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی اگرچہ اس میں تبدیلی کی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا یہ دعویٰ بھی موجود ہے کہ قرآن کریم کبھی محرف و مبدل نہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم قرآن کریم کو آج بھی اسی حالت میں پاتے ہیں جس طرح وہ آنحضرت ﷺ پر نازل ہوا تھا۔

ملاقات کے اختتام پر حضور انور نے از راہ شفقت محترم صدر صاحب سے استفسار فرمایا کہ بچوں کی کلاس صبح سوا دس بجے شروع ہوئی تھی تو انہوں نے کیا ناشتہ کیا ہے؟ اس پر انہوں نے عرض کی کہ جی حضور ان کو آج ناشتہ میں پین کیکس پیش کیے گئے تھے۔ حضور انور نے فرمایا پین کیکس صرف، وہ جو چھوٹا سا ہوتاہے۔ یہ ان کے لیے کافی تھا۔ اچھا، نہ دلیہ ، نہ سیریل نہ کچھ اَور۔ صرف پین کیک؟ اس پر محترم صدر صاحب نے بتایا کہ حضور سیریل بھی دیے گئے تھے۔ حضور انور نے فرمایا اچھا اچھا، بہر حال وہ خوش لگ رہے ہیں۔ اللہ حافظ۔ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button