تعارف کتاب

’’سیرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام‘‘ (قسط نمبر 1)

(فرخ سلطان محمود)

امرواقعہ یہی ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کو جب موقع ملا تو آپؑ نے اُسی طرح ’’لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ‘‘ کہہ دیا جس طرح پر سیّدالرسلﷺ نے فتح مکہ کے دن فرمایا تھا

انسانی سرشت (نفسیات) میں یہ چیز داخل ہے کہ وہ محبت اور نفرت کا اظہار کرتے ہوئے اکثر اعتدال کا دامن چھوڑ دیتا ہے۔ اور اگر اس محبت یا نفرت کی بنیاد مذہب سے وابستہ ہوجائے تو پھر وہ محبت گویا عشق کی بلندترین سطح پر پہنچ جاتی ہے اور نفرت بھی شدیدترین عداوت کی شکل میں ظاہر ہونے لگتی ہے۔ چنانچہ ہمارا روزمرّہ مشاہدہ ہے کہ ایسے طبقات جو کسی مذہبی شخصیت سے عشق میں اگر اعتدال ملحوظ نہ رکھ پائیں تو پھر اُن مذہبی پیشواؤں اور بزرگوں کی طرف ایسی کرامات اور معجزات منسوب کرنے لگتے ہیں جن کا اُس مذہب کے بانیوں کی اخلاقی یا روحانی تعلیم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ وہ انسان ایک مافوق الفطرت وجود نظر آنے لگتا ہے جو خدائی صفات میں بھی شریک دکھائی دیتا ہے۔ ہمارے آقا و مولا حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ نے انسانی فطرت کی اسی کمزوری کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے اصحاب کو اپنے عظیم الشان روحانی مقام سے روشناس کروانے کے بعد بحیثیت انسان اپنی عاجزی کا بھی بارہا اظہار فرمایا اور خبردار کیا کہ سابقہ انبیاء کی امّتوں کی طرح افراط و تفریط سے خود کو بچائے رکھنا۔ چنانچہ اصحاب رسول اللہﷺ نے اس پاکیزہ نصیحت کو اپنے پلّے باندھ کر اپنے آقا ﷺ کی ناموس کی ہرممکن حفاظت کی اور اپنے محبوب آقاؐسے اظہارِ محبت کو شرک کی تمام آمیزشوں سے کلیتاً پاک رکھا۔ ایسی ہی کیفیت ہمیں اصحابِ احمدؑ کی بھی نظر آتی ہے جنہوں نے چودہ صدیوں کے انتظار کے بعد آنے والے اس پاکیزہ وجود کو خدانما پایا، اُس کی صحبت سے وہ عرفان کی مَے پی جس کے نشے سے اُن کی زندگیاں تعلق باللہ کی روحانی منازل طے کرتی چلی گئیں۔ ان اصحابؓ نے اپنے محبوب آقاؑ کو جس محبت و عقیدت کی نظر سے دیکھا، تو پھر اُسی نظر کی زبان سے محض صداقت پر مبنی حکایاتِ دل بیان کیں اور اپنے قلم سے ایسی پاکیزہ داستانیں رقم کیں جو مہدیٔ دوراں کو انسانِ کاملؐ کے ایک غلام صادق کے طور پر پیش کرتی ہیں۔ ذاتی مشاہدات کی بنیاد پر کی جانے والی اس لفظی تصویرکشی سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ان روایات کے اظہار کا تنہا مقصد سوائے خداتعالیٰ کی شکرگزاری، حضرت اقدس محمد رسول اللہﷺ کی رسالت کی گواہی، حضرت مہدی معہود علیہ السلام کی صداقت کی شہادت اور بنی نوع انسان کو دعوت الی اللہ کے اَور کچھ نہیں تھا۔ یہ راوی ایسے وجود تھے کہ صرف اور صرف محبتِ الٰہی کا اظہار ہی اُن کا مطلوب و مقصود تھا اور روزوشب یہی اُن کی زندگیوں کا نصب العین تھا۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات اقدس اور آپؑ کے اخلاق عالیہ بیان کرنے والوں کی روایات عُشّاقِ احمدؑ کے قلب و روح میں سمائی ہوئی ایسی پاکیزہ یادیں ہیں جن میں مبالغے کا شائبہ تک نہیں۔ ان جاں نثار اصحاب احمدؑ نے اپنے محبوب آقاؑ کی مقدّس سیرت کو بیان کرتے ہوئے آپؑ کے ایک نہایت اہم فرمان کو بھی پیش نظر رکھا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی تصنیف ’’کتاب البریہ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں :

’’سوانح نویسی سے اصل مطلب تو یہ ہے کہ تا اس زمانہ کے لوگ یا آنے والی نسلیں ان لوگوں کے و اقعات زندگی پر غور کرکے کچھ نمونہ ان کے اخلاق یا ہمت یا زہد وتقویٰ یا علم ومعرفت یا تائید دین یا ہمدردی نوع انسان یا کسی اور قسم کی قابل تعریف ترقی کا اپنے لئے حاصل کریں ۔…اور ظاہر ہے کہ ایسے امور کے لئے کسی قدر مفصل واقعات کے جاننے کی ہرایک کو ضرورت ہوتی ہے۔ اور بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص ایک نامور انسان کے واقعات پڑھنے کے وقت نہایت شوق سے اس شخص کے سوانح کو پڑھنا شروع کرتا ہے اور دل میں جوش رکھتا ہے کہ اس کے کامل حالات پر اطلاع پاکر اس سے کچھ فائدہ اٹھائے ۔تب اگر ایسا اتفاق ہوکہ سوانح نویس نے نہایت اجمال پر کفایت کی ہو اور لائف کے نقشہ کو صفائی سے نہ دکھلایا ہو تو یہ شخص نہایت ملول خاطر اور منقبض ہوجاتا ہے۔ اور بسااوقات اپنے دل میں ایسے سوانح نویس پر اعتراض بھی کرتا ہے اور در حقیقت وہ اس اعتراض کا حق بھی رکھتا ہے کیونکہ اس وقت نہایت اشتیاق کی وجہ سے اس کی مثال ایسی ہوتی ہے کہ جیسے ایک بھو کے کے آگے خوان نعمت رکھا جائے اور معاًایک لقمہ کے اٹھانے کے ساتھ ہی اس خوان کو ا ٹھا لیا جائے۔اس لئے ۔…جو سوانح نویسی کے لئے قلم اٹھاویں کہ اپنی کتاب کو مفید عام اور ہر دلعزیز اور مقبول انام بنانے کے لئے نامور انسانوں کے سوانح کو صبر اور فراخ حوصلگی کے ساتھ اس قدر بسط سے لکھیں اور ان کی لائف کو ایسے طور سے مکمل کرکے دکھلاویں کہ اس کا پڑھنا ان کی ملاقات کا قائم مقام ہو جائے۔تا اگر ایسی خوش بیانی سے کسی کا وقت خوش ہو تو اس سوانح نویس کی د نیا اور آخرت کی بہبودی کے لئے دعا بھی کرے۔‘‘

(کتاب البریہ،روحانی خزائن جلد13صفحہ159تا 162،حاشیہ)

حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی رضی اللہ عنہ

جن اصحابِ احمدؑ نے اپنے آقا علیہ السلام کے بارے میں روایات قلمبند کی ہیں اُن میں ایک نہایت ہی قابل احترام وجود حضرت یعقوب علی عرفانی تراب رضی اللہ عنہ کا بھی ہے۔آپؓ ایک بلند پایہ عالم، اخبار ’’الحکم‘‘ کے بانی اور اس کے پہلے ایڈیٹر تھے۔29؍نومبر1875ءکو جالندھر میں آپؓ کی ولادت ہوئی۔ ہرتعلیمی درجہ میں امتیاز کے ساتھ کامیابی حاصل کرتے ہوئے آپ نے مڈل تک تعلیم حاصل کی، پھر عربی کی تعلیم حاصل کی اور سنسکرت سیکھی۔ آپؓ کی خودنوشت سوانح ’’میری سرگذشت‘‘ کے مطابق آپؓ 1889ء میں پہلی بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ بیعت 1892ء میں لاہور میں کی۔ 1893ء میں انٹرنس کرنے کے بعد تعلیم کو خیرباد کہہ دیا اور کچھ عرصہ سرکاری ملازمت کرنے کے بعد اخبار نویسی کا آغاز کیا اور 1894ء سے 1897ء تک بحیثیت ایڈیٹر کئی جرائد سے وابستہ رہے۔ 1897ء میں مارٹن کلارک کے مقدمہ کے حالات آپؓ نے ’’جنگ مقدس‘‘ کے نام سے لکھے۔ اسی سال امرتسر سے جماعت احمدیہ کا پہلا ہفت روزہ اخبار ’’الحکم‘‘جاری کیا۔ اخبار کا ماٹو تھا ’’لکھنا ہے تو مت ڈر۔ ڈرنا ہے تو مت لکھ‘‘۔ 1898ء میں یہ اخبار قادیان منتقل ہوگیا اور چند برسوں کے وقفہ کے ساتھ 1943ء تک جاری رہا۔ سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے ’’الحکم‘‘ اور ’’البدر‘‘ کو جماعت کے دو بازو قرار دیا تھا۔

حضرت یعقوب علی عرفانیؓ مدرسہ تعلیم الاسلام کے پہلے ہیڈماسٹر مقرر ہوئے۔ صدرانجمن احمدیہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری بھی رہے۔ 1924ء میں ویمبلے کانفرنس کے تاریخی موقع پر سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی معیت میں آپؓ یورپ کے سفر پر بھی تشریف لائے۔

جب آپؓ حضرت اقدس علیہ السلام کا ذکر کرتے تو آپؓ پر رقّت طاری ہوجاتی۔ حضور علیہ السلام کی تعلیم پر ہمیشہ صدق دل سے ایمان لائے۔ چنانچہ آپؓ نے خلافت کے مخالفین کا بھی نہایت جرأت سے مقابلہ کیا حتّٰی کہ حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کی وفات پر آپؓ نے ہی بآواز بلند مخالفین کو خاموش کروایا تھا۔ 1937ء میں آپؓ نے ایک وصیت تحریر فرمائی جس کا عنوان تھا:’’تمام سعادتوں اور برکتوں کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ خلافت کے دامن سے وابستہ رہو۔‘‘ آپؓ کی تصانیف 20 کے قریب ہیں۔ آپؓ نے 5؍دسمبر 1957ء کو 82 سال کی عمر میں سکندرآباد میں وفات پائی اورحیدرآباد دکن میں امانتاً تدفین عمل میں آئی۔

حضرت یعقوب علی عرفانی رضی اللہ عنہ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت، شمائل و اخلاق اور عادات کے بارے میں پانچ حصوں پر مبنی ایک کتاب تصنیف فرمائی۔ اس کتاب کا چوتھا حصہ بوجوہ دستیاب نہیں ہوسکا جبکہ باقی حصوں کو ایک جلد میں اکٹھا کرکے ساڑھے چھ سو صفحات پر مشتمل ایک ضخیم کتاب کی صورت میں محفوظ کردیا گیا ہے۔

یہ کتاب حضورعلیہ السلام کے شب و روز کی نہایت عمدہ تصویر ہے۔ آپؓ کا انداز بیان بہت دلچسپ، سادہ اور رواں ہے، بہت سے علمی مسائل کو سہل انداز میں حل کیا گیا ہے اور اخلاقی اور روحانی مراتب کے حصول کے لیے یہ کتاب آسان راہوں کی نشاندہی کرتی ہے کیونکہ اس میں خالص اسلامی تعلیمات اور اخلاقیات میں ڈھل جانے والے اور حَکَمو عدل کے منفرد مقام پر فائز ایک پاکیزہ وجود کی مقدّس زندگی کے تمام تر پہلوؤں کو تمام تر عقیدت اور احتیاط سے سپرد قلم کیا گیا ہے۔ سیرت کی شاندار کتاب ہونے کے ساتھ یہ دعوت الی اللہ کا بھی ایک خزانہ ہے اور بہت سے تبلیغی امور کی طرف راہنمائی اس میں موجود ہے۔ بلاشبہ نادر روایات کو ترتیب سے محفوظ کرکے پیش کرنے کے حوالے سے کی جانے والی حضرت یعقوب علی عرفانی صاحبؓ کی یہ گرانقدر کاوش قیامت تک آنے والی احمدی نسلوں پر ایک احسانِ عظیم ہے۔ جزاہم اللہ احسن الجزاء۔

اتنی ضخیم کتاب سے محض چند روایات کا انتخاب واقعۃً دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے تاہم ایک ادنیٰ سی کوشش کرتے ہوئے کتاب’’سیرۃالمہدی‘‘سے ایسی روایات کا انتخاب ذیل میں ہدیۂ قارئین ہے جو حضور علیہ السلام کی بعثت کے اس عالیشان مقصد کو پورا کرنے والی ہیں کہ ایسے معدوم اخلاق سے دنیا کو ایک بار پھر روشناس کروایا جائے جنہیں چودہ صدیوں کے طویل عرصے کے دوران اکثر مسلمان بھی فراموش کربیٹھے ہیں۔

٭…… حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اخلاق کی تقسیم دو قسموں پر کی ہے یعنی ایصال خیر اور ترک شر۔ ایصال خیر میں پہلا خلق عفوودرگزر ہے۔آپؑ کے اس خُلق عظیم کے متعلق کئی الہامات میں ربّانی شہادت بھی موجود ہے اور آپؑ کے عمل سے بھی ثابت ہے کہ آپؑ اگر کسی پر خفا ہوئے تو وہ محض خداتعالیٰ اور اُس کے رسولﷺ اور اُس کی کتاب کے لیے غیرت کا مقام ہوتا تھا۔ حضورؑ کے ایک پرانے خادم محمد اکبر خان صاحب سنوریؓ بیان فرماتے ہیں کہ جب مَیں وطن چھوڑ کر قادیان آگیا تو حضرت اقدسؑ نے اپنے مکان میں ٹھہرایا۔ حضورؑ عموماً رات کو موم بتّی جلایا کرتے تھے۔ میری لڑکی جو بہت چھوٹی تھی، وہ ایک دفعہ حضورؑ کے کمرے میں بتّی جلاکر رکھ آئی تو اتفاقاً اُس بتّی کے گرنے سے حضورؑ کے کئی مسوّدات ضائع ہوگئے اور چند دیگر چیزوں کا بھی نقصان ہوگیا۔ اس پر تمام گھر میں گھبراہٹ اور میری بیوی اور لڑکی کو سخت پریشانی ہوئی کیونکہ حضرت اقدسؑ کتابوں کے مسوّدات کو بڑی احتیاط سے رکھا کرتے تھے۔ لیکن جب حضورؑ کو واقعہ معلوم ہوا تو آپؑ نے صرف اتنا فرمایا کہ خدا کا بہت ہی شکر ادا کرنا چاہیے کہ کوئی اس سے زیادہ نقصان نہیں ہوگیا۔

٭…… حضرت اکبر خان صاحبؓ مزید بیان فرماتے ہیں کہ ایک بار حضورؑ جب مسجد مبارک کی چھت سے اپنے مکان پر جانے لگے تو دیار کی سیڑھی لگی ہوئی تھی۔ مَیں لالٹین پکڑ کر حضورؑ کو راستہ دکھانے لگا کہ اتفاق سے لالٹین ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ لکڑی پر تیل پڑا تو اوپر سے نیچے تک آگ لگ گئی۔ مَیں بہت پریشان ہوا۔ بعض لوگ بھی کچھ بولنے لگے لیکن حضرت اقدسؑ نے فرمایا: ’’خیر! ایسے واقعات ہو ہی جاتے ہیں، مکان بچ گیا۔‘‘

٭…… حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک بار ایک ملازمہ نے گھر سے کچھ چاول چرائے تو کسی تیزنظر نے اُس کے انداز سے تاڑ لیا اور پکڑلیا۔ اُس کی بغل سے کوئی پندرہ سیر کی گٹھڑی چاولوں کی نکلی۔ اُسے ملامت اور پھٹکار ہورہی تھی کہ حضورؑ اُدھر آنکلے۔ پوچھنے پر کسی نے واقعہ کہہ سنایا تو فرمایا: ’’محتاج ہے، کچھ تھوڑے سے اُسے دے دو اور فضیحت نہ کرو اور خداتعالیٰ کی ستّاری کا شیوہ اختیار کرو۔‘‘

٭…… حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کی روایت ہے کہ حضرت اقدسؑ ایک بار معمولاً اندر بیٹھے لکھ رہے تھے کہ میاں محمود (جن کی عمر کوئی چار برس ہوگی) دیاسلائی لے کر وہاں تشریف لائے۔ ساتھ بچوں کا ایک غول بھی تھا۔ پہلے کچھ دیر آپس میں کھیلتے رہے پھر جو کچھ دل میں آئی اُن مسوّدات کو آگ لگادی اور آپ لگے خوش ہونے اور تالیاں بجانے۔ قیمتی مسوّدات راکھ کا ڈھیر ہوگئے تو بچوں کو کسی اَور مشغلے نے اپنی طرف کھینچ لیا۔ جب حضرتؑ کو کسی گزشتہ کاغذ کے دیکھنے کی ضرورت ہوئی تو جس سے پوچھتے ہیں دبکا جاتا ہے، آخر ایک بچہ بول اُٹھا کہ میاں صاحب نے کاغذ جلا دیے۔ سب حیران اور انگشت بدنداں کہ اب کیا ہوگا۔ مگر حضرتؑ مسکراکر فرماتے ہیں:’’خوب ہوا، اس میں اللہ تعالیٰ کی کوئی بڑی مصلحت ہوگی اور اب خداتعالیٰ چاہتا ہے کہ اس سے بہتر مضمون ہمیں سمجھائے۔‘‘

٭…… حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کا بیان ہے کہ حضور علیہ السلام نے ایک بڑا بھاری دو ورقہ مضمون لکھا جس کی فصاحت و بلاغتِ خداداد پر حضرت کو بڑا ناز تھا۔ وہ جیب میں رکھ کر سیر کو چل دیے۔ واپسی پر آپؑ نے وہ کاغذ حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کے ہاتھ میں دے دیا کہ وہ پڑھ کر عاجز راقم کو دے دیں۔ لیکن آپؓ کے ہاتھ سے وہ مضمون گرگیا۔ واپس آکر جب حضرت معمولاً اندر چلے گئے تو مَیں نے کسی سے کہا کہ آج حضرت نے مضمون نہیں بھیجا اور کاتب سر پر کھڑا ہے اور ابھی مجھے ترجمہ بھی کرنا ہے۔ مولوی صاحب کو دیکھتا ہوں تو رنگ فق ہورہا ہے۔ آپؓ نے نہایت بےتابی سے لوگوں کو دوڑایا۔ حضرتؑ کو خبر ہوئی تو ہشاش بشاش چہرہ، تبسم ریز لب تشریف لائے اور بڑا عذر کیا کہ مولوی صاحب کو کاغذ کے گم ہونے سے بڑی تشویش ہوئی، مجھے افسوس ہے کہ اس کی جستجو میں اس قدر تگاپو کیوں کیا گیا۔ میرا تو اعتقاد ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے بہتر ہمیں عطا فرماوے گا۔

٭…… حضرت حافظ حامد علی صاحبؓ بھی حضورؑ کے پرانے خدام میں سے تھے۔ آپؓ کو ایک دفعہ کچھ لفانے اور کارڈ حضورؑ نے دیے کہ ڈاک خانے میں ڈال آؤ۔ آپؓ کسی اَور کام میں مصروف ہوئے تو اپنے مفوّض کو بھول گئے۔ ایک ہفتے بعد میاں محمود (جو ہنوز بچہ ہی تھے) کچھ لفافے اور کارڈ لیے دوڑتے ہوئے آئے کہ ابّا ہم نے کُوڑے کے ڈھیر سے خط نکالے ہیں۔ حضورؑ نے دیکھا تو وہی خطوط تھے جن میں بعض رجسٹرڈ خط بھی تھے اور آپؑ ان کے جواب کے منتظر تھے۔ آپؑ نے حافظ صاحبؓ کو بلاکر خط دکھائے اور بڑی نرمی سے صرف اتنا ہی کہا:’’حامدعلی!تمہیں نسیان بہت ہوگیا ہے۔ ذرا فکر سے کام لیا کرو۔‘‘

٭…… حضرت حافظ غلام محی الدین صاحبؓ جلدساز تھے، حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کے رضائی بھائی تھے اور اُن کے ساتھ ہی قادیان آگئے تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ کی ڈاک لانے اور لے جانے کا کام بھی کیا کرتے تھے۔ جب لیکھرام قتل ہوا تو حضورؑ کی خانہ تلاشی بھی ہوئی۔ اسی سلسلے میں حافظ صاحبؓ کے حجرہ کی تلاشی بھی ہوئی تو ایسے بہت سے خطوط برآمد ہوئے جو آپؓ ڈاک خانہ سے لائے تھے مگر رکھ کر بھول گئے تھے اور بہت سے حضورؑ کے بھی ایسے خطوط نکلے جو آپؓ نے کسی جگہ رکھے تو اُٹھانا یاد نہ رہا۔ جب حضور علیہ السلام کو اس کا علم ہوا تو آپؑ نے ہنستے ہوئے فرمایا:’’حافظ جی! یہ خط رکھنے کے لیے تو نہیں دیے گئے تھے۔ اگر آج یہ نہ دیکھے جاتے تو پتہ بھی نہ لگتا اور ہم سمجھتے رہتے کہ خط لکھ دیا ہوا ہے۔ اُدھر دوسرے لوگ سمجھتے کہ ہم خط لکھ چکے ہیں۔ خیر جو ہوگیا اچھا ہوگیا، مصلحتِ الٰہی یہی ہوگی۔‘‘حافظ صاحبؓ بےچارے شرمندہ اور نادم تھے مگر حضرت اقدسؑ نے اس سے زیادہ نہ کچھ کہا، نہ ہی پھر کبھی ذکر کیا اور نہ اُن کو ڈاک کے کام سے معزول کیا۔

٭…… حضرت اقدسؑ کے دشمنوں نے بھی آپؑ کے اس خلق عفو و درگزر کے بارہا نظارے دیکھے۔ چنانچہ ایک شخص احمد حسین شوکت نے جو میرٹھ کا رہنے والا تھا اور ایک اخبار ’’شحنہ ہند‘‘ چلاتا تھا۔ وہ خود کو مجدّدالسنہ مشرقیہ کہا کرتا تھا۔ حضورعلیہ السلام کی مخالفت میں اُس نے اپنے اخبار کا ایک ضمیمہ جاری کیا جس میں ہرقسم کے گندے مضامین شائع کیا کرتا تھا۔ ایک موقع پر جماعت احمدیہ میرٹھ کے صدر جناب شیخ عبدالرشید صاحب نے حضورعلیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ مَیں نے اس اخبار پر عدالت میں نالش کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ اس پر حضورؑ نے فرمایا:’’ہمارے لیے خدا کی عدالت کافی ہے۔ یہ گناہ میں داخل ہوگا اگر ہم خدا کی تجویز پر تقدّم کریں۔ اس لیے ضروری ہے کہ صبر اور برداشت سے کام لیں۔‘‘

٭…… ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک نے حضرت مسیح موعودؑ کے خلاف ایک مقدمہ اقدام قتل کا دائر کیا جو جھوٹا ثابت ہونے کے بعد ضلعی مجسٹریٹ گورداسپور کپتان ڈگلس نے خارج کردیا اور حضورؑ کو مخاطب کرکے کہا کہ ’’کیا آپ چاہتے ہیں کہ ڈاکٹر کلارک پر مقدمہ چلائیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں تو آپ کو حق ہے۔‘‘ اس پر حضورعلیہ السلام نے فرمایا: ’’مَیں کوئی مقدمہ کرنا نہیں چاہتا۔ میرا مقدمہ آسمان پر دائر ہے۔‘‘

٭…… مذکورہ مقدمے میں مولوی محمد حسین بٹالوی ایک گواہ کی حیثیت سے حضورعلیہ السلام کے خلاف پیش ہوئے۔ وہ رسالہ ’’اشاعۃالسنہ‘‘بٹالہ کے ایڈیٹر تھے۔ وہ دشمنی میں اتنا بڑھے ہوئے تھے کہ حضورؑ کے خلاف کفر و قتل کے فتوے شائع کرائے اور آخر اس جھوٹے مقدمہ قتل میں عیسائیوں کا گواہ ہوکر آئے۔ جب وہ حضورؑ کے خلاف دل کھول کر گواہی دے چکے تو حضرت اقدسؑ کے (غیرازجماعت) وکیل مولوی فضل الدین صاحب نے مولوی محمد حسین پر کچھ ایسے سوالات کرنے چاہے جو اُن کی عزت کو خاک میں ملا دیتے۔ مگر حضورؑ نے باصرار اور بزور اُن کو روکا اور فرمایا کہ یہ ایسی بات ہے کہ اُس کے اپنے اختیار سے باہر ہے اور مَیں اُس کی عزت کو برباد نہیں کرنا چاہتا۔پس ایسی شانِ رحم و درگزر کی مثال اور علوہمّتی کی نظیر تلاش کرو،نہیں ملے گی۔

٭…… حضرت مسیح موعودؑ اگرچہ قادیان کے مالکوں میں سے تھے لیکن آپؑ کے دعویٰ کے ابتدائی ایام میں قادیان کی زمین باوجود فراخی کے آپؑ اور آپؑ کے پیروکاروں پر تنگ کردی گئی۔ جس کی بڑی وجہ حضورؑ کے عم زاد بھائی مرزا امام الدین کی شدید دشمنی تھی۔ اُن دنوں سیّد احمد نُور صاحب جب کابل سے ہجرت کرکے قادیان آئے تو انہوں نے حضرت اقدسؑ کی اجازت سے ڈھاب میں اپنا مکان بنانا چاہا۔ جب انہوں نے تعمیر شروع کی تو قادیان کے بعض سکھوں اور برہمنوں نے حملہ کرکے اُن کو لہولہان کردیا۔ لڑائی میں ایک برہمن پالارام کی پیشانی سے بھی خون نکل آیا۔ حضورؑ کو علم ہوا تو فرمایا کہ ’’باہم صلح اور سمجھوتہ کرادینا چاہیے جس طرح بھی ہو۔‘‘ لیکن پالارام نے لوگوں کے کہنے پر حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ، مولوی محمد علی صاحب اور سیّد احمد نور صاحب پر نالش کردی۔ جب وہ صلح پر نہ مانا تو مجبوراً پولیس کو اطلاع دی گئی کیونکہ یہ بلوہ تھا۔ پولیس نے تفتیش کی اور سولہ مخالفین کا چالان کردیا۔ دونوں مقدمات سردار غلام حیدر صاحب کی عدالت میں تھے۔ مخالفین کے مقدمے کی بِنا چونکہ محض جھوٹ پر تھی اس لیے وہ پہلی ہی پیشی میں خارج ہوگیا۔ دوسرے مقدمہ میں پولیس نے ملزموں پر فرد جرم لگائی تھی اس میں شہادتوں کے مرحلے کے بعد مخالفین کو یقین ہوگیا کہ وہ سزایاب ہوں گے کیونکہ جرم اُن پر ثابت ہوچکا تھا۔ اس مرحلے پر ملزمان اپنے ہمراہ لالہ ملاوامل، لالہ شرمپت رائے اور بعض دوسرے لوگوں کو لے کر حضرت اقدسؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بڑی معذرت کی۔ یہ بھی کہا کہ آپؑ کے بزرگ ہمیشہ ہم سے سلوک کرتے آئے ہیں۔ اور یہ بھی بڑے مؤثق وعدوں کے ساتھ کہا کہ آئندہ ایسی حرکت سرزد نہ ہوگی۔حضرت مسیح موعودؑ نے اُن کی عرض داشت کو سُن کر معاف فرمادیا اور مجھ کو (یعنی حضرت شیخ یعقوب علی عرفانیؓ کو)حکم دیا کہ عدالت میں جاکر یہ کہہ دوں کہ حضرت صاحب نے ان لوگوں کو معاف کردیا ہے۔ مَیں نے واقعات کی صورت بیان کرتے ہوئے عرض کیا کہ یہ مقدمہ پولیس نے چالان کیا ہے اوراس میں سرکار مدعی ہے۔ سولہ ملزم ہیں اور ہمارے اختیار سے باہر ہے کہ ہم یہ مقدمہ بطور راضی نامہ ختم کردیں کیونکہ ہم مدعی نہیں۔ اس پر آپؑ نے فرمایا: ’’ہمارے اختیار میں جو کچھ ہے وہ کرلینا چاہیے۔ مَیں نے ان کو معاف کردیا ہے۔ میری طرف سے جاکر کہہ دیا جاوے کہ اُنہوں نے معاف کردیا ہے۔ … اگر عدالت منظور نہ کرے تو اس میں ہمارا کوئی اختیار نہیں ہے۔‘‘

دوسرے دن مَیں اور مفتی فضل الرحمٰن صاحب گئے اور عدالت میں جاکر حضرت اقدسؑ کا فیصلہ سنادیا۔ پولیس کو قدرتی طور پر جو افسوس ہونا چاہیے تھا وہ ظاہر ہے۔ مجسٹریٹ صاحب نے کہا کہ آپ کا کیا اختیار ہے، سرکار مدعی ہے، روئیداد مقدمہ ختم ہوچکی ہے، صرف حکم باقی ہے۔مَیں نے عرض کیا کہ ہم کو یہی حکم ہے اور وہ آپ تک پہنچادیا ہے۔ مجسٹریٹ صاحب بہت متأثر ہوئے اور انہوں نے کہا کہ جب حضرت صاحب نے معاف کردیا تو مَیں بھی معاف ہی کرتا ہوں۔ پھر ملزموں کو مخاطب کرکے کہا کہ ایسا مہربان انسان کم دیکھا گیا ہے جو دشمنوں کو اُس وقت بھی معاف کردے جبکہ وہ اپنی سزا بھگتنے والے ہوں۔پھر اُنہیں بہت ملامت کی کہ ایسے بزرگ کی جماعت کو تم تکلیف دیتے ہو، آج تم سب سزا پاتے مگر یہ مرزا صاحب کا رحم ہے کہ تم کو جیل خانہ سے بچادیا۔

ملزمان میں سنتاسنگھ بانگرو بھی تھا۔ اس مقدمے کے دوران وہ حضرت اقدسؑ کے دروازے پر آیا اور عرض کی کہ مرزا صاحب! مُشک کی ضرورت ہے، کسی جگہ سے ملتی نہیں۔ حضرت صاحب کو علم تھا کہ یہ اس فتنے میں ایک لیڈر کی طرح حصہ لیتا ہے لیکن آپؑ نے فرمایا: ’’ٹھہرو مَیں لاتا ہوں۔‘‘ چنانچہ آپؑ اندر تشریف لے گئے اور قریباً نصف تولہ مُشک لاکر اُس کے حوالے کردی۔

٭…… حضرت مسیح موعودؑ کے چچازاد بھائیوں میں سے مرزا امام الدین کو حضورؑ سے عناد تھا اور کوئی دقیقہ تکلیف دہی کا اُٹھا نہ رکھتا تھا۔ ایک مرتبہ اُس نے اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر بازار سے مسجد مبارک جانے والے راستے کو دیوار کے ذریعے بند کردیا۔ دیوار ہمارے سامنے بنتی رہی اور ہم کچھ نہ کرسکے۔ وجہ یہ نہ تھی کہ ہم کچھ کرنہ سکتے تھے بلکہ حضور علیہ السلام کی تعلیم تھی کہ شر کا مقابلہ شر سے نہ کرو۔ ورنہ اگر اجازت ہوتی تو وہ دیوار ہرگز نہ بن سکتی۔ وہ ایام عجیب تھے۔ ابتلاؤں پر ابتلا آتے تھے جن کے اندر جماعت ایک لذیذ ایمان کے ساتھ اپنی ترقی کی منزلیں طے کرتی تھی۔

غرض وہ دیوار چُن دی گئی اور اس طرح ہم نمازوں کے لیے مسجد مبارک میں جانے سے روک دیے گئے۔مسجد جانے کے لیے ایک لمبا چکّر لگانا پڑتا۔ بعض کمزور، ضعیف العمر انسان بھی تھے۔ بعض نابینا تھے اور بارشوں کے دنوں میں کیچڑ میں گرنے سے وہ گارے سے لت پت ہوجاتے تھے۔ حضورعلیہ السلام اپنے خدام کی ان تکالیف کو دیکھ کر بہت تکلیف محسوس کرتے تھے ۔ آخر مجبوراً عدالت میں جانا پڑا اور عدالت کے فیصلے کے موافق دیوار بنانے والوں کو اپنے ہی ہاتھ سے دیوار ڈھانی پڑی جو بجائے خود ایک نشان تھا۔ بلکہ عدالت نے ہرجانے اور خرچے کی ڈگری بھی فریق ثانی پر کردی۔ خواجہ کمال الدین صاحب نے ازخود کارروائی کرکے ڈگری جاری کروادی۔ اُس وقت تک مرزا امام الدین فوت ہوچکے تھے۔ فریق ثانی میں سے صرف مرزا نظام الدین صاحب زندہ تھے۔ جب حسبِ ضابطہ نوٹس اُنہیں ملا تو انہوں نے حضورؑ کو ایک خط لکھا کہ دیوار کے مقدمے کے خرچے وغیرہ کی ڈگری کے اجرا کا نوٹس میرے نام آیا ہے اور میری حالت آپ کو معلوم ہے۔ اگرچہ مَیں قانونی طور پر اس روپیہ کے ادا کرنے کا پابند ہوں اور آپ کو بھی حق ہے کہ آپ ہر طرح وصول کریں۔ مجھ کو یہ بھی معلوم ہے کہ ہماری طرف سے ہمیشہ کوئی نہ کوئی تکلیف آپؑ کو پہنچتی رہی ہے مگر یہ بھائی صاحب کی وجہ سے ہوتا تھا، مجھ کو بھی شریک ہونا پڑتا تھا۔ آپ رحم کرکے معاف فرمادیں۔ اگر معاف نہ کریں تو باقساط وصول کرلیں۔ حضور علیہ السلام کے پاس جس وقت وہ خط پہنچا تو آپؑ نے سخت رنج کا اظہار کیا کہ مجھ سے کیوں دریافت نہیں کیا گیا؟ خواجہ صاحب نے عذر کیا کہ محض میعاد کو محفوظ کرنے کے لیے ایسا کیا گیا ہے۔ حضورؑ نے اس عذر کو بھی پسند نہ فرمایا اور فرمایا کہ ’’آئندہ کبھی اس ڈگری کو اجرا نہ کرایا جاوے۔ ہم کو دنیاداروں کی طرح مقدمہ بازی اور تکلیف دہی سے کچھ کام نہیں۔ انہوں نے اگر تکلیف دینے کے لیے یہ کام کیا تو ہمارا یہ کام نہیں ہے، خدا نے مجھے اس غرض کے لیے دنیا میں نہیں بھیجا۔‘‘ پھر حضورؑ نے اُسی وقت مرزا نظام الدین صاحب کے نام خط لکھا جس میں نہایت ہمدردی کا اظہار تھا اور اُن کو اس ڈگری کے کبھی اجرا نہ کرنے کے متعلق یقین دلایا گیا تھا اور سب کچھ معاف کردیا تھا۔

================

امرواقعہ یہی ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کو جب موقع ملا تو آپؑ نے اُسی طرح ’’لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ‘‘کہہ دیا جس طرح پر سیّدالرسلﷺ نے فتح مکہ کے دن فرمایا تھا۔ اسی طرح اکرام ضیف بھی انبیاء علیہم السلام کی سنّت میں داخل ہے اور حقیقت میں یہ خُلق کامل طور پر اُن میں ہی پایا جاتا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ کی تو خصوصیت سے اس کی طرف توجہ تھی جس کی وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو قبل از وقت وحی الٰہی کے ذریعے سے خبر دے دی تھی کہ تیرے پاس دُوردراز سے لوگ آئیں گے۔ چنانچہ اگر کوئی مہمان بظاہر دینی غرض کے لیے نہ بھی آیا ہوتا بلکہ شکل و صورت سے مشتبہ بھی پایا جاتا تو بھی آپؑ اُس کی مہمان نوازی میں کوئی فرق نہ فرماتے۔

٭…… حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک مہمان نے آکر کہا کہ میرے پاس بسترا نہیں ہے۔ حضرت صاحب نے حافظ حامد علی صاحبؓ کو کہا کہ اس کو لحاف دے دو۔ انہوں نے عرض کیا کہ یہ شخص لحاف لے جائے گا۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس پر حضورؑ نے فرمایا کہ ’’اگر یہ لحاف لے جائے گا تو اس کا گناہ ہوگا اور اگر بغیر لحاف کے سردی سے مرگیا تو ہمارا گناہ ہوگا۔‘‘

٭…… حضرت مفتی صاحبؓ مزید بیان فرماتے ہیں کہ ابتدائی زمانے میں حضور علیہ السلام نے مجھے اپنی رہائش گاہ سے ملحقہ مکان میں ٹھہرایا۔ اُن دنوں قادیان میں ضروری اشیاء بھی بڑی دقّت سے ملا کرتی تھیں۔ جبکہ مہمانوں کا کھانا گھر سے ہی تیار کرکے حضرت اُمّ المومنینؓ بھجوایا کرتی تھیں، ایک مرتبہ مہمان کثرت سے آگئے کہ آپؓ گھبراگئیں۔ تب حضورؑ نے بیوی صاحبہ کو ایک کہانی سنائی۔ فرمایا کہ ایک شخص کو جنگل میں رات آگئی۔ اُس نے ایک درخت کے نیچے بسیرا کردیا۔ اس درخت کے اوپر ایک کبوتر اور کبوتری کا گھونسلہ بنا ہوا تھا۔ وہ دونوں آپس میں باتیں کرنے لگے کہ ہمارے ہاں مہمان آیا ہے، اس کی کیا خاطر کریں۔ نَر نے کہا کہ سردی ہے، بسترا اس کے پاس نہیں، ہم اپنا آشیانہ گرادیں تاکہ اسے جلاکر یہ رات گزارلے۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ پھر انہوں نے سوچا کہ اس کے واسطے کھانا نہیں ہے۔ ہم دونوں اپنے آپ کو نیچے گرادیں تاکہ وہ ہمیں بھی کھالے۔

٭…… ایک واقعہ جس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مہمان نوازی کے ساتھ سادگی اور بےتکلّفی بھی ایک شان سے نمایاں ہوتی ہے حضرت ڈاکٹر عبداللہ صاحبؓ نومسلم یوں بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ لاہور سے دو دن کی رخصت لے کر قادیان آیا۔رات بٹالہ میں گزاری اور صبح سویرے پیدل قادیان کو روانہ ہوگیا ۔ ابھی سورج تھوڑا ہی نکلا تھا کہ قادیان پہنچ گیا۔ جب مسجد اقصیٰ کے پاس پہنچا تو حضرت مسیح موعودؑ کو کھڑے ہوئے دیکھا۔ آپؑ نے بھی مجھے دیکھ لیا اور اپنی جگہ سے چل کر میرے راستے کی طرف آگئے۔ مَیں نے قریب پہنچ کر السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہٗ کہا۔ آپؑ نے وعلیکم السلام فرمایا اور فرمایا کہ اس وقت کہاں سے آئے ہو؟ مَیں نے عرض کیا کہ مَیں رات بٹالہ میں رہا ہوں اور اب حضور کی خدمت میں وہاں سے سویرے چل کر حاضر ہوا ہوں۔ پوچھا :پیدل آئے ہو؟ مَیں نے عرض کیا کہ ہاں حضور۔ افسوس کے لہجے میں فرمایا کہ تمہیں بڑی تکلیف ہوئی ہوگی۔ مَیں نے عرض کیا کہ حضور! کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ آپؑ نے فرمایا: اچھا بتاؤ چائے پیوگے یا لسّی؟ مَیں نے عرض کیا کہ حضور کچھ بھی نہیں پیوں گا۔ آپؑ نے فرمایا: تکلّف کی کوئی ضرورت نہیں، ہمارے گھر گائے ہے جو کہ تھوڑا سا دودھ دیتی ہے۔ گھر والے چونکہ دہلی گئے ہوئے ہیں اس لیے اس وقت لسّی بھی موجود ہے اور چائے بھی، جو چاہو پی لو۔ مَیں نے کہا: حضور! لسّی پیوں گا۔ آپؑ نے فرمایا: اچھا چلو مسجد مبارک میں بیٹھو۔ مَیں مسجد میں آکر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد بیت الفکر کا دروازہ کھلا۔ مَیں کیا دیکھتا ہوں کہ حضورؑ ایک کوری ہانڈی معہ کوری چپنی کے خود اٹھائے ہوئے دروازے سے نکلے، ہانڈی میں لسّی اور چپنی پر نمک تھا اور اس کے اوپر ایک گلاس رکھا ہوا تھا۔ حضورؑ اپنے دست مبارک سے گلاس میں لسّی ڈالنے لگے۔ مَیں نے خود گلاس پکڑلیا۔ اتنے میں چند اَور دوست بھی آگئے۔ مَیں نے انہیں بھی لسّی پلائی اور خود بھی پی۔ پھر حضورؑ ہانڈی اور گلاس لے کر اندر تشریف لے گئے۔ یہ حضورؑ کے اخلاق کریمانہ کی ایک ادنیٰ مثال ہے۔

٭…… حضرت مولوی علی احمد صاحب بھاگلپوریؓ بیان فرماتے ہیں کہ مَیں پہلی مرتبہ فروری 1908ء میں قادیان آیا تو حضرت عبدالرحیم صاحب نیّرؓ نے ایک رقعہ کے ذریعے حضورؑکو میرے آنے کی اطلاع دی ۔ اس پر حضورعلیہ السلام نے مہمان خانہ کے مہتمم کو بلاکر میری راحت رسانی کی سخت تاکید فرمائی کہ وہ بےچارے پریشان سے ہوگئے۔ مَیں نے انہیں یہ کہہ کر مطمئن کیا کہ مَیں یہاں آرام اٹھانے اور مہمان داری کرانے کے لیے نہیں آیا بلکہ اُس مقصد کے حصول کی کوشش میں آیا ہوں جس کو لے کر حضورؑ مبعوث ہوئے ہیں۔

٭…… حضرت مولانا حسن علی صاحبؓ بھاگلپوری پہلے اسلامی مبلغ تھے جنہوں نے 1886ء میں پٹنہ کے ایک سکول کی ہیڈماسٹری سے استعفیٰ دے کر اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا فریضہ اپنے ذمہ لے لیا۔ انہوں نے جب حضرت مسیح موعودؑ کا ذکر سنا تو حضور علیہ السلام نے اُس وقت تک کوئی دعویٰ نہیں کیا تھا اور نہ ابھی بیعت لیتے تھے۔ البتہ کتابیں آپؑ کی شائع ہورہی تھیں اور اکثر نیک دل اور سلیم الفطرت لوگ حضورؑ سے فیض پانے کے لیے قادیان بھی آتے رہتے تھے۔ حضرت مولوی صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ جب مَیں امرتسر گیا تو ایک بزرگ کا سنا جو مرزا غلام احمد کہلاتے ہیں، ضلع گورداسپور کے ایک گاؤں قادیان میں رہتے ہیں اور عیسائیوں، برہموؤں اور آریہ سماج والوں سے خوب مقابلہ کرتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے ایک کتاب براہین احمدیہ نام بنائی ہے جس کا بڑا شہرہ ہے۔ ان کا بہت بڑا دعویٰ یہ ہے کہ اُن کو الہام ہوتا ہے۔ مجھ کو یہ دعویٰ معلوم کرکے تعجب نہ ہوا۔ گو مَیں ابھی تک اس الہام سے محروم ہوں جو نبی کے بعد محدّث کو ہوتا رہا ہے لیکن مَیں اس بات کو بہت ہی عجیب نہیں سمجھتا تھا۔ مجھ کو معلوم تھا کہ علاوہ نبی کے بہت سے بندگانِ خدا ایسے گزرے ہیں جو شرفِ مکالمہ الٰہیہ سے ممتاز ہوا کیے ہیں۔ غرض میرے دل میں جناب مرزا غلام احمد صاحب سے ملنے کی خواہش ہوئی۔ امرتسر کے دو ایک دوست میرے ساتھ چلنے کو مستعد ہوئے۔ …مرزا صاحب مجھ سے بڑے تپاک اور محبت سے ملے۔ جناب مرزا صاحب کے مکان پر میرا وعظ ہوا۔ انجمن حمایت اسلام لاہور کے لیے چندہ بھی ہوا۔ میرے ساتھ جو صاحب تشریف لے گئے وہ مرزا صاحب کے دعویٰ الہام کی وجہ سے سخت مخالف تھے اور مرزا صاحب کو فریبی اور مکّار سمجھتے تھے۔ لیکن مرزا صاحب سے مل کر اُن کے سارے خیالات بدل گئے اور میرے سامنے انہوں نے جناب مرزا صاحب سے اپنی سابق کی بدگمانی کے لیے معذرت کی، مرزا صاحب کی مہمان نوازی کو دیکھ کر مجھ کو بہت تعجب سا گزرا۔ ایک چھوٹی سی بات لکھتا ہوں جس سے سامعین ان کی مہمان نوازی کا اندازہ کرسکتے ہیں۔ مجھ کو پان کھانے کی بُری عادت تھی۔ امرتسر میں تو مجھے پان ملا لیکن بٹالہ میں مجھ کو کہیں پان نہ ملا، ناچار الائچی وغیرہ کھاکر صبر کیا۔ میرے امرتسر کے دوست نے کمال کیا کہ حضرت مرزا صاحب سے نہ معلوم کس وقت میری اس بُری عادت کا تذکرہ کردیا۔ جناب مرزا صاحب نے گورداسپور ایک آدمی روانہ کیا۔ دوسرے دن گیارہ بجے دن کے جب کھانا کھاچکا تو پان موجود پائے۔ سولہ کوس سے پان میرے لیے منگوائے گئے تھے۔

حضور علیہ السلام کے اخلاق ہی تھے کہ حضرت مولانا حسن علی صاحبؓ سات سال بعد 1894ء میں دوبارہ قادیان حاضر ہوئے اور احمدیت قبول کرلی۔

٭…… حضرت میر حامد شاہ صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ ابتدائی زمانے میں ایک دفعہ قادیان میں کچھ عرصہ قیام کے بعد رخصت حاصل کرنے کے لیے خدمت اقدسؑ میں پیغام بھجوایا تو حضورؑ نے فرمایا:وہ ٹھہریں، ہم ابھی باہر آتے ہیں۔

حضورعلیہ السلام تشریف لائے تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضورؑ کے ہاتھ میں دودھ کا بھرا ہوا لوٹا ہے اور گلاس شاید حضرت میاں صاحب کے ہاتھ میں ہے اور مصری رومال میں ہے۔ گلاس میں دودھ ڈالا گیا اور مصری ملائی گئی۔ پھر گلاس بھرکر مجھے دیا۔ مَیں نے پی لیا تو دوسرا گلاس عنایت فرمایا گیا مَیں نے وہ بھی پی لیا۔ میرا پیٹ بھر گیا۔ پھر اسی طرح تیسرا گلاس بھرا گیا۔ مَیں نے بہت شرمگیں ہوکر عرض کیا کہ حضور! اب تو پیٹ بھر گیا ہے۔ فرمایا:اَور پی لو۔ مَیں نے وہ تیسرا گلاس بھی پی لیا۔ پھر حضورؑ نے اپنی جیب خاص سے چھوٹی چھوٹی بسکٹیں نکالیں اور فرمایا کہ جیب میں ڈال لو، راستے میں اگر بھوک لگی تو یہ کھانا۔ مَیں نے وہ جیب میں ڈال لیں۔ حضرت محمود لوٹا اور گلاس لے کر اندر تشریف لے گئے اور حضورؑ نے فرمایا کہ چلو آپ کو چھوڑ آئیں۔ مَیں نے عرض کیا کہ حضور! اب مَیں سوار ہو جاتا ہوں اور چلا جاؤں گا، حضورؑ تکلیف نہ فرمائیں۔ مگر حضورؑ مجھ کو ساتھ لے کر روانہ ہوپڑے۔ جو دیگر احباب وہاں جمع ہوگئے تھے وہ بھی ساتھ ہولیے۔ کافی دُور تک نکل گئے تو حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ نے مجھے کان میں فرمایا کہ آگے ہوکر عرض کرو اور رخصت لو۔ مَیں حسب ارشاد آگے بڑھا اور عرض کیا کہ حضور! اب سوار ہوتا ہوں، حضور تشریف لے جائیں۔ حضورؑ نے مسکراتے ہوئے فرمایا:اچھا ہمارے سامنے سوار ہوجاؤ۔ تب مَیں یکہ میں بیٹھ گیا اور سلام عرض کیا تو پھر حضورؑ واپس ہوئے۔

٭…… منشی عبدالحق صاحب ایک زمانے میں عیسائی ہوگئے تھے۔ پھر حضورعلیہ السلام کی بعض تحریروں کو پڑھ کر حضورؑ کی خدمت میں عریضہ لکھا کہ وہ اسلام کی حقانیت کو عملی رنگ میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ جواب لکھا گیا کہ کم از کم دو ماہ کے لیے قادیان آجائیں۔ چنانچہ وہ دسمبر 1901ء میں قادیان پہنچے۔ حضورؑ کو اطلاع ہوئی تو ناسازیٔ طبع کے باوجود باہر تشریف لے آئے۔ بعدازاں حضورؑ کی تبلیغ سے وہ دوبارہ مسلمان ہوگئے اور کئی رسالے بھی تالیف کیے۔ بہرحال حضورؑ نے قادیان پہنچنے پر اُن سے فرمایا: ’’آپ ہمارے مہمان ہیں اور مہمان وہی آرام پاسکتا ہے جو بےتکلّف ہو۔ پس آپ کو جس چیز کی ضرورت ہو مجھے بلاتکلّف کہہ دیں۔‘‘

پھر حضورؑ نے جماعت کو مخاطب کرکے فرمایا:’’دیکھو! یہ ہمارے مہمان ہیں اور تم میں سے ہر ایک کو مناسب ہے کہ ان سے پورے اخلاق سے پیش آوے اور کوشش کرتا رہے کہ ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔‘‘

حضورؑ قریباً روزانہ منشی صاحب سے فرماتے کہ آپ مہمان ہیں، آپ کو جس چیز کی تکلیف ہو مجھے بےتکلّف کہیں کیونکہ مَیں تو اندر رہتا ہوں اور نہیں معلوم ہوتا کہ کس کو کیا ضرورت ہے۔ مہمانوں کی کثرت کی وجہ سے بعض اوقات خادم بھی غفلت کرسکتے ہیں۔ آپ اگر زبانی کہنا پسند نہ کریں تو مجھے لکھ کر بھیج دیا کریں۔ مہمان نوازی تو میرا فرض ہے۔

٭…… قادیان میں لنگر جاری تھا لیکن اگر کوئی ہندو مہمان آتا تو اُس کے لیے خصوصیت سے انتظام کرنا پڑتا۔ اکتوبر 1902ء میں ایک ہندوسادھو قادیان آیا اور حضورؑ سے ملاقات کی تو آپؑ نے نہایت شفقت سے فرمایا کہ یہ ہمارا مہمان ہے، اس کے کھانے کا انتظام بہت جلد کردینا چاہیے۔ پھر ایک شخص کو خاص طور پر حکم دیا کہ ایک ہندو کے گھر اس کے لیے بندوبست کیا جاوے۔ چنانچہ فوراً یہ انتظام کیا گیا۔

٭…… حضرت یعقوب علی عرفانی صاحبؓ فرماتے ہیں کہ میاں رحمت اللہ باغانوالہ 1905ء میں قادیان آئے جب حضورعلیہ السلام باغ میں قیام فرما تھے۔ میاں صاحب مہمان خانہ میں ٹھہرے لیکن تکلّف سے کام لیا اور بیمار ہوگئے۔ مجھ کو خبر ہوئی تو مَیں نے اُن سے وجہ دریافت کی تو بتایا کہ روٹی کچی تھی اور تنور کی روٹی کھانے کی مجھے عادت نہیں۔ مجھے اُن کی تکلیف کا احساس ہوا۔ میری طبیعت بےدھڑک سی واقع ہوئی ہے۔ مَیں سیدھا حضرت صاحب کے پاس گیا اور واقعہ عرض کرکے کہا کہ حضور!یا تو مہمانوں کو سب لوگوں پر تقسیم کردیا کرو اور یا پھر انتظام ہو کہ تکلیف نہ ہو۔ مَیں آج سمجھتا ہوں اور اس احساس سے میرا دل بیٹھنے لگتا ہے کہ مَیں نے خداتعالیٰ کے مامور و مُرسل کے حضور اس رنگ میں کیوں عرض کی؟ مگر اس رحم و کرم کے پیکر نے اس طرف ذرا بھی توجہ نہیں کی کہ مَیں نے کس رنگ میں بات کی ہے۔ فرمایا:آپ نے بہت ہی اچھا کیا کہ مجھ کو خبر دی، مَیں ابھی گھر سے چپاتیاں پکوانے کا انتظام کردوں گا۔

پھر حضورؑ نے لنگر کے مہتمم کو بلاکر تاکید فرمائی اور فرمایا کہ میاں رحمت اللہ آسکتے ہوں تو اُن کو بھی لے آؤ۔ مَیں نے جاکر پیغام دیا تو میاں صاحب بہت محجوب ہوئے کہ آپ نے کیوں حضرت کو تکلیف دی۔ خیر مَیں اُنہیں حضورؑ کے پاس لے گیا۔ حضورؑ نے اُن سے بہت عذر کیا کہ بڑی غلطی ہوگئی۔ آپ کو تکلّف نہیں کرنا چاہیے تھا۔ مَیں باغ میں تھا ورنہ تکلیف نہ ہوتی۔ اب انشاءاللہ انتظام ہوگیا ہے۔ جس قدر حضرت عذر اور دلجوئی کریں مَیں اور میاں صاحب اندر ہی اندر نادم ہوں۔ پھر جتنے دن وہ رہے، حضرت نے روزانہ مجھ سے دریافت فرمایا کہ تکلیف تو نہیں!

حضورعلیہ السلام کے دسترخوان پر دوست دشمن کی کوئی خاص تمیز نہ تھی۔ ہر مہمان کے ساتھ آپؑ پورے احترام اور فیاضی سے برتاؤ کرتے تھے اور اکثر فرمایا کرتے تھے کہ مہمان کا دل شیشے سے بھی نازک ہوتا ہے۔ اسی لیے بار بار لنگرخانہ کے خدام کو خود تاکید فرمایا کرتے تھے۔ اور محض اسی خیال سے کہ مہمانوں کو کوئی تکلیف نہ ہو، آپؑ نے اپنی حیات میں لنگرخانہ کا انتظام اپنے ہاتھ میں رکھا۔ آپؑ کا یہ بھی معمول تھا کہ آپؑ ہر مہمان کے متعلق اس امر کا بھی التزام رکھتے تھے کہ وہ کس قسم کی عادات کھانے کے متعلق رکھتا ہے۔ مثلاً اُن علاقوں کے مہمانوں کے کھانے میں چاول کا خاص طور پر التزام ہوتا جہاں کی عام غذا چاول ہے۔

حضرت اقدسؑ کے معمولات میں یہ بات بھی تھی کہ جب آپؑ دسترخوان پر مہمانوں کے ساتھ بیٹھتے تھے تو ہمیشہ سب مہمانوں کے کھا چکنے کے بعد بھی بہت دیر تک کھاتے رہتے اور غرض یہ ہوتی تھی کہ کوئی شخص حجاب نہ کرے اور بھوکا نہ رہے۔ اگرچہ آپؑ کی خوراک بہت ہی کم تھی لیکن دسترخوان بہت وسیع تھا اور مہمان نوازی عدیم المثال تھی۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button