متفرق مضامین

صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ادیان عالم میں پیشگوئیوں کی روشنی میں

(ابن قدسی)

صرف آنحضرتﷺ نے آنے والے کی پیشگوئی نہیں بیان فرمائی بلکہ گذشتہ انبیاء کی طرف منسوب صحیفوں اور ان کے اقوال میں بھی ہمیں آخری زمانے میں ایک عظیم الشان مصلح کے بعض نشانات ملتے ہیں

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں بیان فرماتا ہے کہ وَمَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَالۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ ۔(الذاريات:57)یعنی ہم نے جن وانس کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں ۔عبادت کے اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مختلف اوقات میں انبیاء کی بعثت ہوئی۔فرمایا: وَاِنۡ مِّنۡ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیۡہَا نَذِیۡرٌ ۔(فاطر: 25) اور کوئى امت نہىں مگر ضرور اس مىں کوئى ڈرانے والا گزرا ہے ۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت مرزا صاحب نے قرآن کریم سے استدلال کر کے …بتایا کہ قرآن کریم کی یہ تعلیم ہے کہ وَاِنۡ مِّنۡ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیۡہَا نَذِیۡرٌ (فاطر:25)کوئی قوم ایسی نہیں گزری جس میں ہم نے رسول نہیں بھیجا ،پس ہر ملک اور ہر قوم میں اللہ تعالیٰ کے رسول گزر چکے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ہندوستان بلا نبیوں کے تھا، یا چین بلانبیوں کے تھا یا روس بلانبیوں کے تھا، یا افغانستان بلانبیوں کے تھا، یا افریقہ بلانبیوں کے تھا یا یورپ بلانبیوں کے تھا، یا امریکہ بلانبیوں کے تھا، نہ ہم دوسری اقوام کے بزرگوں کا حال سن کے ان کا انکار کرتے ہیں اور ان کو جھوٹا قرار دیتے ہیں کیونکہ ہمیں تو یہ بتایا گیا ہے کہ ہر قوم میں نبی گزر چکے ہیں۔ دوسری اقوام میں نبیوں اور شریعتوں اور کتابوں کا پایا جانا ہمارے مذہب کے خلاف اور اس کے راستے میں روک نہیں ہے بلکہ اس میں اس کی تصدیق ہے۔‘‘(دعوت الامیر صفحہ 120تا121،طبع نہم ،ضیاء الاسلام پریس ربوہ،1979ء)

ہر نبی اپنی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق لوگوں کی راہ نمائی کرتا ہے۔قرآن کریم میں میثاق النبیین کا ذکر ہے جس کے مطابق نبی اپنے بعد آنے والے نبی کے متعلق اپنی امت کو وعدہ کے رنگ میں تلقین کرتا ہے کہ جب وہ نبی آئے تو اس پر ایمان لے آؤ اور اس کی مدد کرو۔ قرآن کریم میں ہے:وَاِذۡ اَخَذَ اللّٰہُ مِیۡثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیۡتُکُمۡ مِّنۡ کِتٰبٍ وَّحِکۡمَۃٍ ثُمَّ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمۡ لَتُؤۡمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنۡصُرُنَّہٗ…۔(آل عمران:82)اور جب اللہ نے نبیوں کا میثاق لیا کہ جبکہ میں تمہیں کتاب اور حکمت دے چکا ہوں پھر اگر کوئی ایسا رسول تمہارے پاس آئے جو اس بات کی تصدیق کرنے والا ہو جو تمہارے پاس ہے تو تم ضرور اس پر ایمان لے آؤ گے اور ضرور اس کی مدد کرو گے۔

عمومی رنگ میں تمام انبیاء کے حوالے سے میثا ق النبیین کا ذکر فرمانے کے علاوہ سورۃ الاحزاب میں رسول کریم ﷺ سے بھی اسی عہد کے لیے جانے کا ذکر موجود ہے۔فرمایا:وَاِذۡ اَخَذۡنَا مِنَ النَّبِیّٖنَ مِیۡثَاقَہُمۡ وَمِنۡکَ وَمِنۡ نُّوۡحٍ وَّاِبۡرٰہِیۡمَ وَمُوۡسٰی وَعِیۡسَی ابۡنِ مَرۡیَمَ ۪ وَاَخَذۡنَا مِنۡہُمۡ مِّیۡثَاقًا غَلِیۡظًا (الاحزاب:8)اور جب ہم نے نبىوں سے ان کا عہد لىا اور تجھ سے بھى اورنوح سے اور ابراہىم اور موسىٰ اور عىسىٰ ابن مرىم سے اور ہم نے ان سے بہت پختہ عہد لىا تھا ۔

اس لیے جہاں دیگر انبیاء کی طرف منسوب نوشتوں میں آنے والے نبی کے حوالے سے پیش خبریوں کا ذکر ہے اسی طرح رسول کریم ﷺ نے بڑی تفصیل کے ساتھ آنے والے کی کئی نشانیاں اور علامات بیان فرمائی ہیں ۔کبھی اسے مسیح اور کبھی مہدی کا نام دیا ۔ احادیث نبویہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آنے والا موعود فارسی الاصل ہو گا۔ چنانچہ جب آیت وَ اٰخَرِینَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعہ:4) نازل ہوئی تو نبی کریم ﷺ سے یہ سوال کیا گیا کہ آخرین کون لوگ ہیں۔ اس پر آپ نے مجلس میں موجود حضرت سلمان فارسیؓ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا:’’اگر ایمان ثریا پر بھی چلا جائے گا تو ضرور اہل فارس میں سے کچھ اشخاص یا ایک شخص اسے واپس لے آئے گا‘‘(بخاری کتاب التفسیر زیر آیت و آخرین منہم) اسی طرح آنے والے کا حلیہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ’’اس کے بال لمبے اور رنگ گندمی ہوگا‘‘ (بخاری کتاب اللباس باب الجعد)پھر فرمایا کہ ’’وہ شادی کرے گا اور اس کی اولاد ہوگی‘‘(مشکوٰۃ کتاب الفتن باب نزول عیسیٰ) آنے والے کا مقامِ ظہور دمشق سے مشرقی جانب بیان فرمایا (مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال)نیز اس کی راہ ہموار کرنے والی جماعت کا تعلق بھی مشرق ہی سے بیان کیا گیا ۔ (ابن ماجہ کتاب الفتن باب خروج المہدی) زمانےکی ایک علامت دابۃُ الارضبھی ہے ۔(مسلم کتاب الفتن باب فی الاٰیات التی تکون قبل الساعۃ) پھر یاجوج ماجوج کا خروج بھی ہے (مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال)۔اسی طرح حدیث میں آخری زمانے کی علامت میں مشرق ومغرب اور عرب میں خسف ہونا بیان کیا گیا ہے۔ (مسلم کتاب الفتن باب فی الاٰیات التی تکون قبل الساعۃ) ایک علامت اونٹنیوں کا متروک ہونا بھی ہے۔ (التکویر:5)(مسلم کتاب الایمان باب نزول عیسیٰ بن مریم)

بخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسیٰ میں روایت ہے کہ مسیح موعود حکم اور عدل بن کر آئے گا۔ مراد یہ ہے کہ وہ انصاف کے ساتھ امت کے مذہبی اختلافات کا فیصلہ کرے گا۔ وہ کسر صلیب کرے گا۔ یعنی عیسائی مذہب کا جھوٹ ظاہر کر دے گا۔خنزیر کو قتل کرے گا۔ یعنی دشمنانِ اسلام کو علمی میدان میں شکست دے کر غلبہ حاصل کرے گا۔ مسیح موعود کا ایک کام یضع الحرب (یعنی جنگ کو ختم کرنا)لکھا ہے۔(بخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسیٰ) دجال کا مقابلہ کر کے اسے ہلاک کرنا بھی ہے۔(مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال)

آنے والے کی سچائی کے دو نشانات رمضان کے مہینہ میں خاص تاریخوں پر چاند اور سورج کو گرہن لگنا تھا۔(دار قطنی کتاب العیدین باب صفۃ الخسوف والکسوف)

چنانچہ یہ نشان اس حدیث کے عین مطابق رمضان 1311ھ بمطابق1894ء میں معینہ تاریخوں پر ظاہر ہوا اور حضرت مرزا صاحب نے بڑی شان اور تحدی سے اسے اپنے حق میں پیش کرتے ہوئے لکھا:’’ان تیرہ سو برسوں میں بہتیرے لوگوں نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا مگر کسی کے لئے یہ آسمانی نشان ظاہر نہ ہوا …مجھے اس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس نے میری تصدیق کے لئے آسمان پر یہ نشان ظاہر کیا ہے۔‘‘(تحفہ گولڑویہ،روحانی خزائن جلد17 صفحہ142تا143)

رسول کریم ﷺ کی آمدگذشتہ انبیاء کی پیشگوئیوں کے مطابق ہوئی اور آپﷺ نے آنے والے کی پیشگوئی بیان کرتے ہوئے اس کی علامات اور نشانیاں بیان فرمائیں جن کے مطابق حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام تشریف لائے ۔لیکن صرف آنحضرتﷺ نے آنے والے کی پیشگوئی نہیں بیان فرمائی بلکہ گذشتہ انبیاء کی طرف منسوب صحیفوں اور ان کے اقوال میں بھی ہمیں آخری زمانے میں ایک عظیم الشان مصلح کے بعض نشانات ملتے ہیں۔اس مضمون میں ان میں سے بعض کا اختصار کے ساتھ تذکرہ کیا جائے گا۔

ہندو مذہب میں آنے والے کے متعلق پیشگوئیاں

ہندو دھرم میں مذہبی بگاڑ کے وقت دھرم کی حفاظت اور امامت کے لیے ایک مصلح کے ظہور کی پیشگوئی موجود ہے۔ بھگوت گیتا صفحہ30 ادھیائے نمبر40 میں لکھا ہے:’’جب کبھی دھرم کا اناش(بگاڑ) ہونے لگتا ہے اور آدھرم (لامذہبیت)کی زیادتی ہونے لگتی ہے تب میں اوتار دھارن (ظہور) کیا کرتا ہوں۔نیکیوں کی حفاظت۔گناہ گاروں کی سرکوبی اور دھرم کی امامت کے لئے میں اوتار لیا کرتا ہوں‘‘

نیز لکھا ہے:’’سو ہے راجہ کلجگ کے اخیر میں بہت سے پاپ ہوتے رہیں گے۔ تو نارائن جی خود دھرم کی رکھشا(حفاظت)کی خاطر سنبھل دیش میں کلنکی اوتار دھارن کریں گے‘‘(شریمدبھگوت گیتا بارہواں اسکند صفحہ 623)

بھگوت گیتا کی عظیم الشان پیشگوئیاں آخری زمانے سے متعلق ہیں اور ثابت کرتی ہیں کہ جب کبھی بے دینی اور لامذہبیت کا دَور دَورہ ہوگا آنے والا اس وقت آئے گا۔عقلاً بھی یہی درست ہے کہ بیماری کے وقت طبیب کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح جب دین میں فساد برپا ہوتو مصلح کو آنا چاہیے۔ ہندوؤں کی مقدس کتب میں آنے والے موعود کرشن کا زمانہ بھی بیان کیا گیا ہے۔ پنڈت راج نرائن جی ارمان دہلی کھٹ شاستری نے اپنی تحقیقات کے بعد لکھا کہ’’اب سے پانچ ہزار سال پہلے بھگوان کرشن کا ظہور ہوا تھا۔ان سے بڑا اوتار نہ آئندہ ہوگا اور نہ آج تک ہوا ہے۔ان کے بعد اب تک کئی جماعتیں ظاہر ہوئیں لیکن اب 1924ء میں وہی بھگوان کرشن نے پھر اس پاپی دنیا کو ٹھیک کرنے کے لئے اوتار لیا ہے مجھے اس کا گیان جب میں دہلی میں تھا ماہ بساکھ شکل پکش پرتی یدایوم اتوار کی رات کی سمادھی (عالم مراقبہ) ہوا تھا کہ کل بھگوان کرشن ہی کلنکی نام اور روپ سے اقمار لینے والے ہیں‘‘(چیتاؤنی صفحہ 201)

جب ہندو ازم کے ماننے والوں نے دیکھا کہ آخری زمانےکی تمام علامات پوری ہو چکی ہیں اور آنے والا اب نہ آیا تو کب آئے گا تو ہندوؤں کے مشہور اخبار تیج دہلی نے لکھا:’’اب بھگوان کرشن کے جنم کی مہا بھارت کے زمانہ سے بھی زیادہ ضرورت ہے۔دنیا سے شرم اٹھتی جاتی ہے اور گزشتہ ایک ہزار برس سے ہندوستان میں جو آفتیں نازل ہوئی ہیں ان کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں پائی جاتی لیکن بیسویں صدی میں سوشل زوال اور پولیٹیکل گراوٹ انتہائی حالت کو پہنچ گیا ہے اگر بھاگوت گیتا میں بھگوان کا وعدہ سچا ہے اس لئے بھگوان کرشن آؤاور جنم لو دنیا سے ناپاکی دور کرو غصابوں سے دنیا کو پاک کرو اور یہ وعدہ پورا کرو۔‘‘(اخبارتیج دہلی۔18؍اگست1930ء منقول از الامان دہلی23؍اگست1930ء)

پھر ہندو مذہب کے ماننے والے اپنے بھگوان سے التجا کرتے ہیں:’’بھگوان اپنے اناتھ (لاوارث)بچوں کی پکار سن کر آئیے جنم اشمٹی آگئی اورتم نہ آئے‘‘(سدرشن چکرکا کرشن نمبر29؍اگست 1928ء صفحہ25)

پس ہندو مذہب کی مقدس کتب کی رو سے بھی ایک مصلح کلنکیاوتار کے آنے کے بارے میں واضح پیشگوئیاں موجود ہیں اور پھر اس موعود کے آنے کا زمانہ بھی بتا دیا۔جس کی وجہ سے ایک عرصہ سے ہندواس موعود کے منتظر ہیں۔

وید کی عظیم الشان پیشگوئیوں میں آنے والے رشی کا نام احمد بیان کیا گیا ہے چنانچہ لکھا ہے:’’احمد فی الحقیقت عقل کے ساتھ اپنے روحانی باپ کی لائی ہوئی صداقت کو پکڑے گا اور وہ یہ کہے گا کہ اے لوگو اس صداقت کے باعث میں تم میں سورج جیسا پیدا ہوا ہوں اور اسی اپنے روحانی باپ کی تعلیم سے میں اپنے اقوال کو مزین کرتا ہوں جس سے کہ میں خود بھی طاقت حاصل کرتا ہوں‘‘ (اتھر وید سوکت نمبر115 منتر نمبر1)

پیشگوئیوں میں اس رشی کے ظہور کا مقام اور جگہ بھی بیان کر دی گئی ہے۔ چنانچہ لکھا ہے:’’اس کے حیرت انگیز کاموں کے باعث اس کی شہرت کوکون نہیں سنے گا یعنی سب سنیں گے اور اس کی بہادری دکھانے کا مقام قدون ہوگا۔‘‘(اتھر وید، سوکت نمبر97 منتر نمبر3)

اسی طرح کرشن کے مقام ظہور کے بارے میں لکھا ہے:’’روحانیت سے منور کرنے والا دنیا کو اور لوگوں کی خوشی کے لیے خود دکھ اٹھانے والاوہ کرشن بہت سے آدمیوں کے ساتھ حد والی ندی کے پاس ٹھہرے گا۔‘‘(اتھر وید سوکت نمبر137 منترنمبر 3)

سوکت کے اس منتر میں اس موعود کا مقام ظہور ندی کے پاس بتایا گیا ہے اور اس کی جگہ حد والی ندی سے مراد دریائے بیاس ہے جو کہ ضلع گورداسپور اور ہوشیار پور کے درمیان واقع ہے۔

اتھر وید میں ہی لکھا ہے:’’بڑی طاقت سے دنیا میں ظاہر ہونے والا اور انسانوں کے آرام کے لیے خود تکلیفیں برداشت کرنے والا کرشن بھگت اپنے بھگتوں میں قریبی ساتھ والے دریا کے قریب سے ظاہر ہوگا۔‘‘(اتھروید، سوکت137 شلوک 7)

(نوٹ: یہ دریا ئےبیاس معلوم ہوتا ہے جو قادیان کے قریب ہے ۔واللّٰہ اعلم باالصواب)

اوپر کے منتروں پر یکجائی نظر ڈالنے سے پتا چلتا ہے کہ آنے والا رشی قدون بستی میں آئے گا اور اس کانام احمد ہوگا اور وہ کسی نبی کا تابع اور نائب ہوگا۔اور بات وہ صاف لفظوں میں کہے گاکہ میری اپنی کوئی شریعت نہیں بلکہ میں تو اس بڑے رشی کی تعلیم کو پیش کرتا ہوں جس کا میں نائب ہوں اور اسی اعلیٰ تعلیم کے باعث میں سورج کی طرح منور کرنے والا ہو گیا ہوں۔اور اس کا پیغام دور دور تک پہنچے گا۔

ان پیشگوئیوں کے عین مصداق حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ہی ہیں۔آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:’’میں ہندوؤں کے لئے بطور اوتار کے ہوں۔ اور میں عرصہ بیس (20) برس سے یا کچھ زیادہ برسوں سے اس بات کو شہرت دے رہا ہوں کہ میں ان گناہوں کے دور کرنے کے لئے جن سے زمین پُر ہو گئی ہے جیسا کہ مسیح ابن مریم کے رنگ میں ہوں ایسا ہی راجہ کرشن کے رنگ میں بھی ہوں جو ہندو مذہب کے تمام اوتاروں میں سے ایک بڑا اوتار تھا۔ یا یوں کہنا چاہئے کہ روحانی حقیقت کے رو سے میں وہی ہوں۔ یہ میرے خیال اور قیاس سے نہیں ہے بلکہ وہ خدا جو زمین و آسمان کا خدا ہے اس نے یہ میرے پر ظاہر کیا ہے اور نہ ایک دفعہ بلکہ کئی دفعہ مجھے بتلایا ہے کہ تو ہندوؤں کے لئے کرشن اور مسلمانوں اور عیسائیوں کے لئے مسیح موعود ہے…اب واضح ہو کہ راجہ کرشن جیسا کہ میرے پر ظاہر کیا گیا ہے در حقیقت ایک ایسا کامل انسان تھا جس کی نظیر ہندوؤں کے کسی رشی اور اوتار میں نہیں پائی جاتی۔ اور اپنے وقت کا اوتار یعنی نبی تھا جس پر خدا کی طرف سے روح القدس اترتا تھا، وہ خدا کی طرف سے فتح مند اور بااقبال تھا، جس نے آریہ ورت کی زمین کو پاپ سے صاف کیا۔ وہ اپنے زمانہ کا درحقیقت نبی تھا، جس کی تعلیم کو پیچھے سے بہت باتوں میں بگاڑ دیا گیا، وہ خدا کی محبت سے پر تھا اور نیکی سے دوستی اور شر سے دشمنی رکھتا تھا۔ خدا کا وعدہ تھا کہ آخری زمانہ میں اس کا بروز یعنی اوتار پیدا کرے، سو یہ وعدہ میرے ظہور سے پورا ہوا …سو میں کرشن سے محبت کرتا ہوں کیونکہ میں اس کا مظہر ہوں۔‘‘(لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد 20صفحہ228تا229)

عیسائی مذہب میں آنے والے کے متعلق پیشگوئیاں

دانی ایل نبی کی پیشگوئی ہے کہ’’اور بہت لوگ پاک کیے جائیںگے اور صاف وبراق ہوںگے لیکن شریر شرارت کرتے جائیںگے اور شریروں میں سے کوئی نہ سمجھے گا پر دانشور سمجھ جائیں گے ۔اورجس وقت سے دائمی قربانی موقوف کی جائے گی اور وہ اجاڑنے والی مکروہ چیز نصب کی جائے گی ایک ہزار دو سو نوے دن ہوںگے مبارک ہے وہ جو ایک ہزار تین سو پینتیس روز تک انتظار کرتا ہے۔‘‘(دانی ایل ،باب 12آیت10تا11)

اس میں حضرت دانی ایل نے بیان فرمایا کہ جب دائمی قربانی موقوف ہوگی یعنی سوختنی قربانی جو یہودی شریعت میں رائج تھی وہ ایک نئی شریعت کے آنے کی وجہ سے ختم ہو جائے گی۔چنانچہ اسلام کے آنے سے یہ سوختنی قربانی موقوف ہوئی اور اجاڑنے والی مکروہ چیز نصب ہوئی اس سے مراد وہ جنگیں ہیں جو ناپسندیدہ ہوتی ہیں ان سے تباہی بھی ہوتی ہے لیکن مجبوراً وہ لڑی جائیں گی جیسا کہ مدینہ میں جاکر نبی کریم ﷺ کو اپنے دفاع میں تلوار اٹھا نا پڑ ی فرمایا تب سے بارہ سو نوے دن انتظار کرنا۔مذہبی کتابوں میں یہ دن سے مراد عام طور پر سال لیا جاتا ہے۔چنانچہ بات یوں بنے گی کہ 1290 میں خدا کا وہ مامور ظاہر ہو گا جس کے انتظار کرنے والے کو بھی مبارک قرار دیا گیا ہے۔پیشگوئی میں جو 1335کا ذکر آتا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ اس موعود کے انتظار کا زمانہ 1290تا 1335 ہوگا اس دوران وہ ضرور ظاہر ہو جائے گا۔

حضرت مسیح موعود ؑنے اپنے آپ کو اس پیشگوئی کا مصداق قرار دیا ہے چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں:’’اس پیشگوئی میں مسیح موعود کی خبر ہے جو آخری زمانہ میں ظاہر ہونے والا تھا۔ سو دانیال نبی نے اس کا یہ نشان دیا ہے کہ اس وقت سے جو یہود اپنی رسم قربانی سوختنی کو چھوڑ دیں گے اور بدچلنیوں میں مبتلا ہوجائیں گے۔ ایک ہزار دو سو نوے سال ہوں گے جب مسیح موعود ظاہر ہو گا تو اس عاجز کے ظہور کا یہی وقت تھا کیونکہ میری کتاب براہین احمدیہ صرف چند سال بعد میرے مامور اور مبعوث ہونے کے چھپ کر شائع ہوئی ہے اور یہ عجیب امر ہے اور میں اس کو خدا تعالیٰ کا ایک نشان سمجھتا ہوں کہ ٹھیک بارہ سو نوے ہجری میں خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ عاجز شرف مکالمہ و مخاطبہ پا چکا تھا…سو دانیال نبی کی کتاب میں جو ظہور مسیح موعود کے لئے بارہ سو نوے برس لکھے ہیں ۔اس کتاب براہین احمدیہ میں جس میںمیری طرف سے مامور اور منجانب اللہ ہونے کا اعلان ہے صرف سات برس اس تاریخ سے زیادہ ہیں جن کی نسبت میں ابھی بیان کر چکا ہوں کہ مکالمات الٰہیہ کا سلسلہ ان سات برس سے پہلے کا ہے یعنی بارہ سو نوے کا ۔پھر آخری زمانہ اس مسیح موعود کا دنیال تیرہ سو پینتیس برس لکھتا ہے جو خدا تعالیٰ کے اس الہام سے مشابہ ہے جو میری عمر کی نسبت بیان فرمایا ہے اور یہ پیشگوئی ظنی نہیں ہے کیونکہ حضرت عیسیٰ کی پیشگوئی جو مسیح موعود کے بارہ میں انجیل میں ہے اس کااس سے توارد ہو گیا ہے اور وہ بھی یہی زمانہ مسیح موعود کا قرار دیتی ہے۔‘‘(حقیقۃ الوحی ،روحانی خزائن جلد 22صفحہ 207تا208)

مشرق سے تجلی اور بجلی کی تیزی سے تبلیغ

متی کی انجیل میں مسیح کی آمد ثانی کے حوالے سے ایک علامت یہ بیان فرمائی گئی کہ’’کیونکہ جیسے بجلی پورب سے کوند کر پچھم تک دکھائی دیتی ہے ویسے ہی ابن آدم کا آنا ہوگا‘‘(متی، بات 24آیت 27)

بائبل میں حضرت یسعیاہ ؑکی پیشگوئی ہے:’’کس نے صادق کو مشرق سے برپا کیا اسے اپنے نقش قدم پر چلنے کے لیے بلایا۔ قوموں کو اس کے سامنے رکھا اور بادشاہوں کو اس کے زیر حکومت کردیا۔‘‘(یسعیاہ،باب41آیت2)

بائبل میں حضرت حزقیلؑ اپنے ایک رؤیا کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’کیا دیکھتا ہوں کہ اسرائیل کے خدا کی تجلی مشرق کی راہ کی طرف سے آئی اور اس کی آواز آب کثیر کے شور کی سی تھی اور زمین اس کی تجلی سے منور ہو گئی۔‘‘(حزقیل،باب 43آیت 2)

مسیح کی آمد ثانی کے وقت بجلی کی سی تیزی سے اس کی تبلیغ مشرق سے مغرب تک پھیلنے کا اشارہ موجود ہے پھر یہ کہ وہ مشرق میں داخل ہو گا۔چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ قادیان میں ظاہر ہوئے اور آپ کی زندگی میں ہی آپ کی تبلیغ یورپ اور مغرب تک جا پہنچی۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’جس طرح تم دیکھتے ہو کہ ایک دم میں آسمان کے ایک کنا رہ سے بجلی چمکتی اور دوسرے کنارہ تک پھیل جاتی ہے اسی طرح خدا کے حکم سے خدا کے رسولوں کو شہرت دی جاتی ہے۔اور خدا کے فرشتے زمین پر اترتے اور سعید لوگوں کے دلوں میں ڈالتے ہیں کہ جن راہوں کو تم نے اختیار کر رکھا ہے وہ صحیح نہیں تب ایسے لوگ راہ راست کی تلاش میں لگ جاتے ہیں اور دوسری طرف خدا تعالیٰ ایسے اسباب پیدا کردیتا ہے کہ اس کے امام وقت کی خبر ان لوگوں کو پہنچ جاتی ہے۔ بالخصوص یہ زمانہ تو ایسا زمانہ ہے کہ چند دنوں میں ایک نامی ڈاکو کی بھی بدنامی کے ساتھ تمام دنیا میں شہرت ہو سکتی ہے تو کیا خدا تعالیٰ کے بند ے جن کے ساتھ ہر وقت خدا ہے وہ اس دنیا میں شہرت نہیں پا سکتے اور مخفی رہتے ہیں اور خدا ان کی شہرت پر قادر نہیں ہوتا…میرے وقت میں ممالک مختلفہ کے باہمی تعلقات بباعث سواری ریل اور تار اور انتظام ڈاک اور انتظام سفر بحری اور بری اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ گویا تمام ممالک ایک ہی ملک کا حکم رکھتے ہیں‘‘۔(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد 22صفحہ 170تا171)

آمد ثانی اچانک اور غیر متوقع

بائبل سے مسیح کی آمد ثانی کے حوالے سے جو خبریں ہیں ان سے پتا لگتا ہے کہ آمد ثانی اس رنگ میں اچانک اور غیر متوقع ہوگی کہ لوگ کسی اور رنگ میں منتظر ہوں گے لیکن مسیح کسی اور رنگ میں آجائے گا۔ چنانچہ متی میں ہے:’’اس لیے تم بھی تیار رہو کیونکہ جس گھڑی تم کو گمان بھی نہ ہو گا ابن آدم آجائے گا۔‘‘(متی،باب 24آیت44)

پھر پطرس میں عجیب رنگ میں یہ مضمون بیان کیا گیا ہے:’’لیکن خداوند کا دن چور کی طرح آجائے گا اس دن آسمان بڑے شور کے ساتھ برباد ہو جائیں گے اور اجرام فلک حرارت کی شدت سے پگھل سے جائیں گے اور زمین اور اس پر کے کام جل جائیں گے۔‘‘(پطرس کا دوسرا عام خط، باب 3آیت10)

اس میں یہ بتایا گیا کہ جس طرح چور بھیس بدل کر آتا ہے اسی طرح جس شکل کے مسیح کے تم منتظر ہو گے وہ اس کی بجائے کسی اور بھیس میں آئے گا۔

ملاکی میں ہے کہ ’’دیکھو میں اپنے رسول کو بھیجوں گا اور وہ میرے آگے راہ درست کرے گا اور خداوند جس کے تم طالب ہو ناگہان اپنی ہیکل میں آموجود ہو گا۔‘‘(ملاکی،باب3آیت 1)

مسیح کا نام پاکر آمد ثانی

انجیل کے حوالے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مسیح آمد ثانی کے وقت خود تشریف نہیں لائیں گے بلکہ ان کا نام پا کے کوئی اور شخص آئے گا درج ذیل دو حوالے اس کے ثبوت کے طور پر پیش ہیں:

’’کیونکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ اب سے مجھے ہر گز نہ دیکھو گے جب تک نہ کہو گے کہ مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام سے آتا ہے۔‘‘(متی،باب 23آیت 39)

’’یسوع نے ان سے کہا میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب ابن آدم نئی پیدائش میں اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا تو تم بھی جو میرے پیچھے ہو لیے ہو بارہ تختوں پر بیٹھ کر اسرائیل کے بارہ قبیلوں کا انصاف کرو گے۔‘‘(متی،باب19آیت 28)

آمد ثانی کی علامات

متی کے باب 24 میں مسیح کی آمد ثانی،آخری زمانہ اور قیامت کی نشانیاں بیان کی گئی ہیں ۔اور لکھا ہے کہ عظیم الشان عالمگیر جنگیں ہوں گی اور زلزلے آئیں گے اور طاعون جیسی وبائیں پھوٹ پڑیں گی ۔

’’کیونکہ قوم پر قوم اور سلطنت پر سلطنت چڑھائی کرے گی اورجگہ جگہ کال پڑیںگے اور بھونچال آئیں گے‘‘ (متی، باب24 آیت7)

لوقا میں ہے:’’پھر اس نے ان سے کہا کہ قوم پر قوم اور سلطنت پر سلطنت چڑھائی کرے گی اور بڑے بڑے بھونچال آئیں گے اور جا بجا کال اور مری پڑےگی اور آسمان پر بڑی بڑی دہشت ناک باتیں اور نشانیاں ظاہر ہو ںگی۔‘‘(لوقا،باب 21آیت 10تا11)

انگریزی بائبل کے بعض ایڈیشن میں plague کا لفظ موجود ہے۔لوقا 21/11کے ترجمہ میں Good News Bibleاور Eastern Orthodox Bible شائع شدہ 1957ء،از امریکہ میں بھی plagueکا لفظ ہے:

There will be terrible earthquakes famines and plagues everywhere

(Good News Bible 1979 page 109)

سورج گرہن ہوگا

پرانے اور نئے عہد نامے میں اسی طرح قرآن و حدیث میں بھی آخری زمانے میں مسیح کے ظہورکے ساتھ چاند سورج گرہن کی علامت بیان ہوئی ہے۔

چنانچہ متی میںاس نشان کا تذکرہ یوں کیا گیا ہے:’’اور فوراً ان دنوں کی مصیبت کے بعد سورج تاریک ہو جائے گا اور چاند اپنی روشنی نہ دے گا اور ستارے آسمان سے گریں گے اور آسمانوں کی قوتیں ہلائی جائیں گی اور اس وقت ابن آدم کا نشان آسمان پر دکھائی دے گا۔‘‘(متی باب 24آیت 29تا30)

حضرت مسیح موعود ؑنے 1891ء میں دعویٰ فرمایا اس کے 3سا ل بعد 1894ء میں یہ نشان آپ کے حق میں ظاہر ہو گیا۔اور آپ علیہ السلام نے اعلان فرمایا کہ یہ نشان ان کی سچائی ظاہر کر رہا ہے ۔اس زمانے میں اس نشان کے پورا ہونے کی بہت شہرت ہوئی ۔

اولاد کو سلطنت ملے گی

طالمود میں حضرت مسیح کی صداقت کا ایک نشان یوں بیان ہوا ہے:

“It is also said that He (the Messiah) shall die and his kingdom descend to his son and grandson”

(Talmud by Jozeph Barkley ch.5 introduction page 37 London,1878)

اس کے مطابق حضرت مسیح موعودؑ کے بعد آپ کا بیٹا اور پوتے روحانی طور پر ایک سلطنت کے وارث ہوئے۔

بدھ ازم میں آنے والے کی پیشگوئی

بدھ ازم میں بھی دیگر مذاہب کی طرح ایک آنے والے وجود کی پیش گوئی کا ذکر ہے جس کو سنسکرت زبان میں ’’متریا ‘‘اور پالی میں ’’متیا‘‘کہتے ہیں۔متیا صفاتی نام ہے بدھ لٹریچر کے مطابق اس کا مطلب دوست ہے۔اور متیاجو اپنے اندر دوستی اور رحم دلی کا مفہوم رکھتا ہے۔کہ وہ لوگوں سے بہت دوستانہ تعلق رکھتا ہے۔لوگوں سے پیار محبت کرتاہے۔اور ان کے لیے رحمت ہے۔

بدھ ازم کے تما م علاقوں اور تمام فرقوں میں اس کا مجسمہ ملتا ہے۔مختلف علاقوں میں اس کے مجسمے بنا کر اس سے عقیدت کا اظہار کیا جاتا ہے۔تبت اور منگولیا کے پہاڑوں پر come Metreya come کے الفاظ لکھے پائے گئے ہیں۔جس سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ تبت اور منگولیا والوں کو متیا کی آمد کا کس قدرانتظار تھا۔مختلف کتابوں میں متیا کے بارے میں یہ لکھاہے کہ وہ آخری بدھا ہو گا اور تمام لوگوں کے لیے مبعوث ہو گا۔متیا کی پیشگوئی کا ذکر بدھ ازم کی مختلف کتابوں میں ملتا ہے۔

ٹری پٹک کے حصہ سوتا پٹک جو بدھا کے اقوال پر مشتمل ہے اس کے باب Digha Nikaya (دیگھ نکائے) میں پیشگوئی درج ہے۔

گوتم بدھ فرماتے ہیں :

And in that time of the people with an eighty thousand year life-span, there will arise in the world a Blessed Lord, an Arahant fully-enlightened Buddha named Metteyya, endowed with wisdom and conduct, a Well-Farer, Knower of the worlds, incomparable Trainer of men to be tamed, Teacher of gods and humans, enlightened and blessed, just as I am now. He will thoroughly know by his own super-knowledge, and proclaim, this universe with its Devas and Maras and Brahmas, its ascetics and Brahmins, and this generation with its princes and people, just as I do now. He will teach the Dhamma, lovely in its beginning, lovely in its middle, lovely in its ending, in the spirit and in the letter, and proclaim, just as I do now, the holy life in its fullness and purity. He will be attended by a company of thousands of monks, just as I am attended by a company of hundreds.

(Long Discourses of the Buddha Digha Nikaya Chapter 26 Cakkavatti-Sihanada Sutta: The Lion‘s Roar on the Turning of the Wheel, P. 403-۔404)

ترجمہ:اس وقت جب لوگوں کی عمریں اسّی ہزار برس ہوں گی، اس وقت دنیا میں ایک برگزیدہ اور اعلیٰ ہستی جنم لے گی۔ ایک ارہت(عارف باللہ)، کامل معرفت والابدھا ہو گاجس کا نام متیا ہو گا۔ پُر حکمت، اقبال مند اور دنیا کو جانچنے والا اور سمجھنے والا ہو گا۔ ہدایت کے متمنی لوگوں کا ہادی، فرشتوں اور انسانوں کا استاد، پُرنور اور بابرکت ہو گا، جیسا کہ میں اس وقت ہوں۔

جو کچھ بھی وہ اپنے کامل علم کے ذریعہ پائے گا وہ سب دنیا پر ظاہر کر دے گا اور تمام کائنات مع اس کے جنّ اور شیاطین اور برہمنوں اور زاہدوں اور راہبوں کو اور اس نسل کے بادشاہوں اور عوام الناس، سب کواپنے روحانی تجربات آشکار کر دے گا جیسا کہ میں کرتا ہوں۔ وہ لوگوں کو ایسادھرم سکھائے گا جو اپنی بنیادوں کے لحاظ سے عالی شان اور مقاصد کے لحاظ سے بھی ظاہر و باطن دونوں طرح سے شاندار اور سودمند ہو گا۔ اس کلام کی روح اور الفاظ دونوں حسین ہیں۔ جیسا کہ میں اب لوگوں کو مقدس زندگی کی مکمل حقیقت اور پاکیزگی سکھاتا ہوں۔اس کے ساتھ ہزاروں راہب ہوں گےجیسا کہ اس وقت میرے ساتھ سینکڑوں ہیں۔

گوتم بدھ کی پیشگوئی کے مصداق رسول کریم ﷺ بھی ہیں اور آپ ﷺ کی تتبع اور پیروی میں آنے والے مسیح کے حق میں بھی پوری ہوتی ہے ۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ’’بدھ مذہب کی کتابوں سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ گوتم بدھ نے ایک اور آنے والے بدھ کی نسبت پیشگوئی کی تھی جس کا نام متیّا بیان کیا تھا ۔یہ پیشگوئی بدھ کی کتاب لگاوتی سُتَتامیں ہے جس کا حوالہ کتاب اولڈن برگ صفحہ نمبر 142میں دیا گیا ہے ۔اس پیشگوئی کی عبارت یہ ہے ’متیا لاکھوں مریدوں کا پیشوا ہوگا جیسا کہ میں اب سینکڑوں کا ہوں ‘‘اس جگہ یاد رہے کہ جو لفظ عبرانی میں مشیحا ہے وہی پالی زبان میں متیا کرکے بولا گیا ہے ۔یہ تو ایک معمولی بات ہے کہ جب ایک زبان کا لفظ دوسری زبان میں آتا ہے تواس میں کچھ تغیر ہوجاتا ہے …سوا ن تغیرات پر نظر رکھ کر ہر ایک سمجھ سکتا ہے کہ مسیحا کا لفظ پالی زبان میں آکر متیا بن گیا یعنی وہ آنیوالا متیّا جس کی بدھ نے پیشگوئی کی تھی وہ درحقیقت مسیح ہے اور کوئی نہیں ‘‘(مسیح ہندوستان میں،روحانی خزائن جلد 15صفحہ 80)

کتاب ’’بدھ ازم ان پاکستان ‘‘میں لکھا ہے کہ متیا کے زمانہ میں ٹیکسلا سے stupaکاخزانہ نکلے گا۔ان خزانوں سے مراد آثار قدیمہ کے وہ نوادرات ہیں جو سرجان مرشل کی نگرانی میں 13-1912ء میں ٹیکسلا کی کھدائی کے دوران ملے تھے۔

زرتشتی مذہب میں پیشگوئی

ایران کے عظیم نبی حضرت زرتشت علیہ السلام سیدنا حضرت اقدس محمد رسول اللہﷺ کی بعثت کی خوشخبری دینے کے بعد ایک فارسی الاصل کے ظہور کی خوشخبری دیتے ہوئے فرماتے ہیں:’’و اگر ماند یکدم از مہین حرج انگیزم از کسانِ تو کسے و آئین و آب بنو رسانم و پیغمبری و پیشوائی از فرزندانِ تو بر نگیرم۔‘‘(سفرنگ دساتیر صفحہ 190 مطبوعہ 1280ھ)

یعنی اگر زمانے میں ایک دن بھی باقی رہ جائے گا تو تیرے لوگوں (یعنی فارسی الاصل لوگوں ) میں سے ایک شخص کھڑا کروں گا۔ جو تیری گمشدہ عزت و آبرو واپس لائے گا اور اسے دوبارہ قائم کرے گا اور پیغمبری اور پیشوائی (نبوت اور خلافت) تیرے فرزندوں سے نہیں اُٹھاؤں گا۔

سکھ مذہب میں پیشگوئی

حضرت بابا گرونانک ؒنے بھی اس اوتار کا مقام ظہور ہندوستان بتایا ہے۔ چنانچہ ان کے مرید بھائی بالا جنم ساکھی میں لکھتے ہیں:’’مردانے پچھیا گروجی! بھگت کبیر جیہیا کوئی ہوربھی ہوسی۔ تاں گرو جی نے آکھیا ایک جٹیٹا ہوسی مردانے پچھیا۔جی کیڑی تھائیں تے کیڑے ملک وچ ہوسی تاں گوروجی آکھیا۔بٹالے دے پرگنے وچ ہو سی سن مردانیا نر نکاردے بھگت سارے روپ ہوندے ہن پر او بھگت کبیر نالوں وڈا ہوسی۔‘‘(جنم ساکھی بھائی بالا والی وڈی ساکھی،صفحہ251مفید عام پریس لاہور)

یعنی مردانے نے، جو گرونانکؒ کا مرید تھا، گرو صاحب سے پوچھا کہ گرو جی! بھگت کبیر سے بڑا بھی کوئی بھگت ہوگا۔جس پر گرونانکؒ نے کہا کہ ایک زمیندارپیدا ہوگا۔مردانے پھرپوچھا کہ مہاراج وہ بھگت کہاں پیدا ہوگا۔ گرونانکؒ نے جواب دیا کہ وہ بھگت بٹالے کے علاقہ میں پیدا ہوگا۔ مردانے غور سے سنو۔نجات کے بھگت تو سب ایک جیسے ہوتے ہیں لیکن وہ بھگت کبیر سے بڑا ہوگا۔

اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ اور اس کے پیارے انبیاء نے آنے والے کی خبردی اور ان پیش خبریوں اور پیشگوئیوں کے مطابق حضرت مسیح موعودعلیہ السلام تشریف لائے اور گذشتہ انبیاء کی عادات ،خاصیت اور واقعات میں کسی قدر حصہ لیا۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو جَرِیُ اللّٰہ فِی حُلَلِ الاَنْبِیَاء فرمایا ۔آپ علیہ السلام لکھتے ہیں کہ ’’یہ فقرہ کہ جَرِیُ اللّٰہ فِی حُلَلِ الاَنْبِیَاء بہت تفصیل کے لائق ہے جس کا یہ پنجم حصہ براہین متحمل نہیں ہوسکتا صرف اس قدر اِجمالاً کافی ہے کہ ہر ایک گذشتہ نبی کی عادت اور خاصیت اور واقعات میں سے کچھ مجھ میں ہے اور جو کچھ خدا تعالیٰ نے گذشتہ نبیوں کے ساتھ رنگا رنگ طریقوں میں نصرت اور تائید کے معاملات کئے ہیں اُن معاملات کی نظیر بھی میرے ساتھ ظاہر کی گئی ہے اور کی جائے گی اور یہ امر صرف اسرائیلی نبیوں کے ساتھ خاص نہیں بلکہ کُل دنیا میں جو نبی گذرے ہیں ان کی مثالیں اور ان کے واقعات میرے ساتھ اور میرے اندر موجود ہیں۔‘‘(براہین احمدیہ حصہ پنجم،روحانی خزائن جلد 21صفحہ 117)

اللہ تعالیٰ دنیا کو اس موعود کو پہچاننے اور ماننے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button