تعارف کتاب

’’سیرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام‘‘ (قسط دوم۔آخری)

(فرخ سلطان محمود)

سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اخلاق فاضلہ کے حوالے سے حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی تراب رضی اللہ عنہ نے بہت سی قیمتی روایات اپنی کتاب میں جمع کردی ہیں جن سے حضورؑ کی مقدّس سیرت کے متعدد پہلو نمایاں ہوکر سامنے آتے ہیں۔ ان روایات کا ایک بڑا حصہ شفقت علیٰ خلق اللہ سے تعلق رکھتا ہے۔

٭…… حضرت مسیح موعودؑ کی مہمان نوازی کے خلق کا بیان ہورہا ہے۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ غالباً 1896ء کا واقعہ ہے۔ جون کا مہینہ تھا۔ مکان نیانیا بنا تھا۔ چارپائی بچھی تھی، مَیں دوپہر کے وقت اُس پر لیٹ گیا۔ حضرت ٹہل رہے تھے۔ مَیں ایک دفعہ جاگا تو آپؑ فرش پر لیٹے ہوئے تھے۔ مَیں ادب سے گھبراکر اُٹھ بیٹھا۔ آپؑ نے بڑی محبت سے پوچھا: آپ کیوں اُٹھے؟ مَیں نے عرض کیا کہ آپ نیچے لیٹے ہوئے ہیں، مَیں اوپر کیسے سو رہوں۔ مسکراکر فرمایا: ’’مَیں تو آپ کا پہرہ دے رہا تھا۔ لڑکے شور کرتے تھے، اُنہیں روکتا تھا کہ آپ کی نیند میں خلل نہ آوے۔‘‘

٭…… حضورعلیہ السلام کی صداقت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ آپ اپنے مہمانوں کے لیے دل سے چاہتے تھے کہ وہ زیادہ وقت آپؑ کے پاس رہیں۔ گویا آپؑ کی روح کو کامل شعور تھا کہ آپؑ منجانب اللہ اور راست باز ہیں۔ جھوٹا آدمی ایک دن میں گھبرا جاتا ہے اور وہ دوسروں کو دھکے دے کر نکالتا ہے کہ ایسا نہ ہوجائے کہ اُس کا نقاب اُتر جائے۔ حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ کپورتھلوی بیان فرماتے ہیں کہ جب مَیں مجسٹریٹ کا ریڈر تھا تو ایک دو دن کے لیے قادیان آیا مگر جب بھی واپسی کی اجازت چاہتا تو یہی فرماتے کہ چلے جانا، ابھی کون سی جلدی ہے۔ اور اس طرح پر ایک لمبا عرصہ یہاں قیام کیا۔

٭…… حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ پہلی مرتبہ مارچ 1893ء میں قادیان آئے تھے۔ آپؓ اپنے اس دلچسپ سفر کے آخری مرحلے کی روداد اور حضرت اقدس علیہ السلام کی دل نواز مہمان نوازی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مَیں راستے سے ناواقف تھا۔ شام کے وقت گاڑی سے بٹالہ پہنچا تو کوئی یکّہ نہ ملا۔ میرے پاس کچھ سامان سبزی وغیرہ تھا۔ ایک مزدور لیا اور ہم دونوں چل پڑے۔ قادیان کے راستے میں اُس کا گاؤں تھا۔ اُس کے گاؤں کے قریب پہنچے تو وہ کہنے لگا کہ مَیں گھر والوں کو اطلاع دے آؤں کہ قادیان جاتا ہوں۔ اُسے گھر میں اچھی خاصی دیر ہوگئی اور آفتاب غروب ہوگیا۔ رات اندھیری تھی۔ ہم دونوں چلے مگر وہ بھی راستے سے پورا واقف نہ تھا۔ چلتے چلتے ہم ہرچووال کی نہر پر جاپہنچے۔ سفر کی طوالت وقت کے زیادہ گزرنے سے معلوم ہوتی تھی گو شوق کی وجہ سے کچھ تکان نہ تھی۔ مَیں نے اُس مزدور سے کہا کہ تم کہتے تھے مَیں راستے سے واقف ہوں اور ہم کو بٹالہ سے چلے ہوئے بہت عرصہ ہوگیا ابھی تک وہ موڑ نہیں آتا، یہ کیا بات ہے؟ اُس نے کہا کچھ پتہ نہیں لگتا۔ ہرچووال پہنچ کر ہمیں معلوم ہوا کہ ہم راستہ بھول گئے ہیں۔ اتفاقاً وہاں ایک آمی مل گیا جس نے ہم کو ہماری غلطی پر آگاہ کیا اور ہم واپس ہوئے۔ لیکن لِیل کلاں کے قریب آکر پھر بھولے۔ مگر دو تین آدمی وہاں سے جارہے تھے جنہوں نے ہمیں سیدھے راستے پر ڈال دیا۔ اس پریشانی میں اس رفیقِ سفر پر بہت غصہ آتا تھا مگر اس کا نتیجہ کچھ نہ تھا۔ آخر ہم چلتے چلتے قادیان کے باغ کے قریب پہنچے تو آگے پانی تھا۔ باغ کی طرف سے ہم نے آواز دی تو ایک شخص نے کہا چلے آؤ، پانی پایاب ہے۔ غرض وہاں سے گزر کر مہمان خانہ پہنچے جو دو کوٹھڑیوں اور ایک دالان پر مشتمل تھا۔ رمضان کا آغاز تھا اور لوگ اُس وقت اُٹھ رہے تھے۔ حضرت حافظ حامد علی مرحوم کو خبر ہوئی کہ کوئی مہمان آیا ہے۔ وہ میرے واقف تھے۔ جب وہ آکر ملے تو محبت اور پیار سے انہوں نے مصافحہ اور معانقہ کیا اور حیرت سے پوچھا کہ اس وقت کہاں سے؟ مَیں نے جب واقعات بیان کیے تو بےچارے بہت حیران ہوئے۔ مَیں نے سبزی وغیرہ اُن کے حوالے کی تو وہ لے کر اُسی وقت اندر گئے اور حضرت صاحب کو اطلاع کی۔ حضورؑ نے اُسی وقت مجھے گول کمرے میں بلالیا اور وہاں پہنچنے تک پُرتکلّف کھانا بھی موجود تھا۔ مَیں اس ساعت کو اپنی عمر میں کبھی نہیں بھول سکتا کہ کس محبت اور شفقت سے بار بار فرماتے تھے آپ کو بڑی تکلیف ہوئی۔ مَیں کرتا رہا نہیں حضور، معلوم بھی نہیں ہوا۔ مگر آپؑ بار بار فرماتے ہیں کہ راستہ بھول جانے کی پریشانی بہت ہوتی ہے۔ اور کھانا کھانے کے لیے تاکید فرمانے لگے۔ مجھے شرم آتی تھی کہ آپؑ کے حضور کس طرح کھاؤں۔ مَیں نے تأمل کیا تو آپؑ نے خود اپنے دست مبارک سے کھانا آگے کرکے فرمایا کہ کھاؤ، بہت بھوک لگی ہوگی۔ آخر مَیں نے کھانا شروع کیا تو پھر فرمانے لگے کہ خوب سیر ہوکر کھاؤ، شرم نہ کرو۔ سفر کرکے آئے ہو۔

حضرت حامدعلی صاحبؓ بھی پاس ہی بیٹھے تھے اور آپؑ بھی تشریف فرما تھے۔ مَیں نے عرض کیا کہ حضور! آپ آرام فرمائیں، مَیں اب کھالوں گا۔ حضرت اقدسؑ نے اس وقت محسوس کیا کہ مَیں آپؑ کی موجودگی میں تکلّف نہ کروں۔ فرمایا: ’’حامدعلی! تم اچھی طرح سے کھلاؤ اور یہاں ہی ان کے لیے بسترا بچھادو۔‘‘ آپؑ تشریف لے گئے مگر تھوڑی دیر بعد ایک بسترا لیے ہوئے پھر تشریف لے آئے۔ میری حالت اس وقت عجیب تھی۔ ایک طرف تو مَیں آپؑ کے اس سلوک پر نادم ہو رہا تھا کہ ایک واجب الاحترام ہستی اپنے ادنیٰ غلام کے لیے کس مدارات میں مصروف ہے۔ مَیں نے عذر کیا کہ حضور نے کیوں تکلیف فرمائی۔ فرمایا: ’’نہیں نہیں، تکلیف کس بات کی۔ آپ کو آج بہت تکلیف ہوئی ہے۔ اچھی طرح سے آرام کرو۔‘‘ غرض آپ بسترا رکھ کر تشریف لے گئے۔

حافظ حامد علی صاحبؓ میرے پاس بیٹھے رہے۔ انہوں نے محبت سے کھانا کھلایا اور بسترا بچھادیا۔ مَیں لیٹ گیا تو انہوں نے میری چاپی کرنا چاہی۔ مَیں نے بہت ہی عذر کیا تو وہ رُکے مگر مجھے کہا کہ حضرت صاحب نے مجھے فرمایا تھا کہ ذرا دُبا دینا بہت تھکے ہوں گے۔ اُن کی یہ بات سنتے ہی میری آنکھوں سے بےاختیار آنسو نکل گئے۔ فجر کی نماز کے بعد آپؑ نے پھر دریافت فرمایا کہ نیند اچھی طرح آگئی تھی، اب تکان تو نہیں۔ غرض یہ اظہارِ شفقت مجھے مدّت العمر نہ بھولے گا۔

مَیں چند روز تک رہا اور ہر روز آپؑ کے لطف و کرم کو زیادہ محسوس کرتا تھا۔ مَیں اُس وقت ایک غریب طالب علم تھا اور کسی حیثیت سے کوئی معروف درجہ نہ رکھتا تھا مگر مَیں نے جب جانے کے لیے اجازت چاہی تو فرمایا: نوکری پر تو جانا نہیں، اَور دو چار روز رہو۔ مَیں پھر ٹھہر گیا۔ آخر آپؑ کی محبت و کرم فرمائی کے جذبات کا ایک خاص اثر لے کر گیا اور وہ کشش تھی کہ مجھے ملازمت چھوڑا کر یہاں لائی اور خدا تعالیٰ نے اپنا فضل کیا اور اس آستانہ پر دھونی رماکر بیٹھ جانے کی توفیق عطا فرمائی۔

٭…… حضرت اقدسؑ کی مہمان نوازی اور وسعت اخلاق اپنوں اور بیگانوں، سب کے لیے یکساں تھی۔ چنانچہ مولوی ابوالکلام آزاد کے بڑے بھائی مولوی ابونصر آہ مرحوم جب مئی 1905ء میں اخلاص و محبت سے قادیان تشریف لائے تو واپس جاکر اخبار ’’وکیل‘‘ امرتسر میں اپنے سفر کا حال شائع کیا۔ حضرت مسیح موعودؑ کے اخلاق کی تاثیر تھی کہ اُن کے مضمون کی ہر سطر سے عقیدت ٹپکتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

مَیں نے اَور کیا دیکھا؟ قادیان دیکھا۔ مرزا صاحب سے ملاقات کی، مہمان رہا۔ مرزا صاحب کے اخلاق اور توجہ کا مجھے شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ میرے منہ میں حرارت کی وجہ سے چھالے پڑگئے تھے اور مَیں شور غذائیں کھا نہیں سکتا تھا۔ مرزا صاحب نے دودھ اور روٹی تجویز فرمائی۔ اکرامِ ضیف کی صفت خاص اشخاص تک محدود نہ تھی۔ چھوٹے سے لے کر بڑے تک ہر ایک نے بھائی کا سا سلوک کیا۔ اگر مرزا صاحب کی ملاقات کا اشتیاق میرے دل میں موجزن نہ ہوتا تو شاید آٹھ میل تو کیا آٹھ قدم بھی مَیں آگے نہ بڑھ سکتا۔ آتے ہوئے یکّہ میں مجھے جس قدر تکلیف ہوئی تھی نواب صاحب کے رتھ نے لَوٹنے کے وقت نصف کی تخفیف کردی۔

مرزا صاحب کی صورت نہایت شاندار ہے جس کا اثر بہت قوی ہوتا ہے۔ آنکھوں میں ایک خاص طرح کی چمک اور کیفیت ہے اور باتوں میں ملائمت ہے۔ طبیعت منکسر مگر حکومت خیز۔ مزاج ٹھنڈا مگر دلوں کو گرما دینے والا۔ بُردباری کی شان نے انکساری کیفیت میں اعتدال پیدا کردیا ہے۔ گفتگو ہمیشہ اس نرمی سے کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے گویا متبسم ہیں۔

مرزا صاحب کی وسیع الاخلاقی کا یہ ادنیٰ نمونہ ہے کہ اثنائے قیام کی متواتر نوازشوں کے خاتمے پر بایں الفاظ مجھے مشکور ہونے کا موقع دیا: ’’ہم آپ کو اس وعدے پر اجازت دیتے ہیں کہ آپ پھر آئیں اور کم از کم دو ہفتے قیام کریں۔‘‘ اس وقت کا تبسم ناک چہرہ اب تک میری آنکھوں میں ہے۔

مَیں جس شوق کو لے کر گیا تھا، ساتھ لایا۔ اور شاید وہی شوق مجھے دوبارہ لے جائے۔ واقعی قادیان نے اس جملے کو اچھی طرح سمجھا ہے: حَسِّنْ خُلْقَکَ وَلَوْ مَعَ الْکُفَّارِ (تُو اپنے اخلاق کو حسین بنا خواہ کافروں کے ساتھ معاملہ ہو۔ )

٭…… حضور علیہ السلام کی مہمان نوازی کی خصوصیت یہ بھی تھی کہ حفظ مراتب کی ہدایت کے ساتھ عام سلوک اور تعلقات میں آپؑ مساوات کے برتاؤ کو کبھی نہیں چھوڑتے تھے۔ آنحضورﷺ کے ارشاد کی تعمیل میں اگرچہ مہمانوں کو اُن کے مقام اور مرتبے کے لحاظ سے اتارا جاتا مگر خبرگیری اور مہمان نوازی کے عام معاملات میں کوئی امتیاز نہیں ہوتا تھا۔ 1905ء کے سالانہ جلسہ پر کھانے کا انتظام میرے سپرد تھا۔ مَیں نے (حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے سسر) حضرت مولوی غلام حسین صاحبؓ اور اُن کے ہمراہیوں کے لیے خاص طور پر چند کھانوں کا انتظام کرنا چاہا۔ مَیں نے یہ بات جب خدمت اقدسؑ میں کھانے کی تیاری کی رپورٹ دیتے ہوئے عرض کی تو حضورؑ نے فرمایا: ’’میرے لیے سب برابر ہیں۔ اس موقع پر امتیاز اور تفریق نہیں ہوسکتی۔ سب کے لیے ایک ہی قسم کا کھانا ہونا چاہیے۔ یہاں کوئی چھوٹا بڑا نہیں۔ مولوی صاحب کے لیے الگ انتظام اُن کی لڑکی کی طرف سے ہوسکتا ہے۔ وہ اس وقت میرے مہمان ہیں اور سب مہمانوں کے ساتھ ہیں اس لیے سب کے لیے ایک ہی قسم کا کھانا تیار کیا جائے، خبردار کوئی امتیاز کھانے میں نہ ہو۔‘‘

اُس وقت اَور بھی بہت کچھ فرمایا اور غربائے جماعت کی خصوصیت سے تعریف کی اور فرمایا: ’’جیسے ریل میں سب سے بڑی آمدنی تھرڈ کلاس والوں کی طرف سے ہوتی ہے اس سلسلہ کے اغراض و مقاصد کے پورا کرنے میں سب سے بڑا حصہ غربا کے اموال کا ہے اور تقویٰ و طہارت میں بھی یہی جماعت ترقی کررہی ہے۔‘‘

٭…… اگر کوئی ایسا مہمان بھی آجاتا جو حضرت اقدسؑ اور سلسلہ احمدیہ کا اشد مخالف ہوتا تب بھی حضورؑ اُس کی تواضع میں کوئی کمی نہ فرماتے اور مزید اپنے احباب کو ارشاد فرماتے کہ اگر مہمان کسی وجہ سے دلآزار باتیں کرے تو وہ صبر کریں۔

حضورؑ نے متعدّد بار لنگرخانہ کے منتظمین کو توجہ دلائی کہ وہ مہمانوں کے احترام اور تواضع کا خاص خیال رکھیں۔ فرمایا: ’’کسی کے میلے کپڑے وغیرہ دیکھ کر اُس کی تواضع سے دستکش نہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ مہمان تو سب یکساں ہی ہوتے ہیں۔‘‘ اسی طرح دسمبر 1903ء کے سالانہ جلسہ پر جب بہت سے مہمان آئے تو حضورؑ نے محترم میاں نجم الدین صاحب مہتمم لنگرخانہ کو بلاکر فرمایا: ’’دیکھو بہت سے مہمان آئے ہوئے ہیں، اُن میں سے بعض کو تم شناخت کرتے ہو اور بعض کو نہیں۔ اس لیے مناسب یہ ہے کہ سب کو واجب الاکرام جان کر تواضع کرو۔ سردی کا موسم ہے چائے پلاؤ اور تکلیف کسی کو نہ ہو۔ تم پر میرا حُسنِ ظن ہے کہ مہمانوں کو آرام دیتے ہو۔ ان سب کی خوب خدمت کرو۔ اگر کسی گھر یا مکان میں سردی ہو تو لکڑی یا کوئلہ کا انتظام کردو۔‘‘

===================

حضرت مسیح موعودؑ باوجود اُس قوّت اور شجاعت کے جو آپؑ کے قلب میں پایا جاتا تھا رقیق القلب بھی بہت تھے اور بعض اوقات اپنے خدام اور دوستوں کی تکلیف کو دیکھ نہ سکتے تھے۔ یہ رقیق القلبی انتہائی ہمدردی اور محبت کا ثمرہ تھی۔ اس کے باوجود بھی آپؑ بیماروں کی عیادت کو تشریف لے جاتے تھے اور اس میں دوست دشمن یا مومن کافر کی تخصیص نہ تھی۔

٭…… حضورعلیہ السلام کی بعثت کے ایّام سے قبل لالہ شرم پت رائے آپؑ کے پاس آیا کرتے تھے اور آپؑ کے بہت سے نشانات کے گواہ تھے۔ ایک مرتبہ اُن کے شکم پر ایک پھوڑا ہوا جس نے نہایت خطرناک شکل اختیار کرلی۔ حضورؑ کو اطلاع ہوئی تو آپؑ خود چند دوستوں کے ہمراہ لالہ شرم پت رائے کے مکان پر تشریف لے گئے۔ مکان نہایت تنگ و تاریک تھا۔ لالہ صاحب بہت گھبرائے ہوئے تھے اور اُن کو اپنی موت کا یقین تھا۔ حضورؑ نے اُن کو بہت تسلّی دی اور فرمایا کہ گھبراؤ نہیں، مَیں ڈاکٹر عبداللہ صاحب کو مقرر کردیتا ہوں، وہ اچھی طرح علاج کریں گے۔ اُس وقت ڈاکٹر عبداللہ صاحب ہی قادیان کے اکیلے اور بڑے ڈاکٹر تھے۔ اگلے روز حضورؑ ڈاکٹر صاحب کو اپنے ہمراہ لے گئے اور ڈاکٹر صاحب کو لالہ صاحب کے علاج پر مامور کردیا اور اس علاج کا کوئی بار لالہ صاحب پر نہیں ڈالا۔ حضورؑ بلاناغہ اُن کی عیادت کو جاتے اور جب زخم مندمل ہونے لگا تو پھر وقفہ سے جانا شروع کیا اور یہ سلسلہ تب تک جاری رہا جب تک وہ بالکل اچھے نہیں ہوگئے۔

٭…… لالہ ملاوامل بھی حضورعلیہ السلام کے پاس آیاجایا کرتے تھے۔ جب وہ صرف بائیس سال کی عمر میں عرق النساء کے مرض میں مبتلا ہوگئے تو حضرت اقدسؑ ایک خادم کے ذریعے صبح شام اُن کی خبر منگوایا کرتے اور دن میں ایک مرتبہ خود تشریف لے جاکر عیادت کرتے اور اُن کا علاج بھی کرتے۔ ایک صبح جب خادم اُن کی خبر لینے گیا تو وہ کہنے لگے کہ رات بہت تکلیف میں گزری ہے اور کہا کہ حضور خود تشریف لاویں۔ حضرت اقدسؑ پیغام ملتے ہی اُن کے مکان پر چلے گئے اور مناسب علاج کیا جس سے افاقہ ہوا۔

اگر دیکھا جائے تو حضرت اقدسؑ اپنے شہر کے رئیس اعظم اور مالک تھے مگر انسانی ہمدردی اور غمگساری کے راستے میں کبھی آپؑ کی خاندانی وجاہت آڑے نہ آئی۔

٭…… اگست 1902ء میں ایک غیرازجماعت قریشی صاحب بیمار ہوکر حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ سے علاج کرانے کے لیے قادیان آئے اور انہوں نے متعدد مرتبہ حضورعلیہ السلام کے حضور دعا کے لیے پیغام بھجوائے۔ ایک شام انہوں نے پیغام بھجوایا کہ آپؑ کی زیارت کا شرف حاصل کرنا چاہتا ہوں مگر پاؤں متورم ہونے کی وجہ سے حاضر نہیں ہوسکتا۔ اس پر آپؑ نے اگلے روز اُن کے پاس جانے کا وعدہ فرمایا اور جب حسب معمول سیر کو نکلے تو اُن کے مکان پر بھی تشریف لے گئے۔ مرض کی بابت دریافت فرمایا، دعا کی اور مناسب طور پر تبلیغ بھی فرمائی۔

٭…… مہر حامد صاحبؓ اپنے خاندان میں سب سے پہلے حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت میں داخل ہوئے۔ نہایت غریب مزاج تھے اور اُن کا مکان بھی قادیان سے باہر اُس جگہ واقع تھا جہاں گندگی کا ڈھیر لگا ہوتا ہے۔ سخت بدبو اور تعفن ہوتا تھا۔ چونکہ زمینداری کرتے تھے اس لیے گھر میں بھی صفائی کا انتظام نہ تھا۔ مویشیوں کا گوبر ڈھیر کی صورت میں پڑا رہتا۔ جب وہ مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو حضرت مسیح موعودؑ کئی بار اُن کی عیادت کے لیے اُن کے گھر تشریف لے گئے۔ ہمراہ جانے والے دوستوں کو قدرتی طور پر اس تعفّن سے سخت تکلیف ہوتی تھی اور حضورؑ بھی یقیناً اس تکلیف کو محسوس کرتے تھے لیکن کبھی اشارۃً بھی اس کا اظہار نہ فرمایا اور نہ ہی اس تکلیف نے آپؑ کو اُن کی عیادت اور خبرگیری کے لیے تشریف لے جانے سے کبھی روکا۔ حضورؑ اُن کا علاج بھی فرماتے اور بعض ادویات خود بھی مہیا فرمادیتے۔ مہرحامد کی آنکھوں میں حضورؑ کی آمد پر آنسو آجاتے۔ وہ اپنے گھر کو، اپنی حیثیت کو دیکھتے اور پھر حضور علیہ السلام کو دیکھتے جو اُن سے دلجوئی کی باتیں کرتے۔ آخر خداتعالیٰ کی تقدیر مبرم کے نتیجے میں مہرحامد فوت ہوگئے تو حضورؑ نے اُن کا جنازہ پڑھایا اور اُن کے اخلاص اور وفادارانہ تعلق کا ذکر کرتے رہے۔ بعد میں اُن کے بیٹے سے بھی ایسے ہی پیش آتے رہے جیسے ایک باپ اپنے بیٹے سے۔

٭…… محمد دین صاحب ایک غیرازجماعت تھے۔ انٹرنس پاس تھے۔ انہیں ناسور ہوگیا اور اس کے علاج کے لیے وہ قادیان آئے۔ یہاں نہ صرف اُن کی جسمانی بیماری حضرت مسیح موعودؑ کی توجہ اور دعا سے دُور ہوئی بلکہ حضورؑ کے اخلاق کریمانہ نے اُنہیں پھر قادیان کا ہی کردیا۔ بعد ازاں قادیان میں رہتے ہوئے انہوں نے بی اے کرلیا۔ پھر وہ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہیڈماسٹر اور بعد میں مینیجر بھی رہے۔ رسالہ ’’ریویو آف ریلیجنز‘‘ کے ایڈیٹر رہے۔ مبلغِ امریکہ بھی رہے۔ قادیان میں رہتے ہوئے ایک مرتبہ اُنہیں طاعون ہوگیا۔ حضورعلیہ السلام نے اُن کی تیمارداری کا ایسا انتظام فرمایا کہ حقیقت میں ویسا انتظام اُن کے والدین بھی نہ کرسکتے۔ حضورؑ روزانہ دو تین مرتبہ اُن کی خبر منگواتے اور اپنے ہاتھ سے دوائی تیار کرکے بھیجتے۔ حضورؑ کی دعاؤں کو خداتعالیٰ نے شرف قبولیت بخشا اور اُن کو شفا ہوئی۔

اپنی دونوں بیماریوں سے شفایابی کا احوال حضرت مولوی محمد دین صاحبؓ نے خود بھی رقم فرمایا ہے۔ لکھتے ہیں کہ 1901ء میں مَیں سخت بیمار ہوگیا اور ایک سال سے زائد عرصہ تک ڈاکٹروں اور حکیموں سے علاج کروانے کے بعد حضرت منشی تاج الدین صاحبؓ کے کہنے قادیان آگیا۔ حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کو اپنی بیماری کا حال سنایا تو آپؓ نے میرا ناسور دیکھ کر حیرانگی کا اظہار کیا اور کہا کہ اس کا رُخ دل کی طرف ہوگیا ہے۔ اس کے لیے دوا کی نسبت دعا کی ضرورت ہے۔ پھر مجھے بتلایا کہ مسجد میں ایک خاص جگہ بیٹھنا مَیں خود تمہارے متعلق حضرت مسیح موعودؑ سے دعا کے لیے عرض کروں گا۔ چنانچہ مسجد میں حضرت مولوی صاحبؓ نے مجھے پکڑ کر حضرت صاحبؑ کے سامنے کردیا اور میرے مرض کے متعلق صرف اتنا کہا کہ بہت خطرناک ہے۔ مَیں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعودؑ کا چہرہ ہمدردی سے بھرا ہوا تھا۔ مجھ سے حضورؑ نے دریافت فرمایا کہ یہ تکلیف آپ کو کب سے ہے؟ مَیں تیرہ ماہ سے اس دکھ میں مبتلا تھا۔ مَیں نے مہینوں راتیں رو کر اور ٹہل کر کاٹی ہوئی تھیں۔ حضرت کے ہمدردانہ و محبت انگیز کلمات نے چشم پُرآب کردیا۔ مَیں اپنی بساط کو جانتا تھا۔ محض ایک لڑکا میلے اور پرانے دریدہ وضع کپڑے، چھوٹے درجے و چھوٹی قوم کا آدمی۔ اتنے بڑے انسان کا مجھ ناچیز کو ’آپ‘ کے لفظ اور کمال ہمدردانہ لہجہ میں مخاطب کرنا ایک بجلی کا اثر رکھتا تھا۔ میرے منہ سے لفظ نہ نکلا سوائے اس کے کہ آنسو جاری ہوگئے۔ حضرت نے یہ حالت دیکھ کر سوال نہ دہرایا۔ مجھے کہا کہ ’’مَیں تمہارے لیے دعا کروں گا، فکر مت کرو۔ انشاءاللہ اچھے ہوجاؤگے۔‘‘ پھر مولوی صاحبؓ کا علاج شروع ہوا اور ایک مہینے میں مَیں اچھا ہوگیا۔ میری خوش قسمتی مجھے بیمار کرکے قادیان میں لے آئی تھی اور مَیں نے وطن کو خیرباد کہہ کر یہیں رہائش اختیار کرلی۔ اس کے بعد میری شامتِ اعمال تھی کہ طاعون میں مبتلا ہوگیا۔ تاہم حضرت کی خدمت میں مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے عرض کیا کہ اس کا باپ بھی اس کو لینے آیا تھا لیکن اس نے قادیان چھوڑنا پسند نہیں کیا۔ حضرت نے باوجود اس سخت کمزوری کے میرے لیے دعا کی اور اپنے ہاتھوں سے دوائی تیار کرکے بھیجتے رہے۔ دو تین وقت روزانہ میری خبر منگواتے۔ میرا ایمان ہے کہ مَیں آپؑ کی دعاؤں سے ہی بچ گیا ورنہ جن دنوں مَیں بیمار ہوا شاذ ہی لوگ بچتےتھے۔

٭…… حضرت یعقوب علی عرفانی صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ آغاز 1898ء میں مَیں ہجرت کرکے قادیان آگیا اور اخبار ’’الحکم‘‘ قادیان میں منتقل کرلیا۔ اس سال کے آخر میں مولوی محمد حسین کے حفظ امن والے مقدمے کے سلسلے میں ایک پیشی پر حضرت اقدسؑ کو پٹھان کوٹ جانا پڑا۔ مجھے ہم رکابی کا شرف حاصل تھا۔ رات کو مَیں یکایک سخت بیمار ہوگیا۔ دردمعدہ کا حملہ ہوا اور پیشاب پاخانہ بھی بند ہوگیا۔ مَیں جس کمرے میں سویا ہوا تھا اس میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ تھے۔ مَیں اُن کی نزاکتِ طبع سے واقف تھا، اُن کے آرام کا خیال کرکے مَیں ہائے تک منہ سے نہ نکال سکتا تھا۔ آخر درد سے تنگ ہوکر ساتھ کے کمرے میں حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کے پہلو میں اس نیت سے لیٹ گیا کہ وہ کروٹ بدلیں تو عرض کروں۔ چنانچہ انہوں نے کروٹ بدلا تو مَیں نے کہا: ہائے۔ میری یہ آواز ساتھ کے کمرے میں استراحت فرماتے ہوئے حضورؑ کے کان میں پہنچی تو قبل اس کے کہ مولوی صاحبؓ اُٹھتے حضورؑ فوراً تشریف لے آئے اور پوچھا: میاں یعقوب علی! کیا ہؤا؟ ان الفاظ میں محبت اور ہمدردی کا ایک ایسا نشہ تھا کہ مَیں کبھی نہیں بھول سکتا۔ حضرت کی آواز کے ساتھ ہی باقی احباب بھی اُٹھ بیٹھے۔ مَیں نے اپنی حالت کا اظہار کیا تو حضورؑ چند گولیاں لائے جو مجھے کھلادی گئیں۔ ساتھ ہی نہایت تسلّی اور اطمینان دلایا۔ صبح ہورہی تھی اور جوں جوں قافلے کے قادیان روانہ ہونے کا وقت قریب آتا جاتا میری جان گھٹی جارہی تھی۔ مگر حضرت کو خاص طور پر توجہ تھی۔ مَیں درد سے بےقرار تھا۔ آپ میری گھبراہٹ پر بار بار تسلّی دیتے اور فرماتے کہ مَیں سب انتظام کرکے جاؤں گا اور تم کو آرام آجائے گا اور اگر کہوگے تو مَیں آج نہیں جاؤں گا۔

مَیں حضورؑ کی شفقت و عنایت کو دیکھتا اور شرمندہ ہوتا تھا۔ آخر قرار پایا کہ حکیم فضل دین صاحبؓ اور میاں اللہ دیا صاحب کو میرے پاس چھوڑا جاوے۔ حضورؑ نے حکیم صاحب کو خاص طور پر تاکید کی کہ دیکھو کوئی تکلیف نہ ہو اور پھر ایک خاص رقم اُن کے حوالے کی کہ جب مجھے آرام ہوجائے تو قادیان لے کر آویں۔ آخر دوسری گاڑی پر قادیان آیا تو دو دن تک تکلیف اور ضعف میں مبتلا رہا۔ حضرت اقدسؑ برابر دریافت فرماتے رہے اور ہر طرح اطمینان دلاتے رہے۔ اپنے خادم کا آپؑ نے اس طرح احساس کیا گویا اپنے کسی عزیز سے عزیز وجود کا، یہ محض خدا کی رضا کے لیے تھا۔

٭…… حضرت مسیح موعودؑ کبھی کسی بڑے سے بڑے نقصان پر بھی ناراض نہ ہوتے بلکہ ناراض ہونا جانتے ہی نہ تھے۔ لیکن ایک بار وہ اپنے ایک خادم پر محض اس وجہ سے شدید ناراض ہوئے کہ اُس نے ایک بیمار کی تیمارداری میں کیوں غفلت کی۔ چنانچہ جب حضورؑ کا خادم پیرا پہاڑیا (جو ایک نیم وحشی انسان تھا اور ہر ایک قسم کے آداب اور انسانیت کے معمولی لوازم سے بھی ناواقف تھا) طاعون سے بیمار ہوگیا۔ حضورعلیہ السلام نے اکبر خان صاحب سنوری کو اُس کی تیمارداری اور علاج کے انتظام کے لیے مقرر فرمایا۔ نہایت قیمتی عرق کیوڑہ کی چند بوتلیں اُن کے سپرد کیں اور جو ہدایات دیں اُن میں سے ایک یہ بھی تھی کہ اس کی گلٹی پر جونکیں لگوادیں اور اس کے علاج میں کسی خرچ کا مضائقہ نہ کیا جاوے۔

خان صاحب نے جونکوں والے کو تلاش کیا مگر وہ نہ مل سکا۔ خیال تھا کہ کسی دوسرے وقت انتظام ہوجائے گا مگر نہ ہوسکا اور غفلت ہوگئی۔ پیرا کی موت مقدّر تھی۔ حضرت اقدسؑ کو جب یہ معلوم ہوا کہ خان صاحب نے قادیان سے باہر سے جونکیں منگوانے میں غفلت کی ہے تو آپؑ بہت ناراض ہوئے، چہرہ سرخ ہوگیا کہ کیوں نہ بٹالہ یا کسی دوسری جگہ سے منگوالی گئیں خواہ کچھ بھی خرچ ہوجاتا۔

٭…… حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ بھی اگر کبھی علیل ہوتے تو حضرت اقدسؑ متواتر عیادت کے لیے جاتے اور اکثر ادویات خود تیار کراتے اور غذا کے لیے خاص طور پر انتظام فرماتے۔ آپؑ اس قدر ہمدردی اور دلجوئی کا طریق اختیار کرتے کہ مریض کے قلب سے فکروغم جاتا رہتا۔ ایک بار جب آپؓ جموں میں ملازمت کے دوران بیمار ہوئے تو حضورعلیہ السلام نے آپؓ کی عیادت کے لیے جموں کا سفر بھی اختیار فرمایا۔ اسی طرح میرعباس علی صاحب کی عیادت کے لیے لودہانہ بھی تشریف لے گئے۔

دراصل آپؑ کے مدّنظر صرف انسانی ہمدردی اور خدا کی رضا تھی۔ چنانچہ اپنے بعض خدام کی شدید بیماری کی کیفیت میں کسی مجبوری کے باعث سفر نہ کرسکنے پر خطوط کے ذریعے عیادت فرماتے۔ چنانچہ حضرت مرزا ایوب بیگ صاحبؓ کوتسلّی آمیز طویل خط میں محبت کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی تحریر فرمادیا کہ ’’مَیں تکلیف کی حالت میں ایسے عزیز کو دیکھ نہیں سکتا، میرا دل جلد صدمہ قبول کرتا ہے۔‘‘

مذکورہ کیفیت حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کی انتہائی تکلیف دہ بیماری کے دوران بھی پیش آئی جب اُن کے لیے نہایت درد سے دعائیں کرنے کے ساتھ ساتھ تیمارداری اور علاج کی طرف بھی حضورؑ نے بھرپور توجہ دی بلکہ اگر کسی دوائی یا خاص غذا کو لاہور یا امرتسر سے بھی منگوانا پڑا تو فوراً آدمی بھیج دیا اور کبھی پیسے کی پروا نہیں کی۔ لیکن اپنے قلب کی رقّت کی وجہ سے خود جاکر حضرت مولوی صاحب کی عیادت نہ کرسکے۔ اگرچہ کئی بار آپؑ نے ارادہ بھی کیا لیکن دل کی کمزوری آڑے آگئی۔ تاہم حضورؑ نہ صرف اُن کی خبر رکھتے بلکہ خاص غذا بھی تیار کرواتے۔ کئی ہفتے تک تین چار مرغ کی یخنی روزانہ تیار کی اور بکرے کے گوشت کا سُوپ بھی تیار ہوتا۔ پھر انگلینڈ سے تیار ہوکر آنے والی گوشت کے ست سے بنائی گئی ایک خاص غذا کی کئی بوتلیں حضرت اقدسؑ نے اُن کے لیے خریدی تھیں۔ ایک شیشی کی قیمت تین روپے تھی۔ غرض حضرت مسیح موعودؑ کے عمل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپؑ سے بڑھ کر مریضوں کا خیرخواہ اور ہمدرد کوئی دوسرا بہت ہی کم ہوگا۔

٭…… حضرت مفتی فضل الرحمٰن صاحبؓ کی شادی حضرت اقدس علیہ السلام کی تجویز پر حفصہ بنت حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ سے ہوئی تھی۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ ویسے بھی حضرت مفتی صاحبؓ کے پھوپھا تھے۔ حضرت مفتی صاحبؓ کا پہلا بیٹا پیدا ہوا تو وہ گونگا اور بہرا تھا۔ چار سال کی عمر میں اُسے ٹائیفائیڈ ہوگیا تو حضورؑ اُس کی عیادت کے لیے تشریف جاتے اور طبّی مشورے بھی عطا فرماتے۔ اُن دنوں حضرت مفتی صاحبؓ بھی حضورؑ کے ہمراہ ایک مقدمے کی تاریخوں پر گورداسپور جایا کرتے تھے۔ ایک صبح روانگی سے پہلے حضورؑ بچے کو دیکھنے کے لیے تشریف لائے تو اُس کی حالت کو نازک پایا۔ آپؑ نے باہر آکر مفتی صاحب کو فرمایا کہ آج آپ نہ جائیں۔ چنانچہ وہ ٹھہرگئے۔ اگلی صبح بچہ فوت ہوگیا۔

جب حضورعلیہ السلام گورداسپور سے تشریف لائے تو مفتی صاحبؓ اپنی لڑکی حفیظہ کو اٹھائے ہوئے حضورؑ کو ملے۔ حضورؑ نے بچے کی وفات پر تعزیت کرکے فرمایا کہ مَیں نے آپ کے لیے بہت دعا کی ہے، اللہ تعالیٰ آپ کو نعم البدل عطا فرماوے گا اور وہ سننے اور بولنے والا ہوگا۔ مفتی صاحب نے عرض کیا: حضور! میرے گھر میں دو لڑکیاں اور دو لڑکے پیدا کرنے ہیں۔ اب یہ لڑکی ہے اور اس کے بعد اگر دوسری لڑکی ہوئی تو نعم البدل نہ ہوگا، اگر لڑکا ہوگا تو نعم البدل سمجھوں گا۔ حضور علیہ السلام نے مسکراکر فرمایا کہ میاں ہمارے خدا میں تو یہ بھی طاقت ہے کہ آئندہ لڑکیوں کا سلسلہ ہی منقطع ہوجاوے۔ پھر یہ معجزہ ہوا کہ مفتی صاحب کے گھر میں متواتر چھ لڑکے پیدا ہوئے اور سب سننے والے اور بولنے والے تھے۔

حضرت مفتی صاحبؓ کے حوالے قبولیتِ دعا کا ایک واقعہ یہ بھی ہے کہ جب ایک بیٹے کی پیدائش پر آپؓ کی اہلیہ محترمہ حفصہؓ کو گردن میں درد اور اکڑاؤ محسوس ہونے لگا تو نماز مغرب کے بعد مفتی صاحب نے حضورؑ سے اس بارہ میں عرض کیا۔ آپؑ نے فرمایا کہ یہ تو کذاز (یعنی ٹیٹنس) کا ابتدا ہے۔ پھر خود تشریف لائے، مریضہ کو دیکھا اور فرمایا کہ دس رتی ہینگ دے دو اور ایک گھنٹے بعد اطلاع دو۔ مفتی صاحب نے ایک گھنٹے بعد جاکر اطلاع دی کہ کچھ افاقہ نہیں ہوا۔ تو فرمایا دس رتی کونین دے دو اور ایک گھنٹہ بعد اطلاع دو۔ پھر گھنٹے بعد عرض کیا گیا کہ کوئی افاقہ نہیں۔ فرمایا: دس رتی مُشک دے دو۔ اور یہ قیمتی مُشک اپنے پاس سے دیا۔ گھنٹہ بعد عرض کیا گیا کہ مرض بڑھ رہا ہے۔ فرمایا دس تولہ کسٹرائل دے دو۔ کسٹرائل دینے کے بعد مریضہ کو سخت قے ہوئی اور حالت نازک ہوگئی۔ سانس اکھڑ گیا، آنکھیں پتھراگئیں۔

مفتی صاحب بھاگے ہوئے گئے تو حضورؑ نے پاؤں کی آہٹ سن کر ہی فوراً دروازہ کھولا۔ مریضہ کی حالت عرض کی تو فرمایا: دنیا کے اسباب جتنے تھے وہ ہم چلا چکے ہیں۔ اس وقت کیا وقت ہے؟ عرض کیا گیا: بارہ بج چکے ہیں۔ فرمایا: تم جاؤ، میرے پاس صرف ایک دعا کا ہتھیار باقی ہے۔ مَیں اُس وقت سر اٹھاؤں گا جب وہ اچھی ہوجائے گی۔ چنانچہ مفتی صاحب کا ایمان دیکھو کہ گھر میں آکر الگ کمرے میں چارپائی ڈال کر سو رہے کہ وہ جانے اور اُس کا خدا، مجھے اب کیا فکر ہے۔

مفتی صاحب کہتے ہیں کہ صبح جب میری آنکھ کھلی تو کیا دیکھتا ہوں کہ بیوی برتنوں کو درست کررہی ہے۔ مَیں نے پوچھا:کیا حال ہے؟ کہا:کوئی دو گھنٹے بعد آرام ہوگیا تھا۔

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی دعا سے شفا کا ایک اعجازی نشان حضرت مفتی فضل الرحمٰن صاحبؓ کی زندگی کا بھی ظاہر ہوا۔ آپؓ جب 1897ء میں بیمار ہوئے تو حضورعلیہ السلام روزانہ صبح عیادت کے لیے تشریف لاتے اور خود علاج فرمانے کے علاوہ حضرت خلیفہ اوّلؓ کو بھی تاکید فرماتے۔ ایک روز نماز عشاء کے بعد حضرت خلیفہ اوّلؓ تشریف لائے تو مفتی صاحب کی بےہوشی کی حالت میں تھے۔ مولوی قطب الدین صاحب ہمراہ تھے۔ آپؓ نے ڈیوڑھی میں جاکر اُن سے فرمایا کہ آج حالت نازک ہے امید نہیں کہ صبح تک جانبر ہوں۔ مفتی صاحبؓ کی خوش دامن نے دروازے کی اوٹ سے یہ الفاظ سنے تو فوراً حضورعلیہ السلام کے پاس پہنچیں اور حالات عرض کیے۔ حضورؑ نے فرمایا کہ مَیں ایک ضروری مضمون لکھ رہا ہوں، آپ مولوی صاحب سے جاکر میری طرف سے تاکید کریں۔ انہوں نے عرض کیا کہ وہ تو فرماگئے ہیں کہ حالت نازک ہے۔ فرمایا: ہیں، مَیں نے تو ابھی اس سے بہت کام لینا ہے۔

حضورؑ نے اپنے مضمون کو وہیں چھوڑ دیا اور تشریف لاکر مفتی صاحب کو دیکھا۔ فرمایا: بہت اچھا، مَیں چل کر دعا کرتا ہوں۔ نصف رات کو مفتی صاحب کو دو تین خون کے دست آئے یہاں تک کہ آنکھیں کھل گئیں۔ نمازفجر سے قبل حضورؑ نے مسجد میں تشریف لاکر رات کا واقعہ بیان فرمایا اور بتایا کہ بارہ بجے کے قریب میرے دل میں ڈالا گیا کہ اب آرام ہوگیا ہے۔ چنانچہ آدمی بھجوایا گیا کہ دریافت کرکے آؤ آرام کے کیا معنی ہیں۔ وہ دوست مفتی صاحب سے مل کر آئے اور بتایا کہ طبیعت اچھی ہے۔ پھر حضرت اقدسؑ نے نمازفجر پڑھی۔

===================

امرواقعہ ہے کہ جو محبت اور خیرخواہی آپؑ اپنے احباب سے فرماتے تھے وہ ماں باپ میں بھی کم ہی پائی جاتی ہے۔ اور حقیقت یہ بھی ہے کہ خداتعالیٰ کی طرف سے یہ ہمدردی اُن لوگوں میں ہی ودیعت کی جاتی ہے جو خداتعالیٰ کی مخلوق کی ہدایت کے لیے مامور ہوکر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمدردیٔ مخلوق میں وہ مشکلات کے پہاڑوں اور مصائب کے اُن دریاؤں سے بھی گزر جاتے ہیں جو تبلیغ حق کی راہ میں آتے ہیں۔ حضرت اقدس علیہ السلام کے طریقِ تعزیت کو بھی حضرت یعقوب علی عرفانی صاحبؓ نے تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔ آپؓ رقمطراز ہیں کہ حضورؑ حسب حالات زبانی تعزیت فرماتے یا تحریراً۔ آپؑ تعزیت کرتے وقت اس امر کو ملحوظ خاطر رکھتے کہ بشریت کی وجہ سے جو صدمہ اور رنج کسی شخص کو پہنچا ہے اسے اپنی عارفانہ نصائح اور دنیا کی بےثباتی کو واضح کرکے کم کردیں۔ ایسے موقع پر آپؑ انسان کے ایمان کے بچانے کی فکر کرتے اور ایسے رنگ میں اس پر اثر ڈالتے کہ غم بھول کر خداتعالیٰ کی طرف اُس کی توجہ غالب ہوجاتی۔

٭…… حافظ ابراہیم صاحب نابینا تھے۔ اُن کی بیوی کی وفات ہوئی تو حضورؑ نے تعزیت کرتے ہوئے فرمایا: آپ کو بہت صدمہ ہوا ہے۔ اب آپ صبر کریں تاکہ آپ کے واسطے ثواب ہو۔ باوجود معذوری کے آپ نے اپنی بیوی کی خدمت کا حق ادا کیا ہے۔ مرنا تو سب کے واسطے مقدّر ہے۔ مگر غربت کے ساتھ بےشر ہوکر مسکینی اور عاجزی میں جو لوگ مرتے ہیں ان کی پیشوائی کے واسطے گویا بہشت آگے آتا ہے۔

٭…… قاضی غلام حسین صاحب کا بچہ چند روز کی عمر میں ہی فوت ہوگیا۔ حضورؑ نے اُن سے تعزیت کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ جو بچہ مر جاتا ہے وہ فرط ہے۔ انسان کو عاقبت کے لیے بھی کچھ ذخیرہ چاہیے۔ مَیں لوگوں کی خواہشِ اولاد پر تعجب کیا کرتا ہوں۔ کون جانتا ہے اولاد کیسی ہوگی۔ اگر صالح ہو تو انسان کو کچھ فائدہ دے سکتی ہے اور پھر مستجاب الدعوات ہو تو عاقبت میں بھی فائدہ دے سکتی ہے۔ اکثر لوگ تو سوچتے ہی نہیں کہ ان کو اولاد کی خواہش کیوں ہے۔ اور جو سوچتے ہیں وہ اپنی خواہش کو یہاں تک محدود رکھتے ہیں کہ ہمارے مال و دولت کا وارث ہو اور دنیا میں بڑا آدمی بن جائے۔ اولاد کی خواہش صرف اس نیت سے درست ہوسکتی ہے کہ کوئی وَلدِ صالح پیدا ہو جو بندگانِ خدا میں سے ہو۔

٭…… 1885ء میں حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ جموں میں ملازم تھے جب آپؓ کے دو بیٹے یکے بعد دیگر فوت ہوگئے اور تیسرا بیمار ہوگیا۔ حضورعلیہ السلام نے اپنے تعزیتی خط میں ہی انہیں صبر کی تلقین کرنے کے بعد بیمار بچے کے لیے دعا کرنے کے حوالے سے قبولیتِ دعا کے گُر بھی بیان فرمائے ہیں۔ حضور علیہ السلام نے تحریر فرمایا:

’’… اللہ تعالیٰ مجھ کو اپنے فضل و کرم سے ایسی دعا کی توفیق بخشے جو اپنی جمیع شرائط کی جامع ہے۔ یہ امر کسی انسان کے اختیار میں نہیں ہے۔ صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، اسی کی مرضات حاصل کرنے کے لیے اگر آپ خفیہ طور پر اپنے فرزند دلبند کی شفا حاصل ہونے پر اپنے دل میں کچھ نذر مقرر کررکھیں تو عجیب نہیں کہ وہ نکتہ نواز جو خود اپنی ذات میں کریم و رحیم ہے آپ کی اس صدق دلی کو قبول فرماکر فرطۂ غموم سے آپ کو مخلصی عطا فرماوے۔ وہ اپنے مخلص بندوں پر اُن کے ماں باپ سے بہت زیادہ رحم کرتا ہے۔ اس کو نذروں کی کچھ حاجت نہیں مگر بعض اوقات اخلاص آدمی کا اُسی راہ سے متحقق ہوتا ہے۔ استغفار اور تضرّع اور توبہ بہت ہی عمدہ چیز ہے اور بغیر اس کے سب نذریں ہیچ اور بےسود ہیں۔ اپنے مولیٰ پر قوی اُمید رکھو اور اُس کی ذات بابرکات کو سب سے زیادہ پیارا بناؤ کہ وہ اپنے قوی الیقین بندوں کو ضائع نہیں کرتا۔ اور اپنے سچے رجوع دلانے والوں کو ورطۂ غموم میں نہیں چھوڑتا۔ رات کے آخری پہر میں اٹھو اور وضو کرو اور چند دوگانہ اخلاص سے بجا لاؤ۔ اور دردمندی اور عاجزی سے یہ دعا کرو کہ اے میرے محسن اور میرے خدا! مَیں ایک تیرا ناکارہ بندہ پُرمعصیت اور پُرغفلت ہوں۔ تُو نے مجھ سے ظلم پر ظلم دیکھا اور انعام پر انعام کیا اور گناہ پر گناہ دیکھا اور احسان پر احسان کیا۔ تُو نے ہمیشہ میری پردہ پوشی کی اور اپنی بےشمار نعمتوں سے مجھے متمتع کیا۔ سو اب بھی مجھ نالائق اور پُرگناہ پر رحم کر اور میری بےباکی اور ناسپاسی کو معاف فرما اور مجھ کو میرے اس غم سے نجات بخش کہ بجز تیرے اَور کوئی چارہ گر نہیں۔ آمین ثم آمین

مگر مناسب ہے کہ بروقت اس دعا کے، فی الحقیقت دل کامل جوش سے اپنے گناہ کا اقراراور اپنے مولیٰ کے انعام و کرام کا اعتراف کرے کیونکہ صرف زبان سے پڑھنا کچھ چیز نہیں، جوشِ دلی چاہیے اور رقّت اور گریہ بھی۔ یہ دعا معمولات اس عاجز سے ہے۔‘‘

٭…… حضرت چودھری رستم علی صاحبؓ کو اپنے ایک ہندو دوست سندر داس سے بڑی محبت تھی اور سمجھتے تھے کہ وہ مسلمان ہوجائے گا۔ اس کے لیے وہ حضورؑ کو خط بھی لکھتے رہتے تھے۔ لیکن وہ بیمار ہوکر فوت ہوگیا تو چودھری صاحب کو اس کا بہت ہی صدمہ ہوا۔ حضور علیہ السلام نے اُن کے غم کو ہلکا کرنے کے لیے دو تعزیت نامے ارسال کیے۔ ایک خط میں فارسی کے دو اشعار بھی لکھے جن کا ترجمہ یہ ہے:

تجھے جس کسی سے بھی دوستی کا تعلق ہے اس کا انجام آخر جدائی ہے۔ اس شخص کی جدائی سے دل کو صدمہ نہیں ہوتا جسے مرنے والے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

حضورؑ نے یہ بھی تحریر فرمایا:

’’… خداتعالیٰ کی غیوری محبت ذاتیہ میں کسی مومن کی اس کے غیر سے شراکت نہیں چاہتی۔ ایمان جو ہمیں سب سے زیادہ پیارا ہے وہ اسی بات سے محفوظ رہ سکتا ہے کہ ہم محبت میں دوسرے کو اس سے شریک نہ کریں۔ اللہ جلّ شانہٗ مومنین کی علامت یہ فرماتا ہے: وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ۔یعنی جو مومن ہیں وہ خدا سے بڑھ کر کسی سے دل نہیں لگاتے۔ محبت ایک خاص حق اللہ جلّشانہٗ کا ہے۔ جو شخص اُس کا حق دوسرے کو دے گا وہ تباہ ہوگا۔ تمام برکتیں جو مردانِ خدا کو ملتی ہیں، تمام قبولیتیں جو اُن کو حاصل ہوتی ہیں، کیا وہ معمولی وظائف سے یا معمولی نماز روزہ سے ملتی ہیں۔ ہرگزنہیں۔ بلکہ وہ توحید فی المحبت سے ملتی ہیں۔ اُسی کے ہوجاتے ہیں، اُسی کے ہورہتے ہیں، اپنے ہاتھ سے دوسروں کو اُس کی راہ میں قربان کرتے ہیں۔ مَیں خوب اس درد کی حقیقت کو پہچانتا ہوں جو ایسے شخص کو ہوتا ہے کہ یک دفعہ وہ ایسے شخص سے جدا کیا جاتا ہے جس کو وہ اپنے قالب کی گویا جان جانتا ہے۔ لیکن مجھے زیادہ غیرت اس بات میں ہے کہ ہمارے حقیقی پیارے کے مقابل پر کوئی اَور نہ ہونا چاہیے۔ ہمیشہ سے میرا دل یہ فتویٰ دیتا ہے کہ غیر سے مستقل محبت کرنا جس سے الٰہی محبت باہر ہو، خواہ وہ بیٹا یا دوست کوئی ہو، ایک قسم کا کفر اور کبیرہ گناہ ہے جس سے اگر نعمت و رحمتِ الٰہی تدارک نہ کرے تو سلبِ ایمان کا خطرہ ہے۔ …‘‘

===================

الغرض سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حیات مبارکہ کے کسی بھی پہلو پر نگاہ ڈالیں تو آپؑ کے اُس عالی مقام کا ادراک ہوسکتا ہے جو آپؑ کو اللہ تعالیٰ کی محبت میں فنا ہونے کے بعد حاصلِ ہوا تھا اور جس کے مقابل پر آپؑ کے قلب مطہر پر دنیا کی ساری محبتیں سرد ہوچکی تھیں۔ رب ذوالجلال سے ویسی ہی محبت اور فدائیت کے رنگ آپؑ اپنے مخلصین میں بھی پیدا کرنا چاہتے تھے۔

حضور علیہ السلام کے اخلاق فاضلہ کے مشاہدات کو جس خوبصورتی کے ساتھ حضرت یعقوب علی عرفانی صاحبؓ نے اپنی اس کتاب میں رقم فرمایا ہے ان کا مطالعہ ہر قاری کے ایمان میں اضافہ کے ساتھ ساتھ خداتعالیٰ اور شعائراللہ سے احترام کا تعلق پیدا کرنے کا باعث بھی ہوتا ہے. نیز اپنی اخلاقی حالت میں ترقی کے نتیجے میں اُس کی روح بھی نفس مطمئنہ کے مقام پر فائز ہوجاتی ہے۔ اور وہ انسان پھر سے قرآن کریم میں بیان فرمودہ اُن بشارات اور انعامات سے بھی حصہ پاتا ہے جو ایمان لانے والوں اور اعمال صالحہ بجالانے والوں کے لیے خداتعالیٰ نے مقدّر کر رکھے ہیں۔ انہی نعماء میں سے ایک وہ نعمت عظمیٰ بھی ہے جو خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کی صورت میں خداتعالیٰ نے اپنے فضل سے مومنین کی جماعت کو عطا فرمائی ہے۔ پس اس نعمت کی قدر کرنے اور اس سے فیض حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے آقاؑ کی حیات مبارکہ کے اُن درخشاں پہلوؤں کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں جن کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے سے ہی ہمارے ایمان، اخلاص اور اخلاق میں ایسی نمایاں ترقیات ہوسکتی ہیں جو سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے عظیم الشان مقصد کو پورا کرنے والی ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ان زندہ جاوید نمونوں کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button