حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی جماعت کونصائح
’’میرے آنے کی اصل غرض یہ ہے کہ ایک ایسی جماعت تیار ہو جاوے جو سچی مومن ہو اور خدا پر حقیقی ایمان لائے اور اُس کے ساتھ حقیقی تعلق رکھے اور اسلام کو اپنا شعار بنائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوۂ حسنہ پر کاربند ہو اور اصلاح و تقویٰ کے رستے پر چلے اور اخلاق کا اعلیٰ نمونہ قائم کرے…
پس اگر یہ غرض پوری نہیں ہوتی تو اگر دلائل و براہین سے ہم نے دشمن پر غلبہ بھی پا لیا اور اُس کو پوری طرح زیر بھی کر لیا تو پھر بھی ہماری فتح کوئی فتح نہیں‘‘
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں حاضرہونے والے احباب آپ کی براہ راست نصائح سے مستفیدہوتے اور اپنے روحانی امراض سے شفا پاتے ۔ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نصائح کے اس سلسلے کی افادیت بیان کرتے ہوئے تحریرفرماتے ہیں:’’تیسری شاخ اس کارخانہ کی واردین اور صادرین اور حق کی تلاش کے لئے سفر کرنے والے اور دیگر اغراض متفرّقہسے آنیوالے ہیں جو اس آسمانی کار خانہ کی خبر پا کر اپنی اپنی نیّتوں کی تحریک سے ملاقات کے لئے آتے رہتے ہیں۔یہ شاخ بھی برابر نشوونما میں ہے۔ اگرچہ بعض دنوں میں کچھ کم مگر بعض دنوں میں نہایت سرگرمی سے اس کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ان سات برسوں میں ساٹھ ہزار سے کچھ زیادہ مہمان آئے ہوں گے اور جس قدر اُن میں سے مستعد لوگوں کو تقریری ذریعوں سے روحانی فائدہ پہنچایا گیا اور اُن کے مشکلات حل کر دئے گئے۔اور اُن کی کمزوری کو دور کر دیا گیا اس کا علم خدا تعالیٰ کو ہے۔ مگر اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ زبانی تقریریں جو سائلین کے سوالات کے جواب میں کی گئیں یا کی جاتی ہیں یا اپنی طرف سے محل اور موقعہ کے مناسب کچھ بیان کیا جاتا ہے یہ طریق بعض صورتوں میں تالیفات کی نسبت نہایت مفید اورمؤ ثر اور جلد تر دلوں میں بیٹھنے والا ثابت ہوا ہے۔یہی وجہ ہے کہ تمام نبی اس طریق کو ملحوظ رکھتے رہے ہیں اور بجُز خدا تعالیٰ کے کلام کے جوخاص طور پر بلکہ قلم بند ہو کر شائع کیا گیا باقی جس قدر مقالات انبیاء ہیں وہ اپنے اپنے محل پر تقریروں کی طرح پھیلتے رہے ہیں۔ عام قاعدہ نبیوں کا یہی تھا کہ محل شناس لیکچرار کی طرح ضرورتوں کے وقتوں میں مختلف مجالس اور محافل میں اُن کے حال کے مطابق روح سے قوّت پا کر تقریر کرتے تھے مگر نہ اِس زمانہ کے متکلّموں کی طرح کہ جن کو اپنی تقریر سے فقط اپنا علمی سرمایہ دکھلانا منظور ہوتا ہے۔ یا یہ غرض ہوتی ہے کہ اپنی جھوٹی منطق اور سو فسطائی حُجّتوں سے کسی سادہ لوح کو اپنے پیچ میں لاویں اور پھر اپنے سے زیادہ جہنّم کے لائق کریںبلکہ انبیاءنہایت سادگی سے کلام کرتے اور جو اپنے دل سے اُبلتا تھا وہ دوسروں کے دلوں میں ڈالتے تھے۔اُن کے کلمات قدسیہ عین محل اور حاجت کے وقت پر ہوتے تھے اور مخا طبین کو شغل یا افسانہ کی طرح کچھ نہیں سُناتے تھے بلکہ اُن کو بیمار دیکھ کر اور طرح طرح کے آفات ِروحانی میں مبتلا پا کر علاج کے طور پر اُن کو نصیحتیں کرتے تھے یا حُججِ قاطعہسے اُن کے اوہام کو رفع فرماتے تھے۔ اور اُن کی گفتگو میں الفاظ تھوڑے اور معانی بہت ہوتے تھے۔ سو یہی قاعدہ یہ عاجز ملحوظ رکھتا ہے اور وار دین اور صادرین کی استعداد کے موافق اور اُن کی ضرورتوں کے لحاظ سے اور اُن کے امراض لاحقہ کے خیال سے ہمیشہ باب ِتقریر کھلا رہتا ہے کیونکہ بُرائی کو نشانہ کے طور پردیکھ کر اس کے روکنے کے لئے نصائح ضروریہ کی تیر اندازی کرنا اور بگڑے ہوئے اخلاق کو ایسے عضو کی طرح پا کر جو اپنے محل سے ٹل گیا ہو اپنی حقیقی صورت اور محل پر لانا جیسے یہ علاج بیمار کے رُوبرو ہونے کی حالت میں متصوّر ہے اور کسی حالت میں کماحقّہ ممکن نہیں۔یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے چندیں ہزار نبی اور رسول بھیجے اور ان کی شرفِ صحبت میں مشرف ہونے کا حکم دیاتا ہر ایک زمانہ کے لوگ چشم دید نمونوں کو پا کر اور ان کے وجود کو مجسم کلام الٰہی مشاہدہ کر کے ان کی اقتداکے لئے کوشش کریں۔اگر صحبت صادقین میں رہنا واجبات دین میں سے نہ ہوتا توخدا تعالیٰ اپنے کلام کو بغیر بھیجنے رسولوں اور نبیوں کے اور طور پر بھی نازل کر سکتا تھا یا صرف ابتدائی زمانہ میں ہی رسالت کے امر کو محدود رکھتا اور آئندہ ہمیشہ کے لئے سلسلۂ نبوت اور رسالت اور وحی کا منقطع کر دیتا لیکن خدا تعالیٰ کی عمیق حکمت اور دانائی نے ہر گز ایسا منظور نہیں رکھا اور ضرورت کے وقتوں میں یعنی جب کبھی محبت الٰہی اور خدا پرستی اور تقویٰ طہارت وغیرہ امور واجبہ میں فرق آتا رہا ہے مقدس لوگ خدا تعالیٰ سےوحی پا کر نمونہ کے طور پر دنیا میں آتے رہے ہیں اور یہ دونوں قضئے باہم لازم ملزوم ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ کو ہمیشہ کے لئے اصلاحِ خلائق کی طرف توجہ ہے تو یہ بھی نہایت ضروری ہے کہ ایسے لوگ بھی ہمیشہ کے لئے آتے رہیں کہ جن کو خدا تعالیٰ نے اپنی خاص توجہ سے بینائی بخشی ہو اور اپنی مرضیات کی راہ پرثابت قدم کیا ہو۔ بلاشبہ یہ بات یقینی اور امور مسلّمہ میں سے ہے کہ یہ مہم عظیم اصلاح خلائق کی صرف کاغذوں کے گھوڑے دوڑانے سے روبراہ نہیں ہو سکتی۔ اس کے لئے اِ سی راہ پر قدم مارنا ضروری ہے جس پر قدیم سے خدا تعالیٰ کے پاک نبی مارتے رہے ہیں۔ اور اسلام نے اپناقدم رکھتے ہی اس موثر طریق کو ایسی مضبوطی اور استحکام سے رواج دیا ہے کہ اُس کی نظیر دوسرے مذہبوں میں ہر گز نہیں پائی جاتی۔ کون اس جماعت کثیر کا دوسری جگہ وجود دکھلا سکتا ہے جو تعداد میں دس ہزار سے بھی زیادہ بڑھ گئی تھی اور کمال اعتقاد اور انکسار اور جانفشانی اور پوری محویّت سے سچائی کے حاصل کرنے اور راستی کے سیکھنے کے لئے آستانہ نبوی پر دن رات پڑی رہتی تھی۔‘‘( فتح اسلام، روحانی خزائن جلد3صفحہ 14تا20)
جماعت کی اصلاح کے لیے دائمی غوروفکر
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی طرف سے جاری مستقل باب تقریر کے پس پردہ جوہمدردی کارفرماتھی اس کاتذکرہ کرتے ہوئے آپ کے صاحبزادے حضرت مرزابشیراحمد صاحب ایم اے رضی اللہ عنہ تحریرفرماتے ہیں کہ ’’بیان کیا مجھ سے مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے کہ ایک دفعہ کسی کام کے متعلق میر صاحب یعنی میر ناصر نواب صاحب کے ساتھ مولوی محمد علی صاحب کا اختلاف ہو گیا۔ میر صاحب نے ناراض ہو کر اندر حضرت صاحب کو جا اطلاع دی ۔ مولوی محمد علی صاحب کو اس کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے حضرت صاحب سے عرض کیا کہ ہم لوگ یہاں حضور کی خاطر آئے ہیں کہ تا حضور کی خدمت میں رہ کر کوئی خدمتِ دین کا موقع مل سکے لیکن اگر حضور تک ہماری شکایتیں اس طرح پہنچیں گی تو حضور بھی انسان ہیں، ممکن ہے کسی وقت حضور کے دل میں ہماری طرف سے کوئی بات پیدا ہو تو اس صورت میں ہمیں بجائے قادیان آنے کا فائدہ ہونے کے اُلٹا نقصان ہو جائے گا۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ میر صاحب نے مجھ سے کچھ کہا تو تھا مگر مَیں اُس وقت اپنے فکروں میں اتنا محو تھا کہ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے معلوم نہیں کہ میر صاحب نے کیا کہا اور کیا نہیں کہا۔ پھر آپ نے فرمایا کہ چند دن سے ایک خیال میرے دماغ میں اس زور کے ساتھ پیدا ہو رہا ہے کہ اس نے دوسری باتوں سے مجھے بالکل محو کر دیا ہے۔ بس ہر وقت اُٹھتے بیٹھتے وہی خیال میرے سامنے رہتا ہے، میں باہر لوگوں میں بیٹھا ہوتا ہوں اور کوئی شخص مجھ سے کوئی بات کرتا ہے تو اُس وقت بھی میرے دماغ میں وہی خیال چکر لگا رہا ہوتا ہے۔ وہ شخص سمجھتا ہو گا کہ میں اُس کی بات سن رہا ہوں مگر میں اپنے اس خیال میں محو ہوتا ہوں۔ جب میں گھر جاتا ہوں تو وہاں بھی وہی خیال میرے ساتھ ہوتا ہے۔ غرض ان دنوں یہ خیال اس زور کے ساتھ میرے دماغ پر غلبہ پائے ہوئے ہے کہ کسی اور خیال کی گنجائش نہیں رہی۔ وہ خیال کیا ہے؟ وہ یہ ہے کہ میرے آنے کی اصل غرض یہ ہے کہ ایک ایسی جماعت تیار ہو جاوے جو سچی مومن ہو اور خدا پر حقیقی ایمان لائے اور اُس کے ساتھ حقیقی تعلق رکھے اور اسلام کو اپنا شعار بنائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوۂ حسنہ پر کاربند ہو اور اصلاح و تقویٰ کے رستے پر چلے اور اخلاق کا اعلیٰ نمونہ قائم کرے تا پھر ایسی جماعت کے ذریعہ دنیا ہدایت پاوے اور خدا کا منشاء پورا ہو۔پس اگر یہ غرض پوری نہیں ہوتی تو اگر دلائل و براہین سے ہم نے دشمن پر غلبہ بھی پا لیا اور اُس کو پوری طرح زیر بھی کر لیا تو پھر بھی ہماری فتح کوئی فتح نہیں۔ کیونکہ اگر ہماری بعثت کی اصل غرض پوری نہ ہوئی تو گویا ہمارا سارا کام رائیگاں گیا۔ مگر میں دیکھ رہا ہوں کہ دلائل اور براہین کی فتح کے تو نمایاں طور پر نشانات ظاہر ہو رہے ہیں اور دشمن بھی اپنی کمزوری محسوس کرنے لگا ہے لیکن جو ہماری بعثت کی اصل غرض ہے، اس کے متعلق ابھی تک جماعت میں بہت کمی ہے اور بڑی توجہ کی ضرورت ہے۔ پس یہ خیال ہے جو مجھے آج کل کھا رہا ہے اور یہ اس قدر غالب ہو رہا ہے کہ کسی وقت بھی مجھے نہیں چھوڑتا۔‘‘(سیرت المہدی مرتبہ حضرت مرزا بشیراحمد صاحبؓ جلد 1 حصہ اول صفحہ 235-236 روایت نمبر 258)
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے دنیامیں آنے کی غرض
’’تا لوگ قوت یقین میں ترقی کریں‘‘
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی نصائح کاسلسلہ آپ کے دن رات کے پاکیزہ طرزعمل اورآپ کی تحریرکردہ کتب اور خطوط اوراشتہارات میں ہر جگہ پھیلاہواہے۔ جماعت احمدیہ کی طرف سے شائع ہونے والی کتب میں ملفوظات حضرت اقد س مسیح موعودعلیہ السلام کا اس حوالہ سے خاص مقام ہے ۔ جس کی ہرسطر اورلفظ لفظ انسان کاایمان تازہ کرنے والا اور اللہ تعالیٰ پر یقین بڑھانے والاہے ۔ ملفوظات کی سب سے پہلی روایت یوں ہے۔
حضرت مولوی عبدالکریم صاحب ؓفرماتے ہیں:’’مجھے خوب یاد ہے اور مَیں نے اپنی نوٹ بک میں اس کولکھ رکھا ہے کہ جالندھر کے مقام پر ایک شخص نے حضرت اقدس امام صادق حضرت میرزا صاحبؑ کی خدمت میں سوال کیا کہ آپ کی غرض دنیا میں آنے سے کیا ہے؟‘‘
آپؑ نے فرمایا کہ’’میں اس لئے آیا ہوں ۔تا لوگ قوت یقین میں ترقی کریں ۔‘‘(ملفوظات جلد 1 صفحہ1،ایڈیشن2003ء)
قوت یقین کی اہمیت
اوراس کے لیے نہایت مؤثرنصائح
’’اے خدا کے طالب بندو! کان کھولو اور سنو کہ یقین جیسی کوئی چیز نہیں یقین ہی ہے جو گناہ سے چھڑاتا ہے۔ یقین ہی ہے جو نیکی کرنے کی قوت دیتا ہے یقین ہی ہے جو خدا کا عاشق صادق بناتا ہے کیا تم گناہ کو بغیر یقین کے چھوڑ سکتے ہو۔ کیا تم جذبات نفس سے بغیریقینی تجلّی کے رُک سکتے ہو۔ کیا تم بغیر یقین کے کوئی تسلی پا سکتے ہو۔ کیا تم بغیر یقین کے کوئی سچی تبدیلی پیدا کر سکتے ہو کیا تم بغیر یقین کے کوئی سچی خوشحالی حاصل کر سکتے ہو۔ کیا آسمان کے نیچے کوئی ایسا کفّارہ اور ایسا فدیہ ہے جو تم سے گناہ ترک کراسکے ….. پس تم یاد رکھو کہ بغیر یقین کے تم تاریک زندگی سے باہر نہیں آ سکتے اور نہ روح القدس تمہیں مل سکتا ہے۔ مبارک وہ جو یقین رکھتے ہیں کیونکہ وہی خدا کو دیکھیں گے۔ مبارک وہ جو شبہات اور شکوک سے نجات پا گئے ہیں کیونکہ وہی گناہ سے نجات پائیں گے۔ مبارک تم جب کہ تمہیں یقین کی دولت دی جائے کہ اس کے بعد تمہارے گناہ کا خاتمہ ہوگا۔ گناہ اور یقین دونوں جمع نہیں ہو سکتے کیا تم ایسے سوراخ میں ہاتھ ڈال سکتے ہو جس میں تم ایک سخت زہریلے سانپ کو دیکھ رہے ہو کیا تم ایسی جگہ کھڑے رہ سکتے ہو جس جگہ کسی کوہ آتش افشاں سے پتھر برستے ہیں یا بجلی پڑتی ہے یا ایک خونخوار شیر کے حملہ کرنے کی جگہ ہےیا ایک ایسی جگہ ہے جہاں ایک مہلک طاعون نسل انسان کو معدوم کر رہی ہے پھر اگر تمہیں خدا پر ایسا ہی یقین ہے جیسا کہ سانپ پر یا بجلی پر یا شیر پر یا طاعون پر تو ممکن نہیں کہ اس کے مقابل پر تم نافرمانی کر کے سزا کی راہ اختیار کر سکو یا صدق و وفا کا اُس سے تعلق توڑ سکو۔
اے وے لوگو جو نیکی اور راستبازی کے لئے بلائے گئے ہو تم یقیناًسمجھو کہ خدا کی کشش اُس وقت تم میں پیدا ہوگی اور اُسی وقت تم گناہ کے مکروہ داغ سے پاک کئے جاؤ گے جبکہ تمہارے دل یقین سے بھر جائیں گے شائد تم کہو گے کہ ہمیں یقین حاصل ہے سو یاد رہے کہ یہ تمہیں دھوکا لگا ہوا ہے یقین تمہیں ہرگز حاصل نہیں کیونکہ اُس کے لوازم حاصل نہیں وجہ یہ کہ تم گناہ سے باز نہیں آتے تم ایسا قدم آگے نہیں اُٹھاتے جو اُٹھانا چاہئے تم ایسے طور سے نہیں ڈرتے جو ڈرنا چاہئے خود سوچ لو کہ جس کو یقین ہے کہ فلاں سوراخ میں سانپ ہے وہ اس سوراخ میں کب ہاتھ ڈالتا ہے اور جس کو یقین ہے کہ اس کے کھانے میں زہر ہے وہ اس کھانے کو کب کھاتا ہے اور جو یقینی طور پر دیکھ رہا ہے کہ اس فلاں بَن میں ایک ہزار خونخوار شیر ہے اُس کا قدم کیونکر بے احتیاطی اور غفلت سے اُس بَن کی طرف اُٹھ سکتا ہے۔ سو تمہارے ہاتھ اور تمہارے پاؤں اور تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں کیونکر گناہ پر دلیری کر سکتی ہیں اگر تمہیں خدا اور جزا سزا پر یقین ہے گناہ یقین پر غالب نہیں ہو سکتا اور جب کہ تم ایک بھسم کرنے اور کھا جانے والی آگ کو دیکھ رہے ہو تو کیونکر اُس آگ میں اپنے تئیں ڈال سکتے ہو اور یقین کی دیواریں آسمان تک ہیں شیطان اُن پر چڑھ نہیں سکتا ہر ایک جو پاک ہوا وہ یقین سے پاک ہوا۔ یقین دکھ اُٹھانے کی قوت دیتا ہے یہاں تک کہ ایک بادشاہ کو تخت سے اُتارتا ہے اور فقیری جامہ پہناتا ہے۔ یقین ہر ایک دکھ کو سہل کر دیتا ہے یقین خدا کو دکھاتا ہے۔ ہر ایک کفّارہ جھوٹا ہے اور ہر ایک فدیہ باطل ہے۔ اور ہر ایک پاکیزگی یقین کی راہ سے آتی ہے وہ چیز جو گناہ سے چھڑاتی اور خدا تک پہنچاتی اور فرشتوں سے بھی صدق اور ثبات میں آگے بڑھا دیتی ہے وہ یقین ہے۔ ہر ایک مذہب جو یقین کا سامان پیش نہیں کرتا وہ جھوٹا ہے۔ ہر ایک مذہب جو یقینی وسائل سے خدا کو دکھا نہیں سکتاوہ جھوٹا ہے ہر ایک مذہب جس میں بجز پرانے قصوں کے اور کچھ نہیں وہ جھوٹا ہے۔ خدا جیسے پہلے تھا وہ اب بھی ہے اور اس کی قدرتیں جیسی پہلے تھیں وہ اب بھی ہیں اور اُس کا نشان دکھلانے پر جیسا کہ پہلے اقتدار تھا وہ اب بھی ہے پھر تم کیوں صرف قصوں پر راضی ہوتے ہو وہ مذہب ہلاک شدہ ہے جس کے معجزات صرف قصے ہیں جس کی پیشگوئیاں صرف قصے ہیں اور وہ جماعت ہلاک شدہ ہے جس پر خدا نازل نہیں ہوا اور جو یقین کے ذریعہ سے خدا کے ہاتھ سے پاک نہیں ہوئی۔ جس طرح انسان نفسانی لذّات کا سامان دیکھ کر اُن کی طرف کھینچا جاتاہے اِسی طرح انسان جب روحانی لذّات یقین کے ذریعہ سے حاصل کرتا ہے تو وہ خدا کی طرف کھینچا جاتا ہے اور اس کا حسن اس کو ایسا مست کر دیتا ہے کہ دوسری تمام چیزیں اُس کو سراسر ردّی دکھائی دیتی ہیں اور انسان اُسی وقت گناہ سے مَخلصی پاتا ہے جب کہ وہ خدا اور اس کے جبروت اور جزا سزا پر یقینی طور پر اطلاع پاتا ہے ہر ایک بیباکی کی جڑھ بے خبری ہے جو شخص خدا کی یقینی معرفت سے کوئی حصہ لیتا ہے وہ بیباک نہیں رہ سکتا۔ اگر گھر کا مالک جانتا ہے کہ ایک پُر زور سیلاب نے اس کے گھر کی طرف رخ کیا ہے اور یا اس کے گھر کے اِردگرد آگ لگ چکی ہے اور صرف ایک ذرہ سی جگہ باقی ہے تو وہ اس گھر میں ٹھہر نہیں سکتا۔ تو پھر تم خدا کی جزاسزا کے یقین کا دعویٰ کر کے کیونکر اپنی خطرناک حالتوں پر ٹھہر رہے ہو سو تم آنکھیں کھولو اور خدا کے اُس قانون کو دیکھو جو تمام دنیا میں پایا جاتا ہے چوہے مت بنو جو نیچے کی طرف جاتے ہیں بلکہ بلند پرواز کبوتر بنو جو آسمان کے فضا کو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔‘‘(کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد19صفحہ66)
دین کودنیاپرمقدم کرنے کی نصیحت
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی زندگی کا محور خدمت دین تھا۔آپ اپنی جماعت کواسی راہ پرگامزن کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ آپ ایک جگہ فرماتے ہیں:
’’عزیزو ! یہ دین کے لئے اوردین کی اغراض کے لئے خدمت کاوقت ہے اس وقت کوغنیمت سمجھو کہ پھر کبھی ہاتھ نہیں آئے گا۔‘‘(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19صفحہ 83)
دین اسلام کی سربلندی کے لیے محنت اورجانفشانی اور سب کچھ قربان کرنے کی نصیحت
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی اپنی زندگی دن رات دین کی خاطر قربانیوں میں وقف تھی ۔ آپ نےموجودہ زمانہ کے حالات کوسامنے رکھ کرہراحمدی کو اسی طرح کی زندگی بسرکرنے کی نہ صرف نصیحت کی بلکہ واضح الفظ میں فرمایاکہ اس کے بغیراسلام کی فتح نہ ہوگی۔ چنانچہ آ پؑ فرماتے ہیں:’’سچائی کی فتح ہو گی اور اسلام کے لئے پھر اُ س تازگی اور روشنی کا دن آئے گا جو پہلے وقتوں میں آچکا ہے اور وہ آفتاب اپنے پورے کمال کے ساتھ پھر چڑھے گا جیسا کہ پہلے چڑھ چکا ہے۔ لیکن ابھی ایسا نہیں۔ ضرور ہے کہ آسمان اُسے چڑھنے سے روکے رہے جب تک کہ محنت اور جانفشانی سے ہمارے جگر خون نہ ہو جائیں اور ہم سارے آراموں کو اُس کے ظہور کے لئے نہ کھو دیں اور اعزاز اسلام کے لیے ساری ذلّتیں قبول نہ کرلیں۔ اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے۔ وہ کیا ہے؟ہمارا اسی راہ میں مرنا۔یہی موت ہے جس پر اسلام کی زندگی مسلمانوں کی زندگی اور زندہ خدا کی تجلّی موقوف ہے۔‘‘(فتح اسلام،روحانی خزائن ۔ جلد 3 صفحہ 10تا11)
نہایت مؤثرنصائح کے ساتھ ساتھ مسلسل قربانیوں کاذاتی نمونہ
نصیحت کرناکوئی آسان امرنہیں کیونکہ نصیحت سننے والوں کی نظر ہمیشہ نصیحت کرنے والےکے ذاتی عمل پربھی ہوتی ہے ۔ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام ہراحمدی سے جس قربانی کامطالبہ کررہے تھے اس حوالے سے آپ کااپنا ذاتی نمونہ آپ کے الفاظ میں اس طرح ہے۔آپؑ فرماتے ہیں:’’صادق تو ابتلاؤں کے وقت بھی ثابت قدم رہتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ آخر خدا ہمارا ہی حامی ہوگا ۔اور یہ عاجز اگرچہ ایسے کامل دوستوں کے وجود سے خداتعالیٰ کا شکر کرتا ہے لیکن باوجود اس کے یہ بھی ایمان ہے کہ اگرچہ ایک فرد بھی ساتھ نہ رہے اور سب چھوڑ چھاڑ کر اپنا اپنا راہ لیں تب بھی مجھے کچھ خوف نہیں۔مَیں جانتا ہوں کہ خداتعالیٰ میرے ساتھ ہے اگر میں پیسا جاؤں اور کچلا جاؤں اور ایک ذرّے سے بھی حقیر تر ہو جاؤں اور ہر ایک طرف سے ایذا اور گالی اور لعنت دیکھوں تب بھی میں آخر فتح یاب ہوں گا مجھ کو کوئی نہیں جانتا مگر وہ جو میرے ساتھ ہے میں ہرگز ضائع نہیں ہوسکتا ۔ دشمنوں کی کوششیں عبث ہیں اور حاسدوں کے منصوبے لاحاصل ہیں۔
اے نادانو اور اندھو مجھ سے پہلے کون صادق ضائع ہوا جو میں ضائع ہو جاؤں گا ۔کس سچے وفادار کو خدا نے ذلت کے ساتھ ہلاک کر دیا جو مجھے ہلاک کرے گا ۔یقیناً یاد رکھو اور کان کھول کر سنو کہ میری روح ہلاک ہونے والی روح نہیں اور میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں مجھے وہ ہمت اور صدق بخشا گیا ہے جس کے آگے پہاڑ ہیچ ہیں۔ میں کسی کی پرواہ نہیں رکھتا۔میں اکیلا تھا اور اکیلا رہنے پر ناراض نہیں کیا خدا مجھے چھوڑ دے گا کبھی نہیں چھوڑے گا کیا وہ مجھے ضائع کر دے گا کبھی نہیں ضائع کرے گا۔دشمن ذلیل ہوں گے اور حاسد شرمندہ اور خدا اپنے بندہ کو ہر میدان میں فتح دے گا ۔میں اُس کے ساتھ وہ میرے ساتھ ہے کوئی چیز ہمارا پیوند توڑ نہیں سکتی اور مجھے اُس کی عزت اور جلال کی قسم ہے کہ مجھے دنیا اور آخرت میں اِس سے زیادہ کوئی چیز بھی پیاری نہیں کہ اُس کے دین کی عظمت ظاہر ہو اُس کا جلال چمکے اور اُس کا بول بالا ہو۔ کسی ابتلا سے اُس کے فضل کے ساتھ مجھے خوف نہیں اگرچہ ایک ابتلا نہیں کروڑ ابتلا ہو۔ابتلاؤں کے میدان میں اور دکھوں کے جنگل میں مجھے طاقت دی گئی ہے۔‘‘(انوار الاسلام،روحانی خزائن جلد9صفحہ 23)
استقلال اورہمت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ پرگامزن ہونے کی نصیحت
’’ہماری جماعت کو یاد رکھنا چاہئے کہ جب تک وہ بزدلی کو نہ چھوڑے گی اور استقلال اور ہمت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی ہر ایک راہ میں ہرمصیبت و مشکل کے اٹھانے کے لئے تیار نہ رہے گی وہ صالحین میں داخل نہیں ہو سکتی۔…
صاحبزادہ عبداللطیف کی شہادت کا واقعہ تمہارے لئے اسوۂ حسنہ ہے۔ تذکرۃ الشہادتین کو باربار پڑھواور دیکھوکہ اس نے اپنے ایمان کا کیسانمونہ دکھایا ہے ۔اس نے دنیا اور اس کے تعلقات کی کچھ بھی پروا نہیں کی ۔ بیوی یا بچوں کا غم اس کے ایمان پرکوئی اثر نہیں ڈال سکا۔دنیوی عزت اور منصب اور تنعم نے اس کو بزدل نہیں بنایا ۔ اُس نے جان دینی گوارا کی مگر ایمان کو ضائع نہیں کیا ۔ عبداللطیف کہنے کو مارا گیا یا مرگیا مگر یقیناًسمجھو کہ وہ زندہ ہے اور کبھی نہیں مر ے گا۔ اگرچہ اس کو بہت عرصہ صحبت میں رہنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ لیکن اس تھوڑی مدت میں جو وہ یہاں رہا اس نے عظیم الشان فائدہ اٹھایا ۔ اس کو قسم قسم کے لالچ دیئے گئے کہ اس کا مرتبہ و منصب بدستور قائم رہے گا مگر اس نے اس عزت افزائی اور دنیوی مفاد کی کچھ بھی پروا نہیں کی۔ ان کو ہیچ سمجھا۔ یہاں تک کہ جان جیسی عزیز شئے کو جو انسان کو ہوتی ہے اس نے مقدم نہیں کیا بلکہ دین کو مقدم کیا جس کا اس نے خدا تعالیٰ کے سامنے وعدہ کیا تھا کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا۔میں بار بار کہتا ہوں کہ اس پاک نمونہ پر غور کرو کیونکہ اس کی شہادت یہی نہیں کہ اعلیٰ ایمان کا ایک نمونہ پیش کرتی ہے بلکہ یہ خدا تعالیٰ کاعظیم الشان نشان ہے جو اَور بھی ایمان کی مضبوطی کا موجب ہوتا ہے کیونکہ براہین احمدیہ میں23برس پہلے سے اس شہادت کے متعلق پیشگوئی موجود تھی۔ وہاں صاف لکھا ہے
شَاتَانِ تُذْبَحَانِ وَ کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ
کیا اس وقت کوئی منصوبہ ہو سکتا تھاکہ 23 یا 24 سال بعد عبدالرحمٰن اور عبداللطیف افغانستان سے آئیں گے اور پھروہاں جا کر شہید ہوںگے۔…
اس سے پہلے عبدالرحمٰن جومولوی عبداللطیف شہید کا شاگرد تھا، سابق امیر نے قتل کرایا محض اس وجہ سے کہ وہ ا س سلسلہ میں داخل ہے اور یہ سلسلہ جہاد کے خلاف ہے اور عبدالرحمن جہاد کے خلاف تعلیم افغانستان میں پھیلاتاتھا۔ اور اب اس امیر نے مولوی عبداللطیف کو شہید کرا دیا۔ یہ عظیم الشان نشان جماعت کے لئے ہے۔‘‘(ملفوظات جل6صفحہ255تا257،ایڈیشن1984ء)
’’درحقیقت میری جماعت ایک بڑے نمونہ کی محتاج تھی۔ اب تک ان میں سے ایسے بھی پائے جاتے ہیں کہ جو شخص ان میں سے ادنیٰ خدمت بجا لاتاہے وہ خیال کرتاہے کہ اس نے بڑا کام کیاہے اور قریب ہے کہ وہ میرے پر احسان رکھے۔ حالانکہ خدا کا اس پر احسان ہے کہ ا س خدمت کے لئے اس نے اس کو توفیق دی ۔ بعض ایسے ہیں کہ وہ پورے زور اور پورے صدق سے اس طرف نہیں آئے اور جس قوتِ ایما ن اور انتہا درجہ کے صدق و صفاکا وہ دعویٰ کرتے ہیں آخر تک اس پر قائم نہیں رہ سکتے اور دنیا کی محبت کے لئے دین کو کھو دیتے ہیں اور کسی ادنیٰ امتحان کی بھی برداشت نہیں کر سکتے ۔ خدا کے سلسلہ میں بھی داخل ہو کر ان کی دنیا داری کم نہیں ہوتی۔‘‘(تذکرۃ الشہادتین،روحانی خزائن جلد20صفحہ57تا58)
اخلاقی برائیوں سے بچنے کی نصائح
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے احباب جماعت کو دین کودنیاپرمقدم رکھنے کی نصائح کے ساتھ ساتھ متعدد اخلاقی کمزوریوں سے بچنے کی بھی نہایت موثرنصائح فرمائیں ۔ جن میں سے چندایک درج ذیل ہیں۔
ہنسی اورٹھٹھے کی محفلوں سے اجتناب کی نصیحت
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں:’’میری جماعت میں سے ہر ایک فرد پر لازم ہو گا کہ ان تمام وصیتوں کے کار بند ہوں اور چاہیے کہ تمہاری مجلسوں میں کوئی نا پاکی اور ٹھٹھے اور ہنسی کا مشغلہ نہ ہو اور نیک دل اور پاک طبع اور پاک خیال ہو کر زمین پر چلو۔ اور یاد رکھو کہ ہر ایک شر مقابلہ کے لائق نہیں ہے اس لئے لازم ہے کہ اکثر اوقات عفو اور درگزر کی عادت ڈالو،صبر اور حلم سے کام لو اور کسی پر ناجائز طریق سے حملہ نہ کرواور جذبات نفس کو دبائے رکھواور اگر کوئی بحث کرو یا کوئی مذہبی گفتگو ہو تو نرم الفاظ میں اور مہذبانہ طریق سے کرو۔اور اگر کوئی جہالت سے پیش آوےسلام کہہ کر ایسی مجلس سے جلد اٹھ جاؤ۔اگر تم ستائے جاؤاور گالیاں دئیے جاؤ اور تمہارے حق میں برے برے لفظ کہیں جائیں تو ہوشیار رہو کہ سفاحت کا سفاحت کے ساتھ تمہارا مقابلہ نہ ہو ورنہ تم بھی ویسے ہی ٹھہرو گے جیساکہ وہ ہیں۔خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ تمہیں ایک ایسی جماعت بنا دے کہ تم تمام دنیا کے لئے نیکی اور راستبازی کا نمونہ ٹھہرو۔سو اپنے درمیان سے ایسے شخص کو جلدی نکالوجو بدی اور شرارت اور فتنہ انگیزی اور بد نفسی کا نمونہ ہے۔جو شخص ہماری جماعت میں غربت اور نیکی اور پرہیزگاری اور حلم اور نرم زبانی اور نیک مزاجی اور نیک چلنی کے ساتھ نہیں رہ سکتا وہ جلد ہم سے جدا ہو جائے۔کیونکہ ہمارا خدا نہیں چاہتا کہ ایسا شخص ہم میں رہے۔اور یقیناًوہ بدبختی میں مرے گا کیونکہ اس نے نیک راہ کو اختیار نہ کیا۔سو تم ہوشیار ہو جاؤاور واقعی نیک دل اور غریب مزاج اور راست باز بن جاؤ۔‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ 47تا48)
جھوٹ جیسی کوئی منحوس چیز نہیں
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ’’یقیناًیاد رکھو جھوٹ جیسی کوئی منحوس چیز نہیں۔ عام طو رپر دنیا دار کہتے ہیں کہ سچ بولنے والے گرفتار ہوجاتے ہیں۔ مگر مَیں کیونکر اس کو باور کروں؟ مجھ پر سات مقدمے ہوئے ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے کسی ایک میں بھی مجھے جھوٹ کہنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ کوئی بتائے کہ کسی ایک میں بھی خدا تعالیٰ نے مجھے شکست دی ہو۔ اللہ تعالیٰ تو آپ سچائی کا حامی اور مددگار ہے۔ یہ ہو سکتاہے کہ وہ راستباز کو سزادے؟اگر ایسا ہو تو دنیا میں پھر کوئی شخص سچ بولنے کی جرأت نہ کرے اور خدا تعالیٰ پر سے ہی اعتقاد اٹھ جاوے۔ راستباز تو زندہ ہی مر جاویں۔
اصل بات یہ ہے کہ سچ بولنے سے جو سزا پاتے ہیں وہ سچ کی وجہ سے نہیں ہوتی۔وہ سزا اُن کی بعض اَور مخفی درمخفی بدکاریوں کی ہوتی ہے اور کسی اور جھوٹ کی ہوتی ہے۔ خداتعالیٰ کے پاس تو ان کی بدیوں اور شرارتوں کا ایک سلسلہ ہوتا ہے۔ ان کی بہت سی خطائیں ہوتی ہیں اور کسی نہ کسی میں وہ سزا پالیتے ہیں۔
میرے ایک استاد گل علی شاہ بٹالے کے رہنے والے تھے۔ وہ شیر سنگھ کے بیٹے پرتاپ سنگھ کو بھی پڑھایا کرتے تھے۔ انہوں نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ شیر سنگھ نے اپنے باورچی کو محض نمک مرچ کی زیادتی پر بہت مارا تو چونکہ وہ بڑے سادہ مزاج تھے ۔انہوں نے کہاکہ آپ نے بڑا ظلم کیا۔ اس پر شیر سنگھ نے کہا۔ مولوی جی کو خبر نہیں اس نے میرا سو بکرا کھایا ہے۔ اسی طرح پر انسان کی بدکاریوں کا ایک ذخیرہ ہوتاہے اور وہ کسی ایک موقعہ پر پکڑا جاکر سزا پاتا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد 8 صفحہ 351 تا 353، ایڈیشن1984ء مطبوعہ انگلستان)
بدظنی کے بدنتائج
حضرت مسیح موعودؑ بد ظنی کے بد نتائج بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’دوسرے کے باطن میں ہم تصرف نہیں کر سکتے اور اس طرح کا تصرف کرنا گناہ ہے۔ انسان ایک آدمی کو بدخیال کرتا ہے اور آپ اس سے بدتر ہو جاتا ہے۔کتابوں میں مَیں نے ایک قصہ پڑھا ہے کہ ایک بزرگ اہل اللہ تھے انہوں نے ایک دفعہ عہد کیا کہ مَیں اپنے آپ کو کسی سے اچھا نہ سمجھوں گا۔ ایک دفعہ ایک دریا کے کنارے پہنچے (دیکھا)کہ ایک شخص ایک جوان عورت کے ساتھ کنارے پر بیٹھا روٹیاں کھا رہا ہے اور ایک بوتل پاس ہے اس میں سے گلاس بھر بھر کر پی رہا ہے ان کو دُور سے دیکھ کر اس نے کہا کہ مَیں نے عہد تو کیا ہے کہ اپنے کو کسی سے اچھا نہ خیال کروں مگر ان دونوں سے تو مَیں اچھا ہی ہوں۔ اتنے میں زور سے ہوا چلی اور دریا میں طوفان آیا ایک کشتی آ رہی تھی وہ غرق ہو گئی وہ مرد جو کہ عورت کے ساتھ روٹی کھا رہا تھا اٹھا اور غوطہ لگا کر چھ آدمیوں کو نکال لایا اور ان کی جان بچ گئی۔ پھر اس نے اس بزرگ کو مخاطب کرکے کہا کہ تم اپنے آپ کو مجھ سے اچھا خیال کرتے ہومَیں نے تو چھ کی جان بچائی ہے۔ اب ایک باقی ہے اسے تم نکالو۔ یہ سن کر وہ بہت حیران ہوا اور اس سے پوچھا کہ تم نے یہ میرا ضمیر کیسے پڑھ لیا اور یہ معاملہ کیا ہے؟ تب اس جوان نے بتلایا کہ اس بوتل میں اسی دریا کا پانی ہے۔ شراب نہیں ہے اور یہ عورت میری ماں ہے اور مَیں ایک ہی اس کی اولاد ہوں۔ قویٰ اس کے بڑے مضبوط ہیں اس لئے جوان نظرآتی ہے۔ خدا نے مجھے مامور کیا تھا کہ میں اسی طرح کروں تا کہ تجھے سبق حاصل ہو۔
خضر کا قصہ بھی اسی بنا ء پر معلوم ہوتا ہے۔ سوء ظن جلدی سے کرنا اچھا نہیں ہوتا۔تصرف فی العباد ایک نازک امر ہے۔ اس نے بہت سی قوموں کو تباہ کر دیا کہ انہوں نے انبیاء اور ان کے اہل بیت پر بدظنیاں کیں۔‘‘(ملفوظات جلد دوم صفحہ 568تا569،ایڈیشن 1988ء)
اسی طرح فرمایا:’’اکثر لوگوں میں بدظنی کا مرض بڑھا ہوا ہوتا ہے۔ وہ اپنے بھائی سے نیک ظنی نہیں رکھتے اور ادنیٰ ادنیٰ سی بات پر اپنے دوسرے بھائی کی نسبت بُرے بُرے خیالات کرنے لگتے ہیں۔ اور ایسے عیوب اس کی طرف منسوب کرنے لگتے ہیں کہ اگر وہی عیب اس کی طرف منسوب ہوں تو اس کو سخت ناگوار معلوم ہو۔ اس لئے اوّل ضروری ہے کہ حتی الوسع اپنے بھائیوں پر بدظنی نہ کی جاوے اور ہمیشہ نیک ظن رکھا جاوے کیونکہ اس سے محبت بڑھتی ہے۔ اور انس پیدا ہوتا ہے۔ اور آپس میں قوت پیدا ہوتی ہے اور اس کے باعث انسان بعض دوسرے عیوب مثلاً کینہ بغض حسد وغیرہ سے بچا رہتا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد 4صفحہ 214تا215،ایڈیشن 1988ء)
تکبرسے بچنے کی نصیحت
’’اگر تمہارے کسی پہلو میں تکبر ہے یا ریا ہے یا خود پسندی ہے یا کسل ہے تو تم ایسی چیز نہیں ہو کہ جوقبول کے لائق ہو۔ ایسا نہ ہو کہ تم صرف چند باتوں کو لے کر اپنے تئیں دھوکہ دو کہ جو کچھ ہم نے کرنا تھا کر لیا ہے۔ کیونکہ خدا چاہتا ہے کہ تمہاری ہستی پر پورا پورانقلاب آوے اور وہ تم سے ایک موت مانگتا ہے جس کے بعد وہ تمہیں زندہ کرے گا۔‘‘(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19صفحہ12تا13)
غربت اورمسکینی میں زندگی بسرکرنے کی نصیحت
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :’’اگر اللہ تعالیٰ کو تلاش کرنا ہے تو مسکینوں کے دل کے پاس تلاش کرو۔ اسی لیے پیغمبروں نے مسکینی کا جامہ ہی پہن لیا تھا۔ اسی طرح چاہیئے کہ بڑی قوم کے لوگ چھوٹی قوم کو ہنسی نہ کریں اور نہ کوئی یہ کہے کہ میرا خاندان بڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم میرے پاس جو آؤگے تو یہ سوال نہ کروں گا کہ تمہاری قوم کیا ہے۔ بلکہ سوال یہ ہو گا کہ تمہارا عمل کیا ہے۔ اسی طرح پیغمبر خدا نے فرمایا ہے اپنی بیٹی سے کہ اے فاطمہؓ خدا تعالیٰ ذات کو نہیں پوچھے گا۔ اگر تم کوئی برا کام کروگی تو خدا تعالیٰ تم سے اس واسطے درگزر نہ کرے گا کہ تم رسول کی بیٹی ہو۔ پس چاہیئے کہ تم ہر وقت اپنا کام دیکھ کر کیا کرو۔‘‘(الحکم17؍جولائی 1903ء،ملفوظات جلد سوم صفحہ 370)
پھر آپؑ فرماتے ہیں :’’اہل تقویٰ کے لیے یہ شرط تھی کہ وہ غربت اور مسکینی میں اپنی زندگی بسر کرے یہ ایک تقویٰ کی شاخ ہے جس کے ذریعہ ہمیں غضب ناجائز کا مقابلہ کرنا ہے۔ بڑے بڑے عارف اور صدیقوں کے لیے آخری اور کڑی منزل غضب سے ہی بچنا ہے۔ عجب و پندار غضب سے پیدا ہوتا ہے۔ اور ایسا ہی کبھی خود غضب عجب و پندار کا نتیجہ ہوتا ہے کیونکہ غضب اس وقت ہو گا جب انسان اپنے نفس کو دوسرے پر ترجیح دیتا ہے۔‘‘(رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ء صفحہ49۔بحوالہ خطبہ جمعہ29؍اگست2003ء)
حقو ق اللہ اورحقوق العباد کی ادائیگی کے بارے جامع نصائح
حضرت اقدس مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں کہ’’سو اے وے تمام لوگو!جو اپنے تئیں میری جماعت شمار کرتے ہو۔ آسمان پر تم اس وقت میری جماعت شمار کیے جاؤ گے جب سچ مچ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے۔ سو اپنی پنجوقتہ نمازوں کو ایسے خوف اور حضور سے ادا کرو کہ گویا تم خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہو۔ اور اپنے روزوں کو خدا کے لئے صدق کے ساتھ پورے کرو۔ ہر ایک جو زکوٰۃ کے لائق ہے وہ زکوٰۃ دے اور جس پر حج فرض ہوچکا ہے اور کوئی مانع نہیں وہ حج کرے۔‘‘(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 15)
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:’’تم کو چاہیئے کہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر دعائیں مانگو اور اس کے فضل کو طلب کرو۔ ہر ایک نماز میں دعا کے لیے کئی مواقع ہیں۔ رکوع، قیام، قعدہ،سجدہ وغیرہ۔ پھر آٹھ پہروں میں پانچ مرتبہ نماز پڑھی جاتی ہے۔ فجر، ظہر، عصر، شام اور عشاء۔ ان پر ترقی کر کے اشراق اور تہجد کی نمازیں ہیں۔ یہ سب دعا ہی کے لیےمواقع ہیں۔‘‘(ملفوظات جلداوّل صفحہ234،ایڈیشن1988ء)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دوستوں کو نماز میں حصول حضور کی دعا سکھائی۔ آپؑ فرمایاکرتے تھے کہ نماز میں حصول حضور کا ذریعہ خود نماز ہے۔ اسے ذوق و شوق سے پڑھا جائے تو خدا کے فضل سے نماز میں لذت آنی شروع ہو جاتی ہے۔ یہ دعا ہمیں بکثرت پڑھنی چاہیے۔
’’اے خدا تعالیٰ قادروذوالجلال ! میں گناہ گار ہوں اور اس قدر گناہ کے زہر نے میرے دل اور رگ وریشہ میں اثر کیا ہے کہ مجھے رقت اور حضور نماز حاصل نہیں تُواپنے فضل و کرم سے میرے گناہ بخش اور میر ی تقصیرات معاف کر اور میرے دل کو نرم کر دے اور میرے دل میں اپنی عظمت اور اپنا خوف اور اپنی محبت بٹھا دے تاکہ اس کے ذریعہ سے میری سخت دلی دور ہو کرحضور نمازمیں میسر آوے۔‘‘(الحکم 4؍مئی1904ء صفحہ 2)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ کامل الایمان کی تعریف کرتے ہوئے اور افرادِ جماعت کو توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’اس کی توحید زمین پر پھیلانے کے لئے اپنی تمام طاقت سے کوشش کرو اور اس کے بندوں پر رحم کرو اور ان پر زبان یا ہاتھ یا کسی تدبیر سے ظلم نہ کرو اور مخلوق کی بھلائی کے لئے کوشش کرتے رہو اور کسی پر تکبر نہ کرو، گو اپنا ماتحت ہو اور کسی کو گالی مت دو، گو وہ گالی دیتا ہو۔ غریب اور حلیم اور نیک نیت اور مخلوق کے ہمدرد بن جاؤ تا قبول کئے جاؤ۔ بہت ہیں جو حلم ظاہر کرتے ہیں مگر وہ اندر سے بھیڑیے ہیں۔ بہت ہیں جو اوپر سے صاف ہیں مگر اندر سے سانپ ہیں۔ سو تم اس کی جناب میں قبول نہیں ہو سکتے جب تک ظاہر و باطن ایک نہ ہو۔ بڑے ہو کر چھوٹوں پر رحم کرو، نہ ان کی تحقیر۔ عالم ہو کر نادانوں کو نصیحت کرو نہ خودنمائی سے ان کی تذلیل۔ اورامیر ہو کر غریبوں کی خدمت کرو، نہ خود پسندی سے ان پر تکبر۔ ہلاکت کی راہوں سے ڈرو۔ خدا سے ڈرتے رہو اور تقویٰ اختیار کرو۔‘‘(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19صفحہ11تا12)
٭…٭…٭