الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام عشقِ محمدﷺ کے آئینہ میں

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا ایک عظیم الشان مقصد آنحضورﷺ کی حقیقی عظمت کو دنیا میں قائم کرنا ہے۔ چنانچہ مجلس انصاراللہ برطانیہ کے رسالہ ’’انصارالدین‘‘ جولائی اگست 2013ء میں حضرت اقدسؑ کے آنحضورﷺ سے بےمثال عشق کے موضوع پر محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کی ایک تقریر شائع ہوئی ہے جو جلسہ سالانہ قادیان 2005ء کے موقع پر کی گئی تھی۔

حضرت مسیح موعودؑ کی حیات مبارکہ اس آیت کی عملی تصویر تھی جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ(آل عمران: 32)

ترجمہ: تُو کہہ دے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ بھی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا۔ اور یقیناً اللہ بہت ہی بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

چودہ سو سال میں سینکڑوں اولیائےاُمّتِ محمدیہ نے سیدنا محمد مصطفیٰﷺ کی پیروی کرکے، اپنی اپنی پیروی کے معیار کے مطابق اللہ کی محبت کو پایا۔ لیکن اگر کوئی فردِ اُمّت اللہ تعالیٰ کے پیار کو اُس حد تک نہ پاتا جہاں اُسے کثرت سے شرف مکالمہ و مخاطبہ بخشا جاتا اور اُسے آنحضرتﷺ کی پیروی میں مقام نبوت سے سرفراز نہ فرمایا جاتا، تو قرآن مجید کا مذکورہ اعلان نامکمل رہ جاتا۔ یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سیدنا محمد مصطفیٰﷺ کی اتباع و پیروی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی بے انتہا محبت کو پایا۔ اور دنیا والوں نے قرآن مجید کے اعلان کی سچائی کو خو د مشاہدہ کرلیا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں:

’’میں نے محض خدا کے فضل سے نہ اپنے کسی ہنر سے اس نعمت سے کامل حصہ پایا جو مجھ سے پہلے نبیوں اور رسولوں اور خدا کے برگزیدوں کو دی گئی۔ اور میرے لئے اُس نعمت کا پانا ممکن نہ تھا اگر میں اپنے سیدو مولیٰ فخر الانبیاء اور خیرالوریٰ محمدمصطفیٰﷺ کی راہوں کی پیروی نہ کرتا۔ سو میں نے جو کچھ پایا اس پیروی سے پایا اور میں اپنے سچے اور کامل علم سے جانتا ہوں کہ کوئی انسان بجز پیروی اس نبیﷺ کے خدا کو نہیں پاتا۔‘‘ (حقیقۃ الوحی صفحہ127)

وہ پیشوا ہمارا جس ہے نور سارا

نام اُس کا ہے محمدؐ دلبر مرا یہی ہے

سب پاک ہیں پیمبر اک دوسرے سے بہتر

لیک از خدائے برتر خیرالوریٰ یہی ہے

اُس نور پر فدا ہوں اُس کا ہی میں ہوا ہوں

وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کے چند واقعات سے ہی اُس محبت کا کسی قدر اندازہ ہو سکتا ہے جو آپؑ کے دل میں سیدنا محمدﷺ کے لیے تھی۔

ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ اپنے مکان کے ساتھ والی چھوٹی مسجد میں، جو مسجد مبارک کہلاتی ہے، اکیلے ٹہل رہے تھے اور آہستہ آہستہ کچھ گنگناتے جاتے تھے اور اس کے ساتھ ہی آپؑ کی آنکھوں سے آنسوئوں کی تار بہتی چلی جارہی تھی۔ اس وقت ایک مخلص دوست نے باہر سے آکر سُنا تو آپؑ حضرت حسّان بن ثابتؓ کا یہ شعر پڑھ رہے تھے جو حضرت حسّانؓ نے آنحضرتﷺ کی وفات پر کہا تھا:

کُنْتَ السَّوادَ لِنَاظِرِیْ فَعَمِیَ عَلَیْکَ النّاظِر

مَنْ شَآءَ بَعْدَکَ فَلْیَمُتْ فَعَلَیْکَ کُنْتُ اُحَاذِرٗ

یعنی تُو میری آنکھ کی پتلی تھا جو آج تیری وفات کی وجہ سے اندھی ہو گئی ہے اب تیرے بعد جو چاہے مرے مجھے تو صرف تیری موت کا ڈر تھا جو واقع ہو گئی۔

راوی کا بیان ہے کہ مَیں نے گھبرا کر عرض کیا کہ حضرت! یہ کیا معاملہ ہے اور حضور کو کونسا صدمہ پہنچا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا میں اس وقت حسّان بن ثابتؓ کا یہ شعر پڑھ رہا تھا اور میرے دل میں یہ آرزو پیدا ہو رہی تھی کہ ’’کاش یہ شعر میری زبان سے نکلتا۔‘‘

دنیا جانتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر سخت سے سخت زمانے آئے۔ ہر قسم کی تنگی دیکھی۔ طرح طرح کے مصائب برداشت کیے حوادث کی آندھیاں سر سے گزریں۔ مخالفوں کی طرف سے انتہائی تلخیوں اور ایذائوں کاسامنا حتیٰ کہ قتل کے سازشی مقدمات میں سے بھی گزرنا پڑا۔ بچوں اور عزیزوں اور دوستوں اور اپنے فدائیوں کی موت کے نظارے بھی دیکھے مگر کبھی آپؑ کی آنکھوں نے آپ کے قلبی جذبات کی غمازی نہیں کی۔ لیکن علیحدگی میں اپنے آقا رسولِ مقبولﷺ کی وفات کے متعلق (اور وفات بھی وہ جس پر تیرہ سو سال گذر چکے تھے) یہ محبت کا شعر یاد کرتے ہوئے آپؑ کی آنکھیں سیلاب کی طرح بہ نکلیں۔ اور آپ کی یہ قلبی حسرت چھلک کر باہر آگئی کہ کاش یہ شعر میری زبان سے نکلتا!۔

اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ حضرت حسان کا یہ شعر محبت رسولؐ کے اظہار میں ہر دوسرے کلام پر فائق ہے۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کے دل میں عشقِ رسولؐ کے کمال کی وجہ سے ہر غیر معمولی اظہارِ محبت کے موقعہ پر یہ خواہش پیدا ہوتی تھی کہ کاش یہ الفاظ بھی میری ہی زبان سے نکلتے۔

ایک واقعہ لاہور کے جلسہ وچھو والی کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ آریہ صاحبان نے یہ جلسہ منعقد کیا اور اس میں شرکت کرنے کے لیے ہر مذہب و ملّت کو دعوت دی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی بااصرار درخواست کی کہ آپؑ بھی کوئی مضمون تحریر فرمائیں اور وعدہ کیا کہ جلسہ میں کوئی بات خلافِ تہذیب اور کسی مذہب کی دلآزار ی کا رنگ رکھنے والی نہیں ہوگی۔ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ایک ممتاز صحابی حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کو بہت سے احمدیوں کے ساتھ لاہور روانہ فرمایا اور ان کے ہاتھ ایک مضمون لکھ کر بھیجا جس میں اسلام کے محاسن بڑی خوبی کے ساتھ اور بڑے دل کش رنگ میں بیان کیے گئے تھے۔ مگر جب آریہ صاحبان کی طرف سے مضمون پڑھنے والے کی باری آئی تو اس نے اپنی قوم کے وعدوں کو بالائے طاق رکھ کر اپنے مضمون میں رسولِ پاکﷺ کے خلاف ایسا گند اچھالا کہ خدا کی پناہ۔ جب اس جلسہ کی اطلاع حضرت مسیح موعودؑ کو پہنچی اور جلسہ میں شرکت کرنے والے احباب قادیان واپس آئے تو آپؑ حضرت مولوی صاحبؓ اور دوسرے احمدیوں پر سخت ناراض ہوئے اور بار بار جو ش کے ساتھ فرمایا کہ جس مجلس میں ہمارے رسول اللہؐ کو برا بھلاکہا گیا اور گالیاں دی گئیں تم اس مجلس میں کیوں بیٹھے رہے؟ اور کیوں نہ فوراً اُٹھ کر باہر چلے آئے؟ تمہاری غیرت نے کس طرح برداشت کیا کہ تمہارے آقاؐ کو گالیاں دی گئیں اور تم خاموش بیٹھے سنتے رہے۔ اور پھر آپؑ نے بڑے جوش کے ساتھ یہ قرآنی آیت پڑھی کہ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰیٰتِ اللّٰہِ یُکْفَرُبِھَا وَیُسْتَھْزَئُ بِھَا فَلَا تَقْعُدُوْا مَعَھُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِہٖ۔ (النساء: 141) یعنی جب تم سنو کہ خدا کی آیات کا دل آزار رنگ میں کفر کیا جاتا اور ان پر ہنسی اڑائی جاتی ہے تو تم ایسی مجلس سے فوراً اُٹھ جایا کرو تا و قتیکہ یہ لوگ مہذبانہ اندازِ گفتگو کو اختیار کریں۔

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ خان بہادر مرزاسلطان احمد صاحب مرحوم حضرت مسیح موعودؑ کے سب سے بڑے لڑکے تھے۔ ایک دفعہ ان سے حضورؑ کے ابتدائی زمانہ کے اخلاق و عادات کے متعلق مَیں نے دریافت کروں تو انہوں نے فرمایا کہ ’’ایک بات میں نے والد صاحب میں خاص طور پر دیکھی ہے، وہ یہ کہ آنحضرتﷺ کے خلاف ذرا سی بات بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ اگر کوئی شخص آنحضرتﷺ کی شان کے خلاف ذرا سی بات بھی کہتا تھا تو والد صاحب کا چہرہ سُرخ ہو جاتا تھا اور غصے سے آنکھیں متغیر ہونے لگتی تھیں اور فوراً ایسی مجلس سے اٹھ کر چلے جاتے تھے۔ آنحضرتﷺ سے تو والد صاحب کو عشق تھا، ایسا عشق میں نے کسی شخص میں نہیں دیکھا۔ اور مرزا سلطان احمد صاحب نے اس بات کو باربار دہرایا۔‘‘ (سیرۃ المہدی حصہ اول)

ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طبیعت کچھ ناساز تھی اور آپؑ گھر میں لیٹے ہوئے تھے کہ حج کا ذکر شروع ہوگیا۔ حضرت میرناصر نواب صاحبؓ نے کہا کہ اب تو حج کے لیے سفر اور رستے وغیرہ کی سہولت پیدا ہورہی ہے، حج کو چلنا چاہیے۔ اس وقت زیارتِ حرمین شریفین کے تصور میں حضرت مسیح موعودؑ کی آنکھیں آنسوئوں سے بھری ہوئی تھیں اور آپؑ اپنے ہاتھ کی انگلی سے آنسو پونچھتے جاتے تھے۔ فرمایا: یہ تو ہماری بھی دلی خواہش ہے مگر میں سوچا کرتا ہوں کہ کیا مَیں آنحضرتﷺ کے مزار کو دیکھ بھی سکوں گا!

پس ذرا اس شخص کی بے پایاں محبت کا اندازہ لگایئے جس کی روح حج کے تصور میں پروانہ وار رسولِ پاکؐ (فداہ نفسی) کے مزار پر پہنچ جاتی ہے۔ اور وہاں اس کی آنکھیں اس نظارہ کی تاب نہ لاکر بند ہونی شروع ہو جاتی ہیں۔

رسولِ پاکﷺ کے ساتھ اسی عشق کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپؐ کی آل و اولاد اور آپؐ کے صحابہ کے ساتھ بھی بے پناہ محبت تھی۔ چنانچہ ایک دفعہ جب محرم کا مہینہ تھا تو آپؑ نے نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ اور مرزا مبارک احمد صاحبؓ کو، جو اُس وقت چھوٹے بچے تھے، اپنے پاس بلایا اور فرمایا آئو میں تمہیں محرم کی کہانی سنائوں۔ پھر آپؑ نے بڑے دردناک انداز میں حضرت امام حسینؓ کی شہادت کے واقعات سنائے۔ آپؑ یہ واقعات سُناتے جاتے تھے اور آپؑ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ اس دردناک کہانی کو ختم کرنے کے بعد آپؑ نے بڑے کرب کے ساتھ فرمایا: ’’یزید پلید نے یہ ظلم ہمارے نبی کریمﷺ کے نواسے پر کروایا۔ مگر خدا نے بھی ان ظالموں کو بہت جلد اپنے عذاب میں پکڑ لیا۔‘‘

اس وقت اپنے آقاﷺ کے جگر گوشہ کی المناک شہادت کے تصور سے آپؑ کا دل بہت بے چین ہو رہا تھا۔ اور یہ سب کچھ رسولِ پاکؐ کے عشق کی وجہ سے تھا۔ چنانچہ اپنی ایک نظم میں آنحضرتﷺ کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں:

تیرے منہ کی ہی قسم میرے پیارے احمدؐ

تیری خاطر سے یہ سب بار اٹھایا ہم نے

تیری الفت سے ہے معمور مرا ہر ذرّہ

اپنے سینہ میں یہ اک شہر بسایا ہم نے

اسی طرح اپنی ایک عربی نظم میں آنحضرتﷺ کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں کہ اے میرے آقا! میری طرف رحمت اور شفقت کی نظر رکھ۔ میں تیرا ایک ادنیٰ ترین غلام ہوں۔ اے میرے محبوب تیری محبت میرے رگ و ریشہ میں اور میرے دل میں اور دماغ میں رَچ چکی ہے۔ اے میری خوشیوں کے باغیچے! میں ایک لمحہ اور ایک آن بھی تیری یاد سے خالی نہیں رہتا۔ میری روح تو تیری ہو چکی ہے مگر میرا جسم بھی تیری طرف پرواز کرنے کی تڑپ رکھتا ہے۔ اے کاش مجھ میں اڑنے کی طاقت ہوتی۔

ان اشعار میں جس محبت اور جس عشق اور جس تڑپ اور جس فدائیت کا جذبہ چھلک رہا ہے وہ کسی تبصرہ کا محتاج نہیں۔ اسی لیے آنحضرتﷺ نے فرمایا تھا کہ: یُدْفَنُ مَعِیَ فِیْ قَبْرِی‘‘یعنی آنے والے مسیح کو میری روح کے ساتھ ایسی گہری مناسبت اور ایسا شدید لگائو ہوگا کہ اس کی روح وفات کے بعد میری روح کے ساتھ رکھی جائے گی۔

عشق کا لازمی نتیجہ قربانی، فدائیت اور غیرت کی صورت میں ظاہر ہوا کرتا ہے اور حضرت مسیح موعودؑ میں یہ جذبہ بدرجۂ اتم موجود تھا۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ ’’عیسائی مشنریوں نے ہمارے رسول اللہﷺ کے خلاف بےشمار بہتان گھڑے ہیں اور اپنے اس دجل کے ذریعہ ایک خلقِ کثیر کو گمراہ کرکے رکھ دیا ہے۔ میرے دل کو کسی چیز نے کبھی اتنا دکھ نہیں پہنچا یا جتناکہ ان لوگوں کے اس ہنسی ٹھٹھانے پہنچایا ہے جو وہ ہمارے رسول پاکؐ کی شان میں کرتے رہتے ہیں۔ ان کے دلآزار طعن و تشنیع نے، جو وہ حضرت خیر البشرؐ کی ذاتِ والاصفات کے خلاف کرتے ہیں میرے دل کو سخت زخمی کر رکھا ہے۔ خدا کی قسم! اگر میری ساری اولاد اور اولاد کی اولاد اور میرے سارے دوست اور میرے سارے معاون و مددگار میری آنکھوں کے سامنے قتل کر دیے جائیں اور خود میرے اپنے ہاتھ اور پائوں کاٹ دیئے جائیں اور میری آنکھ کی پتلی نکال پھینکی جائے اور میں اپنی تمام مرادوں سے محروم کردیا جائوں اور اپنی تمام خوشیوں اور تمام آسائشوں کو کھو بیٹھوں تو ان ساری باتوں کے مقابل پر بھی میرے لیے یہ صدمہ زیادہ بھاری ہے کہ رسول اکرمﷺ پر ایسے ناپاک حملے کیے جائیں۔ پس اے میرے آسمانی آقا! تُو ہم پر اپنی رحمت اور نصرت کی نظر فرما اور ہمیں اس ابتلاءِ عظیم سے نجات بخش‘‘۔ (ترجمہ عربی عبارت آئینہ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن۔ جلد5۔ صفحہ15 از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے از سیرت طیبہ صفحہ 41-42)

یہی وجہ ہے کہ اپنی اِن عدیم المثال خدمات کے باوجود جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرتﷺ کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو ایک وفاشعار شاگرد اور ایک احسان مند خادم کی حیثیت میں اپنا ہر پھول آپؐ کے قدموں میں ڈالتے چلے جاتے ہیں۔ اور بار بار عاجزی کے ساتھ عرض کرتے ہیں کہ آقا! یہ سب کچھ آپ ہی کے طفیل ہے میرا تو کچھ بھی نہیں۔ چنانچہ ایک جگہ فرماتے ہیں:

’’میں اسی خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جیسا کہ اس نے ابراہیمؑ سے مکالمہ مخاطبہ کیا اور پھر اسمٰعیلؑ سے اور اسحٰقؑ سے اور یعقوبؑ سے اور یوسفؑ سے اور موسیٰؑ سے اور مسیح ابن مریمؑ سے اور سب کے بعد ہمارے نبیﷺ سے ایسا ہمکلام ہوا کہ آپؐ پر سب سے زیادہ روشن اور سب سے زیادہ پاک وحی نازل کی۔ ایسا ہی اس نے مجھے بھی اپنے مکالمہ مخاطبہ کا شرف بخشا ہے مگر یہ شرف مجھے محض آنحضرتﷺ کی پیروی سے حاصل ہوا ہے۔ اگر میں آنحضرتﷺ کی امّت میں نہ ہوتا اور آپؐ کی پیروی نہ کرتا تو اگر دنیا کے تمام پہاڑوں کے برابر میرے اعمال ہوتے تو پھر بھی مَیں ہر گز کبھی یہ شرف مکالمہ مخاطبہ کا نہ پاتا۔‘‘(تجلیاتِ الٰہیہ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 411-412)

اسی طرح آپؑ آنحضرتﷺ کی برکات طیبات کا ذکر کرتے ہوئے دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ ’’ایک رات اس عاجز نے اس کثرت سے آنحضرتﷺ پر درودشریف پڑھا کہ دل و جان اس سے معطر ہو گیا۔ اسی رات میں نے خواب میں دیکھا کہ خدا کے فرشتے آبِ زلال کی شکل میں نور کی مشکیں اس عاجز کے مکان پر لئے آتے ہیں۔ اور ایک نے ان فرشتوں میں سے کہا یہ وہی برکتیں ہیں جو تُونے محمدؐ کی طرف بھیجی تھیں۔ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔‘‘(حقیقۃالوحی۔حاشیہ صفحہ138-تذکرہ۔صفحہ 77)

الغرض آنحضرتﷺ کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایسا عشق تھا کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ آپ اپنی ایک نظم میں بڑے دردناک انداز میں فرماتے ہیں کہ

دے چکے دل اب تنِ خاکی رہا

ہے یہی خواہش کہ ہو وہ بھی فدا

تم ہمیں دیتے ہو کافر کا خطاب

کیوں نہیں لوگو تمہیں خوفِ عقاب

حضورؑ کے عشق رسولﷺ کا اندازہ ان الفاظ سے لگائیے۔ فرمایا: ’’وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا یعنی انسانِ کامل کو وہ ملائک میں نہیں تھا نجوم میں نہیں تھا، قمر میں نہیں تھا، آفتاب میں نہیں تھا، وہ زمین کے سمندروں اور دریائوں میں بھی نہیں تھا اور وہ لعل اور یاقوت اور زمرد اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا۔ غرض وہ کسی چیز ارضی اور سماوی میں نہیں تھا صرف انسان میں تھا یعنی انسان کامل میں جس کا اتم اور اکمل اور اعلیٰ اور ارفع فرد ہمارے سید و مولیٰ سیدالانبیاء و سیدالاحیاء محمد مصطفیﷺ ہیں۔ سو وہ نور اُس انسان کو دیا گیا اور حسب مراتب اُس کے تمام ہمرنگوں کو بھی اُن لوگوں کو بھی جو کسی قدر وہی رنگ رکھتے ہیں۔ … اور یہ شان اعلیٰ اور اکمل اور اتم طور پر ہمارے سید و مولیٰ ہمارے ہادی نبی و اُمیّ صادق و مصدوق محمد مصطفیٰﷺ میں پائی جاتی تھی۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام،روحانی خزائن جلد 5، صفحہ162-160)

نیز فرمایا: ’’میں ہمیشہ تعجب کی نگاہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمد ہے (ہزار ہزار درود اور سلام اُس پر) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے اس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہوسکتا اور اُس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں۔ افسوس کہ جیسا حق شناخت کا ہے اس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا۔ وہ توحید جو دنیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا اس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی۔ اس لئے خدا نے جو اس کے دل کے راز کا واقف تھا اس کو تمام انبیاء اور تمام اولین و آخرین پر فضیلت بخشی اور اُس کی مرادیں اس کی زندگی میں اُس کو دیں۔‘‘

(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد 22، صفحہ119-118)

………٭………٭………٭………

’’براہین احمدیہ اور مولوی عبدالحق‘‘

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اسلام کی خاطر جو شاندار علمی خدمات سرانجام دیں اُن میں حضورؑ کی تصنیف ’’براہین احمدیہ‘‘ کو غیرمعمولی مقام حاصل ہے۔ لیکن بعض مخالفین نے اس کتاب کی عظیم الشان علمی حیثیت کو متأثر کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان مخالفین میں ایک نام مولوی عبدالحق کا ہے جو بابائے اردو کہلاتے ہیں۔

تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ پادری میلکم میکال کی طرف سے 1881ء میں اسلام پر چند اعتراضات کیے گئے جن کا جواب (سرسید احمد خان صاحب کی علیگڑھ تحریک سے تعلق رکھنے والے) مولوی چراغ علی نے اپنی ایک انگریزی تصنیف میں دیا۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ مولوی عبدالحق نے ’’اعظم الکلام فی ارتقاء والاسلام‘‘ کے نام سے 1910ء میں آگرہ سے شائع کیا۔

مولوی عبدالحق جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن کے گریجوایٹ تھے اور اسی لیے مولوی کہلاتے تھے ورنہ ان کو دینی علم سے کوئی مناسبت نہیں تھی۔ انہوں نے ’’اعظم الکلام‘‘ کے حصہ دوم کے مقدمے میں حضرت مسیح موعودؑ کے خطوط کے اقتباس پیش کرتے ہوئے لکھا کہ ’’جس وقت ہم مولوی (چراغ علی) صاحب مرحوم کے حالات کی جستجو میں تھے تو ہمیں مولوی صاحب کے کاغذات میں سے چند خطوط مرزا غلام احمد قادیانی مرحوم کے بھی ملے جو انہوں نے مولوی صاحب کو لکھے تھے اور اپنی مشہور اور پُرزور کتاب ’براہین احمدیہ‘ کی تالیف میں مدد طلب کی تھی۔ … ان تحریروں سے ایک بات تو یہ ثابت ہوتی ہے کہ مولوی صاحب مرحوم نے مرزا صاحب مرحوم کو ’براہین احمدیہ‘کی تالیف میں بعض مضامین سے مدد دی ہے۔‘‘ (مقدمات عبدالحق صفحہ 23, 26)

مولوی عبدالحق کی اس تحریر کے حوالے سے بہت سے مخالفین نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی حمایتِ اسلام میں کی جانے والی عظیم الشان مساعی کو داغدار کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن تاریخ سے ثابت ہے کہ ’براہین احمدیہ‘ کی اشاعت پر اس کتاب کے مضامین کو ہر طبقۂ فکر نے خوب سراہا لیکن کسی ایک نے بھی یہ اظہار نہیں کیا کہ اس عظیم الشان تصنیف میں فلاں شخص کی علمی مدد شامل تھی۔ چنانچہ اہل حدیث کے مولوی محمد حسین بٹالوی نے اپنے رسالہ میں یہاں تک لکھا کہ ’’ہماری رائے میں یہ کتاب اس زمانہ میں اور موجودہ حالت کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی… اس کا مؤلف بھی اسلام کی مالی و جانی، قلمی و لسانی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت کم ہی پائی گئی۔‘‘

مولانا ابوالکلام آزاد نے لکھا: ’’بزرگانِ اسلام اب براہین احمدیہ کے بُرا ہونے کا فیصلہ دے دیں محض اس وجہ سے کہ اس میں مرزا صاحب نے اپنی نسبت بہت سی پیشگوئیاں کی تھیں اور بطور حفظ ماتقدم اپنے آئندہ دعاوی کے متعلق بہت کچھ مصالہ فراہم کرلیا تھا۔ لیکن اس کا بہترین وقت 1880ء تھا جبکہ وہ کتاب شائع ہوئی۔ مگر اس وقت مسلمان بالاتفاق مرزا صاحب کے حق میں فیصلہ دے چکے تھے۔‘‘

دراصل جب اسلام پر عیسائی پادریوں اور ہندوؤں کی تحریکوں آریہ سماج اور برہمو سماج نے اعتراضات کی یلغار کردی تو حضرت مسیح موعودؑ نے اسلام کے دفاع میں ’’براہین احمدیہ‘‘ کی اشاعت کا اعلان کرتے ہوئے اشتہار دیے اور اسلام کی ہمدردی میں مسلمانوں سے اپیل کی کہ اس کتاب کی خریداری قبول کریں اور مالی معاونت بھی کریں۔ پھر ان افراد کا ذکر شکریہ کے ساتھ اپنی کتاب میں بھی کیا۔ چنانچہ مولوی چراغ علی کی مالی معاونت کا بھی ذکر کیا جو دس روپے تھی۔

حیرت ہے کہ مولوی چراغ علی کی وفات 1895ء میں ہوئی اور انہوں نے کبھی اپنے دوستوں کو یہ نہ بتایا کہ مسلمان جس کتاب کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملارہے ہیں اُس کا فلاں فلاں حصہ تو میرا مرہون منّت ہے۔

’’براہین احمدیہ‘‘ پر ہونے والے مذکورہ اعتراض کے جواب میں مکرم عاصم جمالی صاحب کے قلم سے دو صدگیارہ صفحات پر مشتمل ایک تحقیقی کتاب بعنوان ’’براہین احمدیہ اور مولوی عبدالحق بابائے اردو‘‘ شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب پر مکرم قمرالزمان مرزا صاحب کا تبصرہ روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 3؍ستمبر 2013ء میں شائع ہوا ہے۔

عاصم جمالی صاحب نے حضرت مسیح موعودؑ اور مولوی چراغ علی کے نظریات کی متعدد مثالیں دے کر بھی ثابت کیا ہے کہ مولوی صاحب نے علمی یا تحریری طور پر حضورعلیہ السلام کی کوئی مدد نہیں کی تھی۔ مثلاً مولوی چراغ علی صاحب قرآن مجید کو آنحضرتﷺ کا کلام قرار دیتے تھے۔ ملائکہ کے وجود کے منکر تھے اور معجزات کے انکاری تھے۔ وحی و الہام کو دل کے خیالات قرار دیتے تھے اور پیشگوئیوں کے بھی منکر تھے۔ عصمت انبیاء کے انکاری تھے۔ جبکہ حضور علیہ السلام نے ان سب کے اثبات میں دلائل دیے ہیں۔

مصنف نے مولوی چراغ علی اور حضرت مرزا صاحب کے اسلوبِ نگارش یعنی طرز تحریر کا موازنہ کرکے بھی اپنا مؤقف ثابت کیا ہے۔

عاصم جمالی صاحب نے یہ بھی ثابت کیا ہے مولوی عبدالحق دوسروں کی تحریرات اور تحقیق کو خاموشی سے ہضم کرجاتے ہیں اور اگر کوئی توجہ دلائے تو ایسے انداز سے جواب دیتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ جبکہ حضرت مسیح موعودؑ کا طریق یہ تھا کہ جہاں آپ دوسرے مصنفین کی تحریر شاملِ کتاب کرتے ہیں وہاں بطور خاص اس شخص کا نام بھی تحریر فرماتے ہیں۔ مصنف نے اس کی کئی مثالیں بھی پیش کی ہیں۔ پس مولوی چراغ علی نے جتنی مدد پیش کی تھی اس کا ذکر حضورؑ اپنی کتاب میں شکریہ کے ساتھ فرماچکے ہیں۔

مولوی عبدالحق نے حضرت مسیح موعودؑ کے حوالے سے اپنے مقدمے میں چار خطوط کا ذکر کیا ہے جبکہ دراصل یہ دو خطوط ہیں جن کے مضمون میں تحریف کرکے انہوں نے غلط فہمی پیدا کرنے کی دانستہ کوشش کی ہے۔ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ نے 1926ء میں ’حیاتِ احمدؑ ‘ میں بھی یہ مسئلہ اٹھایا تھا اور مولوی عبدالحق کو دو خطوط بھی لکھے تھے جن کا مولوی صاحب کوئی تسلّی بخش جواب نہ دے سکے اور آخری خط میں لکھا کہ ’’جن صاحب کے پاس وہ خطوط تھے ان کا انتقال ہوگیا۔ اب ان خطوں کا ملنا محال ہے۔ مولوی چراغ علی مرحوم کے بیٹوں میں کسی کو اس کا ذوق نہیں۔ آپ نے ’براہین احمدیہ‘ کے سلسلے کے متعلق دریافت فرمایا مجھے مطلق یاد نہیں اور نہ مجھے اب ان چیزوں سے کوئی سروکار ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ ان امور میں مَیں آپ کی کوئی مدد نہیں کرسکتا۔‘‘

عاصم جمالی صاحب نے مولوی عبدالحق کے حوالے سے ایک سو سال سے پھیلائی گئی مخالفین کی ایک بڑی غلط فہمی کو کماحقہٗ اور مدلّل انداز میں بالبداہت غلط ثابت کیا ہے اور تاریخ کی غلطی کو درست کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ خداتعالیٰ اُمّت مسلمہ کو وہ شعور عطا کرے کہ وہ مامور زمانہ کو پہچان سکے اور وہ یہ ادراک کرسکیں کہ ایمان کو ثریا سے واپس لانے اور اسلام کی حقیقی تعلیمات کو دوبارہ دنیا تک پہنچانے کے لیے کس قدر عظیم الشان خدمات حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے سرانجام دی ہیں۔ آمین

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button