متفرق مضامین

جب مہتاب لبِ جُو آیا

(نصیر احمد حبیب۔ لندن)

اسلام کی تاریخ کا احیا ہوگا لیکن یہ احیا جمالی رنگ میں دلائل و براہین کے ذریعے ہوگا نہ کہ توپ و تفنگ سے

قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:وَلَنۡ یَّجۡعَلَ اللّٰہُ لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ سَبِیۡلًا۔(النسا:142) اور اللہ کافروں کو مومنوں پر کوئی اختیار نہیں دے گا۔

اس کے بر عکس امت مسلمہ کا یہ حال ہو چکا تھا کہ بقول مولانا ابوالکلام آزاد ’’انیسویں صدی کے اوائل میں جب روسیوں نے بخارا کا محاصرہ کیا تو امیر بخارا نے حکم دیا کہ تمام مدرسوں اور مسجدوں میں ختم خواجگان پڑھا جائے۔ اُدھر روسیوں کی قلعہ شکن توپیں شہر کا حصار منہدم کر رہی تھیں۔ ادھر لوگ ختم خواجگان کے حلقوں میں بیٹھے ’’یا مقلب القلوب: یا محوّل الاحوال کے نعرے بلند کر رہے تھے۔ بالآخر وہی نتیجہ نکلا،جو ایک ایسے مقابلہ کا نکلنا تھاجس میں ایک طرف گولہ بارود ہو اور دوسری طرف ختم خواجگان!‘‘(شیخ اکرام: موج کوثر صفحہ 277)

غرض نیل کے ساحل سے لےکر تابخاک کاشغر امت مسلمہ کی حالت ایسی ہو رہی تھی ’’جیسی اب ہے تیری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی‘‘۔لیکن یہ سب کچھ امت مسلمہ کےساتھ مخبر صادق افضل الانبیاء سرورکائنات آنحضرت ﷺ کی اس پیشگوئی کےمطابق ہو رہا تھا جس میں آپؐ نے فرمایا :يُوشِكُ أَنْ يَّأْتِيَ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يَبْقَى مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَّا اسْمُهُ، وَلَا يَبْقَى مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا رَسْمُهُ، مَسَاجِدُهُمْ عَامِرَةٌ وَهِيَ خَرَابٌ مِنَ الْهُدٰى، عُلَمَاءُهُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ أَدِيمِ السَّمَاءِ منْ عِنْدِهِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَةُ وَفِيْهِمْ تَعُوْدُ۔(مشکوٰۃ، کتاب العلم الفصل الثالث صفحہ 38)

اس پیشگوئی کا ایک ایک لفظ پورا ہوا۔ چنانچہ 1857ء کے حادثہ جانکاہ سے پہلے جو کچھ دلی میں ہو رہا تھا سرسید احمد خان کی سوانح ’’حیات جاوید‘‘ میں لکھا ہے :’’اُس زمانہ میں خواجہ محمد اشرف ایک بزرگ دلی میں تھے۔ ان کے گھر پر بسنت کا جلسہ ہوتا تھا۔ شہر کے خواص وہاں مدعو ہوتے تھے۔نامی نامی طوائف زرد لباس پہن کر وہاں آتی تھیں۔ مکان میں بھی زرد فرش ہوتا تھا۔ …حوض میں بھی زرد ہی پانی کے فوارے چھوٹتے تھے۔ صحن میں جو چمن تھا اس میں زرد پھول کھلے ہوئے ہوتے تھے۔اور طوائف باری باری بیٹھ کر گاتی تھیں۔… اسی طرح خواجہ میر درد کے سجادہ نشین ہر مہینےکی چوبیس کو رات کے وقت ایک درویشانہ جلسہ کیا کرتے تھے۔ اس میں بھی بڑے بڑے گویے آتے تھے۔ دیرپت اور خیال گاتے تھے۔ ‘‘(الطاف حسین حالی: حیات جاوید، مطبع مفید عام آگرہ، 1903، صفحہ36)

لَا يَبْقَى مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا رَسْمُهُ کا جہاں تک تعلق ہےتو اس زمانے میں بقول علامہ اقبال :’’تاریخ اسلام میں سب سے زیادہ مظلوم قرآن ہے‘‘(ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم: تشبیہات رومی، ثقافت اسلامیہ لاہور 1959ء صفحہ60)

خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں

یہ سب کچھ اس دور کے علماء کے ہاتھوں ہو رہا تھا۔ ڈپٹی نذیر احمد دہلوی بیان کرتے ہیں:’’ایک مرتبہ دوالین (ضالین) اور زوالین (ضالین) پر بلوہ ہوگیا۔ بلوائی میری عدالت میں پیش ہوئے، میں نے ایک فریق سے پوچھاتم کون ہو کہنے لگے دوالین (ضالین) دوسرے فریق سے پوچھا تم کون ہو کہنے لگے زوالین (ضالین) ۔ میں ہنس پڑا کہ دونوں ہی گمراہ ہیں‘‘(ڈاکٹر بشارت احمد:مجدد اعظم حصہ سوم۔لاہور 1944ء صفحہ 10)

الغرض امت مسلمہ مذکورہ بالا حدیث کی مثال بن چکی تھی۔لہٰذا تائید الٰہی بھی ان کا ساتھ چھوڑ چکی تھی۔ کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوۡمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوۡا مَا بِاَنۡفُسِہِمۡ(الرعد:12)کہ یقیناً اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اُسے تبدیل نہ کریں جو اُن کے نفوس میں ہے۔

آنحضرت ﷺ کی پیش گوئی کے مطابق اسلام اور قرآن نام اور رسم کے طور پر باقی رہ گیا تھا لیکن اسے واپس بھی وہی مطاہر وجود لا سکتا تھا جس کے بارے میں مخبر صادق سرورکائناتﷺ نے پیش گوئی فرمائی تھی کہ جب یہ آیت وَاٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ نازل ہوئی تو آپ ﷺ نے حضرت سلمان فارسیؓ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ جب ایمان ثریا ستارے پر اُٹھ جائے گا تو اہل فارس میں سے ایک شخص یا فرمایا بہت سے اشخاص ایمان کو دوبارہ دنیا میں قائم کریں گے۔(بخاری کتاب التفسیر سورۃ الجمعۃ)

آئیے تاریخ کے آئینے میں دیکھتے ہیں، یہ سعادت کس کے حصے میں آئی کہ دیکھنے والوں نے لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ کا نظارہ دیکھا اور جمالی رنگ میں اسلام کی فتوحات کا سلسلہ پھر شروع ہوگیا جیسا کہ قرون اولیٰ میں جلالی رنگ میں وقوع پذیر ہوا تھا۔

اس دَور کا منظر یہ تھا کہ بقول ڈبلیو سی سمتھ ’’دور جدید کے مسلمانوں کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ تاریخ کا احیاء کیسےکیا جائے۔‘‘

(W. C Smith, Islam in Modern history, p41)

امت مسلمہ کے لیے یہ دَور انتہائی نازک تھا۔اس صورت حال میں مسلم دنیا میں دو قسم کی تحریکوں نے جنم لیا۔ ایک جو جدت پسند کہلائے دوسرے وہ جنہیں قدامت پسند کہا گیا۔ ہندوستان میں جدت پسندی کے علمبردار سرسید احمد خان نے 1857ء کا خونی سانحہ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا ۔ایک وقت وہ اس قدر مایوس ہو گئے کہ انہوں نے مصر ہجرت کر جانے کا ارادہ کرلیا۔لیکن پھر انہوں نے یہ ارادہ بدل دیا اور قوم کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا۔ انہوں نے تحریک علی گڑھ کی بنیاد رکھی تاکہ جدید تعلیم کے حصول کے ذریعے اپنی قوم کوذلت ادبار کی اتھاہ گہرائیوں سے نکالا جا سکے۔سرسید کا خیال تھا کہ اگر دین چلا جائے تو دنیا ہاتھ سے نہیں جاتی لیکن اگر دنیا ہاتھ سے چلی جائے تو پھر دین بھی چلا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک موقع پر انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کو دیکھ کر کہا تھا کہ ان کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آواز حق بلند کی تھی کہ اگر تمہارا آسمان سے تعلق مضبوط ہے تو زمین تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔لیکن سرسید دنیا بچانے کی فکر میں تھے۔لیکن دنیا ہاتھ آئی یا نہیں، دین ہاتھ سے گیا۔

ان تحریکات سے متاثر بعض نوجوانوں نے علی گڑھ میں ایک Anti Godسوسائٹی قائم کی جس کی خبر سن کر علامہ اقبال کی نیند اڑ گئی۔ اور دنیا ہاتھ اس طرح آئی کہ آج ڈیڑھ سو سال ہونے کو آیا ہے پوری اسلامی دنیا کا جی ڈی پی جاپان کے جی ڈی پی سے بھی کم ہے۔ایسا کیوں ہوا؟ کیمبرج ہسٹری آف اسلام میں اس مسئلہ کی وضاحت کی گئی ہے:

’’it is obvious that the simple borrowing of a foreign system of education, shorn of the spiritual, moral and cultural basis which gave birth to it, is not likely to produce results, unless a new and adequate basis of it is created from Islamic traditions and its values. As pointed out before, even with regard to pure technology, … To put the matter quite concretely, an engineer may know how to build a bridge, but why he should build one, and with what efficiency and zeal, depend entirely on the values that motivate him.‘‘(Cambridge history of Islam vol 2B page 655,656)

یعنی کوئی تعلیمی نظام اخلاقی اقدار کے بغیر کوئی نتیجہ پیدا نہیں کر سکتا۔یعنی کوئی انجینئر یہ تو سیکھ سکتا ہے کہ پل کیسے بنایا جائے، لیکن وہ کیوں بنائے؟ کس مقصد سے؟ اور جوش و جذبہ سے اس کا انحصار ان اقدار پہ ہوتا ہے جو اسے تحریک دیتی ہیں۔

یہی بات حضرت مسیح موعودؑ فرمارہے تھے کہ اگر تمہارا تعلق آسمان سے مضبوط ہے تو زمین تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ اگر آج سرسید احمد خان زندہ ہوتے تو انہیں حضرت مسیح موعودؑ کے مقام کی اہمیت کا اندازہ ہوتا۔ گویا ہماری جدت پسند اشرافیہ کا رویہ ہندوستان کی قدیم داستانوں میں بیان کی گئی ایک بڑھیا کی طرح تھا جس کی سوئی گھر کے اندر گم ہو گئی لیکن وہ اسے باہر چاند کی روشنی میں تلاش کر رہی تھی ، پوچھنے پر اس نے بتایا کیونکہ یہاں روشنی ہے اندر اندھیرا ہے۔ لیکن جہاں چیز گم ہوئی وہیں تلاش کیے بغیر مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

یہی اندھا دھند مادیت کا جنو ن تھا جس نے بقول آئی ایچ قریشی ’’مادی ترقی کے جنون نے پاکستان کی اشرافیہ کو اس طرح اپنی گرفت میں لیا کہ آدھا ملک تو پہلے ہی ٹوٹ چکا ہے اور باقی ماندہ بھی انتشار کا شکار ہے‘‘(آئی ایچ قریشی، ایجوکیشن ان پاکستان)

دوسری طرف قدامت پسند ی والا وہ طبقہ تھا جو مولانا مودودی صاحب کی طرح یہ سمجھتا تھا کہ ’’ایک صدی کے اندر چوتھائی دنیا مسلمان ہو گئی تو اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ اسلام کی تلوار نے ان پردوں کو چاک کردیا جو دلوں پرپڑے ہوئے تھے۔‘‘(الجہاد فی الاسلام صفحہ 137تا138)

اس گروہ کا خیال تھا کہ دلوں کا زنگ کوئی مزکی نہیں بلکہ صرف تلوار ہی اتار سکتی ہے۔پس ’’ہنوز خواب میں ہیںجو جاگے ہیں خواب میں‘‘ کہتے ہیں کہ 1857ء کے ہنگام میں علماء میں یہ بحث ہو رہی تھی کہ اس بے سروسامانی کے عالم میں ہمیں جنگ میں حصہ لینا چاہیے یا نہیں۔ سوال پوچھا گیا کہ کیا ہم اتنے ہی بے سروسامان ہیں جتنے کہ مسلمان غزوہ بدر میں تھے جواب آیا نہیں۔ چنانچہ سب جنگ میں کود پڑےاور پکڑے گئے تو بقول مولانا مفتی محمود ’’سب عدالت میں جھوٹ بول کر چلے آئے‘‘ (حسین احمد مدنی، نقش حیات؛ جلد دوم)انہوں نے نتیجہ اخذ کیا جھوٹ بولنا کوئی بری بات نہیں۔

’’جو باتیں پی گیا تھا میں

وہ باتیں کھا گئیں مجھے‘‘

حیرت ہے کہ یہ علماء اپنا موازنہ اصحاب بدرسے دنیاوی سروسامان کے حوالے سے کررہے تھے لیکن وہ یہ بات بھول گئے کہ اصحاب بدر کے پاس ایک ایسا وجود باجود تھا جس میں ایسا نور تھا جو کسی چیز ارضی و سماوی میں نہیں تھا جس کی تاثیرات قدسیہ سے اصحاب بدر آسمان روحانیت کے درخشاں ستارے بن گئے۔ان سے موازنہ تو درکنار اس زمانہ میں بھی جب ایمان ثریا پر پہنچ چکا تھا کوئی ان کی خاک پا کو بھی نہیں چھو سکتا تھا۔ لوگوں کو اس امر کا خیال تک نہیں تھا۔ کوئی تعلیم کے چکر میں تھا اور کوئی تلوار کے جنون میں مبتلا تھا۔لیکن ’’نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم‘‘یہ وہ تناظر تھا جب اسلام کی حرمت اور آنحضرتﷺ کی ناموس کی خاطر اللہ کی غیرت جوش میں آئی اور ملاء اعلیٰ میں ہل چل مچ گئی۔ ایک وجود عشق رسولﷺ میں اس طرح فنا ہوا کہ من تو شدم تو من شدی کی مثال بن کر صورت ماہتاب لب جُو آیا اور ہر طرف آنگنوںمیں اجالے بکھر گئے۔

اس مطہر ہستی نے نور الہام کی روشنی میں زمانہ کے تناظر کا ادراک کر لیا کہ اب تاریخ کا پہیہ کس سمت گھومے گا انہیں یقین کامل تھا کہ اسلام کی تاریخ کا احیا ہوگا لیکن یہ احیا جمالی رنگ میں دلائل و براہین کے ذریعے ہوگا نہ کہ توپ و تفنگ سے۔ کیونکہ اب کوئی اسلام کو تلوار سے نہیں روکے گا نہ روک سکے گا لہٰذا اب تلوار کی نہیں دلیل کی ضرورت ہے تاکہ دلوں میں یقین پیدا ہو جائے اور یقین کامل کے درجہ پر پہنچ جائے تو پھر زنجیریں کٹ جائیں۔

مہر و ماہ انجم کا محاسب ہے قلندر

ایام کا مرکب نہیں، راکب ہے قلندر

آپؑ نے تلوار سے دلوں کا زنگ اتارنے والوں کو انتباہ کردیا:

یہ حکم سن کر بھی جو لڑائی کو جائے گا

وہ کافروں سے سخت ہزیمت اُٹھائےگا

آپؑ نے فرمایا :’’ہمیشہ اسلام اپنی ذاتی خوبیوں کی وجہ سے دنیا میں پھیلا ہے۔پس جو لوگ مسلمان کہلاکر صرف یہی بات جانتے ہیں کہ اسلام کو تلوار سے پھیلانا چاہیے وہ اسلام کی ذاتی خوبیوں کے معترف نہیں ہیں اور ان کی کارروائی درندوں کی کارروائی سے مشابہ ہے۔‘‘(تریاق القلوب،روحانی خزائن جلد 15صفحہ 167،حاشیہ)

آپ کو حضرت مسیح موعودؑ کے الٰہی مشن کے قلمی جہاد کے معرکہ میں بدروحنین کی فتح کی داستان اور جھلکیاں نظر آئیں گی۔ قرآن پاک ابدی صداقت پر یقین پختہ ہوجانے کا کہ

وَاِنْ یُّقَاتِلُوْ کُمْ یُوَلُّوْا کُمُ الْاَدْبَارَ (آل عمران :112)

اللّٰہ اعلیٰ واجل

آپؑ ایک امتیازی شان سے قلمی جہاد میں شامل ہوئے۔ اس دَور میں آریہ سماج کی طرف سے اللہ تعالیٰ کی شان میں سخت گستاخیاں کی جارہی تھیں۔چنانچہ دیانند سرسوتی آریہ سماج کا لیڈر کہتا ہےکہ روحیں بےانت میں اس کثرت سے ہیں کہ خالق کو بھی کوئی خبر نہیں۔

آپؑ خالق کی یہ شرمناک توہین اور اہانت دیکھ کر برداشت نہ کر سکے اور آگے بڑھے اور ایک سلسلہ مضامین کا شروع کیا جو سفیر ہند 9؍فروری۔9؍مارچ 1878ء میں چھپا اور اس عقیدے کی دھجیاں بکھیر دیں اور ایک بار پھر نعرہ بلند ہوا:’’اللّٰہُ اعلیٰ واجل‘‘

دیانند سرسوتی نے چپ سادھ لی۔اسلامی فتوحات کا نقارہ اس زور سے بجا کہ خدا کی شان میں گستاخی کرنے والوں کے کیمپ میں سکوت مرگ طاری ہوگیا۔

غزوہ بدر کا نظارہ

آپؑ نے 1880ءمیں براہین احمدیہ لکھ کر تمام مذاہب کو چیلنج دیا کہ کوئی میرے دلائل کو توڑ توڑ کر دکھاوے جو میں نے اسلام اور آنحضرتﷺ کی حقانیت کے ثبوت میں دیے ہیں اور دس ہزار کا انعام حاصل کرے۔آپؑ نے دنیا کو چیلنج دیا کوئی ایک صداقت قرآن کے مقابل نکال کر دکھادو جو قرآن کے مقابلہ میں زیادہ فصاحت و بلاغت سے کہیں لکھی ہو۔آپ نے قرآن پاک کے بے نظیر ہونے کی حجت تمام کردی دنیا نے ایک مرتبہ پھر هُوَ الَّذِيْ أَرْسَلَ رَسُوْلَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ کا نظارہ دیکھا۔

یہ دلائل کے رنگ میں غزوہ بدر کی فتح کا نظارہ تھا لیکن یہ ساری برکتیں آپ کو آنحضرتﷺ کی پیروی سے ملی تھیں۔ کُلُّ بَرَکَۃٍ مِّنْ مُحَمَّدٍ صَلَی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ فَتَبَارَکَ مَنْ عَلَّمَ وَ تَعَلَّمَ۔

دورآزمائش

لیکن بعض اوقات آزمائش کے دَور بھی آئے جیسا کہ پہلے دَور میں آئے ۔لیکن آپؑ نے صبر و استقلال کا ایسا نمونہ دکھایا جو کہ متبعین کے لیے مشعل راہ اور ازدیاد ایمان کا موجب بن گیا۔ آپؑ نے 1886ء میں ایک موعود بیٹے کی پیش گوئی کی۔1887ء کو بشیر احمد پیدا ہوئے، نومبر 1888ء میں فوت ہوگئے۔ مخالفین نے بہت شور مچایا استہزا کیا لیکن آپؑ کے پائے استقامت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ آپؑ نے حقانی تقریر میں فرمایا:’’اگر یہ ابتلاء درمیان میں نہ ہوتا تو انبیاء اور اولیاء ان مدارج عالیہ کو ہرگز نہ پا سکتےکہ جو ابتلاء کی برکت سے انہوں نے پائے۔…اُن پر آندھیاں چلیں اور سخت سخت تاریکیاں آئیں اور بڑے بڑے زلزلے اُن پر وارد ہوئے اور وہ ذلیل کئے گئے اور جھوٹوں اور مکاروں اور بے عزتوں میں شمار کئے گئے اور اکیلے اور تنہا چھوڑے گئے یہاں تک کہ ربانی مددوں نے جن کا ان کو بڑا بھروسہ تھا کچھ مدت تک منہ چھپا لیا۔ اور خدا تعالیٰ نے اپنی مربیانہ عادت کو یکبارگی کچھ ایسا بدل دیا کہ جیسے کوئی سخت ناراض ہوتا ہے اور تنگی و تکلیف میں چھوڑا گیا گویا جیسے کوئی سخت ناراض ہے اور ایسا انہیں تنگی و تکلیف میں چھوڑدیا گویا کہ وہ سخت مورد غضب ہیں اور اپنے تئیں ایسا خشک سا دکھلایا کہ گویا کہ وہ ان پر ذرا مہربان نہیں بلکہ ان کے دشمنوں پر مہربان ہے۔ اوران کے ابتلاؤں کا سلسلہ بہت طول کھنچ گیا …پر وہ اپنے پکے اور مضبوط ارادے سے باز نہ آئے ۔ سست اور دل شکستہ نہ ہوئے۔ بلکہ جتنا مصائب و شدائد کا بار ان پر پڑتا گیا اتنا ہی انہوں نے قدم آگے بڑھایا…بالآخر وہ ان تمام امتحانات سے اول درجہ کے پاس یافتہ ہوکر نکلےاور اپنے کامل صدق کی برکت سے پورے طور پر کامیاب ہوگئے۔ عزت اور حرمت کا تاج ان کے سر پر رکھا گیا۔‘‘

حقانی تقریر

عوام الناس کو یہ معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ جل شانہ جس پودے کو اپنے ہاتھ سے لگاتا ہے اس کی شاخ تراشی اس غرض سے نہیں کرتا کہ اس کو نابود کردے بلکہ اس غرض سے کرتا ہے تا وہ پودہ پھول اور پھل زیادہ لاوے۔اس کے برگ و بار میں برکت ہو۔پس خلاصہ کلام یہ کہ انبیاء اور اولیاء کی تربیت باطنی اور تکمیل روحانی ابتلاکا ان پر وارد ہونا ضروریات سے ہے۔(سبز اشتہار، روحانی خزائن جلد2صفحہ458-460)

چنانچہ جب یہ پیش گوئی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی صورت پوری ہوئی اور اس شان سے پوری ہوئی کہ ایک غیر از جماعت دیوبندی عالم مولانا سمیع اللہ فاروقی اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’اس پیش گوئی کو پڑھو اوربار بار پڑھو اورپھر ایمان سے کہو کہ کیا یہ پیش گوئی پوری نہیںہوئی؟‘‘(تاریخ احمدیت جلد1صفحہ287)

حضرت مسیح موعود ؑکو اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت پر اتنا بھروسہ تھا کہ کیسے بھی حالات ہوں آپ کے پائے ثبات میں کبھی لغزش نہیں آئی۔ 1891ءمیں حضور علیہ السلام دہلی تشریف لےجاتے ہیں اور مولوی نذیر حسین کو مباحثے اور مباہلے کا چیلنج دیتے ہیں اور اعلان فرماتے ہیں کہ 20؍ اکتوبر 1891ء کو جامع مسجد میں مقابلہ کے لیے حاضر نہ ہوا اُس پر خدا کی لعنت ہو ولعنتہ اللّٰہ علیٰ من تخلف۔(تاریخ احمدیت جلد 1 صفحہ 424)

مخالفین نے اس مباحثہ اور مباہلہ سے بچنے کے لیے اشتعال پھیلا دیا اس پر حضور علیہ السلام کو قتل کی دھمکیاں ملنے لگیں۔ چنانچہ حافظ محمد اکبر صاحب جو کہ خیر خواہ تھے وہ آئےاور حضورؑ کو بتایا:’’حضرت آپ جانے کو جائیں مگر میں سچ کہتا ہوں کہ دہلی کے لوگ آپ کے قتل کے درپے ہیں ۔کسی کےہاتھ میں چھریاں چاقو اور کسی کے ہاتھ اوردامن اور جیب میں نوکدار پتھر ہیں۔ پتھر ایکدم برسیں گے اور پھر چھریاں چلیں گی‘‘مگر حضرت اقدس ؑبار بار فرماتے تھے کہ ’’کوئی پروا نہیں اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔ اللہ نے فرمایا ہے واللّٰہ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ ‘‘۔…حضرت اقدس نہایت اطمینان سے آنکھیں جھکائے ہوئے بھیڑ کے درمیان سے گزر گئے اور سیدھے جامع مسجد کی بیچ کی محراب میں جا بیٹھے۔ …لوگوں کا جوش سے یہ حال تھا کہ آنکھوں سے خون برس رہا تھا …اس حالت کو دیکھ کر مولوی عبدالکریم صاحب کی زبان سے نکلا کہ حضرت! اشتعال تو بہت بڑھا ہوا ہے۔ حضرت صاحب نے مولوی عبدالکریم صاحب کی طرف دیکھا اور نہایت اطمینان کے لہجہ میں فرمایا کہ ’’…مردے زندہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے‘‘(مجدد اعظم جلد1صفحہ 309تا310)گویا لَاتَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَاکا نظارہ تھا۔

21؍دسمبر 1896ءجلسہ مذاہب عالم منعقد ہوتا ہے جس میں تمام مذاہب کے سرکردہ لیڈروں کو شمولیت کی دعوت دی جاتی ہے آپؑ نے ناسازی طبع کے باوجود مضمون لکھنا شروع کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خوشخبری دی ’’مضمون بالا رہا‘‘۔حضورؑ نے اشتہار کے ذریعہ اس خوشخبری کے بارے میں اعلان فرما دیا ۔ جلسہ منعقد ہوا حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے مضمون پڑھا۔ مضمون جو غیبی طاقت سے لکھا گیا تھا۔نوائے سروش کی طرح دل کے تاروں کو چھیڑ گیا۔ حاضرین پر وجد طاری ہوگیا اہل اسلام کے چہروں پر خوشی و مسرت کی لہریں دوڑ گئیں۔ قرآن پاک کی بصیرت افروز اور فکر انگیز تفسیر سے حاضرین کو وہ چشم بصیرت عطا ہوئی کہ اسی دنیا میں اگلا جہاں نظر آنے لگا۔ آپ نے مضمون میں اعلان فرمایا :’’آج دنیا میں کوئی زندہ مذہب اسلام کا مقابلہ نہیں کرسکتا‘‘ ایک مرتبہ پھر اسلام کی فتح کا نقارہ بلند ہوا۔ ملکی اور غیر ملکی اخباروں میں اس کی گونج سنائی جانے لگی، یہاں تک کہ پیسہ اخبار کا ایڈیٹر محبوب عالم جو حضرت مسیح موعودؑ کا سخت مخالف تھا اس مضمون سے اس قدر متاثر ہوا کہ اسلام کی فتح پر اچھل اچھل پڑتا تھا۔ پیش گوئی کے عین مطابق مضمون بالا رہا اور قرآن کی پیشگوئی اس دور میںایک نئی شان کے ساتھ پوری ہوئی۔ وَلَنْ یَّجْعَلَ اللّٰہُ لِلْکٰفِرِیْنَ عَلَی المُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلاً۔

غزوہ احزاب کا نظارہ

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسلام کے وہ پہلوان تھے جن کے ہاتھوں مخالفین اسلام کو شکستوں پر شکستیں ہوئیں۔ جنگ مقدس میں عیسائیوں کو شکست فاش ہوئی۔ آتھم اپنے انجام کو پہنچ گیا، لیکھرام حضورؑ کی پیش گوئی کے مطابق قتل ہوچکا تھا۔ مولویوں کا جھوٹ ظاہر ہو چکا تھا۔چنانچہ جوعیسائی ڈاکٹر مارٹن کلارک نے اپنی شکست اور رسوائی کا انتقام لینے کے لیے آپؑ کے خلاف اقدام قتل کا جھوٹا مقدمہ درج کروادیا۔ یہ مقدمہ 17؍ اگست 1897ء کو گورداسپور میں منتقل ہوگیا۔ انگریزی حکام ڈاکٹر مارٹن کلارک کی بہت عزت کرتے تھے۔ اس کا بہت اثر و رسوخ تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ جماعت احمدیہ کے تمام مخالفین بھی اس کے ساتھ مل گئے۔ گویا غزوہ احزاب جیسا نظارہ تھا، آپؑ کو خبر دی گئی ’’ عیسائیوں کےساتھ آریہ مل گئے ہیں اور مولوی محمد حسین بھی ان کے ساتھ ہے۔‘‘آپؑ نے فرمایا: ’’ہمارے ساتھ خدا ہے جو ان کے ساتھ نہیں۔‘‘

چنانچہ حضور علیہ السلام کو الہام ہوا :اذا اردنا شیئا ان تقول لہ کن فیکون۔سب سے پہلے تو کن فیکون کا نشا ن ظاہر ہوا کہ یہ مقدمہ پہلے ڈپٹی کمشنر امرتسر کی عدالت میں دائر تھا اور اس نے حضور علیہ السلام کی گرفتاری کے لیے وارنٹ جاری کر دیے۔ لیکن اس وارنٹ کا سراغ نہ مل سکا وہ کہیں ایسا گم ہوا۔ بعد میں ڈپٹی کمشنر امرتسر کو خیال آیا کہ وہ اس کا مجاز نہیں تھا۔چنانچہ اس نے ڈپٹی کمشنر گورداسپور کو لکھا کہ اس کا اجرا روک دیا جائے لیکن اللہ تعالیٰ کی خاص قدرت نے آپؑ کو گرفتاری سے بچا لیا یوں آپ کو اللہ تعالیٰ نے دشمنوں کی تضحیک کانشانہ بننے سے بچا لیا۔ جیسا حضور ؑقبل از وقت فرما چکے تھے کہ عنقریب ایسا مقدمہ دائر ہوگا مگر خدا تعالیٰ کا فضل ہوگا۔ اور کوئی ذلت پیش نہیں آئے گی۔

اس کے ساتھ ساتھ حضور ؑکو یہ الہام بھی ہوا کہ ’’مخالفوں میں پھوٹ اور ایک شخص متنافس کی ذلت‘‘۔چنانچہ جب مقدمہ کی کارروائی شروع ہوئی۔ 10؍اگست کو مولوی محمد حسین بٹالوی یہ تماشا دیکھنے آیا تھا کہ وہ حضورؑ کو ہتھکڑیوں میں دیکھیں گے لیکن حضورؑ کو عدالت میں کرسی پیش کی گئی۔اور مجسٹریٹ اعزاز کے ساتھ پیش آیاجب مولوی محمد حسین صاحب نے کرسی پر اصرار کیا تو کپتان ڈگلس نے تین مرتبہ جھڑکیاں دیں۔جب عدالت سے باہر آکر برآمدہ میں بچھی کرسی پر بیٹھا تو کانسٹیبل نے جھڑکی کے ساتھ اُٹھا دیا پھر وہ باہر آکر میاں محمد بخش جو اس کا عقیدت مند تھا اس کی چادر پر بیٹھ گیا تو انہوں نے یہ کہہ کر اپنی چادر کھینچ لی ’’پادریوں کی مدد کر کے میری چادر پلید نہ کرو‘‘ یوں متناقس شخص کی ذلت ظاہر ہوئی ۔(تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحہ 574تا575)

مخالفوں میں پھوٹ اس طرح پڑی کہ عبدالحمید اپنے جھوٹے اور سازشی بیان سے خود ہی منحرف ہوگیا۔ پھر حضورؑ کو الہام ہوا ’’لوائے فتح یعنی فتح کا جھنڈا‘‘۔چنانچہ23؍اگست 1893ءکو ڈپٹی کمشنر کپتان ڈگلس نے حضور علیہ السلام کو بری قرار دیا۔پھر عین کچہری میں انہوں نے ہنستے ہوئے حضور علیہ السلام کو مبارک باد پیش کی اور کہا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ ڈاکٹر کلارک پر مقدمہ چلائیں؟ حضور ؑنے فرمایا:’’مَیں کسی پر مقدمہ کرنا نہیں چاہتا۔ میرامقدمہ آسمان پر دائر ہے۔‘‘

یوم الاثنین و فتح الحنین

ایک اور فتح جسے حضرت مسیح موعودؑ کے الہام میں حنین کی فتح قرار دیا گیا یعنی الہام ہوا ’’یوم الاثنین و فتح الحنین‘‘ یعنی اس مقدمہ میں حنین کی فتح کی مانند ہوگا جس طرح جنگ حنین میں آنحضرتﷺ اور آپؐ کے صحابہ کو پہلے بظاہر شکست ہوئی اور پھر وہ سنبھلے اور دشمن کو پامال کیا۔ یہ کرم دین والا مقدمہ تھا۔ آپؑ کو الہام ہوا کہ ’’تیری توہین کے بعد تیرا اکرام کروںگا‘‘دونوں الہامات سے معلوم ہوتا تھا کہ اس مقدمے میں آپؑ کے خلاف پہلے فیصلہ ہوگا لیکن بعد میں آپؑ کو فتح نصیب ہوگی۔اس مقدمے میں ہندو مجسٹریٹ چندولال اور آتما رام آپؑ سے پنڈت لیکھرام کے قتل کا انتقام لینا چاہتے تھے۔اس مقدمے میں بعض ایسے مراحل آئے جب آپؑ کے وکیل خواجہ کمال الدین صاحب حکام کی سازشوں اور لوگوں کی شرارتوں کی وجہ سے مایوس ہوگئے اور مایوسی کے عالم میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اس کا ذکر بھی کرتے کہ اس مقدمے میں بظاہر بچنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ حضرت صاحب ہنس کر فرماتے ’’خواجہ صاحب کوئی خانہ خدا کے لیے بھی چھوڑ دو۔ اگر سب اسباب ہمارے موافق ہوں تو لوگ کہہ سکتے ہیں کہ اسباب ہمارے موافق تھے اور ان کے مرید بڑے قانون دان تھے اس لیے مقدمہ فتح ہوگیا۔ لطف تو جب ہی ہے کہ اسباب سب خلاف ہوں اور خدا اپنی جناب سے فضل کرے تو امر ازدیادایمان کا باعث ہوگا‘‘

غرض خواجہ صاحب روتے ہوئے آتے اور ہنستے ہوئے جاتے۔(مجدد اعظم جلد دوم صفحہ960)

ماتحت عدالتوں کے مجسٹریٹوں لالہ چندولال اور آتما رام نے اپنی طرف سے کوئی کثر نہیں چھوڑی لیکن وہ خدا کے شیر پر ہاتھ نہ ڈال سکے ایک کی تنزلی ہوئی اور آتما رام کو اولاد کے ماتم میں مبتلا ہونا پڑا۔ مولوی کرم دین جس نے اپنے آپ کو کذاب اور لئیم قرار دینے پر مقدمہ کیا ہوا تھا عدالت عالیہ نے فیصلہ میں قرار دیا کہ وہ اس سے بھی زیادہ کا مستحق ہے۔

نصرت بالرّعب

اسلام کی تائید و نصرت میں ایک اور واقعہ جس میں نصرت بالرّعب کی جھلک نظر آتی ہے وہ بشپ الفریڈ کا فرار ہے۔ لیفرائے لارڈ کرزن کا چہیتا تھا عبرانی، فارسی، اور اردو پہ اسے عبور حاصل تھا جس نے لاہور میں آکر لیکچروں کا ایک سلسلہ شروع کردیا۔ اس نے مسلمانوں کو زندہ رسول کے موضوع پر مقابلہ کا چیلنج دیا، مسلمان مولوی ثناءاللہ امرتسری کے پاس گئے لیکن وہ کیا مقابلہ کرتے وہ تو خود حیات عیسیٰ کے قائل تھے۔ چنانچہ دردمند مسلمانوں نے فیصلہ کیا کہ لیفرائے کے چیلنج کا جواب صرف جماعت احمدیہ دے سکتی ہے۔چنانچہ 24؍مئی کو حضرت مفتی محمدصادق صاحبؓ حضور علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔جلسے میں 24گھنٹے باقی تھے۔آپؑ بیماری سے نڈھال تھے لیکن آنحضرت ﷺ کی ناموس اور جلال کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے صرف دو گھنٹے میں خدا کی تائید و نصرت سے ایسا مضمون راتوں رات چھاپ دیا گیا۔ مفتی صاحبؓ اس مضمون کو لےکر جلسے میں پہنچے۔بشپ کی تقریر کے بعد جب مضمون سنایا تو لاہور کی فضائیں اسلام کی فتح کے نعروں سے گونج اُٹھیں۔بشپ لیفرائے کو ایسی شکست ہوئی کہ چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگیں پھر بشپ کو حضرت صاحبؑ سے مقابلہ کی جرأت نہ ہوئی باوجود اس کے ملکی اور غیر ملکی اخبارات اسے توجہ دلاتے رہتے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آنحضرت ﷺکے بروز کامل ہونے کی حیثیت سے اس دَور میں تاریخ اسلام کا احیا کر کے امت مسلمہ کا سب سے بڑا مسئلہ حل کردیا۔ آپؑ کے توسط سے دراصل آنحضرتﷺ کی تاثیرات قدسیہ کا فیض ہم تک پہنچا۔یہی وجہ ہے کہ جماعت احمدیہ کا ہر شہیداپنے لہو سے اسلام کی سربلندی کے لیے چراغ روشن کرتا جا رہا ہے۔ آنحضرتﷺ کی پیش گوئی کے مطابق آپ کی نگاہ ناز سے اس دَور میں ایک مرتبہ پھر عقل اور عشق دونوں مراد پاگئےاور زندہ خدا پر یقین کامل ہوگیا۔ چنانچہ جماعت کی فتح و کامرانی کی تاریخ دیکھتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیش گوئی پر بھی کامل یقین ہے کہ’’ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسیٰ کا انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہوکر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑ دیں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا۔ میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں …اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے‘‘

(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 67)

انشاءاللہ یہ پیش گوئی بھی اسی شان سے پوری ہوگی جس طرح پہلی پیش گوئیاں پوری ہوئیں۔

اس وقت ایک طرف عالم اسلام ہے جسے مولویوں نے اسلام کو غلط تعبیریں کرکے تلوار کے جنون میں مبتلا کردیا ہے افلاس کے مارے عوام کا لانعام جو سوچ سمجھ بھی نہیں سکتے ان انتہا پسند علماء کے ہاتھوں کٹھ پتلیوں کی طرح ناچ رہے ہیں۔ مغرب نے اپنی اندرونی جنگ میں جو سرمایہ داری نظام اور سوشلزم کے درمیان لڑی گئی ان استحصال کے مارے مسلمانوں کو ایندھن کی طرح استعمال کیا۔ معصوم بچوں سمیت لاکھوں لوگ مارے گئے۔اور ابھی تک یہ خطرہ ٹلا نہیں اور اب یہ لڑائی امت مسلمہ کے اندر منتقل ہوچکی ہے۔

دوسری طرف مغرب ہے جس کو مادی طاقت کےغرور نے ایک فریب میں مبتلا کردیا ہے۔چنانچہ ایک مرتبہ برطانوی وزیر اعظم نے کہا اگر آسمان بھی گرا تو اپنی سنگینوں کی نوک پر تھام لیں گے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان پرغرور لیڈروں کو انتباہ کیا :’’اے یورپ تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں۔ اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا۔ میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں۔‘‘(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد22صفحہ269)

اس کے سات سال بعد دنیا جنگ عظیم کی لپیٹ میں آگئی جس نے دنیا کی تاریخ بدل کر رکھ دی جس میں چالیس ملین لوگ مارے گئے۔ 1924ءمیں دنیا کے بڑے بڑے لیڈر لندن میں لیگ آف نیشنز کے قیام پر غور کر رہے تھے تا کہ مستقبل میں اس قسم کی ہولناک جنگ کا خطرہ ٹالا جا سکے۔ حضرت مصلح موعودؓ جو اس وقت لندن میں تشریف فرما تھے ان لیڈروں کو انتباہ کیا کہ اگر آپ اس تنظیم کو اسلام کے پانچ مبنی برانصاف اصولوں کی بنیاد پر قائم نہیں کرتے تو آپ مستقبل میں جنگ عظیم کے خطرہ کو ٹال نہیں سکتے۔ چنانچہ 1939ء میں دنیا ایک بار پھر جنگ عظیم کی لپیٹ میں آگئی جس میں 50 سے 56ملین لوگ مارے گئے۔

دراصل قوموں کے اندر نا انصافی کا اصول سائنسی نظریات سوشل ڈارون ازم کی وجہ سے در آیا جن کے مطابق جس طرح بعض Species بعض دوسری Species سے بہتر ہوتی ہیں لہٰذا بعض قومیں بھی بعض قوموں سے بہتر ہوتی ہیں اور اس لیے ان کے حقوق زیادہ ہیں۔یہ خیال جو کہ مغرب کی قوموں کے اندر زہر کی طرح سرایت کر گیا ہے۔ چنانچہ روس اور یوکرین جنگ کے تناظر میں پوٹن کے حوالے سے Jonathan Freedhn اپنے کالم میں لکھتے ہیں:

’’He said that big states can gobble up smaller ones, turning their people into vassals. In that move he has taken an exe to the way our world is ordered and the only way it can function.‘‘(Guardian 11 March 2022)

یہی وہ احساس برتری کا تصور ہے جو بار بار عالمی امن کو برباد کردیتا ہے اور دنیا کو ایٹمی جنگ کے خطرہ سے دوچار کر دیتا ہے۔اس کا علاج سوائے مولائے ختم الرسل احمد مجتبیٰ ﷺ کے حیات آفریں پیغام کےسوا کہیں نہیںکہ تمام لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیدا ہوئے تھے اللہ کے نزدیک تم سب میں بڑا شریف وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے کسی کالے کو گورے پر اور کسی گورے کو کالے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ اسی پیغام کی تبلیغ و ترویج کے لیے جماعت احمدیہ کھڑی ہوئی ہے۔

’’نوع انسان کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن۔اور تمام آدم زادوں کیلئے اب کوئی رسول اورشفیع نہیں مگر محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ و جلال کے نبی کے ساتھ رکھو‘‘(کشتی نورح، روحانی خزائن جلد19صفحہ13)

2012ء میں ہمارے پیارے امام حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے عالمی لیڈروں کو خطوط لکھ کر خطرہ سے آگاہ کیا۔

3؍جنوری 2020ء میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا :’’حالات کافی خراب ہیں اور دنیا کی عمومی حالت بھی ایسی لگتی ہے کہ لگتا ہے یہ سب اپنی تباہی کو آواز دے رہے ہیں…پس دنیا کے تباہی سے بچنے اور خدا کی طرف آنے کے لیے ہمیں بہت دعا کرنی چاہیے۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل 24؍جنوری 2020ءصفحہ10)

فروری 2022ء میں رو س نے یوکرین پر حملہ کردیا ہے اور دنیا ایٹمی جنگ کے خطرہ کے قریب پہنچ چکی ہے ایک مرتبہ مؤرخ ٹائن بی نے کہا تھا کہ تہذیب کی کشتی تاریخ کے سمندرمیں پانچ چھ ہزار سال کا فاصلہ طے کر آئی ہے اب چٹانوں کی طرف بڑھ رہی ہے جس سے چکر کھا کر نکل آنا کشتی چلانے والے کے بس میں نہیں۔

اس وقت ہر احمدی کا فرض ہے کہ اپنے پیارے امام کی اقتدا میں اسلام کی عدل و احسان اور ایتاء ذالقربیٰ کی تعلیمات کو دنیا کے سامنے پیش کرے جو کہ تریاق کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اللہ کرے دنیا میں جلد اسلام کا نور پھیل جائے اور دنیا امن و امان کا گہوارہ بن جائے ۔ اللہ کرے کہ وہ وقت جلد آئے کہ

’’حاکم تمام دنیا پہ میرا مصطفیٰ ہو‘‘

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button